جمعہ، 16 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (20)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (20)ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ ؓ بیمار ہوئیں تو شیرِ خدا نے آپ ؓ سے فرمایا ۔ کچھ کھانے کو دِل کرتا ہے تو بتائیں سیدہ فاطمہ ؓ نے عرض کی کسی چیز کو دل نہیں کرتا لیکن حضرت علی ؓ نے جب بار بار اصرار کیا تو سیدہ فاطمہ ؓ جگر گوشہ رسول ﷺ نے عرض کی میرے بابا جان نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ ؓ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں ممکن ہے آپ ؓ اسے پورا نہ کر سکیں تو آپ ؓ کو رنج ہو اِس لیے میں کچھ نہیں کہتی ۔ لیکن جب حضرت علی ؓ نے بار بار کہا اور سیدہ فاطمہ ؓ کو قسم دی تو بی بی صاحبہ نے انار کا ذکر کیا ۔ حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے درمیان کبھی لڑائی نہ ہوئی اور دونوں نے خوشگوار زندگی بسر کی ۔ آپ ؓ بے پناہ عبادت گزار تھیں شب و روز بے شمار نمازیں پڑھا کرتی تھیں اپنے بابا جان کے ہمراہ 10ہجری میں آخری حج فرمایا ۔ سید کائنات ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جنت میں عورتوں کی سردار فاطمہ ؓ ہوں گی ۔آپ ؓ کی رضا سے خدا راضی ہوتا ہے جس نے آپ ؓ کو ایذا دی اس نے رسول ﷺ کو ایذا دی سرور کائنات ﷺ اپنی بیٹی سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے جب نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کا اعلان فرمایا تو اُس وقت سیدہ حضرت زینبؓ کی عمر مبارک دس سال ، سیدہ رقیہ ؓ کی عمر مبارک سات سال، سیدہ حضرت ام کلثوم ؓ کی عمر مبارک چھ سال اور حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کی عمر مبارک پانچ سال تھی ۔ یہ سب شہزادیاں اپنے بچپن کے سنہرے دور سے گزر رہیں تھیں ۔ جب بھی اپنے والد ماجد سے مشرکین مکہ کی زیادتیوں اور بد سلوکیوں کے متعلق کوئی بات سنتیں تو بے چین ہو جاتیں ۔
تاجدار انبیاء ﷺ کی تمام صاحبزادیاں ؓ عنفوان شباب میں ہی وصال بحق ہو گئیں بوقت وصال سیدہ حضرت زینبؓ کی عمر مبارک اکتیس سال‘ سیدہ حضرت رقیہ ؓ کی عمر بائیس سال ‘سیدہ حضرت ام کلثوم ؓ کی عمر مبارک اٹھائیس سال اور سیدہ فاطمہ ؓ کی عمر مبارک چھبیس سال تھی ۔حضرت فاطمہ ؓ کیونکہ سب سے چھوٹی تھیں اور زیادہ عرصہ بابا جان کے سایہ رحمت میں رہیں آپ چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھیں جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے فاطمہ ؓ میری جان کا ٹکڑا ہے سرور دو عالم ﷺ اکثر نمازفجر کے بعد سیدہ کے گھر جا کر آواز دیا کرتے تھے اور فرط مسرت سے فرمایا کرتے تھے کہ خدا نے تمھیں ہر طرح کی گندگی سے پاک کر دیا ہے ۔