جمعہ، 16 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (4)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (4)مسجدِ نبوی میں عاشقانِ مصطفےٰ ﷺ کا ایک سیلِ رواں تھا ۔ جو آہستہ آہستہ روضہ رسول ﷺ کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ فضاؤں میں پھیلی درود و سلام کی مشکبو گونج کیف و سرور کی لذتیں بکھر رہی تھیں ۔محبتوں اور عقیدتوں سے مالا مال عاشقانِ رسول ﷺ مسجدِ نبوی میں چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے ۔ شہنشاہِ دوعالم ﷺ کے پروانوں کے چہرے عشقِ رسول ﷺ کی آنچ سے گلنار ہو رہے تھے ۔ عاشقانِ مصطفٰے ﷺ کے پروانوں کے یہ نوری ریلے صدیوں سے اِسی طرح رواں دواں ہیں سب کی گردنیں عقیدت و احترام سے جھکی ہوئی تھیں کیونکہ وہ شہنشاہ ِ دو عالم ﷺ کے حضور اِس کائنات کی سب سے بڑی کچہری میں حاضر ہونے جا رہے تھے ۔ دنیا بھر سے پروانے جب اِس جزیرہ عافیت میں آتے ہیں تو فکر ایک فرحت بخش آسودگی اور روح ایک خاص سرشاری اور طمانیت بھری بالیدگی محسوس کرتی ہے ۔مسجدِ نبوی کے اندر قدم رکھتے ہی ہر انسان اپنے اند ر ایک جہان ِ نو کروٹیں لیتا محسوس کرتا ہے دل و دماغ میں ایک زلزلہ سا بپا ہو جاتا ہے جس سے سالوں کا زنگ لمحوں میں اُتر جاتا ہے ۔آنے والوں کے ہر مسام میں ساقی کوثر کے عشق کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے ۔ روضہ رسول ﷺ پر حاضری کی آرزو ہر مسلمان کے دل میں روشن چراغ کی طرح ٹمٹاتی رہتی ہے وہ مدینہ پاک کی گلیوں کی خاک کو آسمان کی رفعتوں سے بھی ارفع سمجھتے ہیں ۔مسجد نبوی میں دور دور تک عاشقان ِ رسول ﷺ پھیلے ہوئے تھے پاکستانیوں کی تعداد کم لگ رہی تھی ۔ لیکن دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کی تعداد موجود تھی کیونکہ میری ساری عمر پاکستان میں ہی گزری ہے یہاں پر آکر جب ترکی ، انڈونیشیا ، ایران ، ملائیشیا ، افریقہ اور یورپ سے آئے ہوئے مختلف خدوخال کے مسلمانوں کو دیکھا تو بہت اچھا لگا۔اِن لوگوں میں عورتیں بچے بڑے اور بوڑھے سب لوگ شامل تھے ۔اکثریت تو روضہ رسول ﷺ کی طرف بڑھ رہے تھے کچھ نوافل ادا کر رہے تھے، کچھ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے کچھ گردوپیش سے بے نیاز روضہ روسول ﷺاور سبز گنبد کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھے تھے ۔ کچھ تسبیح پر اور ادووظائف پڑھ رہے تھے ۔اِن سب کے دل عبودیت اور عشقِ رسول کے ساتھ ساتھ بندگی کے احساس سے لبالب بھرے ہوئے تھے اِن کے چہروں پر عقیدت و احترام کے ہزاروں سورج روشن تھے سب اپنی خطاؤں پر نادم تھے ۔دونوں جہانوں کے سب سے بڑے مسیحا کے در پر آکر خدائے رحیم وکریم سے عفو و درگزر کے خواستگار تھے ۔الائشوں ، دکھوں ، ظلم سے بھری دنیا سے کٹ کر لوگ ایک ایسے جزیرہ عافیت رنگ و نور کی بستی میں آبیٹھے تھے جہاں چاروں طرف رنگ و نور اور آسودگی کے فوارے پھوٹ رہے تھے ۔یہاں انسانوں کی کثافتیں لطافتوں میں ڈھل رہی تھیں یہاں منافقتوں ، آلودگیوں سے پاک مخلوق منزہ مخلوق کے سانچے میں ڈھل رہی تھی۔یہاں پر گناہوں سے تائب شرمسار ، نادم اور مستقبل کے لیے نیکو کاری کا عہد کرنے والی مخلوق تیار ہو رہی تھی یہ عظیم کام چودہ صدیوں سے دن رات یہاں ہو رہا ہے کروڑوں پتھر دل گناہ گار ظالم و جابر اِس درِ اقدس پر آئے اور گناہ برائی ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر عبادت گزار اور انسانوں سے پیار اور خدمت خلق کا جذبہ لے کر گئے اور مرتے دم تک اِس عہد اور نیکی پر قائم بھی رہے ۔