جمعہ، 16 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (18)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (18)بوڑھا آسمان جو روزِ اول سے بے شمار غیر معمولی نظاروں کا چشم دید گواہ ہے اُس نے آج تک ایسا منظر نہ دیکھا تھا کہ نسلِ انسانی کے سب سے عظیم انسان ‘ محبوب خدا‘ وجہ تخلیق کائنات ‘رحمتِ دو عالم ‘مجسمِ رحمت ‘سرور کونین ‘تاجدار ِ انبیاء ‘فکرِ دوعالم ﷺ منٰی کے مقام پر مشرکین کو دعوت ِ حق دے رہے ہیں کفارِ مکہ پر یہ پیغام ِ حق گراں گزر رہا تھا۔ کچھ ظالموں نے پیغامِ حق سننے کی بجائے مذاق اڑانا شروع کر دیا اور کچھ جہنمیوں نے آپ ﷺ کے جسم اقدس پر پتھر برسانا شروع کر دیے ۔ چشمِ فلک حیرت سے یہ منظر دیکھ رہی تھی کہ لوگ رحمتِ مجسم ﷺ پر پتھر برسا رہے ہیں اور شہنشاہِ دو عالم ﷺ ظالموں کو دعائیں دے رہے ہیں ‘ظالموں کی عقلوں پر پردے پڑ چکے تھے وہ پتھر برسا رہے تھے ‘تاجدار ِ دو عالم ﷺ زخموں سے چور ہو جاتے ہیں ‘جسمِ اطہر مبارک زخمی ہو جاتا ہے کہ اچانک ایک معصوم پاک باز بچی شدید پریشانی کے عالم میں دیوانہ وار عالم اضطراب میں بھاگی ہوئی آتی ہیں ا،س دوران اُس پاکیزہ مصوم مقدس بچی کا دوپٹہ سر سے ڈھلک کر کندھوں پر آجاتا ہے بچی کے ایک ہاتھ میں پانی اور دوسرے ہاتھ میں رومال تھا یہ پاکیزہ بچی دیوانہ وار نبی کریم ﷺ سے چمٹ جاتی ہے اپنے ننھے منے پیارے پیارے ہاتھوں سے رحمت ِ دو جہاں ﷺکو پانی پلاتی ہے اور رومال سے تاجدار انبیاء ﷺ کے جسم اطہر مبارک کے زخموں سے خون صاف کرتی ہے اِس دوران معصوم بچی کی آنکھوں سے شدت ِ کرب اور غم سے آنسوؤں کی برسات جاری ہوتی ہے ‘کسی نے پوچھا یہ بچی کون ہے تو جواب آیا زینب بنت ِ محمد ﷺ نورِ مجسم رحمتِ عالم عالمیاں ﷺ نے جب اپنی معصوم بیٹی کو پریشان و بے قرار اور مضطرب دیکھا تو سینے مبارک سے چمٹا لیا اور فرمایا زینب میری بچی اپنے سر کو ڈھانپ لے ‘سیدہ حضرت زینب ؓ کو شدید عالم پریشانی میں احساس تک نہ ہوا تھا کہ کب دوپٹہ مبارک سر اقدس سے ڈھلک کر دوش پر آگرا تھا فوراً دوپٹہ سے سر مبارک کو ڈھانپ لیا تو رحمتِ مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا میری پیاری بیٹی تو غم نہ کر اﷲ تعالی کے راستے میں بابا جان کی ہلاکت کا خوف نہ کر وہ میرا حامی و ناصر ہے ۔سیدہ حضرت زینب ؓ اپنی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں وہ جب بھی سنتی تھیں کفارِ مکہ نے محبوب ِ خدا فخرِ دو عالم ﷺ دونوں جہانوں کے مالک اِن کے والد اقدس کو اذیت یا کوفت پہنچائی ہے تو معصوم بیٹی کانازک و مطہر دل باپ کی محبت میں صدمہ سے پارہ پارہ ہو جاتا ۔اعلان ِ نبوت کے بعد جب ساقی کوثر ﷺ نے کفارِ مکہ کو پیغام ِ حق دیا تو صدیوں سے بتوں کے پجاریوں اور ظلم بربریت کے اندھیروں کے مسافروں نے رحمتِ دو جہاں ﷺ کو اذیت دینے کے لیے اپنے دانت تیز کر لیے اور طرح طرح کے ہولناک منصوبے بنانے شروع کر دیتے ۔رحمتِ دو جہاں ﷺجن راستوں سے گزرتے توراہوں میں کانٹے بچھا دیتے ‘آپ پر گندگی گرا دیتے ‘آوازیں کستے ‘لیکن کیا شان ہے رحمتِ دو جہاں ﷺ کی ان ظالموں کے لیے کبھی بھی بد دعا نہ کی ۔