خدا کے نزدیک سیدہ فاطمہ ؓ کا بہت بڑا مقام تھا بار بار یہ دیکھا گیا کہ جب حضرت سیدہ ؓ نماز میں مشغول ہوتیں تو فرشتے ان کے بچوں کی نگہبانی کیا کرتے ‘جھولا جھلاتے اور جب آپ ؓ سو جاتیں یا قرآن مجید کی تلاوت فرماتیں تو فرشتے ان کی چکی پیسا کرتے آپ ؓ تھیں ہی بہت عظمت والی جب بچی تھیں تو تاجدار انبیاء ﷺ کے زخم دھویا کرتی تھیں اُنہیں حوصلہ دیا کرتیں تھیں ۔ جب لڑکی اور بیوی بنیں تو اپنے وقت کے سب سے بہادر شخص شیر خدا ؓ کو زرہ بکتر پہناتی تھیں اور جب خاتون اور ماں بنیں تو تاریخ عالم کے سب سے بڑے شہید کی پرورش کیا کرتی تھیں سیدہ فاطمہ ؓ جس نے زندگی سے معاشرے سے لوگوں سے عمر بھر کچھ نہیں مانگا نہ لیا بلکہ زندگی کے ہر دور میں صرف دیا ہی دیا ۔زمین اپنے محور پر گھومتی رہی دن رات میں ڈھلتے چلے گئے یہاں تک کہ تاجدار کائنات سیدہ فاطمہ ؓ کے بابا جان کا رفیق اعلی کی طرف جانے کا وقت آگیا۔جب بابا جان صاحب فراش ہوئے تو لاڈلی بیٹی کا دن رات کا چین ختم ہو گیا۔ سیدہ کے چہرہ مبارک پر اداسی اور غم کی پر چھائیوں نے ڈیرے ڈال لیے ۔ بات بات پر روپڑتیں رخساروں پر آنسوڈھلک آتے ۔ سید کائنات ﷺکو جب بیٹی کی حالت ِ غم کا پتہ چلا وصال سے ایک دن پہلے قبل سیدہ فاطمہ ؓ کو اپنے پاس بلایا اور کان میں کچھ فرمایا تو سیدہ فاطمہ ؓ پھوٹ پھوٹ کررونے لگیں ۔ رحمت مجسم ﷺ نے جب دیکھا کہ لاڈلی بیٹی کی حالت غیر اور غم سے نڈھال ہو گئی ہے اور آنسو ساون کی برسات کی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہے تو پھر قریب بلایا اور کان میں کوئی اور بات کی تو لاڈلی بیٹی فوری ہنس پڑیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے جب بعد میں وجہ پوچھی تو سیدہ فاطمہؓ نے فرمایا پہلی مرتبہ ابا جان ﷺ نے فرمایا میں اِس مرض سے اپنے خداکے پاس چلا جاؤں گا تو میں رونے لگی تو دوسری مرتبہ بابا جان ﷺ نے فرمایا میرے خاندان میں تم سب سے پہلے آکر مجھ سے ملو گی تو میں خوشی سے ہنس پڑی ۔وصال کے قریب جب نبی کریم ﷺ درد اور بیماری سے بار بار بے ہوش ہو جاتے تو سیدہ فاطمہ ؓ اپنے بابا جان ﷺ کی حالت دیکھ کر تڑپ جاتیں ‘جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا بے اختیار مبارک ہونٹوں سے نکلتا ہائے میرے باپ کی بے چینی سرور دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا تمھارا باپ آج کے بعد بے چین نہ ہو گا ۔ جب تاریخ عالم کی الم ناک ترین ساعت طلوع ہوتی اور محبوب خدا ﷺ اپنے رفیق اعلی کے پاس تشریف لے گئے تو لاڈلی بیٹی پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ‘عظیم ترین سایہ سر سے اُٹھ گیا‘ شدت کرب نے بے حال کر دیا آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا لاڈوں سے پلی بیٹی یتیم ہو گئی ۔