ہفتہ، 17 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (22)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (22)حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن ساقی کوثر رحمتِ دو عالم حضرت محمد ﷺ نے مُجھے تھوڑا سا بھُنا ہوا گوشت دیا اور فرمایا کہ اِسے عثمان ؓ کے گھر دے آؤ میں وہاں گیا تو دیکھا کہ حضرت عثمان ؓ اور حضرت رقیہ ؓ ایک ہی چٹائی پر بیٹھے ہیں یہ دونوں میا ں بیوی اِس قدر حسین تھے کہ میں کبھی ایک کو دیکھتا اور کبھی دوسرے کو پھر جب واپس آیا تو سرور کائنات ﷺ نے مُجھ سے پوچھا کہ کیا تم اندر گئے تھے میں نے عرض کیا کہ جی ہاں یارسول اﷲ ﷺ اِس پر محبوب ِ خدا مالکِ دو جہاں ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم نے اِن دونوں میاں بیوی سے اچھا کوئی اور جوڑا بھی دنیا میں دیکھا ہے میں نے عرض کی جی نہیں یا رسول اﷲ ﷺ ۔ 
حضرت رقیہ ؓ شافع محشر فخرِ دو عالم کی دوسری صاحبزادی تھیں آپ ؓ حضرت زینبؓ سے تین برس چھوٹی تھیں ۔ آپ ؓ کی ولادت نبوت سے پہلے ہوئی اُس وقت محبوب ِ خدا ﷺ کی عمر مبارک 33برس تھی۔ جب حضرت رقیہ ؓ کی عمر سات سال ہوئی تو خالقِ ارض و سما نے ان کے والد محترم کو اپنے مقرب فرشتے ھضرت جبرائیل ؑ کے ذریعے نبی آخر الزمان ہونے کی خوشخبری سنائی تو نبی کریم ﷺ نے اس بات کا ذکر اپنی ہمدرد اور محبوب بیوی سے کیا تو وہ فوراً اپنے شوہر نا مدار رسول کریم ﷺ کی نبوت پر ایمان کے آئیں ۔ اِس موقع پر آپ ﷺ کی صاحبزادیاں بھی آپ ﷺ کے ہم رکاب تھیں حضرت رقیہ ؓ نے بھی اسلام قبول کر لیا ۔ ظہور ِ اسلام سے قبل اس دور کے دستور کے مطابق سرور کائنات ﷺ نے حضرت رقیہ ؓ اور اپنی تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم ؓ کا نکاح اپنے چچا ابو لہب کے دو بیٹوں بالترتیب عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ کر دیا ۔ یہ کم سنی کا نکاح تھا جب کہ رخصتی ابھی نہیں ہوئی تھی ۔ جب نبی کریم ﷺ نے کھل کر دعوت ِ اسلام دی تو دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کو مصائب و آلام کے بھنور میں پھنسانا شروع کر دیا ۔ ابو جہل اور ابو لہب مسلمانوں کو تنگ کرنے میں سب سے آگے تھے ۔ ابو لہب جہاں ظالم و جابر تھا وہاں اُس کی بیوی امِ جمیل نہایت زباں دراز اور جھگڑالو مغرور عورت تھی دونوں میاں بیوی نہایت مسلمانوں کے خلاف بغض اور عناد میں اندھے ہو چکے تھے ۔ ابو لہب کی بد دماغ بیوی نے اپنے شوہر پر زور دیا کہ رحمتِ دو عالم ﷺ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دیں لہذا ابو لہب نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ اگر تم نے محمد ﷺ بن عبداﷲ کی بیٹیوں کو طلاق نہ دی تو میں تمھیں منہ نہیں لگاو ں گا اور تمھارا چہرہ تک نہیں دیکھوں گا ۔ باپ کے کہنے پر ابو لہب کے بیٹوں نے حضرت رقیہ ؓ اور ام کلثوم ؓ کو طلاق دے دی ۔ حقیقت میں خدا کی ذات نہیں چاہتی تھی کہ مقدس و مطہر صاحبزادیاں دشمنان ِ اسلام کے گھر پہنچیں ۔ حضرت عثمان غنی ؓ نبی کریم ﷺ کی حقیقی پھوپھی زاد بہن اروٰی کے بیٹے تھے آپ ؓ اسلام قبول کر چکے تھے ۔ حضرت عثمان ؓ فطرتاً صالح پارسا دیانت دار اور راست باز انسان تھے ۔ جب رقیہ ؓ کو طلاق مل گئی تو حضرت عثمان ؓ نے نکاح کا پیغام بھیجا جسے رحمتِ دو جہاں ﷺ نے بصد مسرت منظور فرما لیا ۔ حضرت عثمان ؓ اور حضرت رقیہ ؓ کا نکاح ہجرت مدینہ منورہ سے پہلے ہوا ۔حضرت عثمان ؓ کے لیے یہ بہت بڑی سعادت مندی تھی کہ انہیں محبوب رب العالمین ﷺ کی دامادی کا شرف حاصل ہوا ۔ حضرت رقیہ ؓ جہاں حسب و نسب کے حوالہ سے ارفع اور سیرت وکردار کی رو سے اعلیٰ صفات کی مالک تھیں وہاں رب تعالی نے اُنہیں حُسن و جمال کے وصف سے بھی خوب نوازا تھا ۔ 
جب حضرت عثمان ؓ اور حضرت رقیہ ؓ کی شادی مبارک تکمیل پزیر ہوئی اور مکہ کی عورتیں شادی شدہ جوڑے کو دیکھنے آتیں تو سب کے منہ سے بے اختیار نکلا ترجمہ: انسان نے جو حسین ترین جوڑا دیکھا ہے وہ رقیہ ؓ اور ان کے شوہر عثمان ؓ ہیں ۔ شادی کے بعد حضرت عثمان ؓ اور حضرت رقیہ ؓ مکہ مکرمہ میں ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے ۔ دونوں میاں بیوی میں محبت الفت اور انس بدرجہ اتم موجود تھا ۔ آپ ؓ مکہ میں خوشگوار زندگی گزار نا چاہتے تھے مگر مشرکین مکہ روز بروز عرصہ حیات تنگ کرتے جا رہے تھے مسلمانوں پر ظلم و ستم کو کوئی موقع اور بہانہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔ جب مشرکین مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے اور مسلمانوں کے لیے اپنے ہی گھروں میں رہنا مشکل ہو گیا تو شافع دو جہاں ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا بہتر ہوگا کہ اگر تم حبشہ چلے جاؤ وہاں ایک ایسا حکمران ہے جس کی سلطنت میں کسی پر ظلم نہیں ہو تا آپ ﷺ کے حکم پر گیارہ مردوں اور چار عورتوں کا ایک قافلہ حبشہ کی جانب روانہ ہو گیا سب سے پہلے نکلنے والے حضرت عثمان ؓ اور اُن کی زوجہ مطہرہ حضرت رقیہ ؓ بنتِ رسول ﷺ تھے ۔ شہنشاہ ِ دو عالم ﷺ کو جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کا قافلہ کشتیوں پر بیٹھ کر ساحل سمندر سے دور جا چکا ہے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا اے ابو بکر ؓ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوط ؑ کے بعد حضرت عثمان ؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی حضرت رقیہ ؓ کے ساتھ کفار کی ایذا رسانی کے باعث خدا کی راہ میں ہجرت کی ۔ ہجرت کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ حبشہ میں کسی نے یہ افواہ پھیلا دی کہ رسول کریم ﷺ کی قریش سے صلح ہو گئی ہے ۔ جب مسلمانوں نے یہ حبشہ میں یہ خبر سنی تو رسول کریم ﷺ کی محبت میں شدت آگئی اور یہ تمام مکہ واپس آگئے واپسی پر پتہ چلا کہ وہ تو محض افواہ تھی مکہ میں تو دشمنان ِاسلام کے مظالم کم ہونے کی بجائے شدید ہو چکے ہیں چنانچہ نبی کریم ﷺ نے دو بارہ مسلمانوں کوحبشہ ہجرت کر نے کی ہدایت فرمائی لہذا دوسری ہجرت میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت رقیہ ؓ کے ہمراہ ایک سو سے زیادہ افراد کا قافلہ حبشہ پہنچا ۔ اِس بار حضرت عثمان ؓ ا ور حضرت رقیہ ؓ نے حبشہ میں زیادہ عرصہ قیام کیا اِس دوران ربِ ذولجلال نے انہیں ایک لڑکا مرحمت فرمایا جس کا نام عبداﷲ رکھا گیا ۔ 
