جمعہ، 16 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (14)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (14)ملائکہ محو حیرت تھے اور بوڑھا آسمان پچھلے کئی دنوں سے بلا پلک جھپکے تاریخ انسانی کے سب سے بڑے اور انمول ترین عاشق ِ رسول ﷺ کی ہمت اور استقامت کو دیکھ رہا تھا ۔ مکہ کی زمین جو موسم گرما میں آگ برساتی دھوپ میں تانبے کی طرح گرم ہو جاتی تھی ۔ مکہ کے کافر امیہ بن خلف کو جب یہ پتہ چلا کہ اُس کے غلام نے اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا اپنے غلام کو بلا کر کہا تم نے مقدس لات و عزّی کو چھوڑ کر کوئی اور معبود ڈھونڈ لیا ہے تو غلام زادے نے بے دھڑک جواب دیا کہ میں محمد ﷺ اور اُس کے خدا پرایمان لے آیا ہوں غلام کے آقا امیہ کے لیے یہ گستاخی عظیم تھی کہ اُس کا غلام تین سو ساٹھ خداؤں کو چھوڑ کر صرف ایک خدا کو مانے‘ ظالم آقا نے رعونت سے کہا تم باز آجاؤ ورنہ ذلت کی موت مارے جاؤ گے لیکن آفرین ہے غلام زادے پر جو نشہ توحید میں ڈوب چکا تھا بولا میرے جسم پر تمھارا زور چل سکتا ہے جبکہ میں اپنا دل و جان محمد ﷺ کے خدا کے پاس رہن رکھ چکا ہوں ۔
غلام کے جواب سے کافر امیہ بن خلف غصے سے پاگل ہو گیا کہ ایک غلام زادے کی اتنی جرات وہ غصے سے بولا اب دیکھو اپنی بے دینی کا مزا میں دیکھتا ہوں میرے ظلم و ستم سے تمھارا محمد ﷺ اور اُس کا خدا تمھیں کس طرح بچاتے ہیں۔ اِس کے بعد غلام پر ظلم و ستم کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا غلام کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے باندھ دئیے گئے رسیاں اتنی سختی سے بندھی ہوئی تھیں کہ زخموں کے اندر دھنس گئیں تھیں سارا دن غلام پر کوڑے بر سائے جاتے گلے میں رسی ڈال کر نوکیلے کنکروں اور پتھروں پر جلتی ہوئی دوپہر میں گھسیٹا جاتا لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں لٹا دیا جاتا جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر بھاری پتھر غلام کے سینے پر رکھ دیا جاتا تا کہ وہ جنبش بھی نہ کر سکے پھر ظالم آقا کہتا محمد ﷺ کی پیروی سے باز آجا ورنہ اِسی طرح پڑا رہے گا لیکن شہدائے حق اور رسول ِ عربی ﷺ کا پروانہ زبان سے احد احد نکالتا ظالم آقا غضب ناک ہو کر ذودو کوب کرنا شروع کر دیتا ۔ صحابی حضرت عمرو بن العاس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے بلال ؓ کو اس حالت میں دیکھا کہ امیہ نے شدید تپتی ہوئی زمین پر لٹا رکھا ہے کہ اگر اُس گرم زمین پر گوشت کا ٹکڑا بھی رکھ دیا جا تا تو وہ بھی گل جاتا ۔ غلام کے انکار پر امیہ نے مکہ کے اوباش لونڈوں کے حوالے غلام کو کر دیا جنہوں نے غلام کے گلے میں رسی باندھ دی کپڑے اتار دیے ظالم لونڈے بلال ؓ کو مکہ کی گرم ریت اور گھاٹیوں میں گھسیٹتے پھرتے کبھی اوندھے منہ لٹا کر اوپر گرم نوکیلے پتھروں کا ڈھیر لگا دیتے جب لونڈے غلام کو اِدھر اُدھر گھسیٹتے تو غلام بار بار دہراتا میں لات و عزی ہبل اور دوسرے تمام بتوں کا انکار کر تا ہوں اور احد احد پکارتے جاتے یہ ظلم و ستم پچھلے کئی روز سے جاری تھا غلام کے جسم کا کائی حصہ ایسا نہ تھا جو شدید زخمی نہ ہو ۔ مسلمان آتے جاتے غلام کی حالت دیکھتے تو بہت دکھی اور رنجیدہ ہوتے ۔ سیدنا حضرت ابو بکر ؓ کا گھر بھی اِسی محلے میں تھا وہ آتے جاتے روزانہ سوچتے کس طرح اِس عاشق ِ رسول ﷺ کو ظالم کے پنجہ سے نجات دلائی جائے ایک دن حضرت ابو بکر ؓ سے غلام کی حالت دیکھی نہ گئی تو وہ ظالم امیہ کے گھر تشریف لے گئے اور امیہ سے کہا کہ ایک غلام پر اتنا ظلم کر نا اچھا نہیں حضرت ابو بکر ؓ کی گفتگو سے تنگ آکر امیہ بو لا تم اس غلام کے اتنے ہمدرد ہو تو ا،س کو خرید کیوں نہیں لیتے صدیق اکبر ؓ جھٹ بولے بولو کیا لو گے تو امیہ بولا تم اپنا غلام فسطاس رومی مجھے دو اِس کو لے جاؤ فسطاس رومی بہت با صلاحیت غلام تھا اہلِ مکہ کے نزدیک اُسی کی بہت زیادہ قیمت تھی امیہ کے خیال میں حضرت ابو بکر ؓ کبھی بھی اپنا غلام نہیں دیں گے ۔ لیکن حضرت ابو بکر ؓ فوراً بو لے مجھے منظور ہے امیہ حیرت اور ڈھٹائی سے بولا فسطاس کے ساتھ چالیس اوقیہ چاندی بھی لوں گا امیہ نے اپنی طرف سے بہت چالا کی کا سودا کیا جب صدیق اکبر ؓ غلام کو لے جانے لگے توکہنے لگا اے ابن ابی قحافہ اگر تمھاری جگہ میں ہو تا تو اِس غلام کو درم کے چھٹے حصے کے عوض بھی نہ خریدتا صدیق اکبر ؓ فرمانے لگے اِس غلام کی قدر و قیمت سے تم واقف نہیں میرے نزدیک ملک یمن کی بادشاہی بھی اِس کے سامنے ہیچ ہے غلام اُس وقت بھی بھاری گرم پتھروں کے نیچے دبا ہوا تھا حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ حضرت زید بن حارثؓ بھی تھے انہوں نے غلام کے کان میں کہا اب تم آزاد ہو غلام کی آنکھیں خون اور آنسو ؤں سے دھندلائی ہوئی تھیں زخموں اور کمزوری کے سبب جواب دینے کی سکت بھی نہ تھی حضرت ابو بکر ؓ اور زید بن حارث ؓ نے بازوؤں سے پکڑ کر اُنہیں نیم مردہ حالت میں چلاتے اورگھسیٹتے ہوئے لے گئے زخمی غلام حضرت ابو بکر ؓ کے دولت کدے پر پانچ دن بے ہوش رہا کبھی ہوش میں آجاتا اِس دوران علاج بھی ہوتا رہا چھٹے روز غلام چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا سرورِ کونین ﷺ متواتر تین دن تیرے کمرے میں جاکر دعائے صحت فرماتے رہے ہیں جب تک تمھارا بخار نہیں اترا مسلسل دعائیں کرتے رہے ہیں ۔ ساتویں دن صحت بہتر ہوئی تو حضرت ابو بکر ؓ غلام کو بارگا ہِ محبوب کبریا ﷺ میں لے گئے رحمتِ مجسم نے جب اپنے مُحب کو دیکھا تو آنکھیں بھی آئیں رحمت ِ دو عالم ﷺ اپنی جگہ سے اُٹھے اور غلام کو گلے سے لگا لیا اور فرمایا جب تک دنیا قائم رہے گی یہ بات یا درکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں ظلم و اذیت برداشت کرنے والے پہلے شخص تم ہو ۔ شہنشاہِ دو جہاں ﷺ کے آنسو مبارک غلام کے چہرے پر گِر رہے تھے اور غلام یوں محسوس کر رہا تھا کہ وہ جنت الفردوس میں ہے پھر ساقی کوثر نے غلام کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ چٹائی پر بٹھا لیا ۔ 