حالت غم میں لبوں پر یہ الفاظ بکھر گئے یااتباہ یا اتباہ آپ ﷺ نے حق کے بلاوے کو قبول فرمایا آپ ﷺ نے جنت میں اقامت فرمائی و اتباہ آپ ﷺ کی رحلت کی خبر جبرائیل امین ؑ کو کون پہنچائے گا واہ اتباہ آپ ﷺ کے بعد وحی کس پر لائے گا اے اﷲ فاطمہ ؓ کی روح کو حضور اکرم ﷺ کی روح سے ملا دے ۔ اے اﷲ مجھے حضور اکر م ﷺ کا دیدا ر نصیب فرما اے اﷲ اپنے حبیب ﷺ کے ثواب سے دور نہ فرما اور روز قیامت حضور ﷺ کی شفاعت سے محروم نہ کرنا۔ جب عاشقان رسول رحمت دو جہاں ﷺ کی تدفین کے بعد فارغ ہوئے تو سیدہ فاطمہ ؓ نے حضرت انس ؓ سے پوچھا کیا تم کو رسول اﷲ ﷺ پر خاک ڈٖالتے اچھا معلوم ہوا یہ سننا تھا کہ صحابہ کرام دردِ فراق سے مثل ماہی بے آب تڑپ اٹھے ۔حضرت سیدہ ؓشادی کے بعد جب بھی اپنے بابا جان سے ملنے آتیں تو جدا گانہ رنگ اور چہرے مبارک پر خوشی کے رنگ بکھرے ہوتے لیکن آج بابا جان کے جانے کے بعد جب بی بی پاک ؓ تصویر غم بنی لرزاں و ترساں حجرہ حضرت عائشہ ؓ میں داخل ہوئیں تو ایک تا زہ تربت تھی جو آنکھوں کے سامنے تھی ضبط کا بندھ ٹوٹ گیا دیوانہ وار بڑھ کر مٹی مبارک کو اُٹھا کر آنکھوں سے لگا یا ۔آنکھوں سے ساون بھادوں کی طرح آنسوؤں کی برسات شروع ہو گئی بابا جان کی کمی شدت سے محسوس ہوئی اور مبارک لبوں پر یہ اشعار مچل گئے ۔
ترجمہ: جس نے ایک مرتبہ بھی خاک پائے احمد مجتبٰی ﷺ سونگھ لی تعجب کیا ہے اگر وہ ساری عمر کوئی اور خوشبو نہ سونگھے وہ مصائب جو مجھ پر ٹوٹے ہیں یہ مصیبتیں اگر دنوں پر ٹوٹتیں تو ایام راتوں میں تبدیل ہو جاتے ۔
بی بی سیدہ فاطمہؓ حسرت و محبت سے مزار اقدس کو آنسوؤں بھری آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں کہ اچانک آپؓ کے مبارک ہونٹوں پر فاطمہ بنتِ الاحجم ؓکے یہ اشعار آگئے ۔
ترجمہ : آپ ﷺ میرے لیے ایک ایسے پہاڑ تھے جس کے سائے میں میں پناہ گیر ہوتی تھی آپ ﷺ نے مجھے چلچلاتی دھوپ میں چلنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں عزت و عظمت کی حا مل تھی اور وسیع بیا بانوں کو بلا خوف تنہا طے کر جاتی تھی آپ ﷺ میری قوت اور پناہ گا ہ تھے آج میں اتنی بے کس بے سہارا ہو گئی ہوں کہ کمترین دشمن سے بچاؤ کے لیے بھی فکر مند ہوں اور ظالم سے محفوظ رہنے کے لیے میرے پاس کوئی ڈھال نہیں سوائے اپنے دست ناتواں کے جب قمری کے ٹہنی پر بین سنتی ہوں تو پکار اُٹھتی ہوں کہ ہائے یہ صبح کیسی غمناک ہے ۔

