جمعہ، 16 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (10)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (10)خالقِ ارض و سما نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے مالا مال فرمایا ہے ‘ان نعمتوں میں عشق و محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو تمام نعمتوں پر بھاری ہے ۔روزِ اول سے لوگوں نے اِس عالم رنگ و بو میں ہزاروں بت تراش رکھے ہیں جن کے سامنے ان کی محبتوں کی دنیا شب و روز سرنگوں رہتی ہے‘ عشقِ مجازاور دنیاوی محبتوں کی منافقتوں ، جھوٹ ، دھوکا بازی ، فریب اور بے وفائی کے بعد اہلِ دنیا کو احساس ہوتا ہے ۔نگاہِ عشق و مستی میں محبوب حقیقی ہونے اور ہماری محبتوں اور عشق کے لائق ہستی خالق ارض و سما کے بعد ایک ہی ذات ہے جو فخرِ دو عالم نبی کریم ﷺ کی ہے ۔اﷲ تعالی اور رسول اﷲ ﷺکی ذات کے علاوہ تمام عشق اور محبتیں سراب و جھوٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔خالقِ کائنات نے سرکار دو عالم ﷺ کی محبت و عشق کو اپنی رضا و خشنودی کا سر چشمہ قرار دیا ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ چپہ چپہ اِس کی محبت میں گرفتار اور سر شار ہے سورج کے اندر جو تپش ہے وہ نبی کریم ﷺ کے عشق میں سوختہ ہے صبح طلوع ہونے کے وقت جو سرخی سورض کے چہرے پر ہوتی ہے وہ اُس شرمندگی کی آئینہ دار ہے جب محبوب خدا نے سورج سے کہا پلٹ کر آتو سورج نے ایک لمحے کی تاخیر کی اور خدا تعالی سے پوچھا ایک طرف تیری عبادت ہے اور دوسری طرف سرور دو عالم ﷺ کا فرمان ہے اب کیا کروں تو خالقِ کائنات نے فرمایا اے سورج میری اطاعت چھوڑ اور میرے حبیب ﷺ کی اطاعت کر تو سورج اﷲ تعالی کی عبادت چھوڑ کر ساقی کوثر کی اطاعت کے لیے دوڑ پڑا اور مغرب سے طلوع ہوا ۔نیلگوں آسمان کی بلندیوں پر روشن چاند کے چہرے سے آمنہ کے لال محبوب خد ا ﷺ کے ہجر کی اداسی و غم آشکار ہے کیونکہ فراق کا کرب بہت شدید ہوتا ہے چاند کی روشنی اور کرنوں میں آسودگی اور ٹھنڈک صرف اِس لیے ہے کہ سرور ِ دو عالم ﷺ کی انگشت ِ مبارک کے اشارے پر فوری دو لخت ہو گیا ۔کرہ ارض کا وہ ٹکڑا جہاں پر محبوب خدا ﷺاپنے حجرہ انور میں سبز گنبد تلے جلوہ افروز ہیں اُس روضہ رسول ﷺ پر لاکھوں کروڑوں جنتیں قربان کی جا سکتی ہیں اگر زمین کے اُس حصے کو خدا زبان عطا کر ے اور پوچھے کہ تم عرش معلی کا حصہ بننا چاہتے ہو یا موجود جگہ ہی خوش ہو تو یقینا یہی عرض کرے گا مجھے عرشِ معلی کا حصہ بننے کی حاجت نہیں کیونکہ جہاں محبوب ہوتا ہے وہیں مُحب بھی ہوتا ہے عشقِ رسول ﷺ وہ چنگاری ہے جب شعلہ بنتی ہے تو پھر اِ س کی پرواز عرشِ معلی سے بھی آگے پرواز کرتی ہے ۔ عشق کانور مردہ دلوں کو زندہ کرتاہے۔ جس دل میں نبی کریم ﷺ کی محبت و عشق نہیں ہے وہ مردہ اور بنجر و ویران زمین کی مانند ہے جس میں خار اور ببول اُگتے ہیں۔عشق کا اظہار اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ خالقِ کائنات نے نبی کریم ﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء ورسل دنیا میں بھیجے اِ ن کا درجہ جُز یا جذ و اعظم تھا لیکن جب اپنے محبوب نبی کریم ﷺ کوبھیجا تو کُل کی حیثیت اور اپنے محبوب کے بعد نبوت کا سلسلہ بھی بند کر دیا۔جومقامات اور مراتب تما م انبیاء و رسل کو دئیے گئے تھے ان تما م سے بہت زیادہ اپنے محبوب کو عطا فرمائے ان کی شریعتوں کو اپنے محبوب کی شریعت میں مدغم کردیا پھر اِس کو قیامت تک لاگو کر دیا ربِ کعبہ نے حضرت ابراھیم ؑ کو اپنا خلیل بنایا قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے سو رۃ النساء ترجمہ : اور اِس سے بہتر کس کا دین جس نے اپنا منہ اﷲ کے لیے جھکا دیا اور وہ نیکی والا ہے اور ابراھیم کے دین پر جو ہر باطل سے جدا تھا اور اﷲ نے ابراھیم کو اپنا گہرا دوست بنایا ۔خلیل سے مراد وہ حبیب اور مُحب جس کے دل میں صرف اور صرف محبوب کی محبت بس جائے اِس طرح کہ پھر کسی غیر کی محبت کی گنجائش نہ رہے ایسی محبت جو نفس میں رچ جائے ۔ یہ وہ خاص مقام تھا کو خالق ارض و سما نے حضرت ابراہیم ؑکو دیا اِسی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل اﷲ کہا جا تا ہے ۔لیکن جب مالک مائنات نے اپنے محبوب ﷺکو مقام عطا کیا وہ کسی اور کو نہیں یعنی نبی کریم ﷺ کا مقام اتنا زیادہ ہے کہ بقول سید محمود الوسی۔محبت کا جو مقام رب العالمین نے نبی کریم ﷺ کو عطا فرمایا وہ اتنا بلند ہے کہ حضرت خلیل ؑ کا طائر آرزو بھی وہاں پر نہیں مار سکتا کیونکہ اﷲ رب العزت نے رسول کریم ﷺ کو اپنا خلیل بھی بنایا اور اپنا حبیب بھی بنایا اور حبیب وہ ہوتا ہے جس کی رضا مُحب چاہتا ہے ۔
ایک بار حضرت موسٰی ؑ نے اﷲ تعالی کے حضور درخواست کی اے خدائے پاک میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تو مجھے زیادہ دوست رکھتا ہے یا محمد ﷺ کو ۔ تو رب ذوالجلال نے فرمایا ۔اے موسی ؑتو کلیم ہے اور محمد ﷺحبیب ہے اور میرے نزدیک کلیم سے زیادہ حبیب پیارا ہے ۔ روزِ محشر، حضرت نظام الدین اولیا ء ؒ فرماتے ہیں اﷲ تعالی وہی کریں گے جو اُس کے محبوب نبی کریم ﷺ فرمائیں گے کیونکہ ربِ ذولجلال نے نبی کریم ﷺ کو اپنا حبیب قرار دیا ہے اور محبت کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ مجازی عشق میں عاشق کو معشوق ہی ہر جگہ نظر آتا ہے ۔معشوق کے گلی کوچے شہر اور جہاں وہ رہتا ہے سب سے اچھا لگتاہے جہاں معشوق ہو وہ جگہ گلِ گلزار اور روشن نظر آتی ہے وہی جگہ دنیا کا بہترین کوچہ سمجھتا ہے ۔دنیاوی عاشق دنیا جہاں کو چھوڑ کر اُسی جگہ کا طواف کرتا ہے جہاں اُس کا معشوق ہوتا ہے ۔یہ حال عشقِ مجاز کا ہے لیکن جب عشقِ حقیقی کی بات اور ربِ کعبہ کا اپنے محبوب نبی کریم ﷺ سے عشق ہو تو دنیا جہاں سے اوپر کی بات ہے ۔ حقیقت میں نبی کریم ﷺ سے عشق خدائے پاک کے ساتھ ساتھ کائنات کا ذرہ ذرہ ہر شے جن و انس خدا کی تخلیق کردہ ہر چیز فخر ِ دو عالم کا عشق میں مبتلا ہے اپنے محبوب نبی کریم ﷺ کے بارے میں رب تعالی کا ارشاد ِ پاک ہے سورۃ الانبیا ترجمہ : اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لیے ۔یعنی رسولِ عربی ﷺ کو خدا تعالی نے تمام جہانوں اور عالموں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔
خالق ِ ارض و سما نے اپنے محبوب کو ایسے کمالات سے نوازا ہے جو کسی اور کو نہیں دیے رسول عربی ﷺ بلا شبہ بے مثال اور بے نظیر ہیں قرآن پاک میں جا بجا جگہوں پر اپنے محبوب ﷺکی شان اور کمالات کا جس طرح ذکر کیا ہے شانِ کریمی کی ادائے بندہ نوازی دیکھ کر زبان سے سبحان اﷲ سبحان اﷲ کی صدا بلند ہو تی ہے ۔ قرآن مجید میں مختلف جگہوں میں بہت پیار سے اپنے محبوب کو یاد کیا ہے ۔اے محبوب جو کتاب مجید حنیف شریعت بیضا خلق عظیک دلائل قاہرہ حج باہرہ آیات بینات اور معجزات ساطعات غرضیکہ جن ظاہری اور باطنی جسمانی اور روحانی نعمتوں سے مالا مال کر کے ہم نے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا ہے اِس کی غرض و غایت یہ ہے کہ آپ ﷺ سارے جہاں کے لیے سارے جہاں والوں کے لیے اپنوں اور بیگانوں کے لیے دوستوں اور دشمنوں کے لیے سراپا بن کر ظہور فرمائیں مفہوم سورۃ الانبیاء قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جس احترام اور محبت سے اﷲ تعالی نبی کریم ﷺ کا ذکر کرتے ہیں وہ کسی اور کے بارے میں نہیں کیا ۔بلا شبہ رسول ِ عربی فخرِ دو عالم ﷺ کو خالق ِ ارض و سما کے ساتھ ساتھ زمین و آسمان کی ہر شے عشق کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ کیونکہ خدا تعالی کی ہر تخلیق کے مادے کے اندر عشقِ نبی ﷺ رکھ دیا گیا ہے ۔

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر(9)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر(9)روزِ اول سے کائنات کا ذرہ ذرہ چپہ چپہ جاندار ۔ بے جان ، خالقِ ارض و سما کی ہر تخلیق عشقِ محمد ﷺ میں گرفتار ہے ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ خالقِ کائنات خود نبی کریم ﷺ کے عشق میں مبتلا ہیں ۔یہی بات ہمارے باپ حضرت آدم ؑ کو بھی بتا دی گئی ۔ ہمارے باپ حضرت آدم ؑ نے واضح طور پر اپنے بیٹے حضرت شیثؑ کو سمجھا دی کہ اگر تو اپنی زندگی آغاز سے انتہا تک کامیاب دیکھنا چاہتا ہے تو ذکرِ الہٰی کے ساتھ صلٰوۃ الرسول میں بھی مشغول رہنا کیونکہ یہ ایسی کلید ِاعظم ہے جس سے خالقِ کائنات کی رحمت کا دروازہ خود بخود کھل جا تا ہے ۔فرمانِ الہٰی ہے ۔ اے پیارے اگر میں تمھیں پیدا نہ کرتا تو سارے جہاں کو پیدا نہ کرتا ۔ یعنی اگر میرے اظہار ِ عشق کے رو برو تیری ذات مقدس نہ ہوتی تو میں اِس افلاک کو کبھی وجود نہ بخشتا ۔ اِس لیے نبی کریم ﷺ کو خدا تعالی نے انبیا ئے کرام ؑ سے اپنے محبوب ﷺ کو بر گزیدہ بنایا۔