ان تکلیف دہ مراحل میں سرور کونین ﷺ کی جانثار بیٹی اکثر و بیشتر ہمراہ ہوتی تھیں اور اپنی ہمت و طاقت سے بڑھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت بجا لاتی تھیں۔ نبی کریم ﷺ اکثر اپنی بیٹی پر ہونے والے مظالم کا ذکر بہت دکھ سے کرتے تھے‘ ایک دن رحمتِ دو جہاں ﷺ محبوبِ خدا اپنے عشاق کے جھرمٹ میں جلوہ افروز تھے ‘عشاق بڑے ادب سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ فضا میں سناٹا اور ایسی خاموشی محیط تھی جس میں ان کی اپنے محبوب تاجدار ِ دو جہاں ﷺ سے محبت و عشق کی حسین قوس قزح رقص کناں تھی واہ‘ عشقِ رسول ﷺ کی سعادتوں اور حلاوتوں سے ہمکنار تھے سرور و مستی کا ماحول تھا عشاق منتظر تھے کہ اُن کے آقا و مولا ﷺ کی روح پرور دل پسند آواز مبارک ان کی سماعتوں میں رس گھولے ۔ تھوڑی دیر بعد محبوب خدا ﷺ راحت انس و جاں ﷺ نے اپنے لب لعلین مبارک کو جنبش دی اور ارشاد فرمایا۔ زینب ؓ میری بیٹیوں میں سب سے پیاری ہے جو میری محبت میں کافروں کے ہاتھوں سب سے زیادہ ستائی گئی ہے ۔
اعلانِ نبوت کے بعد جب مشرکین مکہ کے شدائد و مظالم کی انتہا ہو گئی رحمت دو جہاں ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی ۔ تو حضرت زینب ؓ غمِ جدائی میں سسکیاں بھر کر رونے لگیں ایک تو مشفق و محبت کرنے والے عظیم باپ سے جدائی کا غم اور دوسرا نبی کریم ﷺ سے دوری کا غم ان دونوں غموں نے حضرت زینب ؓ کو نڈھا ل کر دیا ۔حضرت زینب ؓ کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابو العاص سے ہوئی نبی کریم ﷺ کو جب منصب رسالت عطا ہوا تو حضرت خدیجہ ؓ اورآپ ﷺ کی صاحب زادیاں آپ ﷺ پر ایمان لائیں مگر ابو العاص شرک پر قائم رہا ۔ جنگ بدر میں مشرکین مکہ کے ساتھ ابو العاص بھی آئے اور گرفتار ہو گئے تو حضرت زینب ؓ نے ان کے بھائی کے ہاتھ مکہ سے فدیہ میں وہ ہار بھیجا جو حضرت خدیجہ ؓ نے حضرت زینب ؓ کو پہنا کر شادی کی تھی ۔
جب رحمت دو جہاں ﷺ نے یہ ہار دیکھا تو آپ ﷺ پر رقت طاری ہو گئی اور حضرت خدیجہ ؓ کا مبارک زمانہ یاد آگیا اور اپنی لاڈلی بیٹی زینب کی یاد بھی ۔ آقا کریم ﷺ کے ارشاد سے صحابہ ؓ نے فدیہ واپس کر دیا اور ابو العاص کو بھی چھوڑ دیا اور نبی کریم ﷺ نے ابو العاص سے وعدہ لیا کہ مکہ جاکر حضرت زینب ؓ کو مدینہ بھیج دیں گے۔ حضرت زینب ؓ کو لانے کے لیے سرور کونین ﷺ نے زید بن حارثہ ؓ کو بھیجا ۔ ابو العاص کو دیکھ کر حضرت زینب ؓ بہت خوش ہو ئیں لیکن ابو العاص تصویر غم بنے ہو ئے تھے ۔ہار واپس کیا اور کہا فدیہ میں تم کو مدینہ بھیجنا ہے تو حضرت زینب نے اپنے خاوند سے پوچھا آپ کے ساتھ اﷲ کے رسول ﷺ نے کیا سلوک تو ابو العاص بولے وہی جو ایک شریف اور کریم شخص کر تا ہے ۔ اِس کے با وجود آپ اپنے ابا و اجداد کے دین پر قائم رہیں گے تو ابو العاص خاموشی سے زمین کو دیکھنے لگے ۔ لیکن دل میں و ہ فیصلہ کر چکے تھے کہ وقت آنے پر وہ اسلام قبول کر لیں گے ۔حضرت زینب ؓ کی سفر کی تیاری مکمل ہو گئی تو اونٹ پر سوار ہو گئیں اورروانہ ہو گئیں کفا ر مکہ کو جب علم ہوا بنتِ محمد ﷺ کی تلاش میں ایک جماعت روانہ ہوئی اور جاکر اِس عظیم و مطہر مسافرہ کا راستہ روک لیا اور کہا واپس مکہ جاؤ ‘حضرت زینب ؓ کو روک کر وہ نبی کریم ﷺ کو ذہنی کوفت پہنچانا چاہتے تھے ۔