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (19)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (19)اعلانِ نبوت کے بعد ایک دن سرور کائنات ﷺ تاجدارِ انبیاء ﷺ حرم شریف میں نما ز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط اور کفار مکہ کے چند اوباشوں نے آکر اونٹ کی اوجڑی فخرِ دو عالم رحمتِ مجسم ﷺ جو حالتِ سجدہ میں تھے آپ ﷺ کی گردن مبارک پر ڈال دی اپنے اِس ظلم ِ عظیم پر نادم ہونے کی بجائے خوشی اور مذاق اڑانے کے انداز میں تالیاں بجانی شروع کر دیں ۔ ظالم قہقے لگاتے اور ایک دوسرے پر گرتے پڑتے تھے کسی نے اِس ظلم عظیم کو دیکھا تو آستانہ رسولؐ پر جا کر اِس واقع کی اطلاع دی تو جوش محبت میں سرور کائنات ﷺ کی بیٹی جن کی عمر مبارک اس وقت زیادہ نہ تھی دوڑتی ہوئی آئیں اور جوش و محبت میں جلد ی جلدی اوجڑی کو ہٹایا اِس دوران معصومہ بیٹی کی آنکھوں میں آنسو تھے ایک تو وہ اپنے والد ماجد کے کپڑوں کو صاف کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ وہ عقبہ اور اُس کے ساتھیوں کو بد دعائیں بھی دے رہی تھیں جنہوں نے اُن کے والد گرامی کو تکلیف دی تھی ۔
ایک دن سرور دو عالم ﷺ مکہ کی گلی میں تشریف لے جا رہے تھے کہ کسی ظالم بد بخت نے مکان کی چھت سے رحمتِ دو عالم ﷺ کے اوپر گندگی پھینک دی ، سرور کائنات ﷺجب اسی حالت میں گھر تشریف لے گئے تو معصوم ننھی بیٹی تڑپ اٹھیں والد ماجد کے جسم اطہر کو دیکھ کر بے اختیار آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے فوری طور پر اپنے والد ماجد کے سر مبارک اور جسم اطہر کو اپنے ننھے منے ہاتھوں سے صاف کرتیں گرم پانی سے دھوتی جاتیں اور روتی جاتیں اور فرماتیں ابا جان آپ لوگوں کو دین حق کی دعوت دیتے ہیں سیدھا راستہ دکھاتے ہیں خدا کی طرف بلاتے ہیں اور یہ ظالم لوگ آپ ﷺ کو تنگ کرتے ہیں ۔بیٹی کی محبت دیکھ کر محبوب خدا رحمتِ دو عالم ﷺ فرماتے میری جان میرے جگر کے ٹکڑے حق کی مخالفت گمراہوں کا شیوہ ہے ربِ ذولجلال کا پیغام واحدانیت بہر حال پہنچانا ہے ۔ رحمتِ دو عالم ﷺ دعوت ِ حق کے سلسلے میں سارے دن کے بعد جب تھکے ہارے گھر تشریف لاتے تو بیٹی آپ ﷺ کا دستار مبارک کھول کر بالوں میں تیل لگاتیں کنگھی کرتیں پانی پلاتیں اپنے بابا جان کا دکھ بٹانے کی کوشش کرتیں اور بھیگی ہوئی آواز میں بابا جان کو دلاسا دیتیں اور فرماتیں بابا جان آپ ﷺ فکر نہ کریں ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے ۔دعوت حق کے لیے جب بھی سرور کائنات ﷺ گھر سے نکلنے لگتے تو لاڈلی معصوم بیٹی اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے بابا جان کی انگلی پکڑ کر ساتھ جانے کی ضد کرتیں محبوب خدا ﷺ شفقت اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے اور فرماتے جانِ پدر یہ خواہش کیوں تو بیٹی آنسو بھری آنکھوں سے بابا جان کو دیکھتیں اور فرماتی بابا جان مجھے خطر ہ ہے کہ کہیں آپ ﷺ کو اکیلا دیکھ کر کفارِ مکہ آپ ﷺ کو نقصا ن نہ پہنچادیں ۔