رب ذولجلال نے جب تمام ارواح کو اکٹھا کیا تو اُن سب ارواح سے اپنی وحدانیت کا اقرار لیا پھر اُن سے مخاطب ہو کر فرمایا اگر تم میرے محبوب ﷺ کا زمانہ پاؤ تو دل و جان سے اُن کی مدد کر نا ان پر ایمان لانا ۔ خالقِ ارض و سما کے اِس حکم کو تمام انبیائے کرام ؑ نے سنا اور رب و ذلجلال کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا ۔ رب کعبہ رحمن، رحیم اور کریم ہیں اِس لیے اپنے بندوں کو شیطانی حربوں سے بچانے کے لیے ہر دور میں اپنے انبیاکرام ؑ کو مبعوث فرمایا جو گمراہ انسانوں کو غلط راستوں سے ہٹا کر صراطِ مستقیم کی طرف لاتے رہے ۔ یہ تمام انبیائے کرام ؑ انسانیت کو شیطانی حربوں سے بچانے کی کوششیں کرتے رہے اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو رب العزت کی طرف بھی لانے کی کوشش کرتے رہے ۔محبتِ الہٰی کا درس دینے کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی فرماتے رہے ۔اے لوگوں یہ کارخانہ عالم خدائے رحمن و رحیم نے صرف اپنے محبوب ﷺ کی خاطر قائم کیا ہے اگر تم اِن ﷺ کا زمانہ پاؤ تو اُن پر ایمان لانا اور یہ انبیائے کرام ؑ شب و روز خالقِ ارض و سما کی بارگاہ میں درخواست گذار رہتے تھے ۔ اے اﷲ تیرے محبوب ﷺ کی عظمت و تو قیر اور محبت ہماری روح میں رچی بسی ہے ہم سے نبوت لے لے اور ہمیں اپنے محبوب ﷺ کااُمتی بنا دے ۔
آج ہم مسلمان اتنی بڑی سعادت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ہم اُس رسول عربی ﷺ کے اُمتی ہیں جن کے اُمتی بننے کی دعائیں اﷲ کے انبیا ئے کرام ؑ کرتے رہتے ہیں ۔ رب کریم نے سورۃ الاعراف میں اپنے محبوب ﷺ کی عزت و توقیر کا مطالبہ فرمایا ہے ۔تو خود اﷲ تعالی کو اپنے محبوب ﷺ سے کتنی محبت ہو گی یہ لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے ۔ نبی کریم ﷺ بھی دیوانہ وا ر رب ذولجلال سے محبت فرماتے تھے اِسی لیے ساقی کوثر نے فرمایا اگر میں اﷲ کی ذات کے بعد کسی کو خلیل بناتا تو حضرت ابوبکر ؓ کو بناتا ۔ اﷲ تعالی کی محبت نبی کریم ﷺ سے اتنی زیادہ ہے کہ قرآن پاک میں فرماتے ہیں وہ اﷲ کو پیارے اور اﷲ اُن کو پیارے، رب ذولجلال نے یہ فرمایا کر اِس باہمی محبت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ پھر خالق ِ کائنات نے اِس لازوال محبت کو ارض و سما میں اور تمام عالموں میں پھیلا دیا ۔اب تمام جہانون اور عالموں کا ذرہ ذرہ اِس سے سر شار اور لبریز ہے ۔ نبی کریم ﷺ ساری حیاتِ مبارکہ میں اپنے رب اور رب العزت اپنے محبوب ﷺ کا ذکر بلند کرتے رہے ہیں ۔ یہی خاصائے محبت و عشق بھی ہے ۔ رب ِ کائنات نے پہلے بذات ِ خود اپنے محبوب ﷺ کا ذکر بلند فرمایا آپ ﷺ پر درود سلام بھیجا پھر فرشتوں کا حکم دیا پھر مومنین کو ایسا کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔ شہنشاہ دو عالم ﷺ نے پہلے خود اپنے رب پاک کا ذکر کیا پھر اپنے امتیوں کو یہی حکم دیا ۔ یہ وہ اصلی اور حقیقی سچائی ہے کہ جب بھی کوئی مومن نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجتا ہے تو قرب الہٰی اور عشقِ الہٰی کا مسافر اور بندہ بن جاتا ہے اور جو خدا تعالی کا ذکر کرتا ہے وہ شافع محشر ﷺ کا امتی بن جاتا ہے ۔اسی لیے تلاش حق کے تمام مسافر پہلے شہنشاہِ دو عالم کی غلامی اور عشق کی منزلیں طے کرتے ہیں جیسے جیسے عشقِ رسول ﷺ کا رنگ زیادہ چڑھتا ہے ویسے ویسے عاشقِ رسول ﷺ قربِ الہٰی کی منزلیں بھی سر کرتا چلا جا تا ہے ۔یعنی جتنی زیادہ اطاعت اور عشق ِ رسول ﷺ ہوتا جائے گا اتنا ہی سالک رب العزت کی بارگا ہ میں بلند مقامات پر فائز ہو تا جاتا ہے ۔کبھی بھی سالک عشقِ رسول ﷺ اور خدائے پاک کے عشق کے نور میں شب و روز گزارتا ہے اتنا ہی اُس کی کثافت لطافت میں ڈھلتی جاتی ہے ۔ مجازی عشق میں عاشق اپنے معشوق کی رضا کے لیے دن رات وہی حرکتیں کرتاہے جومحبوب کو پسند ہوں عاشق کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے محبوب کو کوئی تکلیف نہ پہنچے عاشق اپنے معشوق کے آرام کا خاص خیال رکھتا ہے اُس کی عزت اور خوشی کے لیے اپنی جان سے بھی کھیل جاتا ہے ۔ محترم قارئین یہ تو دنیا کے عاشقوں کا حال ہے اب تصور کریں جہاں ربِ کائنات خود محب ہو اور باعث ِ تخلیقِ کائنات اُس کا محبوب ﷺ ہو تو اُس کی شان عزت و احترام اور ادب اُس کی اطاعت و اتباع اور اُس پر ایمان کا حکم دیا اپنے محبوب ﷺ کی مدد اور احترام کے لیے عالم ارواح میں قیامت تک آنے والی ارواح سے وعدہ لیا ان ارواح میں تمام لوگ ، اولیا کرام ، انبیاء و مرسلین اغواث و اقطاب مجتہد ، مفسرین ، محدثین نسل انسانی کے بہترین دماغ اور باصلاحیت لوگوں سے عہد لیا اور خدا پاک خود گواہ بن گئے ۔
(سورہ آل عمران 81) ترجمہ اور یا دکرو جب اﷲ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمھارے پاس وہ رسول کہ تمھاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کہوں تم نے اقرار کیا اور اس پر بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیافرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہو جاؤ اور میں آپ تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔
انبیاء کرامؑ نے اِس حق کو خوب ادا کیا اپنی اپنی امتوں کو ہدایت کی کہ جب انہیں حضرت محمد ﷺ کی زیارت ہو ان پر ایمان لا نا اور ادب سے اُن کی اطاعت اور ادب کرنا ۔ انبیاء کرام ؑ کے اقرار کے بعد رب تعالی فرماتے ہیں شاہد رہو میں بھی شاہدین سے ہوں ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا ۔ اﷲ تعالی نے حضرت آدم اور اُن کے بعد جسے بھی نبوت عطا کی اُن سے محمد سید الانبیا ﷺ کی نسبت عہد لیا کہ اگر ان کی حیات میں سید عالم ﷺ مبعوث ہوں تو آپ ﷺ پر ایمان لائیں اور آپ ﷺ کی نصرت کریں ۔

loading...