میں چاروں طرف خوشگوار حیرت سے ساقی کوثر کے پروانوں کو دیکھ رہا تھا ۔ کچھ لوگ مرمریں ستونوں سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے یہاں پر گزرتے لمحے کو enjoyکر رہے تھے کچھ کسی گوشے میں گہری نیند سو رہے تھے میں کئی با رکوشش کر چکا تھا کہ اٹھ کر اُس قافلہ ِ شوق میں شامل ہو جاؤں جو روضہ رسول ﷺ کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن ایک انجانا خوف مجھے روک لیتا میرے دل و دماغ میں ایک ہلچل سی مچ جاتی کہ پتہ نہیں شہنشاہِ دو عالم ﷺ کے حضور سلام کا طریقہ کیا ہے کس طرح جانا ہے کیا پڑھنا ہے کیسے کھڑے ہونا ہے کیسے بولنا ہے کس طرح نظر اُٹھانی ہے مجھ گناہ گار سیاہ کار سے کوئی گستاخی نہ ہو جائے میری کسی حماقت یا بے ادبی سے شہنشاہ ِ دو جہاں ناراض نہ ہو جائیں ۔پھر مجھے حضر ت جابر ؓ سے روایت کردہ حدیث پاک یاد آئی ۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا میرا حال اور میری امت کا حال اس شخص کی مِثل ہے جس نے آگ روشن کی پس ٹڈیاں اور پروانے اُس میں گرنے لگے اور وہ اُن کو آگ سے ہٹاتا تھا سو میں کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانے والا ہو ں اور تم آگ میں گرنا چاہتے ہو میرے ہاتھ سے چھوٹتے ہو ۔قیامت کے دن جب سورج سوا نیزے پر ہو گا ماں بچوں کو نہ پہچانے گی کوئی کسی کا مددگار اور والی نہ ہو گا ۔خدائے بزرگ و برتر کی ذات پوارے جلال میں ہوگی کسی کو جرات نہ ہوگی کہ خالق ِ ارض و سما کے سامنے لب کشائی کر سکیں ۔
لوگ شفاعت کے لیے یکے بعد دیگرے انبیائے کرام علیہم السلام کے پاس جائیں گے مگر سب انکار کریں گے کسی میں جرات نہ ہوگی کسی کی سفارش کر سکیں ۔پھر ایک طرف سے شہنشاہِ مدینہ ﷺ آتے نظر آئیں گے تو سب لوگ آپ کی خدمت اقد س میں حاضر ہونگے ۔آپؐ ﷺ خدائے بزرگ و برتر کی حمد و چناء کے بعد سجدے میں گِر پڑیں گے تو ربِ ذولجلال کی طرف ارشاد ہو گا کہ اے میرے محبوب سجدے سے سر اٹھا ئیے جو مانگئے دیا جائے گا شفاعت کیجیئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اس وقت آپ یوں عرض کریں گے ۔ یا رب امتی امتی اے میرے پروردگار میری اُمت ، خالقِ ارض و سما شافع محشر کی شفاعت قبول فرما ئیں گے ۔ پہلے نبیوں کی امتوں میں صرف گناہ یا برائی ہوتی تھی تو جبار قہار کا عذاب ان نا فرمان قوموں پر آجاتا اور وہ قومیں ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں آج پرانی اُمتوں کی تمام برائیاں ہم میں موجود ہیں لیکن ہمارے نبی کریم ﷺ کی دعا کہ اے میرے رب میری قوم پر عذاب نہ لانا ہم پیارے آقا ﷺ کی دعا کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔ایک دفعہ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ آپ مشرکین پر بد دعا کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا میں تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (3)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (3)میں مسجد نبوی میں اپنی پہلی نماز فجر پڑھ چکاسرور مستی اور سرشاری سے سرشار میں مسجد نبوی کی خوبصورتی اور روشنیوں میں گم ہو چکا