جمعہ، 16 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (16)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (16)روزِ اول سے شمع رسالت ﷺ کے پروانوں میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ اِسی طرح روزِ محشر تک جاری و ساری رہے گا ۔عاشقانِ رسول ﷺ کے اِس گلدستے میں ہر پھول کی خوشبو تازگی اور خوبصورتی نرالی ہے اِس گلدستے میں ایک پھول ایسا ہے جس کی معطر خوشبو سے کائنات کا کونہ کونہ مہک رہا ہے ۔یہ وہ آفتاب ہے کہ جس کی روشنی سے کرہ ارض اور کائنات کے عمیق ترین اور بعید ترین گوشے روشن چمک رہے ہیں اِس آفتاب کی روشنی کے سامنے ہزاروں سورج اور اُن کی روشنی بھی ماند پڑ جاتی ہے از ل سے ابد تک ہر روز عشقِ رسول ﷺ کی ایسی ایسی داستانیں منظر عام پر آتی رہیں گی جن سے اہل ایمان کے ایمان تازہ اور زندہ ہوتے رہیں گے ۔ہر دور میں عاشقان رسول ﷺ اپنی والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار اِسی طرح کرتے رہے گے ۔لیکن ایک عاشقِ رسول ﷺ ایسا ہے کہ قیامت تک عاشقانِ رسول ﷺ اور اہلِ ایمان اُس کے مقام و مرتبہ پر رشک کرتے رہیں گے جو مقام اِ س عاشقِ رسول ﷺ کو علاوہ آج تک اور قیامت تک کسی اور کو نہیں مل پائے گا بلاشبہ عاشقانِ رسول ﷺ کے قافلے کے یہ سردار ہیں ۔ اور روزِ محشر تک کوئی بھی آپ ؓ کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا آپ ؓ جیسا کوئی نہیں ہے ۔معراج کی شب جب سرور دو عالم ﷺ فخرِ موجودات فلک افلاک پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کسی کی جسمانی روح کا قابل ربانی فیض و برکات کی چادر اوڑھے ایک شاندار تخت مرصع و نورانی پر بڑے اطمینان و فراغت کے ساتھ بے نیازی کے انداز سے پاؤں پھیلائے ہوئے آرام فرما رہے ہیں نبی کریم ﷺ نے جبرائیل ؑ سے پوچھا یہ کیا ہے تو جبرائیل ؑ نے عرض کیا یہ مجال اور جرات شیخ اویس قرنی ؓ کے قالب نے کی ہے جس نے آپ ﷺ کے عشق میں دم مارا ہے اور درد و فراق میں قدم اٹھا یا ہے اور ابھی ایک لحظہ دم کے لیے آرام کر رہا ہے۔معراج کی شب ہی حضرت اویس ؓ کے خراٹوں کی آواز سن کر فخرِ دو عالم ﷺ نے پوچھا یہ کس کی آواز ہے تو غیب سے جواب ملا کہ یہ اویس قرنی ؓ کی آواز ہے اور میں نے چند فرشتوں کو اِس آواز پر متعین کر دیا ہے کیونکہ یہ آواز مجھ کو بہت پسند ہے۔ روزِ محشر ربِ ذولجلال حضرت اویس قرنی ؓ کو بہت بڑی شان سے جنت میں داخل فرما یں گے ۔ساقی کوثر ﷺفرمایا کرتے تھے کہ اویس احسان و مروت کے اعتبار سے بہترین تابعین میں سے ہیں اور روزِ محشر ستر ہزار ملائکہ کے جلوے میں اویس قرنی ؓ جنت میں داخل ہوں گے اور وہ ستر ہزار فرشتے اُن کے ہم شکل ہونگے تاکہ مخلوق ان کی شناخت نہ کر سکے سوائے اس شخص کے جس کو اﷲ تعالی ان کے دیدا ر سے مشرف کرنا چاہے ۔یہ اس لیے ہو گا کہ حضرت اویس قرنی ؓ نے خلوت نشین ہو کر مخلوق سے رو پوشی کر کے محض اﷲ تعالی کی عبادت و ریاضت کی اور دنیا والے آپ ؓ کو برگزیدہ تصور نہ کرے اور اِسی مصلحت کے پیشِ نظر روزِ محشر آپ ؓ کی پردہ پوشی قائم رکھی جائے گی ۔تذکرۃ الاولیاء میں شیخ فرید الدین عطارؒ نے حضور ِ اکرم ﷺ سے ایک ایمان افروز روایت بیان کی ہے کہ ۔ 
