جمعہ، 16 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر(6)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر(6)مسیحائے اعظم نبی کریم ﷺ کی بیماری کو آٹھ دن سے زیادہ ہو چکے تھے ۔ مرض کی شدت اور حرارت میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا ۔ مرض اورحرارت کی شدت سے آپ ﷺپر غشی طاری ہو گئی تو آپ ﷺ نے فرما یا مختلف کنوؤں کے سات مشکیزے لا کر مجھ پر بہاؤ ۔ آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ ﷺ لگن میں بٹھا دیا گیا پھر آپ ﷺ کے جسم مبارک پر اتنا پانی ڈالا گیا کہ آپ ﷺ بس بس کہنے لگے ۔ جب آپ ﷺ کو کچھ آرام محسوس ہوا تو آپ ﷺ مسجد نبوی میں جا کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا یہود و نصاری پر اﷲ کی لعنت کہ اُنہوں نے انبیا کی قبروں کو مسجد بنا لیا تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اُس کی پوجا کی جائے ۔ پھر آپ ﷺ نے خود کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے وہ بدلہ لے لے اور اگر کسی کی بے آبروئی کی ہو تو یہ میری آبرو حاضر ہے وہ بدلہ لے لے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے مزید فرمایا ایک بندے کو اﷲ نے اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی چمک دمک میں سے جو کچھ اﷲ اُسے دے دے یا جو کچھ اﷲ کے پاس ہے اُسے اختیار کر لے تو اس بندے نے اﷲ کے پاس والی چیز کو اختیار کر لیا ۔ ابو سعید خدریؒ فرماتے ہیں کہ یہ بات سن کر حضرت ابو بکر ؓ بہت روئے اِ س پر ہمیں بہت تعجب ہوا حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ ﷺ پر قربان ۔ لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ بذاتِ خود شہنشاہِ دو عالم ﷺ تھے اور ابو بکر ؓ ہم میں سب سے زیادہ صاحبِ علم تھے ۔پھر سرور ِ کونین نے فرمایا مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحبِ احسان ابو بکر ؓ ہیں اور اگر میں اپنے خدا کے علاوہ اپنے خدا کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابو بکر ﷺ کو خلیل بناتا دن بدن مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔ لیکن بیماری کی شدت کے باوجود وفات سے چار دن پہلے جمعرات تک تما م نمازیں آپ ﷺ خود ہی پڑھاتے رہے ۔ لیکن عشاء کے وقت مرض کی شدت اِتنی بڑھ گئی کہ مسجد جانے کی طاقت نہ رہی ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ بار بار پوچھ رہے تھے کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے کہا نہیں یا رسول اﷲ ﷺ تو آپ ﷺ نے غسل فرمایا اور اٹھنا چاہا تو آپ ﷺ پر غشی طاری ہوگئی ۔ اِس کے بعد دوبارہ اور سہ بارہ بھی کوشش کی لیکن غشی طاری ہو گئی ۔ تو آپ ﷺ حضرت ابو بکر ؓ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگو ں کو نماز پڑھا ئیں چنانچہ ان ایام میں حضرت ابو بکر ؓ نے نماز پڑھائی آپ ﷺ کی زندگی مبارک میں ان کی پڑھائی جانے والی نمازوں کی تعداد ستر ہ ہے ۔ دو دن پہلے ہفتہ یا اتوار کو سرور دو عالم کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی تو دو آدمیوں کے ساتھ چل کر مسجد آئے اس وقت حضرت ابو بکر ؓ نماز پڑھا رہے تھے آپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے تو آپ ﷺ نے اشارے سے فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں ۔ نبی کریم ﷺ بائیں طرف بیٹھ گئے ۔ اب حضرت ابو بکر ؓ نبی کریم ﷺ کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابو بکر ؓ کی اقتدا کر رہے تھے اور صحابہ کو تکبیر سنا رہے تھے اتوار کے دن نبی کریم ﷺ نے اپنے غلام آزاد کر دئیے آپ ﷺ کے پاس 7 دینار تھے وہ صدقہ کر دئیے ہتھیار مسلمانوں کو ہبہ کر دئیے ۔ رات کو حضرت عائشہ ؓ نے اپنا چراغ ایک عورت کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ اپنی کپی سے ہمارے چراغ میں گھی ٹپکا دو ۔ شہنشاہ دو عالم ﷺ کے گھر کا یہ عالم تھا کہ جو کچھ صدقہ کر دیا ۔ آپ ﷺ کی ذرہ مبارک ایک یہودی کے پاس تیس صاع (تقریباً 66کلو) جو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی یہ تاجدارِ کائنات ﷺ کے گھر اور مالی حالت کا حال تھا پھر عاشقان ِ رسول ﷺ کے لیے غم ناک ترین صبح طلوع ہوئی ۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ سوموار کی صبح نبی کریم ﷺ کے پروانے نمازِ فجر میں مصروف تھے اور حضرت ابو بکر ؓ امامت فرما رہے تھے کہ اچانک شہنشاہِ دوعالم ﷺ نے حضر ت عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور اپنے پروانوں صحابہ کرام ؓ پر نظر ڈالی اور مسکرائے حضرت ابو بکر ؓ یہ سمجھے کہ آپ ﷺ نما ز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں لہذا وہ ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹے ۔ عاشقانِ رسول ﷺ سرور کونین ﷺ کے اِس خوشگوار اچانک ظہور سے بہت خوش ہوئے اور یہ چاہا کہ آقائے دو جہاں کی بیمار پُرسی کے لیے نماز توڑ دیں لیکن نبی کریم ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو پھر حجرے کے اند رتشریف لے گئے اور پردہ گرالیا ۔شافع ِ محشر پر اِس کے بعد کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا ۔ اِس کے بعد جب دن چڑھ گیا تو چاشت کے وقت آپ ﷺ نے جگر گوشہ رسول ﷺ اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کو بلایا اور اُن کے کان میں سر گوشی کی تو لاڈلی صاحبزادی رونے لگیں تو محسن ِ انسانیت ﷺ نے پھر آپ کو بلایا اور کان میں سرگوشی کی تو حضرت فاطمہ ؓ مسکرانے لگیں ۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بعد میں ہمارے دریافت کرنے پر جگر گوشہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ پہلی بار بابا جان ؐنے فرمایا کہ آپ ﷺ اِسی مرض سے وفات پا جا ئیں گے تو یہ سن کر میں روئی تو پھر آپ ﷺ نے سر گوشی کرتے ہوئے بتایا کہ اہل و عیال میں سب سے پہلے میں آپ ﷺ کے پیچھے جاؤں گی تو اِس بات پر میں ہنسی رسول اﷲ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کو یہ بشارت بھی دی کہ آپ ؓ جنت میں تمام خواتین کی سردار ہونگیں ۔ نبی کریم ﷺ اِس وقت شدید کرب سے دو چار تھے آپ ﷺ کی تکلیف بیٹی سے برداشت نہ ہوئی بے ساختہ پکار اُٹھیں ہائے ابا جان کی تکلیف تو شہنشاہِ دو جہاں ﷺ نے فرمایا تمھارے ابا پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں پھر آپ ﷺ نے نوجوانوں کے سردار حسن ؓاور حسین ؓ کو بلا کر چوما پیار کیا ازواج مطہرات کو بلایا اور اُنہیں وعظ و نصیحت کی ۔ مرض کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا ۔اور خیبر میں جو زہر آپ ﷺ کو کھلایا گیا تھا اُس کا اثر بھی شروع ہو گیا تھا پھر آپ ﷺ نے وصیت کی نماز اور لونڈی غلاموں کا خیال با ر بار یہ الفاظ دہرائے ۔ درد کی شدت بڑی اور پھر نزع کی حالت شروع ہو گئی ۔حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ کو اپنے اوپر ٹیک لگوا دی اِسی دوران عبدالرحمٰن بن ابو بکر ؓ آپ ﷺ کے پاس آئے اُن کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی نبی کریم ﷺ نے مسواک کی طرف دیکھا آپ ﷺ نے خواہش کا اظہار کیا تو حضرت عائشہ ؓ مسواک نرم کرکے دی ۔ آپ ﷺ نے مسواک کی سامنے کٹورے میں پانی تھا اُس سے چہرہ مبارک پونچھتے جاتے اور فرماتے اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں موت کے لیے سختیاں ہیں ۔پھر انگلی اٹھائی چھت کی طرف نگاہ کی اور ہونٹوں پر حرکت ہوئی ۔ہماری ماں عائشہ ؓ نے کان لگایا تو آپ ﷺ فرمارہے تھے ۔ان انبیاء صدیقین شہدا اور صالحین کے ساتھ جنہیں تو نے انعام سے نوازا یا اﷲ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچا دے اے اﷲ رفیق اعلیٰ ۔ آخری فقرہ شہنشاہ ِ دو جہاں ﷺ نے تین بار دہرایا اور روح پرواز کر گئی ہاتھ مبارک جھک گیا اور شہنشاہِ دو عالم ﷺ ساقی کوثر ، شافع محشر نبیوں کے سردار ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کے بابا جان رفیق اعلیٰ سے جا ملے ۔
اِنَّا لِلّٰہ ِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رٰاجِعونَ ۔

