ہفتہ، 17 مارچ، 2018

مغرب پرستی (حصہ اول)

مغرب پرستی (حصہ اول)سنٹرل لندن کے مختلف شاپنگ مالز میں تھوڑی بہت شاپنگ اور لمبی آوارہ گردی کے بعد ہم حسبِ معمول دریائے ٹیمز کے لندن برج پر آگئے تھے یہاں پر حسبِ معمول دنیا بھر کے سیاحوں کا سیلاب آیا ہوا تھا دنیا جہاں کے سیاح جن میں نوجوانوں کی غالب اکثریت تھی نوجوان لڑکے لڑکیا ں مختلف نشوں میں دھت دنیا مافیا سے بے خبر ایک دوسرے سے چمٹے ہو ئے تھے ۔ ہم تیزی سے لندن برج کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پیدل چل رہے تھے شام کا وقت تھا اور سردی اپنے عروج پر تھی دریائے ٹیمز کے نیم منجمد پانی سے تیرتی ہوئی ہواؤوں نے فضا کو بھی نیم منجمد کر دیا تھا ۔ ہم لونگ کوٹ مفلر اور گرم دستانوں اور جرسیوں سے لیس ہو کر آئے تھے لیکن اِس کے باوجود یخ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جیسے ہی چہروں سے ٹکراتے ہڈیوں تک سردی کی لہریں دوڑ جاتیں ۔ تیز سردی جو اب ہماری ہڈیوں کے گودوں تک سرایت کر چکی تھی اور چاروں طرف فحاشی اور مادر پدر آزاد جنسی حرکات سے تنگ آکر اب ہم کسی ایسے گرم گوشہ عافیت کی تلاش میں تھے جہاں ہم گرم کافی سے اپنے منجمد ہو تے جسموں کو حرارت پہنچا سکیں اور کچھ دیر آرام کر سکیں ٹھنڈی یخ ہوا کے تھپیڑوں سے بچتے بچاتے آخر کار ہمیں VEG-Sub Wayنظر آگیا ہم تقریباً دوڑتے ہو ئے اُس کی طرف لپکے اور دروازہ کھول کر اند گھس گئے ۔ ہماری خوش قسمتی کہ ایک ٹیبل سے ایک جوڑا اٹھ رہا تھا لہذا موقع غنیمت جانتے ہو ئے ہم فوری طور پر دونوں کر سیوں پر قبضہ کیا ہم تین تھے دو کر سیوں پر بیٹھ گئے اور تیسرا فوری طور پر کافی لینے چلا گیا جلدی ہی وہ کافی کے گرما گرم بھاپ اٹھتے خوشبو سے لبریز مگ لے کر آیا اور ہمارے ہاتھوں میں تھما دئیے اور ہماری choiceپوچھ کر بر گر بنوانے چلا گیا ۔ میں نے فوری طور پر گرما گرم کافی کا بڑا سا گھونٹ اپنے حلق سے اتا را دو تین بڑے برے شیریں تلخ اور گرم گھونٹوں کے بعد جلد ہی میرے جسم کو حرارت ملنا شروع ہو ئی تو میں اپنے سامنے موجود میزبان سے مخاطب ہوا کہ لندن برج پر فحاشی اور بے شرمی کا سیلاب آیا ہوا تھا کوئی بھی مہذب اور غیرت مند انسان اپنی فیملی کے ساتھ آنے والی غلطی نہیں کر سکتا پتہ نہیں یہ انسان ہیں یا جا نور جن پر ہر وقت جنس سوار رہتی ہے ۔ ہم دونوں اِس topicپر بات کر رہے تھے کہ اچانک میں نے دیکھا میرے سامنے دو ایشیائی نوجوان بیٹھے ہماری گفتگو کو سن رہے تھے دونوں نوجوان کے ہا تھ میں بڑے بڑے برگر تھے جن کی اٹالین ڈبل روٹی اور ڈبل روٹی کے درمیان چکن اور دوسرے میٹریل کو وہ وقفے وقفے سے اپنے نوکیلے اور جوان دانتوں سے بے دردی سے اُدھیڑ رہے تھے ۔ ہم دونوں مغرب کی مادر پدر آزاد سوسائٹی پر جو تنقیدی گفتگو کر رہے تھے وہ شاید اُن کی حساس طبیعت کو نا گوار گز رہی تھی وہ دونوں قدرے ناراضگی اور غصے سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے ۔ جب میری نظریں اُن دونوں نوجوانوں کی نظروں سے ٹکرائیں تو میں نے اخلاقاًاُن کی طرف مسکراہٹ کا نذرانہ اچھالا میری مسکراہٹ اور اپنائیت بھرے رویے سے دونوں نے اپنی کرسیاں گھسیٹی اور ہماری ٹیبل کے پاس آگئے ۔ سلام اور تعارفی کلمات کے بعد پتہ چلا کہ دونوں پاکستان سے یہاں پڑھنے آئے ہوئے ہیں ہمار ی گفتگو کے بعد اُنہیں شک گزرا کہ ہم بھی پاکستانی ہیں تو وہ ہماری طرف آگئے اب اُن میں سے ایک بولا سر میں آپ سے کھل کر بات کر نا چاہتا ہوں آپ غصہ تو نہیں کریں گے نا میرے ہا ں کے اشارے کے بعد وہ سٹارٹ ہو گیا ۔ سر آپ یہاں کی آزادی اور کلچر پر جو تنقید کر رہے تھے وہ بلکل غلط ہیں یہ مغرب ہے جس نے پوری دنیا کو آزادی سے آشنا کیا برصغیر اور غیر پسماندہ ممالک اور اسلامی ممالک ابھی نشو ونما اور ترقی کے مراحل سے گزر رہے ہیں ہمارے مذہب نے ہماری ترقی کو روک رکھا ہے ہماری جہالت اور غیر تر قی یا فتہ اقدار اور مذہب سے چمٹے رہنا ہی ہماری ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ مغرب نے کلیسا اور ریاست کو الگ کیا تو وہ ترقی یا فتہ بن گئے ہم ابھی تک ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں پھر وہ فرانسیسی مفکر روسو کا جملہ بار بار دہرا رہا تھا جو اُس نے ایک مشہور کتاب سوشل کنٹریکٹ میں ۱۷۵۰ء میں کہا کہ ۔ انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔اُس کا یہ جملہ سن کر مجھے پاکستان کے بے شمار ارباب ِ دانش قلم کار ادیب اور نام نہاد روشن خیال لوگ یا د آگئے جو عرصہ دراز سے اِس جملے کی ہر جگہ جگالی کر تے نظر آتے ہیں اُن کے لیے یہ ایک الہامی کلام بن چکا ہے ۔نا جانے یہ جملہ کتنی بار کہاں کہاں نقل کیا گیا ۔ آپ اقوالِ زریں کی کوئی کتاب اٹھا لیں سرِفہرست یہی جملہ آپ کو ملے گا کتنی تنظیموں نے اِس جملے کو اپنا موٹو قرار دیا پتہ نہیں کتنی تحریروں کا آغاز اِس جملے سے ہوا ہے پاکستان اور پوری دنیا کے ارباب ِ دانش اور نام نہاد روشن خیال بار بار اِس جملے کو دہراتے اور وجد میں سر دُھنتے ہیں کہ دنیا میں اِس جیسا جملہ کبھی کسی نے نہیں کہا ۔ آج پوری دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کا چرچا ہے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ صرف دو تین صدیاں پہلے مغرب اور پوری دنیا سوائے اسلام کے جہالت کے تاریک دور سے گزر رہی تھی ۔ ہمارے تمام اہلِ علم اور دانشور انسانی حقوق کا شعور اور انسان کی بیداری اور پھر انسانی حقوق کی دستاویزات ان کی حفاظت اور نگہبانی کا سارا خراج مغرب کو دیتے ہیں ۔اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مغرب کہ بیداری یا شعور سے پہلے اِس کرہ ارض پر نہ تو کوئی انسان رہتا تھا اور نہ ہی حضرت ِ انسان کے حقوق تھے ہمارے اہلِ علم جہاں بھی بات کرتے ہیں تو روسو کارل مارکس ہیگل کانٹ نئشے رسکن سپنگلر فراٗیڈ رسل شیکسئپر مارلوکے علاوہ دنیا میں کوئی اور انسان یا فلسفی نظر ہی نہیں آتا ۔ ہمارے دانشوروں کو بھی خیال نہیں آیا کہ وہ مغربی دانشوروں کے بھاری بھرکم نام لینے کی بجائے کبھی اگر سیرت نبوی ﷺ اور قرآن مجید کا مطالعہ ہی کر لیا کریں تو وہ سب کچھ آج ہمارے شعور اور دامنِ فکر میں ہوتا جو بھیک کے طور پر ہم مغرب سے مانگتے ہیں ۔ 
حقیقت یہ ہے کہ 14صدیوں سے عملاً اسلام اور اہل اسلام انسان کے بنیادی حقوق کے نہ صرف علم بردار ہیں بلکہ محافظ بھی رہے ہیں ۔ لیکن ظلم کی بات یہ ہے آج انسانی حقوق کی تمام اجارہ داری مغرب کے نام لکھی جا چکی ہے اور مغرب کے قول و فعل کا تضاد دیکھیں کہ مغرب اِس مسئلے کو ہر قوم اور ملک کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر تا ہے جہاں اس کے سیاسی اور معاشی مفادات خطرے میں ہوں اگر اُس کے مفادات نہ ہوں تو کہاں کے حقوق راوی ہر جگہ امن کا راگ الاپتا ہے عراق ہو یا افغانستان کشمیر ہو یا بو سینا ہر جگہ مغرب کا نیا چہرہ سامنے آتا ہے ۔

محبت کے پھول

محبت کے پھوللاہور سے لندن کے طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد اب میں ہیتھروائر پورٹ کی برقی قمقوں سے سجی لمبی راہداریوں میں معذور مسافر ویل چئیر کو چلاتا ہوا مختلف موڑ کاٹتا ہوا امیگریشن ہال کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ معذور شخص بار بار ممنون اور تشکر آمیز تاثرات اور مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھ رہا تھا ۔راستے میں ایک گورے اور سیاہ فام نے ہماری راہنمائی کی اُن کی بتائی ہو ئی معلومات کے سہارے ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے ۔میرے ساتھ میرا ساتھی حافظ نصیر احمد بھی تھا۔ میرے دونوں ساتھی زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اِس لیے میں اِن دونوں کے لیڈر کے فرائض بھی انجام دے رہا تھا آخر کار کافی زیادہ پیدل چلنے کے بعد ہم امیگریشن ہال میں داخل ہو گئے ۔ کیونکہ ہم جہاز سے اُترنے والے آخری مسافر تھے اِس لیے ہم ہال میں بھی سب سے لیٹ پہنچے اِس لیے ہمارے آنے سے پہلے تمام لوگ لمبی لمبی لائینیں لگا کر کھڑے تھے ۔ ہال میں داخل ہو تے ہی ہمیں احساس ہو گیا کہ ہم یہاں لیٹ پہنچے ہیں لہذا ہمیں لمبا انتظار کرنا ہو گا لہذا ہم تینوں ایک طرف کھڑے ہو گئے اور انتظار کر نے لگے کہ جیسے ہی رش کم ہو تو ہم امیگریشن کا ؤنٹر کی طرف بڑھیں ۔ میرے دونوں ساتھی اور خاص طور پر معذور شخص بہت خوفزدہ تھا کہ کاؤنٹر پر انگریزی میں بات چیت کر نا ہو گی اور یہ دونوں انگریزی میں Flowکے سا تھ بات کر نے سے قاصر تھے ۔ میرے دونوں ساتھی با ر بار مدد طلب نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں بار بار اُن دونوں کو حوصلہ دے رہا تھا کہ اﷲ تعالی کے فضل و کرم سے سب اچھا ہو گا کیونکہ ہم انتظار میں تھے اِس لیے میں ہال میں موجود لوگو ں اور امیگریشن عملے کو دیکھ رہا تھا ۔ چند لمحوں میں ہی مجھے احساس ہو گیا کہ انگریز جو ہر وقت انسانی حقوق اور انسانیت کی جگالی کر تے نظر آتے ہیں یہاں اُن کے قول و فصل میں واضح تضاد اور منا فقت نظر آرہی تھی یہاں پر گوروں اور بر طانوی شہریوں کے لیے الگ کاؤنٹر بنے تھے جہاں گورے رسمی کاروائی کے ساتھ ہی تیزی سے باہر جا رہے تھے ۔ جبکہ ایشیائی اور سیا ہ فاموں کی لمبی قطاریں اور اِن قطاروں میں خوفزدہ چہرے نظر آرہے تھے امیگریشن کا ؤنٹر پر موجود عملہ تکبر انہ انداز سے پسماندہ ممالک کے شہریوں کو ڈیل کر رہے تھے جن پر امیگریشن والوں کو زرہ سا بھی شک ہو جاتا اُس پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی جاتی اور وہ بے چارہ منتوں ترلوں پر اُتر آتا کئی بے چارے بار بار وضاحتیں دے رہے تھے لیکن امیگریشن عملہ قصائیوں کی طرح اُن کی وضاحتوں اور جوابات کو نظر انداز کر رہا تھا ۔ کئی نوجوانوں کو تو الگ کھڑا کر دیا گیا یا اُن کو تفتیشی عملے کے ہا تھوں دے دیا گیا تاکہ وہ اچھی طرح تسلی کر کے اُن کو چھوڑیں یا اُن بیچاروں کے ملکوں میں واپس بھیج دیں بر طانیہ آنے والے بیچارے اِس نا روا سلوک کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھے اِن مشتق ِ ستم بننے والوں میں پاکستانی سب سے زیا دہ نمایاں اور زیادہ تھے ۔ ایسے لوگوں کے چہرے خوف اور دہشت زرد نظر آرہے تھے بیچارے حسرت و بے بس بے چارگی اور بے بسی کی تصویر نظر آرہے تھے میرے ایک ساتھی با ریش تھے اوپر سے پاکستانی یہ سب دیکھ کر اُس پر اور زیادہ خوف طاری ہو گیا لیکن میں اُسے بار بار حوصلہ دے رہا تھا ۔ اِن حوصلہ شکن مناظر اور رویوں کے با وجود اب میں نے امیگریشن کا ؤنٹر کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کر لیا اب بہت ساے لوگ جا بھی چکے تھے اِسی دوران میں نے ایک ایشیائی لڑکی کو امیگریشن عملے میں دیکھا اور اُس کی طرف بڑھ گیا وہ مسافروں کی قطاریں بنوانے میں مدد کر رہی تھی مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ میری طرف متوجہ ہو ئی اور اردو بولی میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں تو میں نے معذور شخص کی طرف اشارہ کیا تو اُس نے اشارہ کیا کہ اُن کو لے آؤ پھر ہمیں ایک خالی کاؤنٹر کی طرف بڑھا دیا اور امیگریشن کاؤنٹر پر سیا ہ فام بڑی عمر کی عورت کو کہہ بھی دیا ۔ اب ہم کاؤنٹر کے قریب آئے اور میں نے پاکستانی پاسپورٹ اُس سیاہ فام عورت کے سامنے رکھ دیاپاکستا نی پاسپورٹ اور میرے ساتھ مولوی وہ عورت ایک دم چونکی اُس کی تفتیشی تمام حسیات بیدار ہو گئیں اب وہ غور سے ہم تینوں کا جائزہ لے رہی تھی جیسے ہمارے سروں پر سینگ اُگ آئے ہوں وہ بار بار پاسپورٹ اور ہمیں دیکھ رہی تھی پھر وہ سامنے لگی کمپیوٹر سکرین اور بٹنوں کی طرف متوجہ ہو ئی اب وہ حیران خوفزدہ اور پریشان نظر آرہی تھی وہ بار بار کمپیوٹر کے بٹنوں سے کھیل رہی تھی ۔ جیسے کوئی چیز تلاش کر رہی ہو ۔ اب اُس کی تلاش اُلجھن میں داخل ہو چکی تھی اُس کا یہ رویہ میرے ساتھیوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہا تھا تقریباً 10منٹ بعد وہ میری طرف متوجہ ہو ئی اور اُس نے سوال کا پہلا گو لا ہم پر داغا ۔ آپ کون ہیں ۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا Teacherوہ غور سے میری طرف دیکھتی رہی اور میں پر سکون چہرے کے ساتھ اُس کو دیکھتا رہا وہ شاید تھک چکی تھی اب اُس نے بار ی باری ہمارے انگوٹھوں کا بائیومیٹرک پر چیک کیا پاسپورٹوں پر مہر لگائی اور پاسپورٹ ہمارے حوالے کئے اور ہمیں یو کے داخلے کا پر وانہ جاری کر دیا میرے ساتھیوں کے چہروں پر گمشدہ مسکراہٹ واپس آچکی تھی اب ہمیں اگلے ہال میں بیگ اور سامان مل گیا اُس کو لے کر جب آگے بڑھے تو کسٹم والوں نے ہمارے سارے بیگ اُدھیڑ دیے سارا سامان چیک کیا وہ شاید سگریٹ ڈھونڈ رہے تھے اِن لوگوں کا ناروا سلوک بھی ایک لمبی داستان ہے یہاں سے فارغ ہو کر اب ہم باہر کی طرف لپکے جلد ہی ہم اُس حصے کی طرف آگئے جہاں معذور کے میزبان اور میرے دو آشنا چہرے حافظ نور احمد اور خالد فاروق گھمن والہانہ انداز میں اشارے کرتے نظر آئے پر دیس میں اپنوں کے چہرے اﷲ کا خاص انعام ہو تے ہیں خالد گھمن پتہ نہیں کہا ں کہاں سے گلاب کے پھولوں کے ہار گلدستے اور پھولوں کی ٹوکریاں لیے کھڑا تھا نور احمد رانجھا کیمرہ مینوں اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا ۔ میں نے فوری طور پر معذور دوست کو اُس کے میزبانوں کے حوالے کیا سلام کیا اور اپنے میزبانوں کی طرف بڑھا میرے میزبانوں کے ہا تھ میں پھولوں کے ہا ر تھے اور چہروں پر عقیدت محبت اور احترام کے پھول کھلے تھے خوشی سے اُن کے چہرے چاند کی طرح روشن تھے دونوں میزبان بہت محبت احترام سے گرم جوشی سے ملے ۔ میں انگریزوں کے ملک آچکا تھا وہ گورے جن کی بادشاہی میں سورج غروب نہیں ہو تا تھا لیکن آج برطانیہ سمٹ کر اپنی پرانی جگہ پر آچکا تھا ۔

loading...