ایجویر روڈ لند ن کے لبنانی ریستوران میں ہم دس لوگ آئے ہو ئے تھے ہما را میزبان جمال لندن میں کاروبار کر تا تھا اور یہاں پچھلے 25سال سے کاروبار کر رہا تھا اور اب وہ ایک مضبوط اور منافع بخش کا روبار کا مالک تھا اِس لیے اُس نے دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ جتنے مرضی لو گ آئیں پاکستان میں میرے دوست کے یہ بڑے بھائی تھے پاکستان میں میرے دوست نے اِسے کہا تھا کہ پروفیسر صاحب کو کھانا کھلا ناہے، کھانے کا آرڈر دیا جا چکا تھا اب ہم کھانے کے انتظار میں تھے فارغ وقت کی وجہ سے آپس میں بات چیت چل رہی تھی گفتگو اب پاکستانی کی سیاست پر آگئی تھی یہاں پر زیادہ تر لوگ تحریک انصاف کی حمایت کر تے نظر آرہے تھے جبکہ نواز شریف صاحب کے دیوانے بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے دونوں طرف سے دھواں دار گفتگو اور دلائل بازی ہو رہی تھی۔تحریک انصاف کے حمایتی یہ یقین تکھتے تھے کہ پاکستان کو مشکلوں کی دلدل سے صرف عمران خان ہی نکال سکتا ہے جبکہ نواز شریف لورز یقین کا یقین یہ تھا کہ جس طرح نواز شریف ملک کی خدمت کر رہے ہیں اِس بنا پر اگلا الیکشن بھی نواز شریف بھی نواز شریف ہی جیتیں گے۔دنیا کی کوئی طاقت نواز شریف کو نہیں ہرا سکتی جبکہ عمران خان کے حمایتی اِس یقین پر تھے کہ دھاندلی کی وجہ سے عمران خان الیکشن ہارا ہے اب کوئی طاقت عمران خان کووزیر اعظم بننے سے نہیں روک سکتی ۔ میں خاموشی سے دونوں فریقین کے دعوئے اور دلائل بازی سے محظوظ ہو رہا تھا مجھے پاکستان کے اخبارات اور TVچینل بھی یاد آئے جن پر روزانہ دونوں لیڈروں کے خوشامدی اپنے اپنے لیڈر کو آسمان کی بلندیوں پر بٹھاتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے کالم نگار ،دانش ور ادیب شاعر اورپڑھے لکھے لوگ بھی دو گروپوں میں تقسیم ہو کر اپنی تمام توانائیاں اپنے لیڈروں کی مدح میں صرف کر رہے تھے۔اپنے لیڈر کی شان اور قصیدہ نگاری میں یہ تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اوراِسی سوچ کا پر چار کر تے نظر آتے ہیں کہ اُن کا لیڈر ہی واحد نجات دہندہ ہے یہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ دونوں لیڈر گوشت پوست کے انسان ہیں اور کو ئی آسمان سے اُتری انوکھی مخلوق نہیں ہیں ۔دونوں کا ماضی داغ دار بھی ہے اور حماقتوں کی لمبی داستان بھی ۔لیکن ہمارے یہ لیڈر اور اِن کے حمایتی کسی کی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں وطن عزیز کے سیاسی لیڈر وں اور اُنکے خوشامدی حواریوں کا رویہ اور انداز دیکھ کر مجھے ایرانی انقلاب کے وقت شاہِ ایران کا فرار یاد آگیا جب وقت کی ایک کروٹ سے وہ آسمان سے زمین پر آگرا آج حکمران تو کچھ بھی نہیں جس عروج اور اقتدار کے نشے کا شاہِ ایران انجوائے کر رہا تھا ۔ایسا بادشاہ جس کے ایک اشارے سے دنیا ادھر سے اُدھر ہو جاتی تھی جس نے ایک روز ایرانی شہنشاہت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن منانیکا فیصلہ کیا ماہرین نے تاریخ کی ورق گردانی کی تو پتہ چلا ایرا ن میں بادشاہت کو ابھی ایک ہزار چار سو پندرہ سال گزرے ہیں جب بادشاہ کو یہ حقیقت بتائی گئی تو اُس نے حقیقت ماننے کی بجائے کیلنڈر کو ایک ہزار پیتیس سال آگے کر نے کا حکم جاری کر دیا اور پھر زمانے نے دیکھا کہ کیلنڈر کوواقعی آگے کر دیاگیا ۔ بادشاہ کی خوشامد اور خوشنودی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دن شاہ نے اپنے وزیر امیر عباس سے وقت پوچھا تو خوشامدی نے جواب دیا چھ بجے ہیں شاہ نے مجلسِ شوریٰ کے صدر مہندس ریاض سے پوچھا تو اُس نے بھی عرض کیا چھ بجے ہیں نازک مزاج بادشاہ کا مزاج بر ہم ہوا اپنی گھڑی اتار کر غصے سے بولا یہ تو پانچ بجا رہی ہے شاہ نے گھڑی کا ٹائم درست کر نے کے لیے ناب کو چٹکی میں دبایا تو خوشامدی وزیر امیر عباس چلا یا جہاں پناہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ہم آپ کے غلام یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ حضور کو گھڑی درست کرنے کی تکلیف اٹھانا پڑے آپ ٹائم کو اِسی جگہ رہنے دیں ہم 35 ملین عوام اپنی گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر لیتے ہیں ۔ شاہ ایران وہ طاقت ور بادشاہ جس نے ایک آرڈر کیا اور ایران میں 44ہزار امریکیوں کو سفارت کاروں کا درجہ مل گیا ۔ اُس کا شاہانہ مزاج ملاحظہ ہو کہ سرکاری سطح پر دو مردوں کی آپس میں شادی کرائی اور دعوت ولیمہ میں تمام فوجی جرنیلوں اور سرکاری افسران نے شرکت کی جس کے ایک حکم پر ایران میں داڑھی رکھنے پر پابندی لگ گئی ۔اور جب وہ دربار میں آتا تو خوشامدی قصیدہ کہتے تھے جو کچھ آپ نے عوام کے لیے کیا ہے اتنا کچھ سابقہ بادشاہوں نے اَڑھائی ہزار سال میں نہیں کیا شاہ ایران اور اُس کے خو شامدیوں کا بھی یہی ایمان تھا کہ اقتدار اور شہرت کی جس بلندی ہر شاہ ایران ہے ۔اُس کو کبھی اندیشہ زوال نہیں وہ شاہ ایران جو آخری سانس تک بادشاہت کر نا چاہتا تھا جس کو یہ غلط فہمی تھی کہ سورج اُس کے حکم سے نکلتا ہے اُسی کے حکم سے غروب ہو تا ہے وہ ہے تو امن ہے وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں اورپھر وقت نے صرف ایک ہلکی سی کر وٹ لی اور شاہ ایران کا اقتدار پانی کا بلبلہ ثابت ہوا وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایران سے فرار ہو گیا ۔ یہ دونوں زوال کی اُس انتہا کو پہنچ گئے کہ گرتے پڑتے ایک ملک سے دوسرے ملک داخل ہو تے لیکن چند دنوں میں ہی اُس ملک سے نکلنے کا حکم ملتا تو وہ کسی دوسرے ملک کی چوکھٹ پر آگرتے وہ ملک بھی جلد ہی دونوں کو آگے جانے کا حکم جاری کر دیتا بادشاہت چھن چکی تھی سوئیٹزر لینڈ کے بینکوں میں پڑی دولت ضبط ہو چکی تھی وہ جہاں جاتے دشمن اُن کا پیچھا کر تے اور حیرت کے امریکہ جو سب سے بڑا دوست تھا اُس نے بھی اُنہیں قبول کر نے سے انکار کر دیا بادشاہ اور اُس کی ملکہ چوروں اور مجرموں کی طرح بھاگ رہے تھے بادشاہ اِس ذلت کو برداشت نہ کر سکا ذلت اور غربت کی انتہا بر داشت نہ کر سکا قاہرہ میں 1980میں دم توڑ دیا شاہ کے خوشامدی اُس کو دعا دیا کر تے تھے کہ آپ کی عمر 120 سال ہو لیکن یہ شاہ 71سال کی عمر میں قاہرہ کے معمولی گھر میں فوت ہوگیا موت کے وقت شاہ کے پاس نا کو ئی ڈاکٹر نہ کو ئی حکیم نہ کو ئی خدمت گزار ۔