ہفتہ، 17 مارچ، 2018

کانچ کی گڑیا

کانچ کی گڑیامیرے سامنے کانچ کی گڑیا جیسی نرم و نازک دھان پان سے تقریباً 22سالہ نو جوان لڑکی بیٹھی تھی جو بار بار ایک ہی فقرا دہرا رہی تھی سر میں انسان نہیں ہو ں کیا، میں Hurt نہیں ہو تی کیا میری Feelings نہیں ہیں ، کیا مجھے درد نہیں ہوتا ، میں کو ئی بھیڑ بکری ہو ں اُس کے نرم و نازک گالوں پر آنسوؤں کی آبشار مسلسل بہہ رہی تھی وہ بار بار اپنے دوپٹے کے پلو سے سوجھی ہوئی آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کو پونچھتی اور روتی سسکتی گلو گیر آواز میں کہتی سر میں کو ئی میز کرسی ہوں سبزی منڈی میں کوئی پھل یا سبزی ہوں یا کسی سٹور میں گھر کے استعمال کی کوئی چیز ہوں میں پلیٹ بالٹی گلاس برتن ہوں میں کیا ہوں ۔ سر میں پچھلے تین سال کی ظالمانہ ڈرل سے تنگ آگئی ہوں میں ڈیکوریشن پیش کی طرح سج کر چائے اور لوازمات کی ٹرالی سجا کر رشتہ دیکھنے والوں کے سامنے آتی ہوں اور مجرم بن کر کھڑی ہو جاتی ہوں مجھے سر سے پاؤں تک گھورا جاتا ہے طنزیہ اور استزائیہ نظروں اور فقروں سے نوازا جاتا ہے اور بُری طرح رجیکٹ کر کے دھتکار دیا جاتا ہے میں پچھلے تین سال سے روزانہ اِس پل صراط اور صحرا سے گز ر رہی تھی میرے باپ وفات پا چکے ہیں اب میں اپنی بیوہ ماں اور دو بہنوں کے ساتھ اِس اندھے بہرے معاشرے میں اپنی زندگی کی سانسیں پوری کر رہی ہوں سر میں اِن جلاد صفت عورتوں کا رویہ تحمل اور صبر سے برداشت کر رہی تھی لیکن تین دن پہلے ایک فیملی ہمارے گھر میرا رشتہ دیکھنے آئی ۔ میری ماں نے ہمارا پیٹ کا ٹ کر کچھ پیسے سمبھالے ہو ئے تھے آنے والے مہمانوں کے لیے چائے اور لوازمات تیا ر کئے اور میں حسب معمول چائے کی ٹرالی اور لوازمات لے کر اند ر گئی تو اندر ایک میا ں بیوی اور اُن کی بیٹی بیٹھی ہوئی تھی پہلے تو انہوں نے ٹرالی اور اُس پر پڑے لوازمات کو گہری اور تنقیدی نظروں سے دیکھا جو ہماری غربت کا منہ بولتا ثبوت تھی مختصر لوازمات اُن کی طبیعت اور مزاج پر گراں گزرے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر منفی اشارے کئے میں مجرموں کی طرح بیٹھ گئی اور میری ماں حسب معمول اُن کی خاطر مدارت اور خو شامد میں لگ گئی چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر لڑکے کی ماں نے پہلا حکم یہ صادر کیا کہ میں کھڑی ہو جاؤں میں نے حکم کی تعمیل کی اب وہ بھی کھڑی ہو گئی میرے ہا تھ پاؤں کو چیک کیا جس طرح جانوروں کو خریدنے سے پہلے اچھی طرح دیکھتے ہیں کہ اس کے ہا تھ پاؤں درست ہیں میری نظر ٹیسٹ کی اپنے سامنے چلا پھرا کر اور بٹھا کر خوب چیک کیا میرے وزن اور قد کا خوب اندازہ لگایا میرا منہ کھلوا کر میرے دانتوں کو چیک کیا اور اچھی طرح سونگھ کر دیکھا میرے منہ سے بد بو وغیرہ تو نہیں آرہی میرے بالوں کو کھینچ کھیچ کر چیک کیا کہ یہ اصلی ہیں یا نقلی ہیں میری آنکھوں کو غور سے دیکھا کہ میں نے کہیں لینز تو نہیں لگا ئے ہو ئے میرے جوتے اتار کر اچھی طرح پیروں کا جائزہ لیا جب میں یہاں پاس ہو گئی تو اُس نے عجیب پاگلوں والی حرکت کی مجھے بازو سے پکڑ ا اور باہر دھوپ میں لے گئی میرے چہرے پر پانی لگا کر رگڑ رگڑ کر دیکھا کہ میرا اصل رنگ کیا ہے اِس کے بعد میرے جسم کو ٹٹولنا شروع کر دیا اچھی طرح میرے جسم کو چیک کر نے کے بعد اندر آکر بیٹھ گئی اور بولی سیدھی سی بات شادی صرف لڑکی کے ساتھ نہیں ہو تی اُس کے گھر والوں سے ہوتی ہے اب وہ میری ماں کو کٹہرے میں کھڑا کر چکی تھی اب اُس جلاد صفت عورت نے اپنے مطالبے دہرانے شروع کر دیے وہ جہیز کے نام پر لمبے چوڑے مطالبے کر رہی تھی آخر میں اُس نے جو بات کی اُس نے مجھے اور میری ماں کو توڑ دیا اب اُس نے ایک ایسا مطالبہ کیا جو میرے اور میرے ماں کے بس میں نہیں تھا وہ کہنے لگی عید بقرہ عید اور جو باقی تہوار آئیں گے اُن دنوں پر میرے بیٹے کے لیے تحفے تحائف کو ن لائے گا کیونکہ میرے بڑے دو بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے جب بھی کوئی دن وغیرہ آتا ہے تو اُن کے سسرال میرے بیٹوں کا گھر بھر دیتے ہیں تو آپ کیا کریں گی میری ماں نے التجا کی کہ میرا خاوند فوت ہو چکا ہے میرا بیٹا کوئی نہیں ہے رشتہ دار سب ہمیں چند دنوں بعد ہی چھوڑ چکے ہیں اِس لیے اب جو بھی ہو گا میں ہی کروں گی ۔ اب اُس ظالم عورت نے بنک بیلنس اور جائیداد کے بارے میں انکوائری شروع کر دی لمبی چوڑی انکوائری بلکہ تفتیثش کے بعد اُس نے اعلان کیا کہ ہم آپ کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتے ہمارا بیٹا احساس کمتری کا شکار ہو جا ئے گا اُس ظالم عورت کو اپنے بیٹے کے احساس کمتری کا احساس تھا کسی کی معصوم بیٹی کے احساس کمتری کا احساس نہ تھا اُس نے بھی تین سالوں سے آتی عورتوں کی طرح انکار کیا اور جاتے جاتے کہہ گئی کہ میرے کزن کی بیوی فو ت ہو گئی ہے اُس کے بچوں کو سنبھالنے والا کو ئی نہیں اگر آپ کہیں تو میں اُن سے آپ کی بیٹی کے لیے بات کروں اُس کے کزن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی ۔ میری ماں نے انکا ر کیا تو بکواس کر تی ہو ئی چلی گئی اور ہمیشہ کی طرح میری روح اور جسم کو اُدھیڑ کر چلی گئی سر میں پچھلے تین سال سے انکا ر اور مسترد کر نے کے جہنم میں جل رہی ہوں ہر روز میری ماں کی آنکھوں میں امید کے چراغ روشن ہو تے ہیں لیکن انکار کے بعد اُن کی آنکھوں کے چراغ بھی مدھم پڑھ جاتے ہیں اور اُن کے سر میں چاندی کا رنگ اور گہرا ہو جاتا ہے سر کیا میں اور میری ماں انسان نہیں ہیں کیا ہمارے دل اور انا