پچھلے دو سال سے یورپ کے کسی شہر سے کوئی صاحب بار بار مجھے فون کر تے تھے اور اپنے پاس آنے کی دعوت دیتے تھے میں شروع میں تو ٹالتا رہا لیکن جب اُنہوں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو میں نے صاف انکار کر دیا کہ میرے لیے آپ کے پاس آنا ممکن نہیں ہے گھر کا واحد کفیل ہو نے کی وجہ سے دوسرا سرکاری ملازمت تیسرا کالم لکھنا، کتاب لکھنا اور روزانہ سینکڑوں بندوں سے ملنا لہذا میرے لیے دوسرے شہروں یا ملکوں میں جانا بہت مشکل ہے ۔ میرے صاف انکار کو اُنہوں نے میری مغروری سمجھا اور فون کرنا بند کر دئیے ۔ تین ماہ پہلے چند دوستوں کے بے پناہ اصرار پر میں برطانیہ گیا اور مختلف شہروں میں روحانیت تصوف پر ٹوٹے پھوٹے لیکچرز بھی دئیے اور بہت سارے پاکستانیوں اور غیر پاکستانیوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں بر طانیہ میں ایک ماہ گزارنے کے بعد میں واپس آکر بھی پرانی ڈگر پر چل پڑا دن رات کے مصروفیت اور میں دو دن پہلے پھر مجھے یورپ سے اُسی صاحب کو فون آیا ۔ انہوں نے پھر اپنا پرانا سوال دہرایا کہ آپ میرے پاس کب آرہے ہیں ۔ انہوں نے آنے جانے کا ٹکٹ شاپنگ اور بڑی رقم کی بھی آفر کی پتہ نہیں مجھے کیوں اُن کا لہجہ بُرا لگا اور میں نے پھر انکار دیا کر دیا کہ یہاں کی مصروفیت مجھے اجازت نہیں دیتی کہ میں آپ کے پاس آسکوں ۔ میرے انکار کو انہوں نے توہین اعظم سمجھا اور بار بار مجھے مختلف ترغیبات دیں کہ آپ میرے پاس ضرور آئیں میرے انکار پر اُن کے لہجے کی شائستگی رخصت ہوتی جا رہی تھی طنز اور تلخی اُن کے لہجے پر غالب آرہی تھی لمبی چوڑی گفتگو کے بعد بھی جب میں نے انکار کیا تو وہ غصے سے پھوٹ پڑے آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں میرے پاس انڈیا اور پاکستان کے تمام بڑے صوفی اور اہل روحانیت آتے ہیں میرے پاس بے شمار روحانی سلسلوں کی خلافتیں ہیں ۔ میں نے خود بہت سارے وظائف چلے اور مراقبہ جات کئے ہیں اِس کے بعد انہوں نے اپنی کرامات بیان کرنی شروع کر دیں اور یہ بھی کہ اگر آپ میرے پاس آتے تو پتہ نہیں میں آپ کو کیا کیا دیتا ۔ جب وہ اپنا غصہ خوب نکال چکے تو میں انتہائی مہذب اور شائستہ لہجے میں کیا اگر آپ کو میری کوئی بات یا رویہ برا لگا ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں ۔ ساتھ ہی میں نے ڈرتے ڈرتے ایک سوال کیا کہ آپ مُجھ فقیر سیاہ کار سے کیوں ملنا چاہتے ہیں تو وہ بولے مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے میں تو فقیری چا ہتا ہوں مجھے اﷲ کی تلاش ہے وہ ایک ہی وقت پر میرے مرشد ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے اور اُسی وقت مُجھ سے سوال بھی کر رہے تھے ۔ بہر حال میں نے اُن کا غصہ ٹھنڈا کر نے کی پوری کوشش کی اور آنے کا وعدہ بھی کیا ۔ محترم قارئین خدا کی تلاش فقیری اور روحانیت کا حصول ایسے سوال اور سوالی اکثر میرے پاس آتے ہیں اِن کی طلب اور سوال دیکھ کر مجھے مغلیہ بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور کا ایک باکمال صوفی یاد آتا ہے جن کے بارے میں چند سال پہلے میں نے کہیں پڑھا تھا ۔ مغلیہ دور میں ایک مجذوب صوفی جو اپنی ہی ذات میں گم تھا اُس کا نام میاں ڈڈھا تھا ۔ یاد الہی میں ہر وقت مستغرق دنیا مافیا سے بے نیاز زیادہ تر وقت عبادت الہی میں گزارتا اُس کے پاس جو بھی آتا اُسے خدا کی عبادت کی تلقین کر تا بے نیاز اتنا کہ نہ مسندسجانے کا شوق اور نہ ہی مریدوں کی بھیڑ لگانے کا ارادہ اور نہ ہی پیر و مرشد کہلوانے کا شوق ہر درویش کامل کی طرح لوگ اُس سے بھی پوچھتے میاں ڈڈھا رب کیویں لبھّا ۔۔۔اور وہ درویش کامل ہر بار بات ٹال دیتا ۔ جب لوگوں کا اصرار بہت زیادہ بڑھا تو ایک دن اپنے مخصوص سحر انگیز لہجے میں یہ راز کھولا کہ رب کس طرح ملتا ہے فرمانے لگا کہ مجھے مغلیہ بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا پیغام ملا کہ وہ مُجھ سے ملنا چاہتا ہے ۔ اب بادشاہ سے ملنا میرے لیے بے کار مشغلہ تھا کہاں فقیروں کا ڈیرا اور کہاں شاہوں کی دھوم دھام مجھ سے مل کر بادشاہ کی نیک نامی میں تو شاید اضافہ ہو مگر مجھے سوائے کو فت اور بد نامی کے کیا حاصل ہو گا ۔ اِس لیے میں نے بادشاہ کی خواہش کو ٹھکرا دیا بادشاہ بار بار ملنے کی ضد کر تا رہا اور میں اُس کی درخواست کو رد کر تا رہا ۔ لیکن بادشاہ کو بھی ملنے کی ضد ہو گئی تھی اُس نے پیغام بھیجا کہ اگر تم نہ ملے تو میں زبر دستی اپنے پا س بلا لوں گا یا اچانک خود تمھارے پاس پہنچ جاؤں گا ۔ بادشاہ کی ضد سن کر میں بھی پریشان ہو گیا ۔ ایک دن اچانک مجھے پتہ چلا کہ بادشاہ آخر کا ر مجھ سے ملنے آگیا ہے اور اُس نے میرے گرد گھیرا ڈال لیا ہے میرے چاروں طرف ہر راستے پر اپنے اہلکار کھڑے کر دیے تا کہ میں ادھر اُدھر نکل نہ سکوں جب مجھے محسوس ہوا کہ اب بادشاہ ہر صورت میں میری جُھگی تک آجائے گا تو میں وہاں سے نکلا اور باہر کی راہ لی ۔ بادشاہ نے پہلے سے ہی یہ منصوبہ بنا رکھا تھا کہ میرے نکلنے کے تمام راستوں پر اپنے بندے کھڑے کر رکھے تھے اور ایک راستے پر بادشاہ خود بیٹھ گیا ۔ اب جب میں نے نکلنے کی کوشش کی تو ہر راستے پر بادشاہ کے فوجی کھڑے تھے ہر راستے پر میرا ٹاکرا بادشاہ کے پہریداروں سے ہوتا اب جب تھک ہار کر سارے راستے میں نے بند پائے تو جو آخری راستہ بچا تھا میں اُس پر چل پڑا جب اُس کی نکڑ پر پہنچا تو آگے بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر برا جمان تھا اور یوں میری بادشاہ سے ملاقات ہو گئی ۔ اسرار و رموز سے بھر پور یہ واقعہ سناتے ہوئے مجذوب نے کہا جس طرح بادشاہ نے مُجھ سے ملنے کے لیے سارے راستے بند کر دیے اور صرف ایک راستہ کھلا رکھا جس پر وہ خود موجود تھا اِسی طرح جب کوئی سالک یا متلاشیانِ حق رب سے ملنے کی کوشش کر تا ہے تو اﷲ تعالی باقی دروازے بندکر دیتا ہے اور صرف وہی ایک راستہ کھلا رکھتا ہے جو اُس کی طرف آتا ہے تو اِس طرح بندہ رب کو پا لیتا ہے سبحان اﷲ صدقے جائیں اہلِ حق پر کس خوبصورت اور سچے طریقے سے بات سمجھا دی جب کہ ہم اِس مادی دنیا میں بے شمار راستوں پر چلتے ہیں دولت ، شہرت ، جاہ و جلال ، طاقت ، منصب پانے کے لیے اور یوں بندہ ساری عمر اِن جھوٹے راستوں پر ہی بھٹکتا رہتا ہے ۔ اِن دنیاوہ راستوں پر بھی چلتا ہے اور رب سے بھی ملنا چاہتا ہے ۔ مگر یہ ممکن نہیں ہے جب تک بندہ رب ِ ذولجلال کو ترجیح اول نہ بنالے صرف رب کو تمام رشتوں سے بڑھ کر نہ مانے تو کیسے پا سکتا ہے رب تو یکسوئی سے ملتا ہے ۔ بیک وقت کوئی بندہ خدا اور بندہ زمانہ نہیں بن سکتا اُسے ایک راستے کا انتخا ب کر نا پڑتا ہے ۔ اگر بندے کی طلب سچی عبادت اور نیت خا لص اور ارادہ نیک ہو توپھر اﷲ تعالی کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرما دیتا ہے کہ باقی تمام راستے بند کر کے صرف ایک راستہ کھلا رکھتا ہے جس پر چل کر بندہ اپنے خالق اور رب کو پا لیتا ہے ۔ جس طرح دو کشتیوں کا سوار کبھی ساحل پر نہیں پہنچا اسی طرح انسان بیک وقت طالب دنیا اور طالب خدا بن کر رب کو نہیں پا سکتا ۔
ہفتہ، 17 مارچ، 2018
میرے سجدے کہاں گئے - حصہ سوئم
لندن بر ج دریائے ٹیمز رات کے وقت جدید برقی قمقوں کی وجہ سے رنگ و نور میں نہایا ہوا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے سینکڑوں روشن چاند زمین پر اُتر آئے ہیں ۔ رنگ و نور کے اس سیلاب میں ہزاروں سیاح تیزی سے ہنستے مسکراتے اِدھر اُدھر جا رہے تھے ۔ نوجوان نسل دنیا مافیا سے بے خبر اپنے آپ میں ہی گم تھی ۔ جبکہ دریائے ٹیمز کے ایک گوشے میں ایک بے بس لاچار دُکھی بوڑھی ماں اپنی زندگی کا سب سے بڑا روگ سنا رہی تھی ۔ اپنی داستان ِ الم سناتے سناتے اُس کے چہرے کا رنگ زرد سیا ہ پڑ گیا اور حالت اتنی متغیر ہوئی کہ وہ برسوں کی بیمار نظر آرہی تھی ۔ اُس کی داستان کیا تھی ایک زلزلہ تھا جس نے میرے دل کی دنیا کو زیرو بر کر دیا ۔ ہم حیرت و استعجاب میں ڈوبے پتھر کے مجسموں کا روپ دھار چکے تھے ۔ بوڑھی ماں کے بولنے کا انداز اِس قدر اثر انگیز تھا کہ ہم خامو ش اور ساکت تھے ۔ جیسے ہمارے جسموں سے روح پرواز کر گئی ہو ۔ اُس کو دکھ اور ظلم جو اُس پر ہوا اتناتاریک اور سیاہ تھا کہ شاید قیامت تک ہونی والی بارش ، سمندروں ، دریاؤں کا پانی بھی اُس کی سیاہی کو نہ دھو سکے ۔ دریائے ٹیمز کا کنارہ جو کچھ دیر پہلے سحر انگیز منظر پیش کر رہا تھا اب یوں لگ رہا تھا کہ آسمان سے غم اور دکھ کی بارش ہو رہی ہے ۔ ہوائیں اور فضائیں بھی اُس کے دکھ کی وجہ سے ماتمی لباس میں ملبوس نظر آرہی تھیں ۔ اُس کی رقت انگیز داستان اتنی زیادہ درد ناک تھی کہ ہماری قوت ِ گو یائی سلب ہو کر رہ گئی تھی ۔ اُس کو سراپا سر سے پاؤں تک سوالیہ نشان بن چکا تھا وہ اسفہامیہ اور ملتجی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی کہ میرے ساتھ یہ ظلم کیوں ہوا ۔ آخر میری کوئی دعا قبول کیوں نہیں ہو ئی ۔ میرا دل و دماغ اور ہوش و حواس غم کے سمندر میں غرق ہو چکے تھے میری زبان گنگ تھی اور الفاظ ، گفتگو پتہ نہیں کہاں ہوا میں تحلیل ہو چکے تھے ۔ اُس کی روح باطن ، دل و دماغ میں سمایا ہوا یہ کرب اور اضطراب اب چاروں طرف پھیل چکا تھا ۔ آہستہ آہستہ میرے حواس نارمل ہو نا شروع ہو ئے تو مجھے بریڈ فورڈ کے قاری صاحب یاد آئے جنہوں نے لمبی چوڑی دعوت کی اور آخر میں ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے بیٹھ گئے کہ کسی طرح میری بیٹی کو روہ راست پر لائیں وہ زار و قطار روتے جا رہے تھے اور بار بار ایک ہی بات کہ میری بیٹی کو سیدھے راستے پر لائیں لیڈز کی کشمیری ماں جو نیم پاگل ہو چکی تھی جس نے پونڈوں کا ڈھیر میرے سامنے لگا دیا جب میں نے کہا کہ میں پیسے نہیں لیتا تو وہ اور زیادہ نوٹ نکالتی جاتی اور ایک ہی تقاضہ کہ میری بیٹی واپس کب آئے گی ۔ بر منگھم کے پیر صاحب جو ساری زندگی لوٹ مار کر تے رہے اور اب جب ان کی بیٹی نان مسلم کے ساتھ بھاگ گئی تو سوالی بن کر زارو قطار روتے کہ اُن کی عزت خطرے میں ہے ۔ اور لندن کی نیم پاگل ماں جس کا خاوند فوت ہو چکا تھا اپنی بیٹی کے غم اور جدائی میں نیم پاگل ہو چکی تھی مانچسٹر کا جوڑا جو پچھلے کئی سالوں سے ڈپریشن میں تھا اور واپس پاکستان اِسی خوف سے نہیں جا رہا تھا کہ کسی نے بیٹی کے کر توت پاکستان نہ بتا دیے ہوں بریڈ فورڈ کی گجراتی مسلمان فیملی جو اپنی بیٹی کے روگ میں گھر بار ساری دولت جھوٹے بوبوں عاملوں کو لٹا کر بھی ناکام کے ناکام تھے ۔ اِن کے علاوہ بے شمار اور جوڑے جو جوانی میں یورپ اور برطانیہ کے نشے میں یہاں آتو گئے لیکن جب بچے جوان ہوئے تو بر طانیہ کے مادر پدر آزاد ماحول کے عفریت نے اُن کے بچوں کو نگلا تو اب وہ ڈپریشن اور نیم پاگل زندگی گزار رہے تھے لندن کا ہی وہ بوڑھا باپ مجھے آج تک یاد ہے جو اسلحہ ڈھونڈ رہا تھا کہ کسی طرح اگر اُس کو کوئی ہتھیار مل جائے تو وہ اپنی بیٹی کو مار دے وہ بوڑھا باپ پاگل ہو چکا تھا بیوی بچوں نے اِسی وجہ سے اُسے گھر سے نکال دیا تھا اور وہ زندگی کو چلانے کے لیے اِدھر ادھر سہاروں کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا کبھی وہ ہوش میں ہوتا کبھی نیم پاگل بے بسی اور لاچارگی کی زندگی گزار رہا تھا مجھے پاکستان کے بے شمار وہ نوجوان یاد آئے جن پر ایک جنون سوار ہو تا ہے کہ کسی نہ کسی طرح یورپ امریکہ یا برطانیہ چلے جائیں ۔ اِس کے لیے وہ اپنا آپ اپنی جائیداد بھی بیچنے کو تیار ہوتے ہیں اور جب کسی نہ کسی طرح یہاں آجاتے ہیں تو مزدوری کے گھوڑے بن جاتے ہیں مصروفیت اتنی زیادہ کہ اپنا بھی ہوش نہیں وقت کی چند کروٹوں کے بعد جب جوانی کے بعد بڑھاپا آتا ہے ۔ اور نوجوان اولاد مغرب کے رنگ میں رنگی جا چکی ہوتی ہے تو وہ چیختے چلاتے ہیں لیکن اولاد ماں باپ کو ٹھوکر مار کر بھاگ جاتی ہے اور ماں باپ بے بسی کی تصویر بنے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں جو لوگ یہاں کی چکا چوند زندگی سے متاثر ہو کر آتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ملک ، معاشرہ اور قوانین اِن لوگوں نے اپنے لیے بنائے ہیں یہ لوگ خدا اور مذہب کو چھوڑ چکے ہیں اور جب اِس معاشرے میں بچے جوان ہوں گے تو یقینا اِس معاشرے کے رنگوں میں ڈھلے ہوں گے تو ماں باپ کس بنیاد پر یہ توقع کرتے ہیں کہ نوجوان نسل ماں باپ کی بات مانے گی ۔ جب اولاد نافرمان ہوتی ہے تو یہ بابوں ، عاملوں ، تعویز گنڈوں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں یہاں پر جھوٹے عاملوں اور بنگالی جادوگروں کا سیلاب آیا ہوا ہے جو مجبور اور بے بس والدین کو جھوٹے خواب دکھاتے ہیں اِن کی باتوں میں آکر مجبور والدین اپنا وقت اور پیسہ دونوں بر باد کرتے ہیں ۔ والدین کرامتوں کے انتظار میں ایک بابے سے دوسرے بابے کے در پر دھکے کھاتے ہیں ۔ اِسی بھاگ دوڑ میں یہ بوڑھی بے بس لاچار ماں میرے سامنے سوالیہ نشان بنی بیٹھی تھی ۔ جب رو رو کر یہ تھک گئی تو اب میری طرف خاموشی سے دیکھ رہی تھی ۔ کچھ دیر بعد بولی سر بتائیں میری دعائیں کیوں نہیں قبول ہو تیں ۔ یہ عورت بھی یہ بھول بیٹھی تھی کہ بعض اوقات خالقِ ارض و سما بندے کا ذوق طلب بڑھانے اور شوق بڑھانے کے لیے دعا کی قبولیت میں دیر کر دیتا ہے ۔ خدا تعالی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ یہ بندہ واقعی مجھے رب مانتا ہے یا ابھی بھی کسی دنیاوی جھوٹے سہارے یا خدا کی امید لگائے بیٹھا ہے اور محض میری رحمت ٹٹولنے آیا ہے شہنشاہ ِ دو عالم ﷺ کا فرمان ہے کہ جب کو ئی انسان دعا کر تا ہے تو تین بار دب ِ ذولجلال اپنا رُخ اِدھر اُدھر کر تا ہے مگر چوتھی بار خدائے بزرگ و بر تر کا کرم جھلک پڑتا ہے اور بندے کی سالوں پرانی ٰخواہشوں کی تکمیل کر دیتا ہے ۔ انسان فطری طور پر جلد باز اور بے صبرا ہے ۔ اپنی اِس عادت کی وجہ سے وہ رحمتِ حق کو تو نہیں بلکہ خو د کو آزمائش میں ڈال لیتا ہے ورنہ ربِ کائنات تو سمندروں کی گہرائیوں میں پتھر کے درمیان کیڑوں کی ضروریات سے بھی واقف ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اشرف المخلوقات انسان کی نہ سنے۔ انسان کتنا بھی گنہگار ، نیکوکار ، تہجد گار ، پر ہیز گار ، خوش اطوار ہو یا بد کردار دینے والا منہ دیکھ کر نہیں دیتا اپنی شانِ کرم دیکھتا ہے ۔ مایوسی گناہ ہے اور میری زندگی میں ہزاروں ایسے لمحات آچکے ہیں جب میں بھی مایوس ہو گیا لیکن میرے سوہنے رب نے ہمیشہ میری مدد کی اِسی امید پر میں نے بوڑھی ماں کو چند وظائف بتائے کہ انشا ء اﷲ جلدی اﷲ تعالی کوئی اچھا راستہ ضرور نکالے گا میں نے بوڑھی ماں کو بہت حوصلہ اور تسلی بھی دی میرے حوصلہ دینے سے وہ آنکھوں میں امید کی شمع جلائے رخصت ہو گئی اور میں لندن کی بلند و بالا عمارتوں اور دریائے ٹیمز کے پانی پر جدید ترین جہازوں کو تیرتے ہوئے دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ انسان جتنی بھی ترقی کر لے وہ قدرت کے رازوں کو نہیں پا سکتا شاید اِس دکھی ماں کا کیس بھی ایسا ہی راز ہے ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...