سرور کونین ﷺکے راستے میں اکثر کفارِ مکہ آپ ﷺ کو اذیت پہنچانے کے لیے کانٹے بچھا دیتے اور جب یہ کانٹے پاؤں مبارک میں چبھ جاتے اور گھر جاتے اور گھر رحمتِ دو جہاں ﷺاُن کانٹوں کو نکالنے کی کوشش کرتے تو معصوم بیٹی دیوانہ وار دوڑ کر آتیں بابا جان کے پاؤں مبارک پکڑ کر اپنی ننھی انگلیوں سے کانٹے چنتی جاتیں اور سسکیاں بھرتی جاتیں ایک دن والدہ ماجدہ کسی شادی میں جانے کے لیے تیار ہوئیں اور کپڑے پہننے لگیں تو پتہ چلا کہ جناب سیدہ بیٹی کے لیے کپڑے نہیں ہیں تو عظیم بیٹی بولیں مادرِ گرامی میں پرانے کپڑوں میں ہی چلوں گی کیونکہ بابا جان فرماتے ہیں کہ مسلمان لڑکیوں کا بہترین زیور حیات ِ تقوی ہے اور بہترین آرائش شرم و حیا ہے ۔
بیٹی کو تقریباً پانچ سال ماں کی آغوش میں تر بیت نصیب رہی جب والدہ ماجدہ بیمار ہوئیں تو ننھی بیٹی شب و روز ماں کی تیمار داری میں لگی رہیں اور ماں کے چہرہ مبارک پر نظریں ماں کو دیکھتی رہتیں ۔ ماں صحت مند ہوتیں تو بیٹی کے چہرہ مبارک پر خوشی کا نور پھیل جاتا ماں بیمار ہوتیں تو بیٹی بھی رنجیدہ اور غمگین ہو جاتیں ۔ ایک دن ماں نے بیٹی کو اپنے سینے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں بیٹی نے پوچھا اماں جان آج آپ ؓ کیوں رو رہی ہیں تو عظیم ماں بولی بیٹی میں جلدی تم سے رخصت ہو جاؤں گی افسوس تجھے دلہن بننے نہ دیکھ سکوں گی آخر ماں اپنی بیٹی کو بچپن میں ہی چھوڑ کر اﷲ کے پاس چلی گئیں ۔ یہ بیٹی نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان تاجدار ِ انبیا ء ﷺ کی بیٹی فاطمہؓ بنتِ محمد ﷺتھیں جو نبیوں کے سردار ﷺ کی بیٹی اولیاء کے سردار ؓ کی بیوی اور شہداء کے سردار ؓ کی ماں ۔ جب بھی آپ ؓ بابا جان کے پاس آتیں تو رحمتِ دو جہاں ﷺ احترام شفقت سے کھڑے ہو جاتے اور جب بابا جان اپنی بیٹی فاطمہ ؓ کے گھر جاتے تو فاطمہ ؓ تعظیم سے کھڑی ہو جاتیں ۔باپ بیٹی میں کمال کی محبت اور انسیت تھی بیٹی کی رخصتی کے بعد بھی کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب آپ ﷺ نے لختِ جگر بیٹی کا دیدار نہ کیا ہو نبی کریم ﷺ کوشش کر کے اُس راستے سے گزرتے جس پر حضرت علی ؓ کا گھر تھا اور اگر کبھی حضرت فاطمہ ؓ کی طبیعت ناساز ہوتی تو رحمتِ دو جہاں ﷺ بھی بے چین ہا جاتے ۔ غزوہ بدر کی شکست کے بعد مشرکین مکہ نے انتقام کی جنگ کی آگ میدان احد میں روشن کی اِس غزوہ میں دیگر خواتین کے ساتھ سیدہ فاطمہ ؓ بھی شریک ہوئیں اِس جنگ میں جب سرور دو عالم ﷺ کے دانت مبارک شہید ہوئے اور جسم اقدس پر بھی زخم آئے اور جب بیٹی سیدہ فاطمہ ؓ کو خبر ملی تو برق رفتاری سے دیوانہ وار آئیں زخم صاف کئے پانی پلایا اور ٹاٹ کا ٹکڑا جلا کر زخموں پر لگا یا شادی کے بعد حضرت علی ؓ کے گھر میں قدم رکھتے ہی سارے گھر کا کام سنبھال لیا آپ ؓ نے حضرت علی ؓ کے گھر جس نظامِ زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں اور آج کی عورت کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہے آپ ؓ کے گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتیں جھاڑودینا، کھانا پکانا ، چرخہ کا تنا ، چکی پیسنا کنویں سے پانی لانا جانوروں کو چارہ ڈالنا برتن دھونا کپڑے سینا کھجوریں صاف کرنا حضرت علی ؓ کے ہتھیا ر تیز کرنا اور غربت میں بھی حسن ؓ اور حسین ؓ کو بنا سنوار کر اِس شان سے گھر سے باہر بھیجنا کہ یوں محسوس ہو تا تھا کہ کسی بہت بڑے رئیس کے بیٹے ہیں۔ عورتوں ک اصل جو ہر اور کمال خاوند کی خدمت اور امور خانہ داری میں اعلی مہارت حاصل کرنا ہے سیدہ فاطمہ نے ایسی خدمت کی کہ تاریخ میں ایسی دوسری مثال نہیں ہے ۔ ہر تکلیف اور مشکل میں فرمانبرداری پر نظر رکھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح رسول کریم ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کی موجودگی میں دوسرانکاح نہ کیا اِسی طرح حضرت علی ؓ نے بھی سیدہ فاطمہ ؓ کیموجودگی میں دوسرا عقد نہیں کیا۔امور خانہ داری کی ساری ذمہ داریاں حضرت سیدہ ؓ کے کندھوں پر تھیں ۔ 7 ؁ہجری تک آپ ؓ کے پاس کوئی کنیز نہ تھی ۔ لہذا سارا کام خود کرتیں کنیز فضہ ؓ کے آنے کے بعد کام تقسیم کر لیا بلکہ باری باندھ لی ایک دفعہ سیدہ کائنات سیدہ فاطمہ ؓ کے بابا خانہ سیدہ ؓ میں تشریف لائے تو دیکھا کہ سیدہ ؓ گود میں بچے لیے چکی پیس رہی ہیں فرمایا، بیٹی ایک کام فضہ ؓ کے حوالے کر دو تو سیدہ ؓ نے عرض کی بابا جان آج فضہ کی باری نہیں ہے ۔ سیدہ فاطمہ ؓ فرماتی تھیں کہ عورتوں کی معراج پردہ داری ہے آپ ؓ ساری عمر خود بھی اِس پر عامل رہیں پرداداری میں اتنی سختی کرتیں کہ مسجد رسول ﷺ سے بلکل متصل قیام رکھنے اور مسجد کے اندر گھر کا دروازہ ہونے کے باوجود کبھی اپنے بابا جان کے پیچھے نماز با جماعت میں شرکت نہ کرتیں ایک بار فخرِ دو عالم شہنشاہِ کائنات ﷺ شافع محشر نے منبر پر یہ سوال پیش فرمادیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر چیز کیا ہے جب یہ بات سیدہ فاطمہ ؓ تک پہنچی تو آپ ؓ نے جواب دیا عورت کے لیے سب سے بہترین بات یہ ہے کہ نہ تو اُس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی اُس پر پڑے رسول اﷲ ﷺ کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہ ہو فاطمہ ؓ میرا ہی ایک جزوہے ۔ پوری انسانی تاریخ میں یہ مقام صرف اور صرف حضرت فاطمہ ؓ کو حاصل ہے کہ بڑے سے بڑا گنہگار سیاہ کار فاسق اور فاجر ہر در سے ٹھکرایا ہوا شخص جب دونفل پڑھ کر خاتونِ جنت ؓ سے شہنشاہِ دو عالم ﷺ کے حضور سفارش کی درخواست پیش کرتا ہے تو آپ ؓ کے وسیلے سے مانگی ہوئی ہر دعا قبول ہوتی ہے ۔

loading...