نہیں ہے کیا لڑکیاں بھیڑ بکریاں ہو تی ہیں کیا ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں ہو نا چاہیے سر کیا یتیم ہو نا غریب ہو نا جرم ہے اگر جرم ہے تو اِس میں میرا اور میری ماں کا کیا قصور ہے سر میں اور میری ماں انکار کی اِس دلدل میں ڈوبتے جا رہے ہیں ابھی تو میری ماں کے بالوں میں چاندی اُتری ہے کل جب میرے بالوں میں سفیدی آئے گی تو شاید میں یا میری ماں خود کشی کر کے ہی اِس اذیت سے نجات پائیں سر آپ کے پاس اِس عذاب اور مشکل کا کو ئی حل ہے ۔ میں اور میری ماں جو دن رات دہکتے انگاروں پر لوٹ رہی ہیں کو ئی وظیفہ کو ئی عبادت ایسی ہے جو ہم اِس جہنم سے نکل سکیں سر کیا میں نا مکمل ہوں میں اپاہج ہوں میرے میں کیا کمی ہے ۔اُس معصوم کا کرب دکھ اور بے بسی دیکھ دیکھ کر میں بھی بے بسی کیا انتہا پر پہنچ چکا تھا وہ سوالیہ نشان بنی میرے سامنے بیٹھی تھی اور میرے پاس اُس کے سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا اُس کی داستان غم سن کر میری آنکھیں نمناک ہو چکی تھیں ۔ میں نے محبت اور شفقت سے لبریز لہجے میں کہا نہیں میری معصوم بیٹی اُدھوری یا اپاہج تم نہیں ہو، تم ایک مکمل اور خوبصورت بیٹی ہو تمھارا کو ئی قصور نہیں ہے، نا مکمل اور اپا ہج تو وہ لوگ ہیں جو اِس اندھے بہرے گلے سڑے معاشرے کی پیداوار ہیں ۔ جو جلادوں کی طرح انکار اور سو سو نقص نکال کر چلے جاتے ہیں مجھے وہ بے شمار بیٹیاں یا د آگئیں جو ہر روز مجھے ملتی ہیں وقت گزرنے کے ساتھ اُن کے چہروں پر نوجوانی کی تازگی کی جگہ جب خزاں آنے لگتی ہے اور بالوں میں چاندی اُترنے لگتی ہے تو امید کے دیپ جلائے میرے یا میرے جیسے لوگوں کے پاس کشکول لے کر جاتی ہیں کہ اُن کی خالی جھولی بھر جائے، مجھے بے شماروہ لڑکیا ں یاد آئیں کہ دس دس سال سے انکار کے بعد وہ نفسیاتی مریض بن گئیں پہلے تو نفسیاتی ڈاکٹروں کے پاس علاج کروا یا جب افاقہ نہ ہو ا تو چند بچیاں تو پاگل خانے تک پہنچ گئیں، وہ بے شمار بچیاں جن کا ذہنی توازن اِس شدید غم کو برداشت نہ کر سکا اور اُن کو دورے پڑنے شروع ہو گئے ۔ ظالم لڑکے والے بلکل نہیں سو چتے کہ یہ نازک معصوم کانچ کی گڑیا ؤں جیسی اِس بے حس معاشرے کی بیٹیاں اِن کے انکار سے اِن کے ناز ک کانچ کے جسم ریزہ ریزہ ہو جا تے ہیں اور پھر پتہ نہیں کتنے دن یہ نازک بچیاں اپنے ریزہ ریزہ جسم کو اپنی نازک انگلیوں سے چنتی ہیں اپنے ماں باپ کی خوشی کے لیے پھر ظالم جلاد صفت لڑکے والوں کی ماؤں کے سامنے مجرم بن کر کھڑی ہو تی ہیں ۔

مغرب پرستی (حصہ دوئم )