میری امت میں ایک ایسا شخص بھی ہے جس کی شفاعت سے قبیلہ ربیع اور مغر کی بھیڑوں کے بالوں کے برابر گناہ گاروں کو بخش دیا جائے گا اور جب صحابہ کرام ؓ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ وہ کون ساشخص ہے اور کہاں مقیم ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اﷲ تعالی کا ایک بندہ ہے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ ہم سب بھی اﷲ تعالی کے بندے ہیں اِس کا اصل نام کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اویس قرنی ؓ ہے ۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ کیا کبھی وہ آپ ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا ہے تو آقائے دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا کبھی نہیں لیکن ظاہری طور کی بجائے باطنی طورپر اس کو میرے دیدار کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور مجھ تک اس کے نہ پہنچنے کی دو وجو ہات ہیں اول غلبہ حال دوم تعظیم شریعت کیونکہ اس کی والدہ محترمہ ضعیف اور نابینا ہیں ۔حضرت اویس قرنی ؓ شتر بانی کے ذریعہ اپنے لیے معاش حاصل کرتا ہے اور پھر آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم اُس سے نہ مل سکو گے لیکن حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت علی المرتضی ؓ اُس سے ملاقات کریں گے اور اُس کی شناخت اور تعارف یہ ہے کہ اُس کے پورے جسم پر بال ہیں ہتھیلی کے بائیں پہلو پر ایک درہم کے برابر سفید رنگ کا داغ ہے لیکن وہ برص کا داغ نہیں لہذا جب بھی ان سے ملاقات کرو تو میرا سلام پہنچانے کے بعد میری امت کے لیے دُعائے مغفرت کرنے کا پیغام بھی ضرور دینا ۔اِس کے بعد صحابہ کرام ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ کے خرقہ کا حق دار کون ہے تو سرور دوعالم ﷺ نے فرمایا اویس قرنی ؓ ۔
سبحان اﷲ کیا شان اور مقام ہے حضرت اویس قرنی ؓ کا ۔ حضرت اویس قرنی ؓ ، حضرت اویس قرنی ؓ کو سرور کونین ﷺ کی بارگاہ میں مرتبہ محبوبیت بھی حاصل تھا روایت میں آتاہے کہ فخر ِ کائنات کبھی کبھی وفورِ شوق میں اپنے پیراہن کے بند کھول کر سینہ مبارک بطرف یمن کرکے فرمایا کرتے یعنی میں نسیم رحمت یمن کی طرف پاتا ہوں ۔عدن سے محبوب کی خوشبو آتی ہے یعنی اویس قرنی ؓ جان پرور ہے ۔
کتاب قصص الاولیا میں بیان ہے ۔ خواجہ اویس قرنی ؓ طلوع اسلام سے پہلے اِس دنیا میں تشریف لا چکے تھے خواجہ صاحب ؓ عہد طفولیت میں والد کی شفقت سے محروم ہو گئے اِس لیے ان کو بچپن ہی میں محنت مزدوری کرنا پڑی آپ لوگوں کے اونٹ اجرت پر چرایا کرتے تھے اور اِس اجرت سے اپنا اور اپنی ضعیف اور نابیانا ماں کا پیٹ پالا کرتے تھے اِس کے علاوہ جو تھوڑی سی رقم بچ رہتی اس کو لوگوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے آپ ؓ زندگی کے شب و روز اسی طرح گزار رہے تھے کہ یمن تک اسلام کے جان لیوا پیدا ہو گئے جب آپ ؓ کو اسلام اور رسول کریم ﷺ کے متعلق خبر ملی تو آپ ؓ فوراًاسلام لے آئے آپ کے اندر نورِ ہدایت کی شمع ہدایت کو جلا بخشی اور آپ رسول کریم ﷺ ساقی کوثر فخرِ دو عالم کے دیوانے اور شیدائی بن گئے آپ ؓ کو سرورِ دو عالم ﷺ سے اِس قدر عشق تھا کہ ہمہ وقت اِسی عشق میں مستغرق رہتے تھے جنگ ِ احد میں نبی کریم ﷺ کے دانت مبارک شہید ہونے کی خبر ملی تو اپنا ایک دانت توڑ ڈالا پھر دل میں خیال آیا کہ شاید آقائے دو جہاں ﷺکا کوئی دوسرا دانت شہید ہوا ہو گا ۔