تھا کبھی مسجد نبوی کے سنگ مرمر کے بنے ہوئے خوبصورت ستونوں کو دیکھ رہا تھا جن کے انگ انگ سے نور کے فوارے پھوٹ رہے تھے زائرین کا ایک ہجوم تھا زیادہ تعداد مقامی لگ رہی تھی جن کی قسمت پر مجھے رشک آرہا تھا کہ اِن کی قسمت میں مدینہ لکھ دیا گیا تھا مسجد کی لا محدود وسعتیں اور رنگ و نور کا سمندر میری آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا اور میں کسی حیرت زدہ بچے کی طرح خوشگوار حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔ آج مسجدِ نبوی کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ مسجد کے اندر اِس کی چھتوں پر اور صحنوں میں تقریباً آٹھ لاکھ نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے تھے لیکن چودہ صدیاں پہلے والی ابتدائی مسجد نبوی کی حدود اور وسعت کیا تھی ۔میں چشمِ تصور سے دیکھ رہا تھا کہ شہنشاہِ مدینہ ﷺ کو مدینہ تشریف لائے ہوئے چودہ دن ہو چکے تھے اِن چودہ دنوں میں جہاں نماز کا وقت آتا وہیں نماز پڑھ لیتے ۔پھر مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا۔ہماری ماں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سرورِ کونینﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر نکلے اونٹنی مسجد والی جگہ پر بیٹھ گئی تو پیارے آقاﷺ نے فرمایا یہ جگہ ہماری مسجد کے لیے ہو گی پتہ چلا کہ یہ جگہ دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت ہے جو اسعد بن زرارہ کے ہا ں پرورش پا رہے تھے پھر اِن دونوں یتیم بچوں کا بلایا گیا ۔اِن دونوں کا قیامت تک دائمی شہرت اور اعلی مقام ملنے والا تھا ایسا مقام کہ بادشاہ وقت بھی اُن کی قسمت پر رشک کرتے رہیں گے ۔
نبی کریم ﷺنے بچوں کو قیمت دینی چاہی لیکن سعادت مند بچوں نے کہا حضور ﷺ یہ جگہ آپﷺ کوبطور عطیہ دیتے ہیں ۔فخر کائنات ﷺنے صحابہ ؓ کے ساتھ مل کر مسجد کی تعمیر شروع کی شہنشاہ ِ دو عالم ﷺ خود اپنے ہاتھوں سے پتھر اور گارا اٹھاتے اور ساتھ ساتھ یہ شعر پڑھتے جاتے ’ ’یہ بوجھ خیبر کی کھجوروں کا بوجھ نہیں اے ہمارے رب یہ تو انتہائی پاکیزہ اور نیک کام ہے ۔‘‘ کچی مٹی اور اینٹوں سے بنی یہ چھوٹی سی مسجد جِس کی چھت کھجور کی شاخوں پر مشتمل تھی پہلی اسلامی ریاست کا دارلخلافہ ، پارلیمنٹ ہاؤس ، سر چشمہ رشد و ہدایت ، عدل و انصاف کا مرکز اور اسلامی علوم کی پہلی درس گا ہ تھی۔ مسجد نبوی کی توسیع اور تعمیرِ نو کا کام مختلف ادوار میں جاری رہا ۔ہر مسلمان حکمران اپنے لیے سعادت ِ عظیم سمجھتے ہوئے مسجدِ نبوی کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے کی کوشش میں لگا رہا ۔ لیکن آلِ سعود کے دور میں خصوصاً شاہ فیصل شہید اور شاہ فہد بن عبدالعزیز کے ادوار میں ہونے والا کام سب سے بڑھ کر ہے ۔آج جو مسجد نبوی ہمیں نظر آتی ہے یہ حُسن ، خوبصورتی کا شاہکار ہے آج مسجد میں سینکڑوں چاند اور ستارے جگمگاتے برقی قمقموں کی صورت میں رنگ و نور کا سیلاب لا ئے ہوئے تھے نرم اور گذار قالین اور ائر کنڈیشنڈ مسجد میں بیٹھا۔ صدیوں پرانی مسجد کو تلاش کر رہا تھا جو کچی اینٹوں ، کھجور کی شاخوں اور تنوں پر مشتمل تھی جس کی اینٹوں ، گارے ، کھجورکی شاخوں اور تنوں میں پیارے آقا ﷺ کے پسینے کی خوشبو رچی بسی تھی ۔میں اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ مسجد کَس جگہ پر ہوگی ۔ پیارے آقا ﷺکے دنیا سے جانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کا دور میرے تصورمیں گھوم رہا تھا کہ مسجد کے کس حصے یا جگہ پر پیارے آقاﷺ کے یہ عظیم ساتھی آتے جاتے ہونگے ۔پھر اچانک مجھے امام مالک ؒیادآئے جو ساری عمر عشقِ رسولﷺ میں مدینہ سے باہر نہ جاتے اگر کبھی گئے تو فوری واپس آجاتے پھر اُن کا درس ِ حدیث امام مالک ؓ درس دیتے اور امام شافعی ؒ جیسا جلیل القدر شاگرد اپنی علمی پیاس بجھاتا اور جب امام مالک ؒ روضہ رسولﷺ کی طرف اشارہ کرتے اور فرماتے پیارے آقاﷺ نے یہ فرمایا ۔امام مالک زیادہ تر ننگے پاؤں پھرتے کبھی کسی سورری پر اِس لیے سواری نہ کی کہ میں اُس زمین پر سواری پر بیٹھوں جہاں شہنشاہِ مدینہ ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔پھر امام اعظم ابو حنیفہ ؓ کا یہاں آنا اور امام احمد بن جنبلؒ کا عقیدت بھرا انداز کون بھول سکتا ہے پھر میں کھجور کے اُس تنے والی جگہ کو ڈھونڈنے لگا ۔ جو مسجد کی چھت کا ستون بھی تھا ۔ پیارے آقا ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے اکثر اِس کھجور کے تنے کا سہارا لیتے اور اِس کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ۔پھر عشقِ نبی ﷺ سے معمور ایک انصاری خاتون نے سوچا کہ آپ ﷺ کو کھڑے ہونے سے تھکاوٹ ہو جاتی ہے ۔اِس لیے کیوں نا آپ ﷺ کے لیے منبر بنا دیا جائے ۔ حضورﷺ کو درخواست کی گئی تو شہنشاہِ عالم نے قبول فرمائی تو درخت کی لکڑی اور شاخوں سے بنا تین سیڑھیوں والا منبر تیار کر لیا گیا اورمسجد میں رکھ دیا گیا۔جمعتہ المبارک کے دن سرورِ دو جہاں ﷺ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھجور کے تنے کے پاس سے گزر کر نئے منبر پر جلوہ افروز ہوئے ۔ابھی خطبے کاآغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ مسجد میں سسکیوں اور چیخوں کی آوازیں آنے لگیں کہ جیسے کوئی جدائی میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا ہے ۔صحابہ کرام ؓ حیران تھے کہ یہ کون رو رہا ہے تو پتہ چلا کہ حضور پاک ﷺ کی جدائی میں کھجور کا خشک تنا رو رہا تھا ۔ حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ فرماتے ہیں کہ وہ بچے کی طرح چیخ چیخ کر رو رہا تھا حضرت انس ؓ فرماتے ہیں وہ ایک مصیبت زدہ شخص کی طرح دہائی دے رہا تھا ۔محسنِ انسانیت ﷺ منبر سے تشریف لا کر اُس تنے پر دستِ اقدس رکھتے ہیں گلے لگاتے ہیں حوصلہ دیتے ہیں گفتگو کرتے ہیں اُسے اختیا ر دیتے ہیں کہ اگر تو چاہے تو تجھے جنتی درخت بنا دیا جائے یا تجھے دنیا کا پھل دار درخت بنا دیا جائے ۔ لیکن آپ ﷺ کی جدائی میں رونے والے تنے نے جنتی ہونا پسند فرمایا ۔عشقِ رسول ﷺ کی کیا بات ہے ایک دن حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ ایک مقام پر اونٹنی پر سوار دائر ہ بنا رہے تھے (گول چکر لگا رہے تھے) ان سے پوچھا گیا اِس طرح گول چکر لگانے کی کیا حکمت ہے تو انہوں نے کہا مجھے کچھ نہیں پتا میں نے اِس مقام پر رسول اﷲ ﷺ کو چکر لگاتے دیکھا تھا سو میں بھی اُسی طرح چکر لگا رہا ہوں ۔ ایک دن حضرت عمر ؓ نے حجرِ اسود کو مخاطب ہو کر کہا خدا کی قسم مجھے یقینا علم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اﷲ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا ۔

loading...