اسلام کے بنیادی چار ارکان میں روزہ ایک انتہائی اہم رکن ہے کیونکہ جب کسی صالح اور پر ہیز گار مسلمان کا ذکر ہوتاہے تو کہا جاتا ہے فلاں شخص پابند صوم و صلٰوۃ ہے یہ : اصطلاح مستعمل اور مروج عام ہے قرآن و حدیث میں روزے کی فرضیت اہمیت اور فضیلت کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے کرہ ارض پربسنے والے اربوں مسلمانوں کے رول ماڈل نبی کریم و رسول رحمت ﷺہیں لہٰذا ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو کو سنت نبوی ﷺ کے مطابق ڈھالے ۔ ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی پیارے آقا ﷺ کی عبادات ریاضت مجاہدہ میں عام دنوں کی نسبت بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ۔ اِس ماہ میں خشیت اور محبت الٰہی اپنے نقطہ عروج پر ہوتی آپ ﷺراتوں کا قیام بڑھا دیتے ۔ رمضان المبارک میں آپ ﷺ کی راتیں تو اتر و کثرت کے ساتھ نماز میں کھڑے رہنے‘ تسبیح و تہلیل اور ذکر ِ الٰہی میں محویت سے عبارت ہے‘ شہنشاہِ دو عالم ﷺ نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا ۔ جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اِس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح وہ بطنِ مادر سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک تھا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے ۔جب رمضان شروع ہو تا تو رسول اﷲ ﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا‘ آپ ﷺ کی نمازوں میں اضافہ ہو جا تا‘ اﷲ تعالی سے گڑ گڑا کر دعا کرے اور اس کا خوف طاری رکھتے ۔ رمضان المبارک میں شافع محشر کا روزانہ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے کیا کرتے تھے ۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے سحری کھانے کے متعلق فرمایا ہے ۔ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے ایک اور جگہ پر حضرت ابو قیسؓ نے حضرت عمروبن العاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ رحمت دو جہاں ﷺ نے فرمایا ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے ۔ رحمت ِ دو جہاں ﷺ کا ساری عمر کا ایک معمول تھا کہ آپ ﷺ کثرت سے صدقہ خیرات کیا کرتے لیکن جیسے ہی ماہ رمضان کا آغاز ہو تا‘ آپ ﷺ کی اِس عادت مبارکہ میں بہت زیادہ اضافہ ہو جا تا ، شہنشاہ عالم ﷺ کی سخاوت کا یہ عالم کہ کوئی بھی سوالی آپ ﷺ کے در سے خالی ہاتھ واپس نہ جاتا‘ ماہ رمضان میں باقی گیارہ مہینوں کی نسبت سخاوت اپنے نقطہ عروج پر نظر آتی اس ماہ میں صدمہ خیرات کی بارش نظر آتی ۔ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ روایت ہے ۔ ترجمہ : جب حضرت جبرائیل امینؑ آجاتے تو آپ ﷺ بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے ۔ حضرت جبرائیل ؑ کیونکہ رمضان المبارک میں خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے پیغام محبت لے کر آتے تھے ۔ چونکہ عام دنوں کی نسبت جبرائیل ؑ کثرت سے آتے تھے اِس لیے سرور کائنات جبرائیل امین ؑ کے آنے کی خوشی میں صدقہ خیرات بھی کثرت سے کرتے تھے امام نووی ؒ اِس حدیث مبارکہ کی اہمیت اِس طرح بیان کرتے ہیں ۔آپ ﷺ کی جود و سخا کی بیان ۔ رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ خیرات کے پسندیدہ عمل ہونے کا بیان ۔ نیک بندوں کی ملاقات پر جو د و سخا اور خیرات کی زیادتی کا بیان قرآن مجید کی تدریس کے لیے مدارس کے قیام کا جواز ۔ نبی کریم ﷺ پورا رمضان المبارک بہت زیادہ ذوق شوق سے عبادات کرتے ۔ آپ ﷺ رمضان المبارک میں تلاوت ِ قرآن پاک بہت بڑھا دیتے تلاوت قرآن مجید افضل ترین عبادت میں سے ہے ۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓ روایت کرتے ہیں شہنشاہِ دو عالم ﷺ نے فرمایا ۔ میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن مجید ہے ۔ بلاشبہ قرآن مجید کی تلاوت کی بے پناہ اہمیت اور فضیلت ہے یہ عظیم کتاب رمضان المبارک کے با برکت مہینہ میں نازل ہوئی ۔ اِسی لیے رمضان المبارک اور قرآن مجید کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے ۔ لہٰذا رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اِس عظیم الشان تعلق کو اور بھی مضبوط کر تا ہے ساقی کوثر سرور کائنات محبوب خدا شہنشاہِ دو عالم ﷺ کی متعدد احادیث مبارکہ اِس بات کا روشن ثبوت اور دلیل ہیں کہ آقائے دو جہاں ﷺرمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے اور جبرائیل امین ؑ کو سناتے ۔ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے ۔ ترجمہ : حضرت جبرائیل امین ؑ رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کرتے قرآن مجید کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ روز محشر جب کوئی کسی کا والی نہ ہو گا ہر کسی کو اپنی پڑی ہو تو تلاوت قرآن مجید کا اہتمام کرنے والوں کی شفاعت قرآن مجید خود سفارش کرے گا حضرت عبداﷲ بن عمرو سے روایت ؓہے پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن روزہ اور قرآن مجید دونوں بندے کی شفاعت کریں گے روزہ کہے گا اے میرے رب میں نے اِس شخص کو دن کے وقت کھانے پینے اور دوسری نفسانی خواہشات سے روکے رکھا پس تو اِس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما قرآن کہے گا اے میرے رب میں نے اِس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما آپ ﷺ نے فرمایا ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں رسول اﷲ ﷺ کا اعتکاف کرنے کا معمول تھا ہماری ماں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اﷲ تعالی کے حکم سے آپ ﷺ کا وصال ہو گیا پھر آپ ﷺ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا اِسی سلسلے میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے ایک مروی ہے ۔شہنشاہِ دو عالم رحمتِ دو جہاں ساقی کوثر شافع محشر سرور کائنات رسول رحمت ، محبوب خدا ﷺ ہر سال رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ ﷺ کا وصال مبارک ہوا اس سال آپ ﷺ نے بیس دن اعتکاف کیا ۔ آج وطن عزیز میں مسلمان حرمت ِ رسول ﷺ پر جان دینے کو تیار ہے لیکن سیر ت نبی ﷺ کو اپنانے کو تیار نہیں ہے ۔ دونوں جہانوں میں حقیقی کامیابی کے لیے ہمیں نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کو حقیقی معنوں میں اپنی زندگیوں میں لاناہو گا تب ہی حقیقی کامیابی ہمارا مقدر بنے گی ۔
ہفتہ، 17 مارچ، 2018
نیکیوں کا موسم بہار
سرور کائنات محبوب خدا ﷺنے رمضان المبارک کو نیکیوں کا موسم بہار قرار دیا ہے ۔ جس کا مطلب ہے جس طرح بہار کی آمد پر چاروں طرف رنگ و نور ‘تازہ پھولوں کی برسات ہوتی ہے ‘بوسیدہ پتوں کی جگہ ترو تازہ پتے اگتے ہیں ‘نئے شگوفے پھوٹتے ہیں ‘ہر طرف ایک آسودگی ‘خوشنمائی ‘ترو تازگی ‘رنگینی اور خوش گورائیت کا دلربا روح کے اندر تک سر شاری کا خوب احساس ہو تا ہے ‘جسم و روح نئی کیفیت نئے منظر سے لطف اندوز ہو تے ہیں ۔ اِسی طرح جب تمام مہینوں کا سردار مہینہ جس میں اﷲ تعالی نے قرآن حکیم نازل فرمایا رمضان المبارک کی ایک با برکت شب آسمان دنیا پر قرآن مجید کا نزول ہوا لہذا اِس رات کو خالق ِارض و سما نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرما ئی اور اِسے شب قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔
ترجمہ : شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اجر و ثواب میں ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے بارے میں شافع محشر ساقی کوثر مالک دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں ۔حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں شہشاہ ِ دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں جو شخص بحالت ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔
رمضان المبارک واقعی نیکیوں کی بہار کا موسم ہے جس کا ہر ایک لمحہ ساعت اِس قدر با برکت اور با سعادت ہے کہ باقی گیارہ مہینے مل کر بھی اِس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے ۔ رمضان البارک کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف برکت و سعادت خیرات سخاوت ایثار اور یگانگی و اخوت کے ایمان افروز مناظر دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ صدقہ خیرات کا رحجان فروغ پا تا ہے ‘عبادات کا ذوق بڑھ جاتا ہے ‘گھروں محلوں اور مساجد میں ہر طرف ایمانی رنگ و نور کی برسات نظر آتی ہے ‘نوافل اذکار کی رغبت بڑھ جاتی ہے ۔ تلاوت قرآن پاک کا شغف کئی گناہ بڑھ جاتا ہے پوری مسلم سو سائٹی پر روحانی نظم و ضبط کا ایمان افروز رنگ چڑھ جا تا ہے‘ سحر خیزی کے لمحے بڑے دل آویز اور افطاری کے مناظر بڑے روحانی اور وجد انگیز ہو جاتے ہیں گویا جس طرح موسم بہار کی آمد سے ہر طرف تازہ پھولوں اور پتوں کی وجہ سے رنگ و نور کی برسات نظر آتی ہے اسی طرح رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی گویا پورا ماحول بدل جاتا ہے ‘جس طرح موسمِ بہار میں پرندوں کی چہچہاہٹ اور برگ و گل کی طروات پہلے سے بڑھ جاتی ہے ۔ اِسی طرح رمضان المبارک کی مبارک اور پر سعید ساعتوں میں اہل اسلام کے مزاجوں میں بھی نمایاں ایمانی حرارت اور فرق محسوس ہو تا ہے ۔ لیکن اگر موسم بہار کی آمد ہو لیکن اس کے باوجود نہ پرانے پتے جھڑیں اور نہ ہی خشک ٹہنیاں اور درخت سر سبز ہوں اور نہ ہی بو سیدہ پھول ازسر نو شگفتہ ہوں اور نہ ہی گلشن کی ادا سی شادابی میں ڈھلے تو کون اِس کو موسم بہار کہے گا اِسی طرح اگر نیکیوں کی بہار کا موسم یعنی رمضان المبارک کی آمد ہو لیکن نہ مسجدوں کی رونق بڑھے ‘نہ ہی انداز ِ اطوار میں مثبت تبدیلی آئے ‘نہ اندا ز کار بدلے ‘نہ دل کی آرزو بدلے ‘اور نہ ہی ایمانی حرارت بیدار ہو ‘نہ جذبہ مہر و محبت پھلے پھولے اور نہ ہی باطن سے چشمہ تسلیم پھوٹے اور نہ ہی ظاہر و باطن کا تضاد دور ہو اور نہ ہی مثبت انقلاب آئے تو تمام مہینوں اور رمضان میں کیا فرق محسوس ہو گا جب کہ رمضان تمام مہینوں کا سردار خدا کا مہمان مہینہ ہے ۔ اِس ماہ مبارک کو شہنشاہِ دو عالم نے صبر اور مواسات کا مہینہ قرار دیا ہے آقا ﷺ کا فرمان ہے صبر یعنی ضبط نفس اور مواسات یعنی ہمدردی و غمخواری ‘رمضان المبارک کو صبر کا مہینہ اِس لیے بھی اِس ماہ میں بہت سے بشری اور نفسی کمزوری جذبات و احساسات پر قابو رکھنا پڑتا ہے اگر غصہ آئے تو کنٹرول کرنا ہے ‘گالی گلوچ سے پرھیز کرنا ہے کیونکہ کنٹرول نہ کرنے کی صورت میں روز ہ مکروہ ہو جاتا ہے اور اگر کوئی دوسرا اُس کے صبر کو آزمانا چاہے اُسے مشتعل کرے تو فوری طور پر آمادہ جنگ نہیں ہو جانا چاہے کہ یہ آداب رمضان کی منافی ہے ۔ روزہ دار کو ہر قدم اٹھاتے ہوئے ‘ہر بات کرتے ہوئے ‘ہر معاملہ کرتے ہوئے بہت محتاط رہنا چاہیے ۔ د کان دار ‘افسر ‘ماتحت ‘مزدور ‘مالک کو کوئی بھی بات کرتے ہوئے بہت محتاط دہنا چاہییے کہ میں روزے سے ہوں کیونکہ روزہ دار کے اند خدا کے حاضرنا ظر ہو نے کا اعتقاد اور یقین بڑھا دیتا ہے کیونکہ صرف اﷲ کے لیے رکھا جا تا اور اﷲ اِس عمل پر گواہ ہو جاتا ہے اور جب روزہ دار صبر اور ضبط ِ نفس کے مشکل مراحل سے گزرتا ہے آگ بر ساتی گرمی میں سخت پیاس کے سامنے ٹھنڈے شیریں مشروبات پڑے ہوں مگر روزہ دار کبھی بے قابو نہیں ہو تا اور اپنی پیاس پر کنٹرول رکھتا ہے ‘بھوک کی انتہا ہو اور ہوش اڑا دینے والے اور بھوک کو اور تیز کر نے والے کھانے موجود ہوں لیکن روزہ دار ایسے کئی امتحانوں میں سر خرو ہو تا ہے ‘گرم اور خوشبودار کھانوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں ہے رمضان المبارک کو مواسات یعنی ہمدردی کا مہینہ بھی کہا جا تا ہے وہ اس طرح کہ روزے کی حالت میں انسان بھوک پیاس کی جس شدت اور کیفیت سے گزرتا ہے اِس سے اِس کے اندر دوسروں کی بھوک پیاس کا احساس ہو تا ہے معاشرے کے اُن محروم اور غریب طبقوں کا احساس ہوتا ہے کہ میں تو اﷲ کے لیے آج کچھ نہیں کھا رہا لیکن وطن ِ عزیز میں لاکھوں لوگ روزانہ اِس بھوک اورپیاس سے گزرتے ہیں لہذا روزہ دار کے دل میں اُن محروم اور غریب لوگوں کی بھوک پیا س کو مٹانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو ساراسال غربت کے باعث بھوک پیاس کی تکلیف سے گزرتے ہیں لہذا روزہ دار اُن کی مدد اور بھوک پیاس مٹانے کے لیے اپنے مال و دولت کو لٹانے پر تیار ہو جاتا ہے یقینا ماہ رمضان ایک تربیتی کورس ہے جس کی تربیت لے کر دوسروں کی بھوک پیاس مٹانے کی کوشش کرنی ہے اور نفس کی کمزوریوں پر قابو پاکر ایک صالح انسان بن کر صالح معاشرے کا حصہ بننا ہے ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...