ہفتہ، 17 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (24)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (24)مکہ سے تقریباً دو میل دور کوہِ حرا کے ایک غار میں نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان کائنات کے مشاہد اور اِس کے پیچھے کار فرما قدرت نا درہ پر غور فرما رہے تھے آپ ﷺ کو اپنی قوم کے شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بلکل اطمینان نہ تھے آپ ﷺ اپنی قوم کی جہالت پر بہت پریریشان تھے ۔ جب آپ ﷺ کے سامنے بے جان بتوں کی پرستش ہوتی تو بہت دل گرفتہ ہوتے ۔ معاشرے میں ظلم و فساد عام تھا صدیوں سے بے بس بے سہارا لوگ طاقتوروں کی زیادتیوں کی چکی میں پس رہے تھے ۔ بے حیائی بے شرمی اور بد اخلاقی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی لڑکیاں دفن کی جارہی تھیں طاقتور قبیلے کمزورقبیلوں کو محکوم بنائے جارہے تھے ۔ کسی کی جان و مال اور آبرو محفوظ نہ تھی ۔ ظلم و جبر اور پریشان کن حالات آپ ﷺ کی حساس طبیعت کے لیے نا قابلِ برداشت بوجھ ثابت ہو رہے تھے ظالمانہ نظام میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا تھا ۔ آپ ﷺ کو اصلاح کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی اِس گہرے سوچ بچار نے آپ ﷺ کی طبیعت کو خلوت گزینی کی طرف مائل کر دیا ۔ آپ ﷺ کی یہ تنہائی پسندی تھی درحقیقت اﷲ تعالی کے ماسڑ پلان کا حصہ تھی ۔ اِس طرح خالقِ ارض و سما آپ ﷺ کو آنے والے عظیم کام کے لیے تیار کر رہا تھا ۔ کیونکہ جس روح کے لیے بھی یہ مقرر ہو کہ وہ انسانی زندگی کے حقائق پر اثر انداز ہو کر ان کا رخ بدل ڈالے تو اس کے لیے یہ ضروری ہو تا ہے کہ وہ زمین کے مشاغل اور زندگی کے دستور اور لوگو ں کے چھوٹے چھوٹے غموں سے کٹ کر کچھ عرصہ الگ اور خلوت نشین رہے ۔ مشیتِ الٰہی نے اسی سنت کے مطابق روئے زمین کو بدلنے اور خطہ تاریخ کو موڑنے کے لیے تیار کرنا چاہا تو رسالت کی عظیم ذمہ داری سونپنے کے لیے تین سال پہلے آپ ﷺ کے لیے خلوت گزینی مقدر کر دی ۔ آپ ﷺ کو یہاں تشریف لائے ہوئے تیسرا سال تھا یہاں پر آپ ﷺ شبِ بیداری کر تے ۔ مسلسل روزے رکھتے کبھی کبھار غار سے نکل کر چہل قدمی بھی فرماتے اور پھر غار میں تشریف لے جاتے ۔ آپ ﷺ ستو اور پانی لے کر یہاں آتے یہ ایک مختصر سا غار تھا جس کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز ہے یہ نیچے سے گہرا نہیں ہے بلکہ ایک مختصر راستے کے بازو میں اوپر کی چٹانوں کے تاہم ملنے سے ایک کوتل کی شکل اختیار کئے ہوئے آپ ﷺ جب بھی یہاں تشریف لاتے تو اکثر آپ ﷺ کی محبوب اور خدمت گذار بیوی بھی ساتھ ہوتیں جب آپ ﷺ عبادت مراقبہ اور غور و فکر میں مشغول ہو جاتے تو وہ قریب ہی رہتی یا واپس گھر چلی جاتیں آپ ﷺ پورا رمضان یہاں ہی گزارتے آنے جانے والے مسافروں کو بھی کھانا کھلاتے ۔ آپ ﷺ کو یہاں آتے ہوئے تیسرا سال تھا تو اب اﷲ تعالی نے چاہا کہ روئے زمین کے با شندوں پر اس کی رحمت کا فیضان جاری ہو چنانچہ اس نے آپ ﷺ کو نبوت سے مشرف کیا اور اپنے فرشتے جبرائیل ؑ کو قرآن مجید کی چند آیات دے کر بھیجا ۔ یہ واقعہ رمضان المبارک کی ۲۱ تاریخ کو دو شنبہ کی رات پیش آیا اگست کی 10تاریخ اور سن 610عیسوی تھا آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال چھ مہینے بارہ دن تھی ۔ آپ ﷺ نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان محمد ﷺ بن عبداﷲ تھے ۔ تاریخ انسانی کا وہ اہم اور عظیم الشان واقعہ جس نے تقدیر عالم کا رخ بدل دیا ۔ نسل انسانی جو صدیوں سے ظلم و بربریت کی چکی میں پس رہی تھی اُس کی غلامی کا خاتمہ اور آزادی اور امن کا نیا دور شروع ہوا ۔ پہلی وحی کے نزول کی تفصیل جو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے خود رحمتِ مجسم کی زبان مبارک سے سن کر آپ ﷺ کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے وہ اِس طرح ہے ۔ ایک فرشتہ میرے پاس آیا اُس نے کہا پڑھو میں نے کہا کہ میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں اِس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر بھینچا یعنی دبایا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی پھر اُس نے مُجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو میں نے کہا میں تو پڑھا ہو انہیں ہوں اس نے دوبارہ پکڑ کر مجھے دبایا بھینچا اور میری قوت برداشت جواب دینے لگی اور مجھے چھوڑ دیا اور پھر کہا پڑھو میں پھر کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو فرشتے نے مجھے تیسری دفعہ پکڑ کر دبایا اور اتنا دبایا کہ وہ تھک گیا اور میری قوت برداشت جواب دینے لگی اور پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو (اے نبی ﷺ ) اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے کس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا انسان کو وہ علم دیاجسے وہ نہیں جانتا ۔ (سورہ علق آیت نمبر ۱تا ۵)۔تھوڑی دیر بعد رحمتِ دو عالم ﷺ اضطراب کے عالم میں بیدار ہو گئے تو آپ نے دل میں سوچا میں نے کیا دیکھا ۔ رحمتِ دو جہاں ﷺ حیران تھے کہ جو کچھ دیکھا اِس کا سبب کیا ہو سکتا ہے اور پھر آپ ﷺ اپنے گھر کی طرف چل پڑے بار بار دل میں ایک ہی سوا ل آرہا تھا کہ وہ کون تھا جس نے مجھے پڑھنے کو کہا ۔ آپ ﷺ اِنہیں خیالوں میں چلے جارہے تھے کہ اچانک ایک آوا ز آئی جیسے کوئی پکار رہا ہو ۔ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھا تو وہی فرشتہ انسانی شکل میں آپ ﷺ کو آوازیں دے رہا تھا ۔ آپ ﷺ رک گئے لیکن فرشتے کی طرف منہ موڑ لیا لیکن حیرت یہ تھی کہ آپ ﷺ جدھر بھی دیکھتے آپ ﷺ کو ادھر فرشتے کی شکل نظر آرہی تھی ساقی کوثر کبھی قدم آگے بڑھاتے کبھی پیچھے لیکن فرشتے کی شکل آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو رہی تھی ۔ کافی دیر تک آپ ﷺ پر یہ کیفیت طاری رہی ۔ اِسی دوران آپ ﷺ کی وفادار محبوب بیوی ؓ کی کنیز اُدھر آگئی جسے انہوں نے آپ ﷺ کی تلاش کے لیے پہاڑ پر بھیجا تھا ۔ اب فرشتہ روپوش ہو گیا تو آپ ﷺ گھر کی طرف چل پڑے ۔ اس واقعہ نے آپ ﷺ کی عجیب کیفیت کر دی تھی ۔ گھر پہنچے تو محبوب بیوی ؓ چشم براہ تھیں خاوند کی حالت دیکھ کر وجہ پو چھی توآپ ﷺ نے جو دیکھا وہ سب بتا دیا ۔ سب سن کر محبوب بیوی ؓ بولیں آپ ﷺ تا دیر سلامت رہیں اﷲ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ آپ ﷺ کو اِس امت کی پیغمبری کے منصب پر فائز کیا جائے گا اﷲ تعالی آپ ﷺ کے وقار میں فرق نہیں آنے دے گا ۔ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ صدق مقالی آپ ﷺ کا شیوہ ہے ۔ دوسروں کے لیے تکلیف برداشت کرنا آپ ﷺ کا شیواہ ہے ۔ مہمانوں کی خاطر مدارت کی راہ میں مصائب و آلام مردانہ وار برداشت کر تے ہیں محبوب خدمت گزار بیوی ؓ نے آپ ﷺ پر کمبل ڈال دیا کیونکہ آپ ﷺ بار بار کہہ رہے تھے مجھے چادر اوڑھا دہ مجھے چادر اوڑھا دو ۔ بیوی کی باتیں سن کر آپ ﷺ کو سکون ملا ۔ آپ ﷺ کی نیک سیرت اور خدمت گزار بیوی کا نام تھا حضرت خدیجہؓ بنت ِ خویلد تمام اہلِ ایمان کی وہ بزرگ ترین ماں جس نے فہم و فراست تد بُر حکمت ایثار و قربانی و فاشعاری خدمت و اطاعت سیلقہ شعاری وہ معاملہ فہمی محبت اور دل سوزی کے وہ روشن مینار قائم کئے کہ جن کی نورانی شعاؤں سے رہتی دنیا تک پوری انسانیت روشن رہے گی ۔اِس عظیم ترین ماں ؓ نے سیرت و کردار کی پاکیزگی حوصلہ مندی جرا ت و ہمت کی بدولت وہ مقام اور کردار ادا کیا ہے کہ پوری مسلم اُمہ آپ ؓ کی احسان مند ہے اب مسلمانوں کی ہر بیٹی فخر کے ساتھ سر بلند کر کے کہہ سکتی ہے کہ ہمارا تعلق اِس طبقے سے ہے جس کی امام اور سر خیال سیدہ طاہرہ خدیجہ الکبری ؓ ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہم ان کی روحانی بیٹیاں ہیں ۔

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (23)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (23)جنگِ بدر میں سرفروشانِ اسلام کو خالقِ ارض و سما نے عظیم ترین فتح سے ہمکنار کیا تھا اور یقینا یہ تاریخ انسانی کا اہم ترین واقع تھا یہ خوشی اور فتح کے دن تھے لیکن رحمتِ دو جہاں کے اہم ساتھی حضرت عثمان ؓ اور رحمتِ دو عالم ﷺ اِس عظیم فتح کے باوجود مغموم تھے ۔کیونکہ حضرت عثمانؓ کی نیک اور محبوب اور خوب سیرت لختِ جگر حضرت رقیہ ؓ جنگ بدر کے روز ہی اﷲ کو پیاری ہو گئیں تھیں ۔ سرور کائنات ﷺ ابھی مدینہ منورہ تشریف نہیں لائے تھے کہ آپ ﷺ کی نورنظر بیٹی کو لحد میں اتار دیا گیا اور یوں محسنِ عالم ﷺ اپنی بیٹی کی تدفین میں بھی شامل نہ ہو سکے ۔ حضرت عثمان غنی ؓ کو جہاں اپنی محبوب بیوی کے فوت ہونے کا شدید رنج تھا وہیں اِس سے بھی بڑھ کر یہ صدمہ کہ اب اُن کا سرتاج الانبیاء ﷺ سے دامادی کا رشتہ بھی ختم ہو چکا تھا نیز یہ کہ حضرت عثمان غنی ؓ کے صاحبزادے حضرت عبداﷲ ؓ کی دیکھ بھال کرنے والا گھر میں کوئی موجود نہیں تھا ۔ کیونکہ اُس وقت حضرت عثمان غنی ؓ کے نکاح میں کوئی دوسری عورت نہ تھی ۔ رحمتِ مجسم ﷺ سے حضرت عثمان ؓ کی اداسی دیکھی نہ گئی لہذا محسنِ انسانیت ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت امِ کلثوم ؓ کا نکاح حضرت عثمان ؓ سے کر کے انہیں لازوال فضیلت ذوالنورین کی دے دی ۔ محسنِ اعظم ﷺ کی تیسری بیٹی حضرت امِ کلثوم ؓ نبوت سے 6سال پہلے پیدا ہوئیں ۔ حضرت امِ کلثوم ؓ کا پہلا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتیبہ سے ہوا لیکن رخصتی نہیں ہو ئی تھی ۔ اعلان نبوت کے بعد محسنِ دو عالم ﷺ کو سخت تکلیف پہچانے کے لیے ابو لہب نے اپنے بیٹے کو زور دے کر کہا وہ حضرت امِ کلثوم ؓ کو طلاق دے دے جو امِ کلثوم ؓ کے لیے نیک شگون ثابت ہوئی ۔ ہجرت حبشہ کے وقت جب امِ کلثوم ؓ کی بہن حضرت رقیہ ؓ نے اپنے شوہر کے ساتھ تشریف لے گئیں تو حضرت امِ کلثوم ؓ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ اپنے بابا جان اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ ؓ کی محبت و شفقت کے سائے میں والدین کے گھر رہنے لگیں ۔ رحمتِ مجسم ﷺ جب تبلیغ ِ دین کے سلسلے میں گھر سے باہر جاتے تو امِ کلثوم ؓ کم سِن ہونے کے باوجود اپنے بابا جان کو ہمت اور حوصلے سے رخصت کر تیں اور جب ہادی عالم ﷺ کفار کی ایذا رسانیوں کے بعد گھر تشریف لاتے تو امِ کلثوم ؓ آگے بڑھ کر اپنے بابا جان کے غم اور دکھ کو اپنی مصوم باتوں سے دور کر دیتیں ۔ 
دشمنانِ مکہ کی روز بروز بڑھتی سختیوں اور مظالم سے تنگ آکر جب معلم انسانیت کو اپنے خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور ہو نا پڑا تو حضرت امِ ِ کلثوم ؓنے بھی اپنی عظیم ماں عظیم بہن حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ اپنے بابا جان کی معیت میں تمام سختیاں صبر و استقامت کے ساتھ بر داشت کیں تقریباً تین سال کی محصوری کے بعد 10نبوی کو یہ ظلم و جبر کا دور ختم ہوا تو خاندان رسول ﷺ نے اطمینان کا سانس لیا لیکن یہ اطمینان بھی عارضی ثابت ہوا جب اِسی سال رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں محسنِ انسانیت ﷺکی زوجہ مطہرہ اور حضرت امِ کلثوم ؓ کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ قضائے الہی سے انتقال کر گئیں ۔
حضرت امِ کلثوم ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کا بچپن سوگوار یت اور رنج کے سمندر میں ڈوب گیا ۔ تو آخر کار محسنِ دو عالم ﷺ نے اپنی لا ڈلی بچیوں کی تربیت کے لیے ایک سن رسیدہ خاتون ام المومنین حضرت سودہؓ سے نکاح کر لیا ۔ ام المومنین حضرت سودہ ؓ نے حضرت امِ کلثوم ؓ اور حضرت فاطمہ الزہرا ؓ کی پرورش اور تربیت انتہائی محبت اور خلوص سے شروع کی دشمنان اسلام کا ظلم و ستم جب حد سے بڑھ گیا رحمتِ مجسم ﷺ نے رضائے الہی سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ مسلمان رحمتِ دو جہاں ﷺکی سر کر دگی میں امن و سکون سے زندگی گزارنے لگے ۔ جنگ ِ بدر میں فتح کے دن حضرت عثمان غنی ؓ کی نیک بیوی حضرت رقیہ ؓ کا انتقا ل ہوا تو کچھ عرصہ بعد حضرت امِ کلثوم ؓ کا نکاح 3ہجری میں حضرت عثمان غنی ؓ سے ہوا ۔ حضرت عثمان غنی ؓ بلند اخلاق اور انتہائی سخی انسان تھے اُن کے نبی کریم ﷺ رشتہ داری اور مراسم شاندار تھے یہی وجہ تھی حضرت عثمان ؓ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے حضرت رقیہ ؓ اور حضرت امِ کلثوم ؓ زندہ رہیں تو حضرت عثمان ؓ کے ازدواجی تعلقات بہت خوشگوار تھے حضرت عثمان غنی ؓ اپنی اہلیہ کا بہت زیادہ احترام کرتے ان کی ہر خواہش کو پورا کرتے ۔ حضرت عثمان ؓ کو اﷲ تعالی نے مال و دولت کی فراوانی عطا کی تھی ۔ وہ اپنی مال و دولت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خوب خرچ کرتے اور اپنی اہلیہ کی خوراک اور لباس کے لیے بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے حضرت امِ کلثوم ؓ کو ئی چھ سال تک اپنے محبوب خاوند حضرت عثمان غنی ؓ کے نکاح میں رہیں اس دوران رحمتِ دو جہاں ﷺ مختلف غزوات و سرایا میں مصروف رہے اور حضرت عثمان غنی ؓ بھی اپنے مال و دولت اور اپنی جان کے ساتھ جہاد میں شریک رہے ۔ رب ذولجلال نے حضرت عثمان غنی ؓ کو حضرت امِ کلثوم ؓ کے بطن سے اولاد سے نہیں نوازا تھا ۔ خدائے بزرگ و برتر اپنی حکمتوں اور مصلحتوں سے خود ہی بہتر آگاہ ہے ۔ آخر 9ہجری میں شعبان کے مہینے میں حضرت ام کلثوم ؓ کا آخری وقت آگیا اور آپ ؓ نے جان جانِ آفرین کے سپرد کی حضرت امِ کلثوم ؓ کا انتقال ہو گیا تو حضرت عثمان غنی ؓ بہت اداس اور پریشان رہنے لگے کہ آپ ؓ کارشتہ دامادی رسول ﷺ ایک بار پھر ٹوٹ چکا تھا ۔ سرور دو جہاں ﷺ اپنی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کا نکاح پہلے ہی حضرت علی ؓ سے کر چکے تھے اِسی موقع پر رحمتِ دو عالم ﷺ نے حضرت عثمان غنی ؓ کی تسکین خاطر فرماتے ارشاد فرمایا ۔ اگر میرے پاس 10بیٹیاں ہو تیں تو میں عثمان ؓ کے نکاح میں دے دیتا ۔ حضرت امِ کلثوم ؓ کی وفات کے بعد غسل اور کفن کے انتظامات رحمتِ مجسم ﷺ نے خود فرمائے ۔ جب حضرت امِ کلثوم ؓ کا غسل اور کفن بمطابق شافع محشر ﷺ ہو چکا تو حضرت امِ کلثوم ؓ کے جنازہ کے لیے سردارالانبیاء ﷺ تشریف لائے اور خود نماز جنازہ پڑھائی بعد ازاں اپنی لاڈلی بیٹی لختِ جگر کی مغفرت کے لیے دیر تک دعائیں مانگتے رہے حضرت امِ کلثوم ؓ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا خادم نبوی ﷺ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ام کلثوم ؓ کے دفن کے موقع پر رحمتِ دو جہاں ﷺ کے آنسو فرطِ غم کی وجہ سے جاری تھے ۔ حضرت امِ کلثوم ؓ بابا جہاں رحمتِ دو عالم ﷺ کی وہ لاڈلی بیٹی تھیں جو اپنی معصوم محبت اور باتوں سے بابا جان کی ہر رنجیدگی دور کر دیتی تھیں ۔ آپ ؓ اپنی بڑی بہن حضرت رقیہ ؓ کے پہلو میں دفن ہوئیں آپ ؓ کی عمر مبارک صرف با ئیس برس تھی ۔ 

loading...