ہفتہ، 17 مارچ، 2018

فرشتوں کی حسرت

فرشتوں کی حسرتخوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں خالق ارض و سما کوئی ایک ایسا لمحہ ، چند گھڑیاں ،دن یا رات لاتا ہے کہ اُس کو قیامت تک امر کر دیتا ہے۔ربِ ذولجلال جب کسی پر اپنا کرم ِخاص فرماتے ہیں تو وہ گمنامی کے اندھیروں سے نکل کر شہرت و عظمت کی ایسی بلندیوں اور رفعتوں سے ہمکنار ہو جاتا ہے قیامت تک اُس کو ایسی لازوال شہرت ملتی ہے کہ جسے زمانے کی گرد یا دن رات کی کروٹیں بھی دھندلا نہیں پاتیں بلکہ گزرنے والا ہر لمحہ اُس کی شہرت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے ۔لازوال عظمت و شہرت کی ایسی ہی رات بُراق کے حصے میں بھی آئی جب وہ قیامت تک کے لیے امر و زندہ جاوید ہو گیا ۔
رحمتِ دو جہاں محبوب خدا ﷺ کو اِس سنگ و خشت کی دنیا میں آئے ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا تھا کہ آسمانوں اور جنت کو دلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا قدسی ملائکہ حیران تھے کہ کس کی آمد آمد ہے کہ رنگ و نور کا سیلاب آیا ہوا ہے ہر چیز کو پورے اہتمام سے سجایا جا رہا ہے ۔ہجرت مدینہ سے ایک سال پہلے کی بات ہے جب محبوب خدا سرور کائنات ﷺ ایک رات خواب استراحت فرما رہے تھے کہ رب کعبہ نے جبرائیل امین ؑکو مخاطب کیا اور حکم دیا کہ میں اپنے محبوب سے ملنے کا مشتاق ہوں جاؤ جنت میں براق کو لو اور میرے محبوب ﷺکو عزت و احترام سے میرے پاس لے آؤ جبرائیل امین ؑ نے حکم کی تعمیل کی اور چشم زدن میں وہاں پہنچ گئے بہشت کے مرغزاروں میں چالیس ہزار براق چر رہے تھے ہر براق کی پیشانی پر محمد ﷺ کا نام مبارک چمک رہا تھا ۔جبرائیل ؑ نے جب چاروں طرف نظر دوڑائی تو ایک ایسا براق نظر آیا جو سب سے الگ تھلگ غمگین افسردہ ایک کونے میں سر جھکائے آنسوؤں کے سمندر میں ڈوبا ہوا نظر آیا ۔اُسے کھانے پینے سے کوئی رغبت نظر نہیں آرہی تھی ۔ سید الملائکہؑ اُس کے پاس گئے او ر دریافت فرمایا یہ کیا حال کیا ہوا ہے تو اُداس براق نے عرض کی اے جبرائیل امین ؑ میں نے چالیس ہزار سال پہلے خدائے بزرگ و برتر کے محبوب محمد ﷺ کا نام سنا تھا ۔ اُس دن سے آج تک میں آپؐ ﷺ کے عشق میں مبتلا ہوں ۔ شوق دیدار اتنا بڑھ گیا ہے کہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہا ۔ جبرائیل امین ؑنے غمگین براق کی حالت زار دیکھی تو سرور دو جہاں ﷺکی سواری کے لیے اُسے منتخب کیا کیونکہ اُس میں عشق محمدی ﷺ بدر جداتم موجود تھا ۔ حالانکہ وہاں پر موجود باقی براق بھی شافع محشر ﷺ کے عشق میں مبتلا تھے جبرائیل ؑ نے براق سے کہا چلو تو براق بولا کدھر تو جبرائیل امین ؑ بولے جن کی محبت و عشق میں تم ہزاروں سال سے گرفتار ہو۔ براق کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا کیونکہ اُس کے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ اچانک ایک دن اپنے محبوب ﷺ کا قرب اور دیدار نصیب ہو گا ۔