ہفتہ، 17 مارچ، 2018

یومِ بدر

یومِ بدرتاریخ اِنسانی اور کرہ ارض کی سب سے اہم اور فیصلہ کن گھڑی آچکی تھی یہ رمضان ۲ ؁ ہجری کی رات تھی محبوب خدا ﷺ کے ساتھ صرف ستر اونٹ دو گھوڑے اور تین سو آٹھ مجاہدین تھے جن میں سے مہاجرین ساٹھ سے اوپر تھے اور باقی سب انصار تھے آٹھ صحابہؓ اور تھے جو بوجہ عذر شامل نہ ہو سکے لیکن شہنشاہِ دو عالم ﷺ نے اُن کو بھی مالِ غنیمت میں سے پورا حصہ دیا لہٰذا یہ بھی اصحابِ بدر میں شما ر ہو تے ہیں۔ ابتدا میں مکی لشکر کی تعداد تیرہ سو تھی جن کے پاس ایک سو گھوڑے اور چھ سو زریں تھیں اونٹ بہت زیادہ تھے جن کی ٹھیک تعداد معلوم نہ ہو سکی لشکر کا سپہ سالار ابو جہل بن شام تھا اِسی رات اﷲ تعالی نے بارش نازل فرمائی جو مشرکین پر موسلا دھار برسی جن سے اُن کی پیش قدمی میں رکاوٹ آگئی لیکن مسلمانوں پر یہ بارش ہلکی پھوار بن کر برسی ۔ پیارے آقا ﷺ نے لشکر کی ترتیب فرمائی اور میدانِ جنگ تشریف لے گئے وہاں رسول رحمت ﷺ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے جگہ بتائی کہ کل فلاں کی قتل گاہ یہ ہے انشاء اﷲ فلاں کی قتل گاہ یہ ہے اور اگلے دن اِسی طرح ہوا جہاں جہاں نبی کریم ﷺ نے اشارہ کیا تھا مشرکین اُسی جگہ قتل ہوئے اِس کے بعد رسول دو جہاں ﷺ نے وہیں ایک درخت کے پاس رات گزاری ۔ بدر کے میدان میں تین سو تیرہ مجاہدین کے مقابلے پر مشرکین مکہ ایک ہزار جنگجو سپاہیوں پر مشتمل فوج کے ساتھ آئے تھے مجاہدین ِ اسلام کے پاس جذبہ جاں نثاری کے سوا کچھ نہ تھا ۔ نہ سواریا ں نہ ہتھیار یہ منظر دیکھ کر رحمتِ دو جہاں ﷺ کا دل بھر آیا رقت طاری ہو گئی اور گریہ زاری کے عالم میں رب ذولجلال کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے ‘اے میرے رب تو نے مجھ سے وعدہ کیا اے اﷲ اپنا وعدہ پورا کر پھر آپ ﷺ اﷲ تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے اور گلو گیر آوار میں فریاد کرنے لگے ۔ اے میرے خدا میں نے اپنی کل کائنات تیری رضا کے لیے میدان میں لا کھڑی کر دی ہے اﷲ آ ج اگر یہ چند جانیں ضائع ہو گئیں تو پھر قیامت تک اِس زمین پر تیری عبادت کرنے والا کو ئی نہ ہو گا ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے جب آپ ﷺ کی گریہ زاری اور فریاد و اضطراب بے قراری کو دیکھا تو ان کا دل بھر آیا اپنے محبوب ﷺ کی شکستہ دلی دیکھ کر دل بھر آیا اور رو پڑے آگے بڑھے گلو گیر آواز میں عرض کیا ۔ یا رسول اﷲ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ‘اﷲ آپ ﷺ کو ہر گز مایوس نہ کرے گا وہ آپ ﷺ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا ۔ اس کے بعد رسول اﷲ ﷺ کو ایک جھپکی آئی پھر آپ ﷺ نے سر اُٹھا یا اور فرمایا ابو بکر ؓ خو ش ہو جا تمھارے پاس اﷲ کی مدد آگئی ہے جبرائیل امین ؑ آگئے ہیں اِس کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے ایک مٹھی کنکر یلی مٹی لی اور قریش کی طرف رخ کر کے فرمایا چہرے بگڑ جائیں اور ساتھ ہی مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی پھر مشرکین میں سے کوئی نہ تھا جس کی دونوں آنکھوں نتھنے اور منہ میں اس مُٹھی مٹی میں سے کچھ نہ کچھ نہ گیا ہو ۔ اِسی کی بابت اﷲ تعالی کا ارشاد ہے ترجمہ : جب آپ ﷺ نے پھینکا تو درحقیقیت آپ ﷺ نے نہیں پھینکا اﷲ نے پھینکا ۔ مبارزت میں قریش کے تین بہترین شہسوار نکلے‘ عُتبہ ‘شیبہ اور ولید مسلمانوں کی طرف سے حضرت حمزہ ؓ حضرت علی ؓ اور حضرت عبیدہ ؓ بن حارث مقابلے پر آئے حضرت حمزہ ؓ نے شیبہ کو حضرت علی ؓ نے ولید کو قتل کر دیا لیکن عبیدہ ؓ بن حارث زخمی ہو گئے تو حضرت علی ؓ اور حضرت حمزہ ؓ جو اپنے شکا ر سے فارغ ہو گئے تھے دونوں آگے بڑھے اور عتبہ کا کا م تما م کر دیا اور زخمی حضرت عبیدہ ؓ کو اٹھا لائے ‘قریش اپنے تین نامور جنگجوں کو کھو چکے تھے ٰلہٰذا اب وہ غضب ناک ہو کر آگے بڑھے اب عام جنگ شروع ہو چکی تھی دوران جنگ چند ایسے ایمان افروز منظر سامنے آئے جو پہلی اور آخری بار وقوع پذیر ہو ئے ‘حضرت ابو عبید بن الجراح ؓ اپنی محبوب سے محبوب چیز بھی رسول اﷲ ﷺ پر قربان کرنا پسند کرتے تھے ‘غزوہ بدر میں ان کا باپ عبداﷲ بن جراح کفا ر کی طرف سے آیا تھا وہ ایمان لانے کی وجہ سے ان سے سخت ناراض تھا دو ران جنگ کئی با ر تاک تاک کر حضرت ابو عبیدہ ؓ کو نشانہ بنایا حضرت ابو عبیدہ ؓ کچھ دیر بعد طرہ دیتے رہے جب دیکھا کہ وہ باز نہیں آتا تو کہا لاؤ اس دشمن ِ خدا کا کام کر ہی ڈالوں یہ کہہ کر ایک ہی وار کیا اور عبداﷲ بن جراح ڈھیر ہو گیا ۔ یہ دنیا کی پہلی اور آخری جنگ تھی ایک طرف اﷲ کے دوست اور دوسری طرف اﷲ کے دشمن کھڑے تھے یہ سب آپس میں رشتہ دار تھے ایک طرف باپ اور دوسری طرف بیٹا ایک طرف چچا تو دوسری طرف بھتیجا ایک طرف سسر تو دوسری طرف داماد ایک طرف بھائی تودوسری طرف دو سرابھائی ایک طرف ھٹ دھرم مشرکین اور دوسری طرف اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے دیوانے متوالے جن کے لیے سب رشتہ داریاں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے رشتہ میں ہیچ تھیں ۔حضرت ابو بکر ؓ کا بیٹا مشرکین کی طرف سے آیا تھا ۔ ایمان لانے کے بعد ایک دن بیٹا عبدالرحمن ؓاپنے والد سے کہنے لگا بدر کے دن آپ ؓکئی مرتبہ میرے تیر کی زد میں آئے مگر میں نے اپنا ہاتھ روک لیا تو قربان جائیں عاشقِ رسول ﷺ پر فرمایا خدا کی قسم مجھے رسول اﷲ ﷺ نے نہ روکا ہوتا تو میں اپنا ہا تھ ہر گز نہ رو کتا ۔ اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کے عشق میں حضرت عمر ؓ دیوانے تھے جو بھی مدِ مقابل آتا اُس کو قتل کر دیتے اِس معرکہ میں ان کا ماموں عاص بن ہشام بھی مشرکین مکہ کی طرف سے آیا تھا دو رانِ جنگ جب وہ حضرت عمر فاروق ؓ کے سامنے آیا تو آپ ؓ اُس کو قتل کرنے کے لیے جب اس کی طر ف بڑھے تو وہ خوف زدہ ہو کر چلا یا میرے بھانجے کیا تو ہی مجھے قتل کر ے گا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہاں اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کے دشمن میں ہی