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر(5)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر(5)مسجدِ نبوی ﷺ کی فضاؤں میں پھیلی درود و سلام کی مشکبو گونج کیف ُ سرور کی لذتیں بکھیر رہی تھیں ۔عاشقان ِ رسول ﷺ کے چہروں پر عقیدت و احترام کے سینکڑوں چاند روشن تھے ۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے پروانوں کی درود و سلام کی صداؤں سے مسجد نبوی ﷺ کا کونہ کونہ گونج رہا تھا ۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے یہ عاشقان ِ رسول پیغمبر اسلام ﷺ کے جانثار تھے مگر کچھ لوگ جانثاروں کی صف میں بہت نمایاں ہوتے ہیں یہ لوگ شہنشاہِ مدینہ ﷺ کی ہر سنت کو زندہ کرنے کے لیے اپنے نفس کے ساتھ ساتھ شاہان ِ وقت سے بھی جنگ کرتے ہیں۔سرورِ دوعالم سے محبت کا یہ عالم کہ اپنی ایک ایک سانس کو مزاج ِ نبوت کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے ہی عاشقانِ رسول ﷺ اولیا اﷲ کے نام قیامت تک امر ہو جاتے ہیں کہاں گئے وہ ظالم حکمران آج زیرِ زمین حشرات الارض اُن کی ہڈیوں میں سوراخ کر چکے ہونگے ۔کیڑے مکوڑے اُن کی ہڈیوں کو بھی کھا چکے ہونگے ۔اُن کے مقبرے آج ابابیلوں کے مسکن ہیں ۔کوئی فاتحہ خواں نہیں کوئی چراغ روشن نہیں آج اُن ظالموں پر کیا عالم تنہائی اور بے بسی ہے ۔روز و شب کے ہنگامے اِسی طرح جاری رہیں گے زمین اِسی طرح اپنے محور پر گھومتی رہے گی ۔ لیکن قیامت تک روزانہ اِسی طرح ہجوم ِ عاشقان کی کثیر تعداد روضہ رسول ﷺ پر عقیدت کے پھول نچاور کرتی رہے گی ہر نئے دن کے ساتھ ہی اِس کی تعداد اور عشق و احترام میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔ چودہ صدیوں سے عاشقان ِ رسول ﷺ کا یہ قافلہ عقیدت و احترام اور درود و سلام کی صداؤں کے ساتھ رواں دواں ہے اور قیامت تک جاری و ساری رہے گا ۔ چودہ صدیوں کے تصور کے ساتھ ہی ایک خیال برقی رو کی طرح آیا اور میرے دل و دماغ کو ہلا کر چلا گیا ۔سرورِ کونین ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری دن ۔ جب دعوت و تبلیغ کا کام پورا ہو گیا جب ایک نئے اسلامی معاشرے کی تعمیر و تشکیل عمل میں آگئی اب گویا غیبی ہاتف آپ ﷺ کے دل و دماغ کو یہ احساس دلا رہا تھا کہ دنیا میں آپ ﷺ کے قیام کا زمانہ اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے ۱۰ ؁ھ میں جب آپ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر روانہ کیا تو رخصت کے وقت آپ ﷺنے فرمایا اے معاذ غالباً تُم مجھ سے میرے اِس سال کے بعد نہ مل سکو بلکہ غالباً میری اِس مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے تو حضرت معاذؓ یہ سن کر شافع ِ محشر کی جدائی کے غم میں رونے لگے پھر حجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے سامنے آپ ﷺ نے تاریخی جامع خطبہ ارشاد فرمایا ۔
اے لوگوں میری بات سنو کیونکہ میں نہیں جانتا شاید اِس سال کے بعد اِس مقام پر تم سے کبھی نہ مل سکوں گا ۔ اور میں تم میں اِیسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اُسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اِس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اﷲ کی کتاب لوگوں یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمھارے بعد کوئی امت نہیں لہذا اپنے رب کی عبادت کرنا پانچ وقت کی نماز پڑھنا رمضان کے روزے رکھنا ۔ خوشی سے اپنے مال کی زکوۃ دینا۔ اپنے اﷲ کے گھر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا ایسا کروگے تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوگے (ابنِ ماجہ) اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے صحابہ ؓ نے کہا ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تبلیغ کر دی پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا کر دیا یہ سن کر آپ ﷺ نے انگشت ِ شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا اے اﷲ گواہ رہنا۔جب آپﷺ خطبہ فرما چکے تو پروردگار نے یہ آیت نازل فر مائی