کچھ عرصہ بعد ہجرت ِ مدینہ کے وقت حضرت عثمان ؓ اور حضرت رقیہ ؓ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مکہ واپس آگئے ۔ لاڈلی بیٹی جب اپنے گھر پہنچیں تو اپنی بہنوں سے اپنی والدہ حضرت خدیجہ ؓ کے بارے میں پوچھا وہ خاموش رہیں دوسری بار پوچھنے پر حضرت امِ کلثوم ؓ نے سر جھکا لیا جب کہ حضرت فاطمہ ؓ زار و قطار رونے لگیں اب حضرت رقیہ ؓ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا ۔ وہ آنسو بہاتی ہوئیں والدہ محترمہ کی قبر مبارک پر تشریف لے گئیں ۔ اِس کے بعد رحمتِ دو جہاں ﷺ کے حکم پر ہجرت مدینہ کی یہ حضرت رقیہ ؓ کی تیسری ہجرت تھی ۔ مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت عثمان ؓ اور حضرت رقیہ ؓ شاندار ازدواجی زندگی گزارنے لگے مدینہ منورہ میں دو ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا ۔ تیاری کے دوران ہی حضرت رقیہ کو چیچک کی بیماری لاحق ہو گئی جو روز بروز بڑھتی جا رہی تھی رحمتِ دو عالم ﷺ نے حضرت عثمان ؓ سے فرمایا آپ ؓ رقیہ ؓ کی تیمار داری کے لیے مدینہ میں ہی قیام فرمائیں ۔نبی کریم ﷺ جنگ میں شرکت کے لیے چلے گئے ادہر حضرت رقیہ ؓ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور والد محترم کی غیر موجودگی میں ہی حضرت رقیہ ؓ کا انتقال ہو گیا ۔ آپ ؓ کے کفن دفن کی تیاری کی گئی ادھر غزوہ بدر میں مسلمانوں کو رب العزت نے شاندار فتح نصیب فرمائی ۔ جب مدینہ میں جنگِ بدر کی فتح کی بشارت پہنچی تو اُس وقت حضرت رقیہ ؓ کی قبر پر مٹی ڈالی جارہی تھی ۔ نبی کریم ﷺ کو خبر ملی تو بہت مغموم ہو ئے اور بیٹی کی یاد میں آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا چند دن بعد رحمتِ دو جہاں ﷺ مدینہ تشریف لائے فوری جنت البقیع تشریف لے گئے آپ ﷺکے ہمراہ لاڈلی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ بھی تھی جو اپنی پیاری بہن کی جدائی اورغم میں قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگیں تو بابا جان نے اپنی لاڈلی بیٹی کو تسلی دی حضرت رقیہ ؓ جب اس دنیا سے تشریف لے گئیں تو اُس وقت آپ ؓ کی عمر مبارک تقریباً بائیس سال تھی ۔ 

جمعہ، 16 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (21)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (21)جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ ؓ کو شادی کے بعد جو گھر ملا وہ مسجدِ نبوی سے قدرے دور تھا ۔ چونکہ لاڈلی بیٹی سے رحمت دو جہاں ﷺ کو بہت زیادہ محبت تھی اور بیٹی سے مل کر سرور کائنات ﷺ کوبہت زیادہ خوشی ملتی تھی اِس لیے اکثر اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹی ؓ کو دیکھنے بیٹی کے گھر تشریف لے جاتے ۔ اِس آمدورفت میں آپ ﷺ مسافت کی تکلیف محسوس کرتے ایک دن مالک دو جہاں نے اپنی بیٹی سے فرمایا ۔ بیٹی مجھے تمھاری محبت یہاں کھینچ لاتی ہے ۔ میں تمھیں دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ لیکن دور کی مسافت مجھے تنگ کرتی ہے ۔ میری یہ خواہش ہے کہ میں تمھیں اپنے قریب ہی گھر لے کر دوں تاکہ روزانہ تم سے ملاقات ہو سکے۔ فخرِ دوعالم ﷺ کے ایک جانثار صحابی حضرت حارثہ بن نعمان ؓ ایک امیر اور سخی انسان تھے آپ ؓ اپنے آقا سرورِ دو عالم ﷺ کے لیے مال و متاع کی قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے ۔ جب سے سرور دو جہاں ﷺ نے مدینہ منورہ کو رونق بخشی تھی حضرت حارثہ بن نعمان انصاری ؓ اپنے کئی مکانات آقا دو جہاں ﷺ کی نظر کر کے دین و دنیا کی فلاح و نجا ت کا سامان کر چکے تھے اور یہ مکانات رحمتِ دو جہاں ﷺ مستحق مہاجرین میں تقسیم کر چکے تھے ۔ حضرت فاطمہ ؓ باپ کی دوری بر داشت نہ کرتی تھیں بیٹی اپنے لاڈلے باپ سے مخاطب ہو ئیں کہ بابا جان آپ ﷺ کے جانثار صحابی حضرت حارثہ بن نعمان ؓ کے بہت سارے مکانات آپ ﷺ کے قرب و جوار میں ہیں آپ ﷺ اُن سے کہیں کہ وہ میرے لیے کوئی مکان فراہم کر دیں تاکہ میں آپ ﷺ کے قریب آسکوں رحمتِ مجسم ﷺ نے فرمایا بیٹی حارثؓ پہلے ہی کئی مکانات اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کی خوشنودی کی خاطر فی سبیل اﷲ دے چکا ہے اب مزید اُس سے مکان مانگنا مجھے اچھا نہیں لگتا ۔ اپنے بابا کی زبان مبارک سے نکلے یہ کلمات سن کر حضرت فاطمہ ؓ خاموش ہو گئیں اور انتظار کرنے لگیں کہ کب خالق ِ ارض و سما اپنی رحمت و برکت سے کوئی سبب بنا دے گا کہ وہ اپنے لاڈلے بابا جان ﷺکی خواہش کے مطابق مسجدِ نبوی کے قرب و جوار میں مکان حاصل کر کے رہائش پذیر ہو سکیں تاکہ کائنات کے عظیم ترین باپ اور بیٹی کے درمیان مسافت کی یہ دوری ختم ہو سکے ۔عاشقان مصطفے ﷺ ہر لمحہ اِس جستجو میں رہتے تھے کہ آقا کو کس طرح خوش اور فرماں برداری کی جا سکے اِس لیے وہ ہر لمحہ آپ ﷺ کے ارشادات اور خواہشات کی خبر رکھتے تھے ۔محبوب خدا ﷺ کی یہ خواہش کہ اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کو اپنے قریب لانا چاہتے ہیں مگر مکان دستیاب نہیں ہو رہا ۔ یہ بات چلتے چلتے حضرت حارثہ بن نعمان انصاریؓ تک پہنچی تو وہ یہ خبر سن کر بے چین و بے قرار ہو گئے ایک پل بھی قرار نہ آیا تو عالم اضطراب میں دوڑتے ہوئے شافع محشر رحمتِ دو جہاں ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی آقا ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان مجھے پتہ چلا کہ آپ ﷺ کو اپنے مکان کے قریب کسی ایسے مکان کی ضرورت ہے جس میں آپ ﷺ اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کو لاسکیں یا رسول اﷲ ﷺ آپ ﷺ جانتے ہیں مسجد نبوی اور آپ ﷺ کے گھر کے قریب میرے بہت سارے مکانات ہیں برا ئے مہربانی اُن گھروں میں سے جو آپ ﷺ کو اپنی لاڈلی بیٹی کے لیے پسند ہے قبول فرمائیں ۔ اﷲ کی قسم کو چیز آپ ﷺ کے پاس رہے گی وہ مجھے اُس چیز سے زیادہ محبوب ہو گی جو میرے پاس ہو گی رحمتِ دو جہاں ﷺ نے اپنے جاں نثا ر صحابی ؓ کی پیش کش قبول فرمائی اور اُن مکانات میں سے ایک قریبی مکان جو آپ ﷺ کے گھر کے قریب تھا لے کر حضرت فاطمہ ؓ کو دے دیا جس میں لاڈلی بیٹی رہائش پذیر ہو گئیں ۔ یوں ہادی کون و مکان رحمتِ دو جہاں ﷺ کو روز روز کی مسافت سے فراغت ملی ۔ اب آپ ﷺ جب چاہتے اپنی لاڈلی بیٹی عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور جب بیٹی کا دل کرتا تو وہ بھی اپنے بابا جان کا دیدار اور ملاقات کرنے کاشانہ رسول ﷺ پر تشریف لے آئیں ۔ طائر وقت تیزی سے پرواز کر تا رہا اور رحمتِ دو جہاں ﷺ مشیت ِ الہی کے تحت وصال فرما گئے اور رفیق ِ اعلی سے جا ملے بابا جان کی جدائی کا غم لاڈلی بیٹی کی روح میں پیوست ہو چکا تھا ۔ بابا جان کے جانے کے بعد آپ جتنا عرصہ حیات رہیں کبھی تبسم نہ فرمایا ۔ اکثر رسول ِ اکرم ﷺ کے روضہ مبارک پر تشریف لے جاتیں سلام پیش کرتیں پرانی یادیں تازہ کرتیں کہ بابا جان 
آپ ﷺ تو ایک پل مُجھ سے دور نہ ہوتے تھے اب اتنی دور کیوں چلے گئے حضرت فاطمہ ؓ گھنٹوں وہاں بیٹھ کر آنسو بہاتی رہتی تھیں جب اپنے گھر میں ہوتیں تو بابا جان کی قمیض مبارک نکال کر ہاتھوں میں لے کر روتی رہتی تھیں اُس کو پیار کرتی تھیں اُس کو بار بار چوم لیتی آنکھوں سے لگاتیں ایک دن بابا جان کی یاد اتنی شدت سے آئی اور ایسا حال طاری ہوا کہ جذبات ِ عشق و محبت نے اشعار کا قالب ڈھال کیا ترجمہ ۔ آسمان کے کنارے غبار آلودہ ہوئے آفتاب کی چمک ماند پڑ گئی اور زمانے تاریک ہوگئے نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد زمین غمگین ہو گئی اور شدت ِ غم سے بے قرار ہو کر کانپنے لگی ۔ 
زمین اپنے محور پر گھومتی رہی نبی کریم ﷺ کے وصال کو چھ ماہ گزر گئے ایک روز فاطمہ ؓ کو بابا جان کی یا داتنی شدت سے آئی کہ بہت زیادہ روئیں کہ صبح کی آذان کا وقت ہو گیا فضا میں اﷲ اکبر کی صدائے روح افزا بلند ہو ئی تو حضرت فاطمہ ؓ نے فجر ادا کی اور نیند نے غلبہ کیا تو عالم خواب میں ملائکہ نظر آئے یوں محسوس ہوا سیدہ فاطمہ ؓ کو ملائکہ اُڑا کر آسمان کی طرف لے جارہے ہوں یہاں تک کہ ایک حسین و جمیل خوبصورت مقام پر پہنچیں جہاں پر خوبصورت محلات حوریں اور غلمان تھے پوچھا یہ خوبصورت محلات کس کے ہیں تو ملائکہ نے جواب دیا آپ ؓ کے بابا جان ﷺ اور دوسرے انبیاء و صدیقین ؑ کے ہیں ۔ اِسی دوران بابا جان کو دیکھا جو نور کے تخت پر جلوہ افروز ہیں آپ ﷺ نے اپنی لختِ جگر کوپہلو میں بٹھا یا سر پر بوسہ دیا اور فرمایا جانِ پدر اِس دلنواز سفید محل کو دیکھو عرض کی ابا جان یہ کس کے ہیں ارشاد ہوا بیٹی تیرے ، تیرے شوہر اور تیرے بچوں کے لیے ۔ اور پھر سیدہ کی آنکھ کھل گئی ۔ اِ س خوا ب کے بعد بابا جان سے ملنے کی تڑپ بہت بڑھ گئی اور پھر عشق و محبت کی اعلی منازل طے کرتے ہوئے جب آپ ؓ کی عمر چھبیس سال تھی واصل بحق ہو ئیں اور اپنے خاندان میں سب سے پہلے لاڈلے بابا جان محبوب خدا سرورِ دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئیں ۔

loading...