حضرت سیدہ زینب ؓ نے اپنے والد ِ ماجد سے ملنے کو بے تاب و بے قرار تھیں بولیں میں واپس مکہ نہیں جاؤں گی‘ جب کفار نے دیکھا کہ حضرت زینب ؓ ہر حال میں مدینہ جانا چاہتی ہیں تو ظالموں میں سے ایک نے پتھر اٹھا کر کھینچ مارا جو سیدہ زینب ؓ کو پیٹ مبارک پر تووہ زخمی حالت میں اونٹ سے زمین پر گر گئیں ان دنوں حضرت زینب ؓ امید سے تھیں ۔ لہذا حمل ساقط ہو گیا ۔ ہشام خنجر تان کر آگے بڑھا تاکہ بنتِ رسول ﷺ کو قتل کر دے اِسی اثنا میں ابو العاص کا بھائی کنانہ آگے بڑھا اور پوزیشن سنبھال لی کہ اب اگر کسی نے حضرت زینب ؓ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو تیروں سے چھلنی کر دونگا سب اپنی جگہوں پر رک گئے تو ابو سفیان آگے بڑھا ابھی لڑائی بند کرو اگر تم اعلانیہ بنتِ محمد ؓ کو لے جاؤ گے تو لوگ اسے ہماری بذدلی اور کمزوری کہیں گے ہمیں محمد ﷺ کی بیٹی کو روکنے کی ضرورت نہیں اِس وقت تم واپس لوٹ چلو جب ہنگامہ ٹھنڈا ہو گا تو چوری چھپے چلے جانا۔چند دنوں بعد جب حضرت زینبؓ کی طبیعت سنبھلی تو ایک روز حضرت زینب ؓ ، زید بن حارثہؓ کے ساتھ مدینہ روانہ ہو گئیں جب زید بن حارثہ ؓ حضرت زینب ؓ کو لے کر بارگاہ ِ رسالت میں حاضر ہوئے تو اپنی لاڈلی بیٹی کو دیکھ کر شہنشاہِ دو عالم ﷺ کی چشمان ِ مبارک نم آلود ہو گئیں ۔ ہجرت مدینہ کے وقت جو زخم حضرت زینب ؓ کو لگا وہ بعد میں پھر دوبارہ ہرا ہو گیا اور یہ زخم جان لیوا ثابت ہوا اور اسی زخم کی وجہ سے حضرت زینب ؓ درجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (17)

عشقِ رسول ﷺ کے آسمان پر اربوں چاند ستارے روزِ اول سے روز ِمحشر تک اِسی طرح چمکتے دمکتے رہیں گے ۔اِن چاند ستاروں کی اپنی اپنی اہمیت اور نرالی ہی شان ہے لیکن اِن چاند ستاروں کے جھرمٹ میں ایک ایسا روشن چاند بھی ہے کہ اُس کے سامنے باقی سب کی چمک ماند پڑ جاتی ہے ۔ جو اعزاز اور مقام مرتبہ اِس روشن چاند کو ملا وہ اور کسی کے مقدر میں نہیں ہے کیونکہ سید الانبیاتاجدار ِ عرب و حجم افضل البشر رحمتہ للعالمین خاتم النبین و المرسلین نبی کریم ﷺ نے بار بار اِس عاشق ِ صادق کے عشق کا اعتراف اور بر ملا اظہار کیا ہے ساقی کوثر ﷺ نے کئی بار اِس چاند حضرت اویس قرنی ؓ کی مدح سرائی کی ہے ۔خالق ِ ارض و سما کی یہ کائنات پر اسرار بھیدوں اور رازوں سے بھری ہوئی ہے سرور کونین ﷺ ساری عمر حضرت اویس قرنی ؓ سے محبت کا اظہار کرتے رہے اور حضرت اویس قرنی ؓ بھی ہر لمحے عشقِ رسول ﷺ گزارتے رہے لیکن اﷲ تعالی کی بڑی حکمت کے تحت حضرت اویس قرنی ؓ کی آقائے دو جہاں ﷺسے ملاقات نہ ہو سکی حضرت اویس ؓ اپنی نابینا اورضعیفہ والدہ ماجدہ کی خدمت میں ہر وقت حاضر رہتے آپ ؓ ہمیشہ والدہ سے اجازت مانگا کرتے مگر وہ اجازت نہیں دیتیں تھیں بالآخر ایک دن آپ ؓکی والدہ نے آپ ؓ کو اِس شرط پر جانے کی اجازت دی کہ اگر نبی کریم ﷺ گھر پر موجود نہ ہوں تو رکنا نہیں واپس چلے آنا فخرِ دو عالم حضور پر نور ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرما دیا تھا کہ خاصانِ خدا میں سے ایک شخص ہمارے گھر آئے گا اگر