ترجمہ : آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کوبحثیت دین پسند فرمایا جب یہ آیت مبارکہ حضرت عمر فاروق ؓ نے سنی تو بہت روئے پوچھنے پر کہ آپ ؓ کیوں رو رہے ہیں تو فرمایا اِس لیے کہ کما ل کے بعد زوال ہے تمام مناسک ِ حج سے فارغ ہو کر آپ ﷺ مدینہ منورہ کی طرف لوٹ گئے ۔ اب دعوتِ دین مکمل ہوگئی تھی اب سرورِ کائنات ﷺ کے احوال و گفتار سے ایسی علامات نمودار ہونا شروع ہو گیئں تھیں کہ اب آپ ﷺ اِس حیات مستعمار اور اِس جہان ِ فانی کے باشندگان اور اپنے پروانوں کو الوداع کہنے والے ہیں ۔ ۱۰ ؁ھ رمضان المبارک میں آپ ﷺ نے بیس 20دن کا اعتکاف فرمایا جبکہ آپﷺہمیشہ دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اِس سال حضرت جبرائیل ؑ نے آپ ﷺ کو دو مرتبہ قرآن کا دورہ کرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دور کرایا کرتے تھے اور حج کے موقع پر آپﷺ نے فرمایا مجھ سے حج کے اعمال سیکھ لو کیونکہ شاید اِس کے بعد میں حج نہ کر سکوں پھر ایام تشریق کے وسط میں سورۃ نصر نازل ہوئی اِس کے بعد آپ ﷺ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے جانے کا وقت آن پہنچا ہے صفر ۱۱ ؁ھ میں آپ احد میں شہدا کی قبروں پر تشریف لے گئے اور اِس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں پھر واپس آکر منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا میں تمھارا امیرِ کاروان ہوں اور تم پر گواہ ہوں بخدا میں اِس وقت اپنا حوض ِ کوثر دیکھ رہا ہوں مجھے زمین اورزمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اور بخدا مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ اندیشہ اِس کا ہے کہ دنیا طلبی میں باہم مقابلہ کرو گے (متفق علیہ) ۔ ایک رات رسول کریم ﷺ بقیع تشریف لے گئے اور جا کر اہل بقیع کے لیے دعا ئے مغفرت کی فرمایا اے قبر والوں تم پر سلا م ہو فتنے سیاہ رات کے ٹکڑے کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں اور بعد والا پہلے والے سے زیادہ بُرا ہے اور یہ کہہ کر اہل قبور کو بشارت دہ کہ جلد ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔
29صفر ۱۱ ؁ ھ روز دو شنبہ کو سرور ِ دو عالم ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے جنازے سے فراغت کے بعد واپسی پر آپ ﷺ کو دردِ سر شروع ہو گیا ۔ دردِ سر کی شدت سے تیز حرارت ہو گئی کہ سر مبارک پر بندھی پٹی کے اوپر سے حرارت محسوس ہونے لگی ۔ یہ آپﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا ۔ فخرِ دوعلم ﷺ اِس مرض میں تقریباً 13یا 14دن تک مبتلا رہے ۔ شہنشاہ ِ دو عالم ﷺ نے اِسی بیماری کے عالم میں گیارہ دن تک نماز پڑھائی ۔ شافع محشر ﷺ کی بیماری بڑھتی گئی ۔ آپ ﷺ کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جا رہی تھی ۔ آپ ﷺ ازواج مطہرات ؓسے پوچھتے کہ کل میں کہاں رہوں گا ۔ ازواج ِ مطہرات ؓ آپ ﷺ کے سوال کو سمجھ گئیں ۔ اِس لیے ا نہوں نے آپ ﷺ کو اجازت دے دی کہ آپ ﷺ جہاں چاہیں رہیں ۔ اب آپ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ مبارک یعنی مکان میں داخل ہوگئے ۔ حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں آپ ﷺ کو فضل بن عباس ؓ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ سہارا دے کر لے گئے ۔ شہنشاہِ دو عالم ﷺ کے پروانے صحابہ کرام ؓ بہت زیادہ دکھی اور مضطراب تھے ۔ آپ ﷺ کی بیماری کی وجہ سے عاشقانِ رسول ﷺ بے چین ، بے قرار اور بہت زیادہ غمگین تھے بار بار آپ ﷺ کی صحت یابی کی دعائیں کی جارہی تھیں ۔ جس دن رسول کریم ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں منتقل ہوئے آپ ﷺ کے سر مبارک پر پٹی بندھی ہوئی تھی ۔ آقائے دو جہاں ﷺ نے اپنی حیات ِ مبارکہ کا آخری ہفتہ حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں گذارا۔
دوران بیماری ہماری ماں حضرت عائشہ ؓ رسول کریم ﷺ سے حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ پڑھ کر آپﷺ پر دم کرتی رہتی تھیں ۔ لیکن آپ ﷺکی جسم کی حرارت اور بڑھتی جا رہی تھی ۔شفاء اور صحت یابی کی امید میں حضرت عائشہ ؓ آپ ﷺ کا ہاتھ مبارک آپ ﷺ کے جسم مبارک پر بار بار پھیرتی تھیں کہ دستِ اقدس کی برکت سے آپ ﷺ کی بیماری شفا میں تبدیل ہو جائے ۔

loading...