غلام سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آقا دو جہاںﷺ ایسی محبت اور شفقت کریں گے اور پھر یہیں سے سرورِ دو عالم ﷺ کی غلامی کا دور شروع ہو ا ۔ مشرکین کے پنجہ ستم سے رہائی پانے کے بعد اِس غلام نے اپنی زندگی رحمتِ دو جہاں کی خدمت کے لیے وقف کر دی دن رات‘ دکھ سکھ‘ سفر ‘و عظ‘ تبلیغ کی مجالس ہوں یا میدانِ جنگ یہ غلام ہر وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتا ۔ عشقِ رسول ﷺ میں فنا کے اُس مقام پر تھا کہ ہر وقت خدمت میں حاضری کو سعادت سمجھتا نبی کریم ﷺ کے ہر حکم کو پورا کرنے کے لیے اپنی جان تک لڑا دیتا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے بیشتر خانگی امور بھی اِس کے سپرد کر دئیے تھے وہ حضور ﷺ کے موذن بھی تھے اور ایک عابد شبِ زندہ دار بھی تھے فکر آخرت سے ہر وقت لرزہ بر اندام رہنا ہی زندگی تھی ایک مرتبہ جب یہ غلام بیمار ہو گیا تو جب بھی رسول کریم ﷺ کو اِس کی بیماری کا پتہ تو فخرِ دو عالم ، شافع محشر وجہ تخلیقِ کائنات رسول کریم ﷺ آپ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ۔ جب غلام کو بوئے مصطفی ﷺ پہنچی تو حیرت اور خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا دامنِ رسول ﷺ نظر آیا تو شدت عشقِ رسول ﷺ میں خود پر قابو نہ رہا گھسیٹتے ہوئے آئے اور سرورِ کونین ﷺ کے قدم مبارک پر اپنا سر رکھ دیا اور محبت سے بوسے لینے لگے نبی کریم ﷺ نے اپنے عاشق کے سر و چشم کو بوسہ دیا اور فرمایا اب کیا حال ہے تو عرض کیا جس کے پاس اچانک رحمتِ دو جہاں ﷺ آجائیں تو اُس کی خوشی کا کیا حال ہو گا اب سب دکھ اور درد راحت اور خوشی میں بدل گئے اِس غلام کو بارگاہِ رسالت ﷺمیں خاص مقام حاصل تھا اِس بنا پر تمام صحابہ ؓ آپ ؓ کو محبوب و محترم جانتے تھے ۔ حضرت عمر فاروق ؓ اِس غلام کے بارے میں فرمایا کرتے تھے ابوبکرؓ ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار بلالؓ کو آزاد کرایا ۔

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (13)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (13)عبداﷲ بن عمرو عاص ؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ مشرکین مکہ نے رحمتِ دو جہاں ﷺکے ساتھ سب سے سخت ترین بد سلوکی کی تھی وہ بتائیں تو اُنہوں نے کہا فخرِ دو جہاں ﷺ خانہ کعبہ حطیم میں نماز پڑح رہے تھے کہ کافر عقبہ بن ابی معیط وہاں آگیا ۔ اُس نے آتے نبی کریم ﷺ کی گردن میں چادر کو بل دینے لگا وہ ظالم سختی کر کے نعوذ باﷲ نبی کریم ﷺ کو مارنا چاہتا تھا کہ حضرت ابو بکرؓ کے پاس یہ چیخ پہنچی کہ اپنے ساتھی کو بچاؤ تو یارِ غار جلدی سے نکلے اور بھاگتے ہوئے نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور ظالم کو کندھوں سے پکڑ کر دھکا دیا اور نبی کریم ﷺ کو بچانے کی کوشش کرنے لگے اِس دوران وہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کیا تم لوگ ایک ایسے آدمی کو اِس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اﷲ ہے یارِ غار کی کوشش سے کافر نبی کریم ﷺ سے دور ہو گیا ۔ ابتدائے اسلام کے وقت جب کفار کے مظالم سے مسلمانوں پر زندگی تنگ ہو گئی تھی تو حضرت ابو بکر ؓ پوری کوشش کر تے کہ ابتدائی مسلمانوں کو کافروں کے مظالم سے بچا یا جا سکے ۔ شروع میں تو اسلام کی تبلیغ خفیہ طور پر جاری تھی ۔ ایک دن حضرت ابو بکر ؓ رسول کریم ﷺ کی اجازت سے اعلانیہ دعوت اسلام کا ارادہ کیا تو ایک دن جب ساقی کوثر ﷺ دارارقم سے نکل کر مسجدِ حرام میں تشریف لے گئے تو حضرت ابو بکر ؓ نے کھڑے ہو کر باآواز پکارا ۔