لیکن فخرِ دو عالم محبوب خدا ﷺ کی محبت رنگ لے آئی اور دونوں جہانوں کی نعمتوں سے زیادہ اور بڑی نعمت محبوب ِ خدا ﷺ کا دیدار اور قرب کا موقع ملا براق کی ہزاروں سالوں کی خواہش پوری ہونے جارہی تھی وہ خوشی سے دیوانہ وار جھوم رہا تھا ۔ ہفت املاک سے ماورا سدرۃ المنتہی تک محبوب خدا ﷺ کو براق رفتاری سے لے جانے کے لیے جس سواری کی ضرورت تھی وہ براق ہی ہو سکتا تھا براق گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک ایسا چمک دار جانور جو اپنا کھر اپنی نگاہ کے آخری مقام پر رکھتا ہے جبرائیل امین ؑ بمع براق جب بارگاہ ِ دو جہاں ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو شہنشاہِ دو عالم ﷺ آرام فرما رہے تھے ۔فرستادہ ربانی نے محبوب خدا ﷺ کے پاؤں مبارک کو اپنے کافوری لبوں سے بوسا دیا تو ان کے لمس سے آپ ﷺ نے سرمگیں آنکھوں کو وا کیا تو سامنے سیدالملائکہ ؑ ادباً کھڑے تھے ۔ آقا دو جہاں ﷺ کے بولنے سے پہلے ہی جبرائیل امین ؑ نے عرض کی اے مالک ِ دو جہاں ﷺ ربِ ودود کو آپ ﷺ سے ملاقات کا اشتیاق ہے ۔ جب سرتاج الا نبیاء ﷺ حضرت جبرائیل ؑ کے ہمراہ باہر تشریف تو سامنے دیوانہ مست براق کھڑا تھا ۔ آپ شہنشاہِ دو عالم ﷺ کے عشق اور شوق دیدار میں وہ چالیس ہزار سال سے مثل ماہی بے آب تڑپ رہا تھا ۔ محبوب خدا ﷺ کو دیکھ کر فرط جذبات عشق و محبت براق کی آنکھوں سے خوشی کے آنسوں ساون بھادوں کی طرح برسنے لگے ۔ محبوب خدا ﷺ جب براق پر سوا ر ہو نے لگے تو براق نے ہلکی سی شوخی دکھائی تو جبرائیل امین ؑ نے سرزنش کی اور کہا ۔ اے براق تو نہیں جانتا کہ تجھ پر کون سوار ہو رہا ہے اٹھارا ہزار عالم کے سردار تو براق نے عرض کیا اے وحی الہی کے امین اور جناب قدس کے ایلچی مجھے معاف فر مائیں میں حاجت مند ہوں اور محبوب خدا ﷺ سے ملتمس ہوں ۔ شہنشاہِ دو جہاں نے جب براق کی التجا سنی تو لب لعلین مبارک کو جنبش دی اور فرمایا بتاؤ تاکہ پورا کروں ۔ اے محبوب خدا سرور کائنات سرتاج الا نبیاء ﷺ آج رات میری زندگی کی عظیم ترین رات ہے ۔ میرے جسم کا رواں رواں حالت وجد اور سرشاری میں ہے۔ یہ میری زندگی کا عظیم ترین ساعتیں ہیں جو میں آپ ﷺ کے ساتھ گزاروں گا۔کل روزِ محشر جب فلک پیما ، عالم آراء برق آسا انگشت براق آپ ﷺ کی خدمت میں مامور ہوں گے تو ایسا نہ ہو کہ آپ ﷺ مجھ سے نظر فرما کر اُن کی طرف متوجہ ہوں اور مجھے بیکار چھوڑ دیں ۔ اے شہنشاہِ دو عالم ہادی کون و مکان ، وجہ تخلیق کائنات ، فخر دوعالم ، ساقی کوثر ﷺ مجھ میں اِس بات کی طاقت نہیں میری التجا قبول فرمائیے اور میری رکاب میں قدم مبارک رکھیں ۔ براق کا عشق اور فریاد سن کر مجسمِ رحمت ﷺگویا ہوئے مطمئن رہو روزِ قیامت تم پر ہی سواری کروں گا ۔