مغرب پرستی (حصہ دوئم )دریائے ٹیمز لندن کے قریب Sub Way میں دو نوجوان پاکستانی پچھلے آدھے گھنٹے سے اسلام اور پاکستان کے نظام، اخلاقیات کے خلاف اور مغرب کی روشن خیالی اور آزادی کے حق میں تقریر کر رہے تھے اور میں سکون سے سن رہا تھا۔ کیونکہ دونوں نوجوان تھے اس لیے طاقت کے ذور پراپنی بات منوانے کے چکر میں تھے جب وہ اپنا تمام نام نہاد علم اُگل چکے تو میں نے دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور بولنے کی اجازت چاہی دونو میری طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے شائستگی اور نرمی سے بولنا شروع کیا صرف چند صدیاں پہلے ہی یورپ انسان اور حیوان کے فرق سے نا آشنا تھا یورپ میں باقاعدہ انسانوں کے اکھاڑے لگتے تھے زندہ انسانوں اور غلاموں پر بھوکے درندے چھوڑ دیے جاتے تھے بات بات پر زبان تالو سے کھینچ لی جاتی تھی، ہتھوڑوں سے انسانی دانت سر اور جبڑے توڑے جاتے تھے، انسانوں کے نازک جنسی اعضا کو بے دردی سے کاٹ دیا جاتا تھا، انسانوں پر تارکول مل کر آگ لگا دی جاتی تھی انسانوں کی دونوں ٹانگوں پر رسے باندھ کرمخالف سمتوں میں چیر دیا جاتا تھا، انسانوں کو سزا کے طور پر برف زاروں میں منجمد کر دیا جاتا تھا، ہر گھر اور بازار میں طوائفوں کا میلا لگتا ، جنونی نفسیاتی مجرم طوائفوں اور عورتوں کے پیٹ پھاڑ کر اپنی ذہنی تسکین کر تے تھے۔ یہ تو ماضی کی بات ہے آج یورپ میں طلاق کی شرح کتنی بڑھ چکی ہے، بن بیاہی ماؤں کی تعداد میں روز بروز اظافہ ہوتا جارہا ہے، سنگل مدرز کی تعداد آخری حدود کو چھورہی ہے، بہنوں پر بھائیوں کے حملے معمول بن چکا ہے، بنا شادی کے جانوروں کی طرح زندگی گزارنایہاں کی تہذیب اور عادت بن گئی ہے۔ اسقاط حمل کی شرح نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ آج یورپی، امریکن اور اسرائیلی ڈکشنری کے مطابق انسان صرف وہ ہے جس کا رنگ سفید ہے جس کی ماں شادی کے بنا بچے پیدا کرتی ہے جو کلب میں جانوروں کی طرح ناچتی ہے باپ شراب پی کر فٹ پاتھ یا کسی پارک میں بے ہوش ملتا ہے، یہاں کے مرد عورت کھا نا پینا سیکس کرنا اور نشے میں مدہوش رہناہی کو زندگی سمجھتے ہیں۔ یہاں کی اولاد کا نسب ماں سے شروع ہوتا ہے اور ماں پرہی ختم ہو جاتا ہے، یہاں مرد سے مرد اور عورت سے عورت کی شادی ایمان اختیار کر گئی ہے، یہاں جوا کھیلنا شراب پینا ناجائز بچے پیدا کرنا ایمان ہے، اگر کسی امریکی، اسرائیلی، فرانسیسی، آسڑیلوی یا برطانوی کو ہلکی سی چوٹ بھی لگ جائے، اِن کا کتا بھی مارا جائے، اِن کا ناخن بھی ٹوٹ جائے تو یہ مظلوم ہیں، عراق افغانستان میں کارپٹ بمباری بھی جائز ہے، سینکڑوں معصوم بچوں کو دوران وضو بمباری کر کے مارنا دہشت گردی کا خاتمہ ہے ، یہاں معصوم بچوں کو جو مدرسوں میں قرآن اور اسلام کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اُن کو قیمہ بنادینا اُن کے معصوم جسموں کو دھواں دھواں کرنا دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ فلسطین افغانستان عراق اور وزیرستان میں معصوم بچوں کے نازک جسموں میں اتنے بڑے سوراخ کر دیئے جاتے ہیں اف خدایا اتنے بڑے کے آرپار دیکھا جا سکتا ہے، اِن کے نزدیک یہ معصوم بچے دہشت گرد اور گناہ گار ہیں۔ ایسی ہزاروں تصویریں آپ اخبارات اور NET پردیکھ سکتے ہیں ہر تصویر میں ظلم و بربریت کی کروڑوں کی کہانیاں چھپی ہیں، اِن معصوم شہدا کی تصویروں پر کبھی مغرب اور عالمی ضمیر نے جمائی لی اور نہ انسانیت کی نیند ٹوٹی، یہ نیند کیسے ٹوٹ سکتی ہے، یہ جمائی کیسے آسکتی ہے کیونکہ اَن تمام تصویروں کے تمام مقتول مسلمان ہیں اور قاتل اسرائیلی امریکی یورپی جن کی لغت میں انسان صرف وہ ہیں جن کی رنگت گوری ہے۔ یورپ کا ایک فوجی مارا جائے یاکوئی زخمی ہو جائے تو سارا مغرب سراپا احتجاج بن جاتا ہے جب کی عراق افغانستان اور دزیرستان میں اتنی لاشیں گری اتنا خون بہا کہ ریڈکراس کیاہلکار کتنا عرصہ لاشیں ہٹاتے رہے خون دھوتے رہے لاکھوں افغانی عراقی اور وزیرستان میں مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا یہ سارے گناہگار اور دہشت گر تھے اِن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے سانس لینا چاہتے ہیں، اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اِن کا جرم یہ ہے کہ انہیں یورپی امریکی یا گوری چمڑی والی عورتوں نے جنم نہیں دیا، اِن کا جرم یہ ہے کہ انہیں مسلمان ماؤں نے جنم دیا تھا انہیں بپتسما دینے کی بجائے اِن کے کان میں اذان دی گئی اور یہ اﷲکے بنائے ایک مرد اور ایک عورت کی جائز اولاد تھے۔ آج یورپ اور امریکہ اپنے طیاروں اور ٹینکوں کو مسلمانوں کے گھر مسمار اور گولیوں سے بھننے کا آرڈردے رہے ہیں کہ مسلمان کلمہ گو ہیں، کیونکہ اِن کی ڈکشنری میں انسان صرف گوری چمڑی والی مخلوق ہیں، زندہ رہنے اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق صرف گوری چمڑی والوں کو ہے۔کرہ ارض پر بسنے والے باقی انسان اور خاص طور پرمسلمان جانور بن جائیں، اِن کے گلوں میں پٹہ ڈال کر امریکیوں ، اسرائیلیوں اور یورپیوں کے حوالے کر دیا جائے کیا بات ہے یہ مغرب کی انسان دوستی ہے، آپ یورپ کی تہذیب پر نازاں ہیں، آج یورپ کا ہر بچہ ماں کے پیار کا پیاسا اور ماں باپ اپنے بچوں کو سینے کی گرمی پہچانے سے قاصر ہیں اِس کے نتیجے میں نوجوان بچے بچیاں سکون پانے کے لیے نشہ کرتے ہیں اور ماں باپ سکون اور راحت کے لیے بچوں کی جگہ پالتوں جانور کتے اور بلیاں پالتے ہیں، مغرب کی مضبوط تہذیب میں اگر اتنی ہی جگہ ہے تو اِن ممالک میں ہیروئن اور دوسری نشہ آور چیزوں کی مانگ روز بروز کیوں بڑھ رہی ہے، لندن اور یورپی ممالک میں ویک اینڈ پر نوجوان نسل نشے اور شراب میں دھت سڑکوں پر بے ہوش ملتی ہے انکو جو بھی اٹھا کر لے جائے انہیں کوئی خبر نہیں، یہ مغرب کی زندہ تہذیب ہے جس پر مغرب فخر کرتا ہے۔ یہاں کے خاندان کا مطلب ماں باپ بہن بھائی نہیں رہا بلکہ خاندان کا مطلب ایک لڑکا لڑکی یا دو لڑکے لڑکیاں ایک چار دیواری میں مل کر رہ رہے ہیں، ایک عورت کے دو خاوند یا زائد بھی ہو سکتے ہیں، تو گویا یہ خاندان وجود میں آگیا یعنی اِن کے درمیان جنسی تعلقات اِن کے بقول ایک خاندان کو جنم دیتے ہیں اور آپ اور روشن خیال دانشور اور پورے یورپ نے روسو کے اِس فقرے کو کہ انسان آذاد پیدا ہو تھا مگر وہ زنجیروں میں جکڑا ہے، آسمان پر اٹھا رکھا ہے۔ اِن تمام نام نہاد دانشورں کی خدمت میں ادب سے گذارش ہے کہ اِس سے ذیادہ بلیغ اور پر اثر جملہ روسو سے گیارہ سو سال پہلے حضرت عمر فاروق نے ادا کیا تھا جس کی تفصیل یوں ہے:حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں حضرت عمربن عاص مصر کے حاکم تھے، کہ مصر کا ایک آدمی حضرت عمر فاروق کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے امیرالمومنین میں ظلم سے آپ کی پناہ لینے آیا ہوں آپ نے فرمایا تم نے ایسے آدمی کی پناہ حاصل کی جو تمہیں پناہ دے سکتا ہے، مصری بولا میں نے حاکم کے بیٹے کے ساتھ دوڑ نے کا مقابلہ کیا اور میں جیت گیا تو اُس کے بیٹے نے مجھے کوڑے مارے اور کہا میں شریف اور بڑے خاندان کا بیٹا ہوں، یہ سن کر حضرت عمر نے مصر کے حاکم کو خط لکھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ تشریف لائیں۔ جب حاکم اپنے بیٹے کے ساتھ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت عمر نے پوچھا مصری کدھر ہے وہ سامنے آیا تو آپ نے کہا یہ کوڑالے اور اِس کو مار، حضرت کے حکم پر مصری نے عمروبن عاص کے بیٹے پر کوڑے برسانے شروع کر دیے اور حضرت عمر فرماتے جارہے تھے شریف خاندان کے بیٹے کو اور مار، جب مصری خوب مار چکا تو حضرت عمر نے وہ تاریخی جملہ کہا جس پر آج پورا یورپ فخر کرتا ہے ’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا رکھا ہے جب کی انکی ماؤں نے انہیں آذاد جنا تھا‘‘۔ روسو نے گیارہ صدیاں بعد آپ کے جملے کو دہرایا تو ہر کوئی سر دھن رہا ہے، جب کے یہ جملہ حضرت عمر فاروق نے کہا تھا۔ میرے سامنے دونوں نوجوانوں کے چہروں پر فخر و غرور کی جگہ شرمندگی کے اثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے تھے، اب وہ اپنے رویے پر نادم اور شرمندہ تھے، انہوں نے محبت اور عقیدت سے سلام کیا اور یہ وعدہ کر کے چلے گئے کہ ہم تفصیل سے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں گے اور ہمارے اوپر جو مغرب کا نشہ تھا وہ اب اتر چکا ہے، میں نے خدا کا شکر کیا کہ وہ اسلامی تاریخ اور تہذیب کی طرف واپس آگئے۔

loading...