اے قریش کے لوگوں سنو میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں میں تم سب کو دعوت دیتا ہوں کہ تم اِن کے دین کو قبول کر لو بلا شبہ اسلام دینِ حق ہے تم اپنی آخرت کا خیال کرو اور اِس خدائے واحد پر ایمان لے آؤ محمد ﷺ اس کے سچے نبی ہیں ۔یہ پہلا موقع تھا جب کسی نے سرِ عام اسلام کی دعوت دی مشرکین کے آباو اجداد کے دین کو باطل قرار دیا کفا رمکہ تو پہلے ہی غصے میں تھے حضرت ابو بکر ؓ کی اِس تقریر نے جلتی پر تیل کا کام کیا کیونکہ اُن کے جھوٹے خداوں کی تکذیب کی گئی تھی اُنہیں جھوٹا کہا گیا تھا ۔ کفار غصے سے پاگل ہو کر اُٹھے اورحضرت ابو بکر ؓ پر ٹوٹ پڑے اتنا مارا کہ زمین پر گرا دیا اور لاتوں اور ٹھوکروں سے مارنا شروع کر دیا اور بے دردی سے پاؤں تلے روندنا شروع کر دیا۔ ظالم عتبہ بن ربیعہ نے اِس بے دردی سے یارِ غار کے چہرے پر ٹھوکریں ماریں کے چہرہ مبارک اتنا سوج گیا کہ ناک تک ڈھک گیا ۔ حضرت ابو بکر ؓ کے قبیلہ بنوتیم کو پتہ چلا تو وہ فوراً مو قع پر آگئے اور آپ ؓ کو کافروں کے نرغے سے نکال کر خون آلودہ کپڑوں سمیت اُن کے گھر لے گئے آپ ؓ اِس قدر زخمی اور نڈھال تھے سب یقین کر چکے تھے کہ آپ ؓ بچ نہیں پائیں گے کیونکہ آپ ؓ تقریباً بے جان اور بے حس حرکت نیم مردہ حالت تھے آپ ؓ کے قبیلہ والے جاتے جاتے یہ چیلنج بھر کر گئے کہ اگر ابو بکر ؓ زندہ نہ رہے تو ہبل کی قسم ہم عتبہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔ شام تک حضرت ابو بکر ؓ بے سدھ پڑے رہے جب آپ ؓ کو ہوش آیا تو کراہتے ہوئے بولے میرے محبوب ﷺ کا کیا حال ہے ۔ اہلِ خاندان یہ سن کر دنگ رہ گئے کہ ہم تو اِس فکر میں جمع ہیں کہ ابو بکر ؓ جانبر ہوتے ہیں کہ نہیں مگر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہے اس لیے قبیلہ والوں کو غصہ آگیا اور ملامت کر تے ہوئے چل دئیے کہ اِس شخص کو زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں یہ خود موت کے منہ میں ہے لیکن اِسے اپنی کوئی فکر نہیں فکر ہے تو محمد ﷺ کی یہ کیسا عشق تھا یہ کون سا جذبہ اور عقیدت و احترام یا رشتہ ہے عقل وشعور سے ماورا تھا ۔آپ ؓ کی والدہ جو بیٹے کے غم میں نڈھال بیٹھی تھیں وہ بو لیں بیٹا کچھ کھا لو یا رِ غار بولے اماں پہلے یہ بتاؤ شہنشائے دو عالم ﷺ کا کیا حال ہے ماں بولی لات کی قسم تمھارے دوست ﷺ کا ہمیں کوئی پتہ نہیں تو حضرت ابو بکر ؓ نے التجا کرتے ہوئے کہا عُمر ؓ کی بہن فاطمہ بنتِ خطاب سے چپکے سے پوچھو میرے محبوب رسول اﷲ ﷺ کا کیا حال ہے ۔ کیا عشق ہے خود موت کے منہ میں پڑے ہیں اور فکر اپنے محبوب کی ہے ۔
بقول شاعر پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق ؓ کے لیے خدا کا رسول ﷺ بس