براق کی صدیوں کی خواہش پوری ہو ئی دل و دماغ میں عشق و محبت کی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں ۔ فوراً ادب سے جھک گیا پھر شافع دو جہاں ﷺ براق پر سوار ہو ئے ۔ اور جبرائیل ؑ کی معیت میں بیت المقدس تشریف لائے اور جہاں پرانبیاء اپنی سواریاں باندھتے تھے اُس جگہ براق کو باندھا اور مسجد اقصٰی میں داخل ہو ئے یہاں پر دو رکعت نماز پڑھی اورانبیا ء کی امامت فر مائی یہاں پر حضرت جبرائیل ؑ آپ ﷺ کے بارگاہ مقدس میں تین برتن لائے ایک شراب کا دوسرا دودھ کا تیسرا شہد کا محبوب خدا ﷺ راحتِ انس و جاں ﷺ نے دودھ پسند فرمایا سیدالملائکہ نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ آپ ﷺ نے فطرت پائی آپ ﷺ کو ہدایت نصیب ہوئی اور آپ ﷺ کی امت کو بھی کیونکہ اگر آپ ﷺ نے شراب پسند فرمائی ہوتی تو آپ ﷺ کی امت گمراہ ہو جاتی اِس کے بعد مالک دو جہاں ﷺ کو بیت المقدس سے آسمان تک لے جایا گیا حضرت جبرائیل ؑ نے دروازہ کھلوایا آپ ﷺ کے لیے دروازہ کھولا گیا ۔
سنن ابو داود میں حدیث پاک ہے ۔سرور دو جہاں ، سرور کائنات ، رحمتِ مجسم ، رحمت للعالمین ، محبوب خدا ، آمنہ کے لال ، شہنشاہ ِ کائنات ، یتیموں کے والی بے سہاروں کا آسرا شافع محشر ، ساقی کوثر ﷺ فرماتے ہیں۔
میرے لیے آسمان کا ایک دروازہ کھولا گیا تو میں نے ایک عظیم الشان نور دیکھا اور حجاب کے پار موتی اور یاقوت کی مسند دکھائی دی ۔

حیدر ؓ کی للکار

حیدر ؓ کی للکارمیدان جنگ سر زمین عرب کے بہت بڑے جنگجو ، بہادر دیو قامت پہلوان عمرو بن عبدود کے نعروں اور للکار سے گونج رہا تھا عمرو بن عبدو جو ایک ہزار سواروں کے برابر مانا جا تا تھا ۔ اُس کو اپنی طاقت اور بہادر ی کا اتنا غرور تھا کہ غزوہ احزاب خندق کے دوران خندق عبور کر کے مسلمانوں کے سامنے آکر بار بار للکار رہا تھا ۔ اُس کی للکار سن کر تاریخ انسانی کے سب سے بڑے شجاع اور بہادر شیرِ خدا بار بار اُٹھ کر فخرِ دو عالم ﷺ سے اجازت طلب کر تے کہ یا رسول اﷲ ﷺ مجھے اجازت دیں میں اِس دیو ہیکل پہلوان کا غرور خاک میں ملاتا ہوں ۔ لیکن سرور کائناتﷺ نے شیرِ خدا ؓ کو بٹھا دیا ۔ لیکن جب عمرو بن عبدود نے دوبارہ مسلمانوں کو للکارا تو شیرِ خدا ؓ پھر مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے لیکن سرور دو عالم ﷺنے پھر آپ ؓ کو بٹھا دیا تیسری بار عمرو بن عبدود نے للکارا اور مغرور لہجے سے ملامت کرتے ہوئے کہنے لگا۔ تمھاری وہ جنت کہاں ہے جس کے متعلق تمھارا خیال ہے کہ تم قتل ہو کر اُس میں داخل ہو گے ۔ کیا تم مسلمان میرے مقابلے کے لیے کسی ایک انسان کو بھی نہیں لا سکتے اب ایک بار پھر شیرِ خدا نے بے تاب ہو کر عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ میں جانتا ہوں یہ عمرو بن عبدود ہے مجھے اِس سے مقابلے کے لیے جانے دیجیئے تو اب محبوب خدا نبی کریم ﷺ نے آپ ؓ کو اجازت دی اپنی تلوار مرحمت فرمائی اور اپنے دستِ مبارک سے پر عمامہ باندھا تو شیرِ خدا ؓ مقابلے کے لیے بے تاب ہو کر دیوانہ وار جوش سے عمرو بن عبدود کے مقابل ہوئے اور اُس سے پوچھا کیا یہ تیرا قول ہے کہ جو شخص تجھ سے تین باتوں کی درخواست کرے تو اُن میں سے ایک ضرور قبول کرے گا اُس نے کہا ہاں ۔شیرِ خدا ؓ نے فرمایا میں تجھ سے کہتا ہوں کہ اسلام قبول کر لے تو عمرو نے کہا یہ کبھی نہیں ہو سکتا تو شیرِ خدا نے فرمایا تو پھر جا کر گھر بیٹھ جا اور مسلمانوں سے لڑنے کی غلطی نہ کر جواباً عمرو بن عبدود بولا اِس طرح عرب کی عورتیں مجھ پر ہنسیں گیں کیونکہ میں نے نذر مان رکھی ہے کہ جب تک محمد ﷺ سے جنگِ بدر کا بدلہ نہ لے لوں اپنے سر میں تیل نہ ڈالوں گا اور میں اپنی نذر پوری کئے بغیر واپس نہیں جاؤں گا ۔ تو شیرِ خدا ؓ بولے تو آپھر مجھ سے آکر لڑ عمرو بن عبدود ایک تجربہ کار بہادر اور جنگجوتھا وہ شیرِ خدا ؓ کی بات سن کر طنزیہ اور تکبرانہ انداز میں ہنس پڑا اور کہنے لگا میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ پورے عرب میں کوئی شخص مجھ سے مقابلہ کرنے کی جرات کر سکے ‘عمرو بن عبدود غضب ناک ہو کر گھوڑے سے اُتر آیا اور شیرِ خداؓ سے پوچھا مُجھ سے لڑنے کی ہمت کر نے والے تم کون ہو تو شیرِخدا نے جواب دیا میں علی ؓ ہو ں ابن ابی طالب اور میری ماں مجھے حیدر کہتی ہے ۔عمرو بولا میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا کیونکہ میرے والد اور تمھارے والد کے درمیان دوستانہ تعلقات تھے ۔ لیکن حضرت علی ؓ نے گرج کر کہا اے دشمنِ خدا میں تم سے لڑنا چاہتا ہوں ۔ عمرو غضب ناک ہو گیا اور تلوار لے کر آپؓ پر ٹوٹ پڑا عمرو کی تلوار شعلے برسا رہی تھی حضرت علی ؓ نے اُس کی تلوار کے وار کو اپنی ڈھال پر روکا پھر شیرِ خدا ؓ نے وار کیا حضرت علی ؓ نے عمرو کے کندھے پر تلوار کا وار کیا تو شیرِ خدا ؓ کے حملے کی تاب نہ لا سکا اور زمین پر گر پڑا پھر اٹھا پھر گِر پڑا پھر اُٹھا تو چارو ں طرف غبار پھیلا ۔ شیرِ خدا نے ایسا بھر پور وار کیا کہ طاقت و شجاعت کا آہنی انسان زمین بوس ہو گیا اُس کے گرتے ہی شیرِ خدا ؓ نے باآواز بلند تکبیر کہی اب عمرو کے ساتھی آگے بڑھے لیکن وہ بھی حضر ت علی ؓ کے سامنے نہ ٹہر سکے اور بھاگ نکلے ۔
جب یہودیوں کی سازشوں کے نتیجے میں خیبر پر لشکر کشی ہوئی تو بھی شیرِ خدا ؓ سرور کائنات ﷺ کے ہمر کاب تھے ۔ خیبر میں یہودیوں کے بہت سارے مضبوط قلعے تھے جو جلد ہی فتح ہو گئے لیکن ایک مضبوط قلعہ حصنِ قموص کئی دنوں کی کوششوں کے بعد بھی ابھی تک فتح نہیں ہوا تھا اِس قلعہ کا مالک ایک نامور یہودی امیر مرحب نامی تھا ۔