اتفاقاً میں گھر پر موجود نہ ہوں تو اپس نیک مہمان کا بہت زیادہ احترام کرنا اور اُن کا حلیہ ضرور یا درکھنا کیونکہ اُن کا حلیہ اور زیارت کرنا سعادت کی بات ہے ماں نے جب دیوانے کو مدینہ جانے کی اجازت دی تو ننگے پاؤں چاک گریبان سوئے مدینہ بھاگ کھڑے ہوئے خوشی کا یہ عالم کہ پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو محبت سے درو دیوار کو بوسے دیتے اور راہ گیروں سے پوچھتے اے لوگو میرے محبوب آقائے دو عالم ﷺ کا گھر مبارک کدھر ہے عالم وارفتگی و عشق میں حجرہ حضرت عائشہ ؓپر پہنچے اور دردِ فراق میں ڈوبی آواز سے عرض کی میرے آقا ﷺ کدھر ہیں اُس وقت نبی کریم ﷺ گھر پر تشریف فرما نہیں تھے ہماری ماں حضرت عائشہ ؓ نے عزت و احترام کرتے ہوئے فرمایا آپ ؓ اندر تشریف لے آئیں تو عاشقِ رسول ﷺ نے فرمایا میں اندر نہیں آسکتا ماں سے آٹھ پہر کی اجازت لے کر آیا تھا چار پہر گزر گئے واپسی میں چار لگ جائیں گے اور الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے اب ہجر و فراق کے زخم اور بھی گہرے ہوگئے ۔حضرت اویس ؓ کے جانے کے تھوڑی دیر بعد محسنِ انسانیت محبوب خدا ﷺگھر تشریف لائے اور فرمایا عائشہ یہ نور کیسا ہے تو عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ قرن سے اِس حلیہ کا آپ ﷺ کا دیوانہ آیاتھا سلام کہہ کر واپس چلا گیا آقا ﷺ نے فرمایا یہ نور اویس ؓ کا ہے یہ وہی دیوانہ آیا ہو گا حضور ﷺ پر نور کی چشمان مبارک نم آلود ہو گئیں ۔آقا دو جہاں ﷺکے وصال کے بعد جب حضرت اویس قرنی ؓ کوآپ ﷺ کے روضہ مقدسہ کی زیارت کا شوق کا غلبہ چڑھا اور اُس وقت آپ ؓ کی والدہ ماجدہ بھی وفات پا چکیں تھیں تو آپ ؓ مدینہ منورہ تشریف لائے اور مسجد نبوی کے دروازے پر کھڑے ہو گئے تو لوگوں نے کہا یہ نبی کریم ﷺ کا مزار شریف ہے تو یہ سن کر آپ ؓ بے ہو ش ہو گئے جب ہوش آیا تو فرمایا مجھے اِس شہر سے باہر لے چلو کیونکہ جس زمین میں میرے آقا ﷺآسودہ خاک ہیں وہاں میر ا رہنا مناسب نہیں اِیسی مقدس و مطہر جگہ قدم رکھنا بے ادبی ہے ۔اِس عاشق کی شان دیکھیے جب سرور دو عالم ﷺ کے وصال کا زمانہ قریب آیا تو صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ آپ ﷺکے بعد آپ ﷺ کا جُبہ مبارک کس کو دیا جائے سرور دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا اویس قرنی ؓ کو ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں ایک دن رسول کریم ﷺ نے مجھ کو آواز دی اے عمرؓ میں بولا یا رسول اﷲ ﷺ میں حاضر ہوں جو حکم ہو بجا لانے کو تیار ہوں حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ آقا نبی کریم ﷺ مجھے کسی کام سے کہیں بھیجیں گے لیکن پیارے آقا ﷺ نے مجھ سے یوں فرمایا اے عمر ؓ میری امت میں ایک شخص ہو گا جس کا نام اویس ؓ ہو گا اگر تم اس سے ملو توتمھیں خدا کی یا د آئے گی تم جب بھی اُس سے ملنا تو اس کو میر ا سلام کہنا اور اُس سے اپنے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا کیونکہ وہ اﷲ کے نزدیک ایسا معزز ہے کہ اﷲ تعالی کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اﷲ تعالی اِس کی قسم کو سچ کر دیتا ہے۔حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد سنتے ہی میں نے اِس شخص کو تلاش کیا نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کا دور ختم ہوا میں مسلسل اِسی تلاش میں لگا رہا ۔ایک دن حضرت عمر ؓ کوفہ میں آئے اور خطبہ دیا اور کہا اہل نجد کھڑے ہو جاؤ وہ کھڑے ہو گئے پھر فرمایا تم میں کوئی قرن کا رہنے والا ہے تو قرن والوں کو امیر المومنین ؓ کے سامنے پیش کر دیا گیا حضرت عمر ؓ نے اویس قرنی ؓ کے بارے میں دریافت کیا تو زیادہ تر لوگوں نے انکا ر کیا لیکن ایک شخص بولا میں ایک دیوانے اور حقیر فقیر کو جانتا ہوں وہ لوگوں سے دور بھاگتا ہے وادی میں اونٹ چراتا ہے نہ آبادی میں آتا ہے اور نہ ہی کسی سے میل جول رکھتا ہے جب لوگ ہنستے ہیں تو وہ روتا ہے اور جب لوگ روتے ہیں تووہ ہنستا ہے یہ باتیں سنتے ہیں حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت علی ؓ اُس وادی کی طرف روانہ ہوئے جب یہ دونوں عظیم حضرات حضرت اویس قرنی ؓ کے پاس پہنچے تو وہ اُس وقت نماز میں مشغول تھے اور اونٹوں کی حفاظت ایک فرشتہ کر رہا تھا ۔حضرت اویس قرنی ؓ نے نماز ختم کی توحضرت عمر فاروق ؓ نے سلام کہا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر حضرت عمر ؓ نے نام پوچھا تو انہوں نے کہا عبداﷲ تو حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ ہم سب بھی اﷲ تعالی کے بندے ہیں اپنا خاص نام بتائیں تو حضرت اویس ؓ نے جواب دیا ’’اویس ‘‘ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا اپنا سیدھا ہاتھ دکھائیں جب حضرت اویس ؓ نے ہاتھ دکھایا تو حضرت عمر ؓ نے وہ نشانی موجود پائی جو نبی کریم ﷺ نے اشارہ کیا تھا حضرت عمر ؓ نے اُس نشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا رسول خدا ﷺ نے آپ ؓ کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا کہ میری امت کے لیے دعا کریں حضرت اویس قرنی ؓ بولے اچھا تو لاؤ اور مجھے رسول کریم ﷺ کا مرقع دو تاکہ میں دعا کروں حضرت عمر ؓ نے مرقع رسول ﷺ حضرت اویس قرنی ؓ کو کو دیا اور کہا اب اِس کو پہن کر دعا کریں ۔حضرت اویس قرنی ؓ نے کہا کہ صبر کریں ان سے دور جا کر مرقع کسی گوشہ میں رکھا اور پیشانی کو خاک پر رگڑ کر عرض کہ یا الہی جب تم تمام امت محمدی ﷺ کو نہ بخش دے گا اِس مرقع کو جو تیرے محبوب ﷺ نے مجھے بھیجا ہے نہیں پہنوں گا ۔ غیب سے آواز آئی میں کچھ امت کو بخش دیا لباس پہن لیں عرض کیا کہ جب تک تمام امت کو بخشوا نہیں لوں گا اِس وقت تک یہ لبا س نہیں پہنوں گا یہ تکرار بڑھتی چلتی گئی اور امت کی بخشش میں اضافہ ہو تا چلا گیا یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ آپ ؓ کے پاس آتے ہیں کہ آپ ؓ کیا کر رہے ہیں ۔ جب حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ قریب آئے تو بولے ہائے افسوس تم لوگ یہاں کیوں آگئے اگر نہ آتے تو میں جب تک ساری امت محمدی ﷺ کو بخشوا نہ لیتا یہ لباس نہ پہنتا ۔پھر حضرت اویس قرنی ؓ نے آقائے دو جہاں ﷺ کا لباس مبارک پہن لیا اور کہا اﷲ تعالی نے ربیعہ اور مِضر کی تعداد کے برابر امت محمدی ﷺ کو اِس لبا س شریف کی برکت سے بخش دیا ہے ۔

loading...