تیرا کام تما م کروں گا یہ کہہ کر اپنی تلوار کے وار سے اس کا سر اڑا دیا اور فرمایا جو اﷲ کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کا بیان ہے میں جنگ بدر میں تھا کہ اچانک دو نوجوانوں کو دیکھا ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا چچا جان مجھے ابو جہل دکھا دیں اِسی دوران مجھے ابو جہل نظر آگیا میں نے کہا وہ رہا شکار دونوں اپنی تلواریں لے کر اس پر جھپٹ پڑے اور اسے قتل کر دیا دونوں حملہ آوروں کا نام معاذ بن عمروؓ اور معاذ بن عفرا ؓ تھا حضرت عبد الرحمن ؓ کہتے ہیں میں امیہ اور اس کے بیٹے کے درمیان چل رہا تھا کہ امیہ نے پوچھا آپ لوگوں میں وہ کونسا آدمی تھا جو اپنے سینے پر شتر مرغ کا پر لگائے ہو ئے تھا میں نے کہا وہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ تھے امیہ نے کہا یہی شخص ہے جس نے ہمارے اند ر تباہی مچا رکھی تھی ۔ اﷲ تعالی نے مسلمانوں کو فتح نصیب کی یہ معرکہ مشرکین کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح مبین پر ختم ہوا اِس میں چودہ مسلمان شہید ہو ئے لیکن مشرکین کا بھاری نقصان ہو اان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید کئے گئے جو زیادہ تر سردار اور بڑے لوگ تھے دوران جنگ آپ ﷺ کے چچا زاد حارث بن عبدالمطلب ؓبھی شدید زخمی ہوئے ان کا جسم زخموں سے چور تھا آپؓ کو اٹھا کر رسول اﷲ ﷺ کے قدموں میں لایا گیا بڑی محبت سے رسول اﷲ ﷺ کے چہرہ مبارک کو دیکھا اور کہا یا رسول اﷲ ﷺ چچا ابو طالب کہا کرتے تھے ترجمہ : ہم محمد ﷺ کی حفاظت کریں گے یہاں تک کہ ان کے اردگرد مارے جائیں گے اور اپنے بچوں اور بیویوں سے غافل ہو جائیں گے اِس قول کا ان سے زیادہ مستحق میں ہوں یہ کہا اور رسول اﷲ ﷺ کے قدموں میں جان دے دی ۔

ہماری ماں حضرت عائشہ بنتِ ابو بکر صدیق ؓ(حصہ دوئم)

ہماری ماں حضرت عائشہ بنتِ ابو بکر صدیق ؓ(حصہ دوئم)کفارِ مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آچکے تھے ۔ مدینہ شریف کی آب و ہوا اور موسم مکہ سے مختلف تھا بیشتر مہاجرین کو آب وہوا موافق نہ آئی جس کی وجہ سے وہ موسمی بخا ر میں مبتلا ہو گئے حضرت ابو بکر صدیق ؓ بھی بیماری کی وجہ سے صاحب فراش ہو گئے اس دوران گھر کے کام کاج کا بوجھ حضرت عائشہ ؓ پر آگیا دن رات کام کر نے کی وجہ سے سیدہ حضرت عائشہ ؓ بھی بیمار ہو گئیں جب مرض نے طول کھینچاتو آپؓ بہت کمزور ہو گئیں آخر شافع دو جہاں ﷺ کی دعا سے مرض دور ہوا اور آپ ؓ صحت یاب ہو گئیں تو ایک دن یار ِ غار حضرت ابو بکر صدیق ؓ بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہو ئے اور عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ آپ ﷺ اپنی اہلیہ کی رخصتی کیوں نہیں کرا لیتے تو سرور کائنات ﷺ نے فرمایا میرے پاس مہر ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے قربان جائیں سرور دو عالم ﷺ پر کہ جو پیسے بھی پاس ہو تے حاجت مندوں میں تقسیم کر دیتے اور گھر میں دولت نام کی کوئی چیز بھی نہ ہو تی ۔ یارِغار ؓ سے یہ برداشت نہ ہوا پانچ سودرہم اپنے آقا و مولا ﷺ کو قرض دے دئیے سرور دو عالم ﷺ نے یہ پو ری رقم جو حق مہر تھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے گھر پہنچا دی ۔ مہر کی ادائیگی کے بعد صحابیات ؓ کی جماعت دلہن کے گھر پہنچی سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کو دلہن بنا یا گیا پھر اس کمرے میں لایا گیا جہاں انصاری عورتیں منتظر تھیں انہوں نے بہت پیار اور شفقت سے دلہن کا استقبا ل کیا تھوڑی دیر بعد سرور کائنات ﷺ بھی تشریف لے آئے ۔ اِس شادی میں حضرت عائشہ ؓ کی سہیلی حضرت اسماء ؓ بنتِ یزید بھی شامل تھی ۔فرماتی ہیں اس وقت محبوب خدا کی ضیافت کے لیے دودھ پیش کیا گیا ساقی کوثر نے تھوڑا سا دودھ پیا اور پھر پیالہ حضرت عائشہ ؓ کی طرف بڑھا دیا وہ شرمانے لگیں میں نے کہا رسول اﷲ ﷺ کا عطیہ واپس نہ کرو پھر انہوں نے شرماتے شرماتے پیالہ لے لیا اور تھوڑا سا پی لیا رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا اپنی سہیلیوں کو دو انہوں نے کہا یا رسول اﷲ ﷺ ہم کو اشتہا نہیں فرمایا جھوٹ نہ بولو آدمی کا جھوٹ لکھا جاتا ہے اور پھر حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی ہو گئی یہ شوال کا مہینہ اور سن ہجری کا پہلا سال تھا ۔ حضرت عائشہ ؓ جب ماں باپ کے گھر سے حرم نبوی ﷺ میں رونق افروز ہو ئیں تو رہائش کے لیے جو حجرہ آپ ؓ کو ملا وہ مسجد نبوی ﷺ سے متصل تھا ۔ جس حجرہ میں آپ ؓ قیام پزیر تھیں اس کی لمبائی چوڑائی بہت کم تھی صرف ایک کمرہ کی صورت میں تھا دیواریں خام اینٹوں اور کھجورکی شاخوں پر مشتمل تھیں جن پر گارا لگا دیا گیا تھا چھت بھی کھجور کی شاخوں اور پتوں پر مشتمل تھی بارش سے بچنے کے لیے کمبل ڈال دیا گیا تھا اور دروازے کو پردے کے لیے کمبل سے ڈھانپ دیا گیا تھا ۔ گھر کا کل اثاثہ ایک چارپائی ایک چٹائی ایک بستر ایک تکیہ جس میں چھال بھری ہوئی تھی ۔ آٹا اور کھجور رکھنے کے لیے ایک دو برتن پانی کا ایک برتن اور پینے کے لیے ایک پیالہ کئی کئی راتیں گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا یہ شہنشاہِ دو عالم ﷺ کا حجرہ تھا وہ سرور کائنات ﷺ جو فرش پر بیٹھ کر عرش کے مالک تھے حضرت عائشہ ؓ جب شادی کے بعد کا شانہ نبوی ﷺ میں تشریف لائیں تو انہوں نے گھر کا جائزہ لیا اوردیکھا کہ گھر میں دو نو جوان لڑکیا ں موجود ہیں جن کی اب شادی کی عمر ہو چکی ہے ۔ ایک دن شہنشاہِ دو عالم ﷺ تشریف فرما تھے کہ سیدہ عائشہ ؓ نے بچیوں کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا اور درخواست کی کہ یا رسول اﷲ ﷺ اب بچیوں کی شادی کر دینی چاہیے ۔ ایک تجویز ہے رحمتِ دو عالم ﷺ نے پوچھا کیا ؟ تو سیدہ عائشہ ؓ نے عرض کی کیوں نا سیدہ فاطمہ ؓ کی شادی حضرت علی ؓ سے کر دی جا ئے رحمتِ دو عالم ﷺ نے سنا تو بہت خوش ہو ئے اور پھر دو ہجری کے وسط میں حضرت فاطمہ ؓ کی شادی فاتح خیبر شیرِ خدا حضرت علی ؓ سے کر دی ۔ اور پھر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایک ماں کی طرح شادی کے تمام انتظام خود کئے جس مکان میں سیدہ فاطمہ ؓ نے جانا تھا اُس کی خود اچھے طریقے سے صفائی کی بستر اور تکیے لگائے دعوت میں خود چھوارے پیش کئے کپڑے لٹکانے کے لیے الگنی بنائی آپ ؓ اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے حضرت فاطمہ ؓ سے اچھا بیاہ نہیں دیکھا ۔ جس مکان میں سیدہ فاطمہ ؓ بیاہ کر گئیں یہ مکان سیدہ عائشہ ؓ کے گھر کے پچھلی جانب دیوار سے ملحق تھا آنے جانے کے لیے گلی کا چکر کاٹ کر آنا پڑتاتھا ۔ چنانچہ سہولت کے لیے درمیانی دیوار میں ایک کھڑکی نکال لی اب جب ماں بیٹی چاہتی آپس میں بات چیت کر لیتی ۔ سیدہ فاطمہ ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کی محبت اور خوشگوار تعلقات کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ کی بے شمار ایسی احادیث موجود ہیں جن میں حضرت عائشہ ؓ کی بے شمار ایسی احا دیث موجود ہیں جن میں حضرت فاطمہ ؓ کی منقبت ہے اِس سے بخوبی احساس ہو تا ہے کہ ان دونوں مقدس ہستیوں کے درمیان کس قدر زیادہ پیار تھا رسول کریم ﷺ کی چوتھی بیٹی ام کلثوم ؓ تھیں جن کی عمر اُس وقت بیس سال تھی ۔ اُن کی بڑی بہن سیدہ رقیہ ؓ جو حضرت عثمان غنی ؓ کے نکاح میں تھیں دو ہجری میں وصال پا چکی تھیں ایک دن حضرت عائشہ ؓ نے محبوب خدا سے عرض کی حضرت عثمان غنی ؓ کے بارے میں کیا خیال ہے کیوں نا ام کلثوم ؓ کی شادی حضرت عثمان ؓ سے کر دی جائے ۔ آقائے دو جہاں ﷺ نے تجویز کو پسند فرمایا اور پھر تین ہجری میں حضرت ام کلثوم ؓ کی شادی حضرت عثمان ؓ سے کر دی گئی۔ اِسی وجہ سے حضرت عثمان غنی ؓ ذوالنورین ؓ کے عظیم رشتے سے پہچانے گئے ۔ حضرت عائشہ ؓ یارِ غار حضرت ابو بکر ؓ کی بیٹی تھیں باپ کی طرح محبوب خدا ﷺ کی عاشق اور ہر ادا پر مر مٹنے کو تیا ر رہتی تھیں بے پناہ عشق کر تی تھیں ایک دن حضرت عائشہ ؓ چرخہ کات رہی تھیں کہ سرور دو عالم ﷺ سامنے تشریف فرما اپنی نعلین مقدس کو پیوند لگا رہے تھے کہ مجسمِ رحمت ﷺ کی پیشانی مبارک پر مشکیں پسینہ کے روشن قطرات نمو دار ہو ئے رو شن پیشا نی اور نوری قطرات سے نور کی شعائیں پھوٹ رہی تھیں سیدہ عائشہ ؓ نے جب یہ دلکش اور دلربا خوبصورت منظر دیکھ تو اپنا کام بھو ل گئیں اِس خوبصورت منظر نے آپ ؓ کو اپنے سحر میں جکڑ لیا اور آپ ؓ اِس میں کھو گئیں ۔ آقا ﷺ متوجہ ہوئے اور فرمایا عا ئشہ ؓ تمھیں کیا ہوا توہماری ماں ؓ نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ آپ ﷺ کی جبیں مقدس پر پسینے کے قطرے نو ر کے ستارے معلوم ہو تے ہیں اگر اِس کا نظارہ ابو کبیر الہندلی کر لیتا تو بے ساختہ پکار اُٹھتا کہ میرے شعر کا مصداق حقیقیت میں آپ ﷺ ہیں ۔
ترجمہ : جب میں نے اس روئے روشن کو دیکھا تو اُس کے رخساروں کی روشنی اور صفائی میں و ہ شکن بصورت چودھویں کے چاند نظر آئے ۔رحمتِ مجسم ﷺ نے سماعت فرمایا تو آپ ﷺ کے لعلین نورانی ہونٹوں پر ہزاروں روشن چاند ستاروں کی لہر سی دوڑ گئی ۔

loading...