تو دوسرا دانت بھی توڑ دیا اِس طرح ایک ایک کر کے سارے دانت مبارک توڑ ڈالے تو عاشق کو سکون حاصل ہوااﷲ تعالی کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ کیلے کا درخت پیدا کیا تاکہ آپ ؓ کو نرم غذا مل سکے اِس سے پہلے زمین پر کیلے کا درخت نہ تھا۔

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (15)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (15)عاشقِ رسول ﷺ حضرت بلال ؓ کے والد رباح اپنی اہلیہ کے ہمراہ مکہ میں مستقل آباد ہو گئے تھے اور قریش کے خاندان بنو جمح کی غلامی اختیار کر لی تھی ۔ اِس غلامی کی حالت میں بعثت ِ نبوی ﷺ سے تقریباً 28برس پہلے حضرت بلال ؓ پیدا ہوئے اُس وقت چاروں طرف کفر و شرک کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے ۔ حضرت بلال ؓ کا آقا امیہ بن خلف سخت ظالم اور مشرک تھا ۔ اُسی ظالم کی غلامی میں حضرت بلال ؓ نے اٹھائیس برس گزار دیے اُنہی دنوں میں حضرت بلال ؓ کے کانوں میں توحید کی صدا گونجی ۔ حضرت بلال ؓ بعثت سے قبل ہی حضور پاک ﷺ کے اخلاق سے متاثر تھے اِس لیے فوری لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا آپ ؓ اُن سات سعید الفطرت ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔قبول اسلام کے عاشق ِ رسول ﷺ ہمیشہ اپنے آقا و مولا کے شریک رہے اگر نبی کریم ﷺ کو فاقہ ہوتا تو وہ بھی فاقے سے ہوئے اگر حضور ﷺ دکھی ہوتے تو وہ بھی دکھی ہوجاتے ۔
شبِ معراج ملائکہ کے جھرمٹ میں شاہِ دو عالم ﷺجب رب ِ ذولجلال سے ملاقات کے لیے آسمانوں پر گئے تو آسمان پر بھی حضرت بلال ؓ کے قدموں کی چاپ گونج رہی تھی ۔ جب مسلمانوں کو مشریکین مکہ کے مظالم سے تنگ آکر رسول کریم ﷺ نے ہجرت مدینہ کا حکم دیا تو حضرت بلال ؓ بھی مدینہ منورہ ہجرت فرما گئے ۔ مدینہ میں حضرت بلال ؓ اپنے محبوب ﷺ کی تمنا لیے راہوں میں آنکھیں بچھائے منتظر رہتے تھے دن رات دعائیں کرتے اے اﷲ تعالی میرے محبوب کی حفاظت فرما زمین کی طنابیں کھینچ لے اور سرور ِ دو عالم ﷺ کو جلد سے جلد مدینہ پہنچا دے اور جب نبی کریم ﷺ آگئے تو حضرت بلال ؓ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا قدموں پر نثار ہوئے جا رہے تھے ۔ رمضان کے مہینے میں روزانہ بوقتِ سحری بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوتے ایک دن جب آپ ؓ حاضر ہوئے تو فخرِ دو عالم ﷺ سحری تناول فرما رہے تھے حضرت بلال ؓ سمجھے سحری کا وقت ختم ہو گیا عرض کی آقا ﷺ سحری ختم ہو چکی ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے سماعت فرمایالیکن آپ ﷺ کھاتے رہے حضرت بلال ؓ پھر بولے اﷲ کی قسم سحری کا وقت آخر ہو لیا ۔ جونہی حضرت بلال ؓ نے قسم کھائی نبی کریم ﷺ نے نوالہ دست ِ مبارک سے رکھ دیا کسی کے پوچھنے پر رحمت ِ دو جہاں ﷺفرمانے لگے بلال ؓ اپنے اندازے کے مطابق اختتامِ سحری کا اعلان کر رہا تھا ۔ جبکہ میری نظر آفتاب کے اس مرکز پر تھی جہاں ابھی سحری ختم ہونے میں چند لمحے باقی تھے ۔ لیکن جیسے ہی حضرت بلالؓ نے قسم کھائی اﷲ تعالی نے اس کی قسم کو سچا کرنے کے لیے آفتاب کو حرکت دی اور اس جگہ پہنچا دیا جہاں سحری کا وقت ختم ہو جا تا ہے ۔ کیا مقام و مرتبہ ہے محسنِ انسانیت ﷺ کے پروانوں کا کہ اگر وہ قسم کھا لیں تو اﷲ تعالی کائنات اُن کے تابع کر دیتا ہے ۔ہجرت کے بعد مسجدِ نبوی ﷺ کی تعمیر ہوئی تو آذان دینے کی سعادت حضرت بلالؓ کے سپر د ہوئی عشقِ رسول ﷺ میں ڈوبی ہوئی اور آبِ زم زم سے دھلی ہوئی آواز سے جب اشہدان محمد رسول اللّٰہ کی صدا بلند کرتے اور مسجد نبوی ﷺ میں جلوہ افروز ہادی دو جہاں ﷺ کی طرف انگشتِ شہادت سے اشارہ فرماتے تو چاروں طرف عشقِ رسول ﷺ کا سحر پھیل جاتا اور صحابہ جھوم جھوم جاتے سبحان اﷲ کیا نظارہ کیا سماں ہو تا ہوگا ۔ لیکن حضرت بلال ؓ کے محبوب ﷺ اپنے رب کریم کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت بلال ؓ پر غم کا اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑا۔اب جب انگشتِ شہادت کا اشارہ فرماتے اور محبوب نظر نہ آتے تو کلیجہ پھٹ جاتا ۔ حضرت بلال ؓ حجرہ عائشہ ؓ کی طرف نظریں جمائے بیٹھے رہتے شدت غم سے پھوٹ پھوٹ کر روتے اور بے قرار ہو کر روضہ رسول ﷺ میں داخل ہوتے اپنے محبوب و آقا ﷺ کے چہرے کی بلائیں لیتے اور اپنے بے قرار دل اور روح کو تسلی دیتے کہ میرے آقا محبوب ﷺ سو رہے ہیں ۔ ابھی تھوڑی دیر میں بیدار ہونگے تو اپنے غلام کو یاد فرمائیں گے پکاریں گے یا بلال ؓ یا بلال ؓ نبی کریم ﷺ کے جانے کے بعد مدینہ کے درو دیوار غمگین اور اداس لگتے آخر مدینہ منورہ کو خیر باد کہنے کا وقت آگیا۔ اب اِس شہر اور گلیوں میں دل نہ لگتا تھا ۔ بوقتِ رخصت مدینہ کی گلی کوچوں میں یہ صدائیں دیتے پھرتے اے مدینہ والوں تم نے کہیں میرے آقامحبوب ﷺ کو دیکھا ہے تو مجھے آپ ﷺ کا پتہ بتا دو وہ کدھر ہیں حضرت بلال ؓ دیوانوں کی طرح مدینہ کے گلی کوچوں میں صدائیں دے رہے تھے اِس منظر نے اہل ِ مدینہ اور مدینہ کے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا کہرام مچ گیا۔ سرور دو عالم ﷺ کے عاشقاں گھروں سے نکل آئے کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جس سے آنسوؤں کا سیلاب نہ بہہ نکلا ہو درودیوار ساکت تھے ہر آنکھ اشکبار تھی اِس حالت غم اور ہجر میں آپؓ ملک شام جانے والی شاہراہ پر چل پڑے اہلِ مدینہ عاشقِ رسول ﷺ کا جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور رو رہے تھے ۔ بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمر فاروق ؓ شام گئے اور عیسائیوں نے شہر کے دروازے کھول دیے معاہدے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے خطبہ دیا تو سامعین میں حضرت بلال ؓ بھی موجود تھے تو حضرت عمر فاروق ؓ جن کے جلال اورمقام و مرتبے سے ساری دنیا واقف ہے وہ بولے اے ہمارے سردار بلال ؓ آج قبلہ اول پر پرچم ِ توحید لہرایا ہے اِس عظیم موقع پر اگر آپ ؓ آذان دیں تو ہم آپ ؓ کے بہت شکر گزار ہو نگے ۔ پھر جب آپ ؓ آذان کے لیے کھڑے ہوئے جب آپ ؓ کے منہ سے اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر کے الفاظ نکلے تو صحابہ کرام ؓ کے قلب و جگر پھٹ گئے اُنہیں رحمت دو جہاں ﷺ کا وقت یا د آگیا اور جب اشھدان محمد رسول اللّٰہ پر پہنچے تو صحابہ کرام ؓ ہجرِ رسول ﷺ میں روتے روتے نڈھال اور بے ہوش ہونے لگے فاروقِ اعظم ؓ کو بھی فراق ِ رسول ﷺ نے تڑپا دیا روتے روتے ہچکی بندھ گئی ۔ شام کے شہر حلب میں قیام کئے جب ایک سال بیت گیا تو ایک مبارک رات ہادی دو جہاں ﷺ خواب میں آئے اور ارشاد فرمایا اے بلال ؓ تم نے ہم سے ملنا کیوں چھوڑ دیا کیا تمھارا دل ہم سے ملنے کو نہیں کر تا ۔خواب سے بیدار ہوئے تو عرض کی لبیک یا رسول اﷲ ﷺ اور پھر اسی وقت رات کے اندھیرے میں ہی اونٹنی پر سوار ہو کر محبوب ﷺ کے شہر مدینہ کی طرف چل پڑے ۔ شب و روز چلتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے مسجدِ نبوی میں حضور ﷺ کو تلاش کیا پھر حجرات مبارک میں تلاش کیا جب حضور ﷺ کہیں نہ ملے تو حجرہ انور پر حاضر ہوئے اور رو رو کر عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ غلام کو کہا ہے کہ آکر مل جا اب غلام حاضر ہے آپ ﷺ پردہ میں چھپ گئے ہیں ۔ شدتِ غم سے بے خود ہو کر قبر انور کے پاس گر پڑے ۔ اِسی دوران آپ ؓ کی آمد کی خبر سارے مدینہ میں پھیل گئی اہل مدینہ آپ ؓ کے ارد گرد جمع ہو گئے حضرت حسن ؓ اور حسین ؓ کو دیکھا تو اپنے محبوب کے جگر گوشوں کو سینے سے لگا کر بار بار اُن کا منہ اور سر چو ما ۔ حضرت حسنؓ حسین ؓ نے فرمائش کی بابا بلال ؓ آپ ؓ آذان دیں ۔ آپ ؓ انکا ر نہ کر سکے مسجد نبوی ﷺ کی چھت پر چڑھے اور آذا ن شروع کی اہلِ مدینہ نے لحنِ بلالی ؓ سنا تو پوری فضا حشر ِ ساماں ہو گئی رسول کریم ﷺ کا عہد مبار ک یا د آگیا۔ہر شخص غم سے نڈھال تھا خواتین روتی تھیں اور بچے دریافت کرتے تھے بلال ؓ تو آگئے ہیں رسول کریم ﷺ کب تشریف لائیں گے ۔ دوران آذان جب حضرت بلال ؓ نے روضہ اقدس کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے اشہد ان محمد ارسول اللّٰہ کہا تو پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے نکل آئیں روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں ایسا لگ رہا تھا گویا ہادی حق ﷺ نے آج ہی وصال فرمایا ہے سرور دو عالم ﷺ کی رحلت کے بعد مدینہ میں ایسا دلدوز اور پر اثر منظر آج تک دیکھنے میں نہیں آیا ۔حضرت بلال ؓ کو حضور اکرم نظر نہ آئے تو غم ِ ہجر میں بے ہوش ہو کر گر پڑے اور جب ہوش آیا تو روتے روتے واپس شام لوٹ گئے باقی ساری زندگی آپؓ غمِ فراق محبوب سے نڈھال رہے ہر لمحہ آتش ِ ہجر میں جلتے رہتے موت وقت قریب آیا تو آپ ؓ کی اہلیہ محترمہ بولیں ہائے افسوس تو آپ ؓ بولے یہ تو خوشی کو موقع ہے میری اپنے محبوب ﷺ سے ملاقات ہوگی سفر آخرت کے وقت ساٹھ برس لے لگ بھگ عمر تھی دمشق میں اُن کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے حضرت عمر فاروق ؓ کو جب بلال ؓ کی وفات کی خبر پہنچی تو روتے روتے نڈھال ہو گئے بار بار فرماتے تھے آہ ہمارا سردار بلال ؓ بھی ہمیں داغِ جدائی دے گیا۔

loading...