جمعہ، 16 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (12)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (12)روزِ اول سے آج تک کروڑوں انسان اِس جہان ِ فانی میں آئے کھایا پیا افزائشِ نسل کا حصہ بنے اور پیوندِ خاک ہو گئے ۔اِن کروڑوں انسانوں میں زیادہ تر تو گمنامی کی زندگی گزار کر گئے جبکہ کچھ اور چند ایسے انسان بھی تھے کہ خالقِ ارض و سما نے اُن کو بادشاہت کا اختیار بھی دیا یہ وہ لوگ تھے کہ لاکھوں انسانوں کی زندگی موت کا فیصلہ اِن کے ہاتھ میں تھا جب یہ حرکت کرتے تو لاکھوں لوگ اِن کے ساتھ حرکت کرتے جب یہ ساکن ہو تے تو دنیا ساکن ہو جاتی ۔شب و روز گزرتے چلے گئے اور یہ بڑے لوگ بھی ماضی کا حصہ بنتے چلے گئے یہ سلاطین اور شہنشاہ جب زندہ تھے تو ہر زبان پر اِن کا چرچا اور حکمرانی تھی لیکن جب وقت نے کروٹ لی اور یہ پیوندِ خاک ہوئے تو کچھ ہی دنوں بعد اِن کی قبروں اور مزارات پر دھول اڑنے لگی اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ اِن کی قبروں اور مزارات کے نشان تک مٹ گئے ۔مسلمانوں کی تاریخ بھی ایسے ہی بادشاہوں کے ناموں سے بھری پڑی ہے جو دنیا دار تھے وہ کچھ عرصہ تو لوگوں کو یاد رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی ایسے حکمرانوں کے نام بھی آج اذھان سے محو ہو چکے ہیں ۔لیکن اِن حکمرانوں میں وہ بادشاہ جنہوں نے عشق ِ رسول ﷺ کی وادی میں قدم رکھا اپنی عقیدت و احترام کا اظہار کیا اور خود کو آقائے دو جہاں کا ادنی غلام سمجھا تو ایسے حکمرانوں کے نام آج تاریخ میں صرف اور صرف عشقِ رسول ﷺ کی وجہ سے زندہ ہیں ۔ایسے حکمرانوں کے شب و روز عشقِ رسول ﷺ ، سنتِ نبوی ﷺ ، عبادت ، ریاضت خشتِ الہٰی میں گزرے ایسے حکمرانوں کے نام تاریخ کے اوراق پر روشن ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں ۔
بت شکن سلطان محمود غزنوی جو بت شکنی کے حوالے سے قیامت تک تاریخ کے اوراق میں امر ہو گیا وہ بھی عشقِ رسول ﷺ کی دولت سے مالا مال تھا سلطان محمود کی اپنے غلام ایاز سے بھی محبت تاریخ کا حصہ ہے اُس غلام ایاز کا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد تھا جو بادشاہ کی خدمت کے لیے مامور تھا ایک روز سلطان محمود غزنوی طہارت خانے میں آیا اور آواز دی ایاز بیٹے سے کہو کہ وضو کے لیے پانی لے کر آئے ایاز شاہانہ مزاج سے خوب واقف تھا بادشاہ کی بات سن کر پریشان ہو گیا کہ شاید میرے بیٹے سے کوئی گستاخی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے بادشاہ سلامت ناراض اور ناخوش ہو گئے ہیں اِ س لیے روزانہ کی طرح آج بیٹے کا نام لے کر نہیں پکارا سلطان محمودوضو سے فارغ ہو کر جب باہر آیا تو اپنے عزیز غلام ایاز کو غم کے سمندر میں ڈوبا ہوا پایا کیونکہ ایا ز غم کا مجسمہ بن کر اداس غمگین کھڑا تھا ۔ بادشاہ ایاز کو غمزدہ دیکھ کر بولا آج تم دکھ اور غم کا مجسمہ بن کر کیوں کھڑے ہو، تو ایاز بولا عالم پناہ آج آپ نے غلام زادے کو نام لے کر نہیں بلایا اِس وجہ سے میں بہت پریشان ہوں کہ پتہ نہیں غلام زادے سے کیا غلطی یا نافرمانی ہو گئی جس کی وجہ سے عالی جاہ ناراض ہو گئے ہیں سلطان محمود سن کر مسکرایا اور کہا ۔ ایاز ایسی کوئی بات نہیں تم مطمئن رہو نہ تو صاحبزادے سے کوئی غلطی ہوئی ہے اور نہ ہی میں اُس سے ناراض ہوں ۔ لیکن ایاز کے چہرے پر ابھی تک سوالیہ اور غم کے تاثرات نمایاں تھے سلطان محمود مسکرایا اور کہا آج صاحبزادے کو نام لے کر نہ بلانے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے شرم آئی اور میں بے ادبی سمجھا کہ بے وضو میری زبان سے راحت انس و جان و رحمتِ دو جہاں ﷺ کا اسمِ گرامی ادا ہو۔ اِسی طرح سلطان ناصر الدین بھی عشقِ رسول ﷺ میں سر سے پاؤں تک ڈوبا ہوا تھا ۔ نبی کریم ﷺ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺکا نام بے حد ادب و احترام سے لیتا اُس کے ایک مصاحب کا نام محمد تھا ایک دن اُسے نام لے کر نہ پکارا بلکہ کہا تاج دین اِدھر آؤ اور یہ کام کرو ۔ کام کرنے کے بعد محمد اپنے گھر چلا گیا اور پھر تین دن تک بادشاہ کی خدمت میں نہ آیا تو سلطان نے کسی کو بھیج کر اُسے طلب کیا اور نہ آنے کی وجہ پوچھی تو مصاحب نے عرض کی عالی جاہ جب آپ نے مجھے خلافِ عادت تاج دین کہہ کر پکارا تو مجھے لگا میری کسی غلطی اور گستاخی کی وجہ سے آپ مجھ سے ناراض ہیں اِس شرمندگی اور غم میں تین دن میں گھر میں پڑا رہا تو سلطان ناصر دین شفقت آمیز لہجے میں بولے اے عزیز ایسی ناراضگی والی کوئی بات نہیں اُس وقت میں باوضو نہیں تھا اِس لیے بغیر وضو محمد نام لینا مجھے بے ادبی لگا اِس لیے تاج دین کہہ دیا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس کو جولازوال شہرت ملی اور قیامت تک امر ہو گیا اُس کی وجہ بھی عشقِ رسول ﷺ ہی تھا ۔ ایک دفعہ مدینہ منورہ کے حکام میں سے کسی نے ایک پنکھا بطور ہدیہ بھیجا جس کی ایک طرف لکھا تھا ۔ یہ آپ کے لیے ایسا خاص تحفہ ہے کہ آج سے پہلے ایسا نایاب تحفہ آپ کو نہ تو کسی نے بھیجا اور نہ ہی کسی نے آپ کے والد کو اور نہ ہی کسی بادشاہ کو بھیجا ہو گا ۔ یہ پڑھ کر سلطان صلاح الدین ایوبی کو بہت زیادہ غصہ آگیا ۔ بادشاہ کا غصہ دیکھ کر قاصد نے عاجزی سے عرض کی اے بادشاہ سلامت آپ غصہ فرمانے سے پہلے برائے مہربانی ایک بار دوسری طرف کو بھی پڑھ لیں اور غصہ نہ کریں ۔ لہذا سلطان صلاح الدین ایوبی نے پنکھے کو دوسری طرف الٹ کر پڑھا تو وہاں دو ایمان افروز شعر لکھے ہوئے تھے ۔ میں نخلستا ن مدینہ کا پنکھا ہوں اور نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کا ہمسایہ ہو ں کہ ساری مخلوق اِس کی زیارت کے لیے آتی ہے ۔میں نے اِسی قبر مبارک کے زیر سایہ پرورش پائی حتی کہ ا،سی برکت کی وجہ سے میں سلطان صلاح الدین کے لیے راحت پر مقرر ہوا۔ یہ پڑھنے کی دیر تھی کہ بے ساختہ سلطان بول اٹھا ۔ خدا کی قسم تو نے سچ کہا ۔عقیدت اور عشقِ رسول ﷺ سے سلطان کی خوشی کی انتہا نہ رہی ، کیونکہ یہ دنیا جہاں کے خزانوں اور نایاب تحفوں سے بڑھ کر ایسا خزانہ خاص تھا کہ اِس کے سامنے دنیا بھر کے ہیرے جواہرات اور سونے چاندی چاندی کے ڈھیر ہیچ تھے اور واقعی سلطان کو آج سے پہلے کسی نے ایسا نایاب اور مقدس تحفہ نہیں بھیجا تھا۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی کا سب سے بڑا اور مقدس تحفہ تھا ۔ سلطان عشقِ رسول ﷺاور ادب احترام میں پنکھے کو اپنی آنکھ پر رکھ لیا اور آنکھوں سے عقیدت و احترام سے خوشی کے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا۔

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (11)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (11)مسجدِ نبوی ﷺکے نرم گداز قالین پر بیٹھا مرمریں ستون سے ٹیک لگائے میں خو شگوار حیرت سے پوری دنیا سے آئے ہوئے عاشقانِ رسول ﷺ کو دیکھ رہا تھا ۔میرے رگ و پے میں نشے اور سرور کی لہریں دوڑ رہی تھیں یقینا میں اپنی زندگی کی بہترین گھڑیوں کوENJOYکر رہا تھا میں اِن لمحوں کو قطرہ قطرہ جنت کی شراب سمجھ کر پی رہا تھا۔ میں چشم تصور میں چودہ صدیاں پہلے والے مدینہ پاک کو ڈھونڈ رہا تھا ۔محسنِ انسانیت ﷺ اپنے پروانوں کے ہجوم میں جلوہ افروز ہیں کہ ایک معصوم اور پاگل سی لڑکی شہنشاہِ دو عالم ﷺ کے پاس آتی ہے یہ لڑکی مدینہ منورہ کی گلیوں میں پھرتی رہتی تھی اور خود سے باتیں کرتی رہتی اہل مدینہ کو پتہ تھا کہ یہ لڑکی پاگل ہے اِس لیے کوئی بھی اِس پر توجہ نہ دیتا ۔آج یہ لڑکی سرورِ کونین ﷺ کے پاس آگئی اور کہنے لگی یا رسول اﷲ ﷺ کیا آپ ﷺ میرا ایک کام کریں گے محسنِ انسانیت ﷺ نے فرمایا ہاں بتاؤ کیا کام ہے معصوم لڑکی بولی تو آپ ﷺ میرے ساتھ آئیے ۔رحمتِ دو جہاں ﷺ فرمانے لگے تم مجھے کہاں لے جانا چاہتی ہو تو لڑکی نے عرض کی اُس گلی تک آپ ﷺ میرے ساتھ چلیں میں پھر آپ ﷺ کو بتاؤ گی کہ مجھے آپ ﷺ سے کیا کام ہے رحمتِ دو عالم ﷺ نے فرمایا اچھا چلو میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں صحابہ ؓ یہ سارا منظر بہت حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ اِس پاگل لڑکی کے کہنے پر حضور ﷺ اُس کے ساتھ تشریف لے جا رہے ہیں ۔جبکہ اُس پاگل لڑکی کو خود بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا کر رہی ہے ۔ لیکن رحمتِ دو عالم ﷺ اس لڑکی کے ساتھ کے ساتھ تشریف لے گئے وہ لڑکی مدینہ کی گلیوں میں چلتی رہی اور آپ ﷺ سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی جارہی تھی ۔ نبی کریم ﷺ اُس لڑکی کے ساتھ اُس کے کہنے پر چلتے رہے ایک جگہ پر پہنچ کر وہ لڑکی رک گئی اوروہاں بیٹھ گئی اور حضور ﷺ سے کہنے لگی یا رسول اﷲ ﷺ آپ ﷺ بھی بیٹھ جایئے ۔ فخرِ دو عالم ﷺ اُس لڑکی کی دل جوئی کے لیے بیٹھ گئے ۔ لوگوں کو شدید حیرت ہو رہی تھی کہ حضور ﷺ ایک پاگل لڑکی پر اتنی توجہ دے رہے ہیں جبکہ صحابہ ؓ جانتے تھے کہ رسول اﷲ ﷺ پوری امت اور جہانوں کے والی ہیں سب کے ہمدرد اور غم گسار ایک معمولی پاگل سی لڑکی کے لیے رحمت دو جہاں ﷺ صحابہ ؓ کو چھوڑ کر اُس کے ساتھ مدینہ پاک کی گلیوں میں پھرتے رہے ۔ یقینا آپ ﷺ ہی سراپا دو جہاں ہیں اگر چشمِ بینا سے دیکھیں تو زمین آسمان کائنات کا چپہ چپہ آپ ﷺ سے محبت کے جذبہ نے اپنے اند سمو رکھا ہے ۔ انسان تو انسان حیوانات بھی عشقِ رسول ﷺ سے معمور تھے یہ بھی محسنِ انسانیت ﷺ سے شدید محبت کرتے تھے انصار مدینہ میں سے کسی کے پاس ایک اونٹ تھا جس سے وہ پانی ڈھویا کرتا تھا ۔ وہ کسی وجہ سے سرکش ہو گیا لہذا اب وہ سر کشی کی وجہ سے اپنی پیٹھ پر پانی نہ اٹھا تا تھا اونٹ کا مالک سرورِ کونین ﷺ کے حضور حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ ہمارا اونٹ سرکش ہو گیا ہے اب وہ پانی نہیں اٹھا تا شہنشا ہِ دو عالم ﷺ اُس صحابی ؓ کے ساتھ اُس کے باغ میں گئے جہاں وہ سرکش اونٹ ایک گوشے میں کھڑا تھا نبی کریم ﷺ اُس اونٹ کی طرف بڑھے تو صحابہ نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ یہ اونٹ کاٹنے والے کتے کی مانند ہو گیا ہے ۔ ڈر ہے کہ کہیں آپ ﷺ کو تکلیف نہ پہنچائے حضو ر ﷺ نے فرمایا تم اطمینان رکھو مجھے اِس سے کچھ ڈر نہیں ۔جب اونٹ نے مالک ِ دو جہاں ﷺ کو اپنی طرف آتا دیکھا تو وہ دوڑ کر آیا اور اپنا سر آپ ﷺ کے قدموں میں رکھ دیااور سجدے میں گِر پڑا ۔ رحمتِ دو جہاں ﷺ نے اُس کے بال پکڑلیے اور وہ ایسا مطیع ہو گیا کہ پہلے کبھی نہ ہوا ہو گا ۔ اِسی طرح رحمتِ دو جہاں جلوہ افروز تھے کہ ایک اونٹ نے آکر آپ ﷺ کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا تو آپ ﷺ نے پوچھا یہ اونٹ کس کا ہے یہ مجھ سے اپنے مالک کی شکایت کر رہا ہے ۔ بعد میں تحقیق پر جب یہ بات سچ ثابت ہوئی تو حضور ﷺ نے اُس اونٹ کو اس کے مالک سے لے کر صدقے کے اونٹوں میں بھیج دیا۔ مومنین کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے دولت کدہ کے ایک گوشے میں ایک بکری بر وقت اِس انتظار میں رہتی کہ کب رحمت ِ دو جہاں ﷺ آئیں گے اور وہ آپ ﷺ کا چہرہ اقدس کا دیدا ر کرے گی ۔ جتنا عرصہ فخرِ دو عالم ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر رہتے وہ مسلسل رحمتِ دو جہاں کو تکتی رہتی نبی کریم ﷺ سے عشق اُس کی آنکھوں میں نظر آتا ۔ جیسے ہی نبی کریم ﷺ باہر تشریف لے جاتے تو بکری ہجر کی آگ میں جلنا شروع ہو جاتی ۔ بکری کا سکون غارت ہو جاتا اور وہ بے قراری اور پریشانی میں مثل پروانہ شمع محبت کی تلاش میں عالم پریشانی میں گھر کے اند ر ایک کونے سے دوسرے کونے تک تیز تیز چلتی اُس کی یہ بے چینی بے قراری انتظار اُس وقت ختم ہو تا ۔ جب وہ محسنِ انسانیت ﷺ کو دوبارہ دیکھ لیتی جیسے ہی آقائے دو جہاں کے رخِ انور سے گھر روشن ہو تا وہ بھی غریق ِ مست مئے دیدار پر سکون ہو کر بیٹھ جاتی اور مسلسل ساقی کوثر ﷺ کے چہرہ منور کو تکے جاتی اور اپنی پیاسی بجھاتی رہتی ۔
شافع ِ محشر ﷺکے خاندان کے پاس ایک ہرن تھا وہ اکثر اِدھر اُدھر دوڑتا چوکڑیاں بھرتا اور خوب شور مچاتا لوگ اُس کی اچھل کود اور حرکتیں دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوتے ۔اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر وہ اور بھی شوخیاں کرتا ۔ لیکن یہ تمام شوخیاں اور اچھل کود وہ اُسی وقت کرتا جب محبوب ِ خدا ﷺکا شانہ نبوت سے باہر تشریف لے جاتے یہ اُس کا روزانہ کا معمول تھا لیکن جیسے ہی فخرِ دو عالم ﷺ واپس کا شانہ نبوت میں تشریف لاتے تو وہ تمام شوخیاں ، شرارتیں اور بھاگ دوڑ بند کر کے خاموشی سے بیٹھ جاتا اور متمنانے کی بھی جرات نہ کرتا اِس طرح بے حس و حرکت خا موشی سے بیٹھ جا تا کہ جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں اُس کی خاموشی کی وجہ وہ ادب و احترام تھا جو وہ شافع محشر ِ ﷺ کا کرتا کہ کہیں بارگاہِ رسالت ﷺ میں کوئی بے ادبی نہ ہو جائے ۔ یہ انداز جو ہرن نے اختیار کیا وہ عشقِ رسول ﷺ ہی تھا کیونکہ جہاں عشق ہو گا وہا ں ادب کا ہونا لازم شرط ہے وگرنہ دعوٰی عشق سچا ثابت نہیں ہو تا اِسی طرح معراج کی رات براق کا عشق اور احترام بھی ایمان افروز ہے ۔فتح خیبر میں مال ِ غنیمت میں جو مال آیا اُس میں گوش دراز بھی تھا ۔ اُس گوش دراز کی عقیدت اور عشقِ رسول ﷺ بھی عاشقان ِ رسول ﷺ کے دل گرماتا ہے ۔فخرِ دو عالم ﷺجب بھی باہر جاتے تو اپنی خاص اونٹنی پر سواری کرتے وہ اونٹنی حضورانور ﷺ کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتی اور اُس کے دل کی کلی کھل اٹھتی ادب سے بیٹھ جاتی محبت سے آپ ﷺ کو اپنی پشت پر بیٹھاتی اور احتیاط سے قدم اٹھا تی اور اپنی خوش بختی پا نازاں ہوتی اور جب رحمتِ دو جہاں ﷺ اپنے رفیق اعلی کے پاس تشریف لے گئے تو جب اپنی خالی پشت پر نظر ڈالتی تو تڑپ اٹھتی جدائی کے غم میں کھانا پینا ترک کر دیا روز بروز کمزور ہوتی گئی آپ ﷺ سے جدائی اور عشق کا داغ لیے دنیا سے رخصت ہو گئی اور ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئی ۔

loading...