حضرت فاطمہ بنتِ خطابؓ نے آکر یار غار کو دیکھا تو تڑپ اُٹھی اور کہا اﷲ کی قسم جن لوگوں نے آپ ؓ کے ساتھ یہ سلوک کیا وہ کافر ہیں فاسق ہیں ظالم اور جھوٹے ہیں اﷲ تعالی اُن سے آپ ؓ کا انتقام ضرور لے گا ۔ لیکن قربان حضرت ابو بکر ؓ پر انہوں نے حضرت فاطمہ بنتِ خطابؓ سے بھی وہی سوال دہرایا کہ آپ ؓ پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ رسول کریم ﷺ کیسے ہیں تو حضرت فاطمہ بنت خطاب ؓ نے کہا کہ رسول اﷲ ﷺ خدا کے فضل سے بلکل ٹھیک ہیں ۔ یہ سن کر بھی حضرت ابو بکر ؓ کو چین نہیں آیا اور بو لے اِ س وقت رسول اﷲ ﷺ کہاں پر تشریف فرمائیں آپ ؓ کی بے چینی اور بے قراری دیکھ کر حضرت فاطمہ بنتِ خطاب ؓ بولیں شہنشاہِ دو عالم ﷺ اِس ارقم بن ارقم کے مکان پر تشریف فرما ہیں ۔آپ کی والدہ بضد تھیں کہ آپ ؓ بہت زیادہ نڈھال کمزور اور زخموں سے چور ہیں اِس لیے وہ کچھ کھلانے پلانے پر بضد تھیں ماں پریشان کہ کھائے پئیے بغیر اگر آپ ؓ باہر چلے گئے تو چلنے پھرنے سے کہیں طبیعت اور نہ خراب ہو جائے یعنی آپ ؓ کے زخم اور چوٹیں اور شدید نہ ہو جائیں اِس لیے ماں کھلانے پلانے پر بضد تھیں کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کچھ کھا لیں تاکہ جسم میں طاقت آجائے اور آپ ؓ خطرے سے باہر نکل آئیں ۔ لیکن حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو جو رسول اﷲ ﷺ سے عشق و محبت تھی وہ لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی ۔ایک بار شہنشاہ ِ دو جہاں رحمت ِ دو جہاں فخرِ دو عالم ﷺ اپنے پروانوں کے حلقہ میں جلوہ افروز تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ تشریف لائے تو مالک ِ دو جہاں ﷺفرمانے لگے جو شخص آگ سے آزاد شخص کو دیکھنے کا خواہش مند ہو وہ ابو بکر ؓ کو دیکھ لے ۔
حضرت ابو بکر ؓ کو نبی کریم ﷺ سے جو عشق تھا اِس کے معترف نہ صرف مسلمان بلکہ اغیار بھی تھے ۔ نورِمجسم ﷺجب معراج سے تشریف لائے تو کفار نے سوچا اب وہ ابو بکر ؓ کو نبی کریم ﷺ کے عشق سے دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اُن کے پاس گئے اور کہا کیا تم اب بھی اپنے دوست کے عشق میں مبتلا رہو گے تمھارا دوست اب یہ کہتا ہے کہ وہ رات کو بیت المقدس گیا ہے تو حضرت ابو بکر ؓ فرمانے لگے اگر یہ بات رسول اﷲ ﷺ نے فرمائی ہے تو یہ سچ ہے تو کفار بولے کیا یہ بات تمھاری عقل تسلیم کرتی ہے تو آپ ؓ فرمانے لگے اگر حضو ر ﷺ یہ کہیں کہ میں نے آسمانوں کو صبح سے شام تک طے کر لیا تو میں یہ بھی سچ مانوں گا کفار نا کام ہوئے اور عشقِ رسول ﷺ کامیاب ہو گیا ۔
جب حضرت ابو بکرؓ نے رسول اﷲ ﷺ کو دیکھنے کی بہت ضد کی تو دونوں خواتین حضرت ابو بکر ؓ کو اپنے کندھوں کا سہارا دے کر دارارقم لے گئیں رحمتِ دو جہاں ﷺ نے جب اپنے دیوانے یار کو زخموں سے چور اِس حالت میں دیکھا تو آپ ﷺ پر رقت طاری ہو گئی جبکہ ابو بکر ؓ نے جیسے ہی نورِ مجسم سرورِ کونین ﷺ کے چہرہ انور کو دیکھا تو آپ ﷺ سے خوشی سے لپٹ گئے اور دیوانہ وار بوسے لینے لگے ۔ اور رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوئے یا رسول اﷲ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے کوئی خاص تکلیف نہیں ہے یہ میری والدہ اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہیں اِن کو دین کی دعوت دیں اور دعا فرما دیں کہ اﷲ تعالی اِن کو آگ کے عذاب سے بچا ئے ۔

loading...