جو طاقت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھا اُس کی بہادری کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے جب کئی اکابر صحابہ ؓ کو قلعہ مسخر کرنے میں کامیابی نہ ہوئی تو ایک دن شام کو سرور کائنات ﷺ مالک دو جہاں نے فرمایا کل میں اُس شخص کو عَلم دوں گا جس کے ہاتھ پر اﷲ تعالی فتح دے گا اور جو اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کو محبوب رکھتا ہے اور اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ اس کو محبوب رکھتے ہیں ۔ساری رات عاشقانِ مصطفے ﷺ نے اِس انتظار میں گزاری کہ دیکھیں صبح یہ سعادت عظیم کس کے حصے میں آتی ہے ۔صبح ہوئی تو ساقی کوثر نے حضرت علی ؓ کو بلا بھیجا ۔وہ اُس وقت آشوب چشم میں مبتلا تھے شیرِ خدا ؓسرور دو جہاں ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو شافع دو جہاں ﷺنے آپ ؓ کی آنکھوں میں اپنا مقدس و اطہر لعاب ِ دہن لگایا سرتاج الانبیاء ﷺ کے لعب دہن کی برکت سے حضرت علی ؓ کی آشوب چشم کی بیماری فوری ختم ہو گئی۔ اب مالک کائنات ﷺنے عَلم آپ ؓ کو عطا فرمایااور حملہ کرنے کا حکم دیا۔ شیرِ خدا ؓ نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ کیا یہود کو بزور ِ شمشیر مسلمان بنالوں تو آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا نہیں ان کو نرمی سے اسلام کی دعوت دو اگر تمھاری تبلیغ سے ایک بھی شخص راہِ ہدایت پر آگیا تو تمھارے لیے بڑی سے بڑی نعمت سے بھی بہتر ہے ۔
شیرِ خدا ؓ نے شہنشاہ ِ دو عالم ﷺ کے ارشاد کی تعمیل کی لیکن یہودی غرورو تکبر میں لڑنے پر تُلے ہوئے تھے اُن کا سردار مرحب جس کو اپنی طاقت ، مہارت اور شجاعت پر بہت زیادہ مان تھاوہ خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا کہ روئے زمین پر میرا مقابل کوئی نہیں ہے سر پر زرد رنگ کا مغفر اور اس پرسنگی خود سجائے یہ فخریہ جملے پڑھتا ہوا قلعے سے نکلا ۔ ترجمہ ۔ خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں ہتھیاروں سے لیس ، بہادر اور تجربہ کار ہوں جب لڑائیوں کے شعلے بھڑکتے ہیں ۔ اُس کے جواب میں شیرِ خدا یہ پڑھتے ہوئے آگے بڑھے ترجمہ۔میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے حیدر ؓ رکھا ہے جھاڑیوں کے شیر جیسا ہیبت ناک اور ڈراؤنا میں دشمنوں کوآنِ واحد میں ٹھکانے لگا دیتا ہوں ۔مرحب نے غضب ناک ہو کر شیرِ خدا ؓ پر حملہ کیا لیکن اﷲ کے شیر ؓنے اپنی تلوار کے ایک ہی بھر پور وار سے مرحب کا سر دو ٹکڑے کر دیا اور آگے بڑھ کر قلعے پر حملہ کر دیا قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر اس سے سپر کا کام لیا تھوڑی دیر میں ہی شیرِ خدا ؓ کی محیرا لعقول شجاعت سے قلعہ فتح ہو گیا ۔یہ عظیم کا رنامہ سر انجام دینے کے بعد دربارِرسالت ﷺ کی طرف بڑھے تو شہنشاہِ دو جہاں ﷺ نے خیمے سے باہر نکل کر شیرِ خدا ؓ کو اپنے کنارِ شفقت میں لیا اور پیشانی چوم کر مبارک دی حضرت علی ؓ فرطِ مسرت سے رونے لگے ۔

loading...