اِس بد قسمت بادشاہ کو جنازہ تک نصیب نہ ہو اصرف 2,4بندوں نے اُسی مکان کے صحن میں اُسے دفن کیا اور چلے گئے آج بادشاہ کی قبرویرانی کا منظر پیش کر تی ہے نہ چراغ نہ دعا کر نے والا نہ مزار نہ شان و شوکت ۔آج جب ہمارے لیڈر تکبر اور غرور کے آسمان پر کھڑا ہو نے کی کوشش کر تے ہیں تو میں سوچتا ہوں کاش یہ شاہ ایران کا انجام سوچ لیں لیکن اقتدار کے وقت بندہ اندھا بہرا ہو تاہے ۔
ہفتہ، 17 مارچ، 2018
کانچ کی گڑیا(آخری حصہ)
مجھے سینکڑوں دکھی لاچار اور بے بس بچیوں کے چہرے یاد آرہے تھے جو پتہ نہیں کب سے اپنی آنکھوں میں امید کے دیپ جلائے انتظار کے صحرا میں ننگے پاؤں چل رہی ہیں لیکن ہر ڈوبے سورج کے ساتھ ہی اُن کی آنکھوں میں امید اور شادی کے سہانے سپنے دم توڑ دیتے ہیں ۔ یہ عظیم بیٹیاں اپنے ماں باپ اور بھائیوں کی غیرت کے لیے ہمیشہ شرافت کی زندگی گزارتی ہیں یہ وہ عظیم نور کی پوٹلیاں ہیں جو اپنے جسم اور روح کو اپنے خاوند کے لیے بچا بچا کر رکھتی ہیں کہ میں شادی کے بعد اپنے سارے خواب پو رے کروں گی ۔ اور قربان جائیں ان نوجوان بچیوں کے جو دل ہی دل میں کسی کو پسند کر تی ہیں لیکن ماں باپ کی عزت کی خاطر اپنے خوابوں ارمانوں اور خواہشوں کو دل میں دبائے ہی پتہ نہیں کب نوجوا نی کی دہلیز پار کر کے بڑھاپے کے صحرا میں داخل ہو جا تی ہیں اور اُف تک نہیں کر تیں عظیم اور قابلِ پر ستش ہیں وہ عظیم بیٹیاں جو ماں باپ کی خدمت کے لیے پتہ نہیں چلتا کب نوجوانی سے بڑھاپے کے دریا میں اُتر جاتی ہیں اور پھر وہ نور اور شرافت کی پیکر اگر ماں باپ دونوں یا ایک فوت ہو جائے تو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت اُن کی پرورش ماں بن کر کرتی ہیں اِن خدمت کی دیویوں کو پتہ نہیں چلتا کب اُن کے بالوں میں چاندی اُتر آتی ہے اِس دوران نوکری کرتی بچیاں دفتروں بازاروں سکولوں میں بے غیرت اوباش لڑکوں کی گندی آوازوں اور چھیڑ چھاڑ کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی جاتی ہیں اور چھپ چھپ کر خدا کے سامنے دعا اور اپنی حفاظت کے لیے پھیلاتی ہیں اور کچھ پیٹ کی آگ بجھانے اور زندگی کی گاڑی کو آگے چلانے کے لیے اپنی عزت تک تباہ کر دیتی ہیں ۔ یہ عظیم بچیاں بھی کانچ کی گڑیاؤں کی طرح ہر روز ریزہ ریزہ ہو تی ہیں اور رات کے گھپ اندھیروں میں خودکو اکٹھا کر کے دوبارہ پھر زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جا تی ہیں ہمارا اندھا بہرا معاشرہ ایک خوفناک عفریت کی طرح روزانہ ایسی مظلوم بے بس لاچار لڑکیوں کو زندہ نگل جاتا ہے ۔ اور ہمارا معاشرہ جو اب کوفہ بن چکا ہے اُس کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ حوا کی بیٹی اپنی عزت گنوا بیٹھی ہیں اور کتنی اِس جان لیوا بیلنے سے روزانہ گزرتی ہیں ۔ کاش ہمارا معاشرہ اِن معصوم تتلیوں کے غم کو سمجھ سکے اِن کی مجبوریوں کا ادراک کر سکے ۔ آج جو بھی اِن کا نچ کی گڑیا ؤں کو کر چی کر چی کر تا ہے وقت کی ایک ہی کروٹ یا شب و روز کی ایک ہی تبدیلی کے بعد اِن ظالموں کی اپنی نسل بھی مکافات عمل کے تحت اِسی عذاب سے گزر سکتی ہے ۔ لیکن ہم وہ بد قسمت اور آنے والے دنوں سے بے خبر جانور نما انسان ہیں کہ آج کو ہی زندگی سمجھ رکھا ہے ۔ اچھے بُرے کی تمیز ہم کھو چکے ہیں ۔ یہ مجبور بے بس لا چار معصوم تتلیاں بہت نازک ہیں اور حساس اتنی کہ زرہ سی چوٹ یا دکھ سے مر جھا جاتی ہیں ۔ جو لوگ بھی اِس ظلم میں شامل ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی نبوت سے پہلے عرب معاشرہ بھی اِسی طرح بچیوں کو زندہ گاڑ دیتا تھا اور پھر شہنشاہِ دو عالم ﷺ نے آکر اِس ظا لم رسم کو سختی سے ختم کر دیا ۔ یہ تمام لوگ جو بلواسطہ یا بلا واسطہ اِن معصوم بچیوں کو زندہ در گور کر رہے ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ ایک دن جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور ستارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ رو ئی کی طرح ہوا میں اڑتے نظر آئیں گے جب حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں گے جب سمند ر بھڑکا دئیے جا ئیں گے اور جب جانیں (جسموں سے ) جو ڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑی ہو ئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم ماری گئی ؟قرآن مجید میں درج بالا سطور قیامت کے ہو لناک دل ہلا دینے والے منظر اور ہوش اڑا دینے والے نقشہ کی عکاسی کر رہی ہیں ۔ جب کروڑوں کلومیٹر پر محیط سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی ۔ روشن ستارے خاک کے ذرے بن کر بکھر جائیں گے زمین پر مضبوطی سے قائم پہاڑ دھنکی ہو ئی روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑ رہے ہو ں گے ۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب آگ بجھانے والا پانی امر ربی سے اپنی ترکیب بدل کر خود آگ بن کر بھڑک اُٹھے گا اور مٹی کے ذرات بنے صدیوں پرانے جسم دوبارہ اپنی اصل حالت میں آجا ئیں گے ۔ یہ ہو گا قیامت کا دن حساب کا دن عدل کا دن یوم محشر رب ذولجلال کا دربار لگ جائے گا اول سے آخر تک تمام انسان تھر تھر کانپ رہے ہوں گے ۔ اور پھر سب سے پہلا مقدمہ بارگاہ ِ الہی میں پیش ہو گا ۔ اُن معصوم بچیوں کا ہو گا جنہیں اہل عرب پیارے آ قا ﷺ سے پہلے معا شرے محض نا ک رکھنے کے لیے کڑیل بیٹوں کا با پ کہلانے کے شوق میں اوربیٹیوں کو مفت پالنے کے خوف سے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔ اُن معصوم بچیوں کا نہ قصور نہ الزام نہ فریاد نہ جرم نہ غلطی وہ معصوم بچیاں۔ جب باپ ایسی معصوم بیٹیوں کو گھر سے لے کر چلتے تو وہ ننھی پریاں باپ کی انگلی تھامے خوشی خوشی ساتھ چلتیں لیکن وحشی باپ گڑھے میں ڈال کر اُوپر مٹی ڈالتے اور معصوم پھولوں کی کلیاں بابا بابا پکارتیں لیکن اُن کو زندہ در گور کر دیا جا تا نبوت کے بعد جب شافع محشر ﷺ کو اہل عرب آکر اپنا یہ جرم بتاتے تو محبوب خدا ﷺ اتنا روتے کہ آپ ﷺ کی ریش مبارک آنسوؤں سے بھیگ جاتی اور آپ ﷺ ہا تھ کے اشارے سے منع کر دیتے کہ مجھے اور نہ سناؤں مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ۔ اور پھر پیارے آقا ﷺ نے اس مکروہ سوچ کا قلع قمع کر دیا اور پہلی بار حیات آفرین تصور دیا کہ بیٹا اگر اﷲ کی نعمت ہے تو بیٹی خدا کی رحمت ہے ارشادی نبوی ﷺ ہے جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو ئی اور وہ اس کو دفن نہ کرے نہ ذلیل رکھے نہ بیٹے کو تر جیح دے اﷲ اس کو جنت عطا کر ے گا ۔ سرور کائنات ﷺ نے سراقہ بن جعشم ؓ سے فرمایا میں تمھیں بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ کیا ہے انہوں نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ ضرور بتا ئیے تو پیارے آقا ﷺ نے فرمایا تیری وہ بیٹی جو طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کو ئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو ۔ ایسی بیٹی یا بہن کی پرورش دنیا کا سب سے اچھا صدقہ ہے احسان مند ہو نا چاہیے پو ری دنیا کی بیٹیوں کو کہ آپ ﷺ نے ماں کو جنت دہلیز اور بہن بیٹی کو مغفرت کی سبیل قرار دے دیا ۔ آج اکسیویں صد ی میں بھی جاہلیت کے جراثیم کسی قدر پا ئے جاتے ہیں بیٹی جسمانی طور پر زمین میں گاڑی نہیں جا تی مگر معاشرہ اُسے بو جھ سمجھتا ہے بیٹے کو ترجیح ضرور دیتا ہے ۔ آج جو لوگ بھی بچیوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ظلم کر تے ہیں روز محشر جوا ب دہ ہو نگے ۔ اِس کالم کے بعد بہت سارے لوگ سوا ل کر یں گے پھر ہم رشتہ کیسے دیکھیں تو اِس کا بھی خوبصورت اور مہذب حل موجود ہے وطن عزیز کے تمام لڑکے والوں کو یہ مثبت رویہ اپنانا ہو گا اگر آپ کو بچی کا رشتہ چاہیے تو اِس طرح دیکھیں کہ بچی کو کانوں کان خبر نہ ہو براہ راست اُس کے گھر نہ جائیں بلکہ کسی درمیانی رشتہ دار یا دوست کے ہاں اُس بچی کو بلا کہ دیکھ لیں یا کسی بہانے سے اُس کے کالج یا آفس میں جاکر دیکھ لیں یا کسی فنکشن وغیرہ میں اِسطرح کہ اُس بچی کو پتہ نہ چلے اور اگر پسند آئے تو اُس کے گھر جا کر رشتہ پکا کر لیں اِس دورا ن اگر لڑکی کو یا اُس کے گھر والوں کو پتہ چل جائے کہ آپ نے بچی کو دیکھا اور آپ کو پسند نہ آئی تو الزام اپنے اوپر لے لیں کہ ہمارا لڑکا بیٹی تمھارے قابل نہیں ہے ہم آپ جیسے نہیں ہیں رہن سہن آپ کو سوٹ نہیں کرے گا بیٹی تم تو بہت اچھی ہو خوش قسمت ہو نگے وہ لوگ جس گھر تم جاؤں ہمارا بیٹا اچھا نہیں ہم تمھیں دھو کے میں نہیں رکھنا نہیں چاہتے اِس طرح بچی اور اُس کے ماں باپ بھی انکار کی اذیت سے محفوظ رہیں گے ۔ قارئین ہم دوسروں کو پسند تو بہت مہذب طریقے سے کر تے ہیں لیکن اگر ہم کسی کو انکار کریں تو اِس سے ہزار گنا زیادہ بہتر مہذب اور شائستگی سے انکار کر نا چاہیے اور الزام اپنے خاندان یا بیٹے پر لے لیں تاکہ لڑکی اور اُس کے گھر والے انکار کے جہنم میں جھلس جھلس کر موت کا شکار نہ ہو جا ئیں انکار کرنا بہت بڑا آرٹ اور فن ہے کاش یہ فن اِس ملک کے ہر لڑکے والے سیکھ لیں تاکہ روز محشر بیٹیوں کو مارنے والوں میں یہ شامل نہ ہوں ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...