آج مسلسل دوسری رات تھی کہ نیند نہیں آرہی تھی، اِس میں کوئی شک نہیں کہ میں دن رات بہت زیادہ مصروف ہوتا ہوں لیکن بچپن سے آج تک یہ اﷲ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ میں بستر پر لیٹا نہیں اور سویا نہیں، میں نے جب بھی سونے کی کوشش کی ذہن کو خیالات سے پاک کیا اور سو گیا۔ لیکن یہ مسلسل دوسری رات تھی کہ مجھے نیند نہیں آرہی تھی میں مسلسل سونے کی کوشش کررہا تھا میں گھنٹوں کروٹیں بدلتاہوں‘ بستر تبدیل کرتا ہوں ‘ایسے کمرے میں سونے کی کوشش کی جہاں پر شور بلکل نہیں، نرم بستر، خالی کمرہ اور AC کی خوشگوار کولنگ لیکن نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور‘ میں نے سانس اور یوگا کی بہت ساری ورزشیں بھی کیں، دماغ اور جسم کو ریلیکس بھی کیا لیکن نیند بہت دور ، آنکھوں اور دماغ میں خشکی اور جلن جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیونکہ اُس کو ریسٹ نہیں مل رہی تھی، تھکاوٹ کا شدید احساس لیکن جسم نیند کی حالت میں نہیں جارہا تھا۔ آخر کار تنگ آکر زندگی میں پہلی بار میں نے نیند آور گولیاں کھا کر سونے کی کو شش کرتا ہوں‘گولیوں کے اثر سے میں نیم غنودگی کے دریا میں اتر جاتا ہوں لیکن ہر دس منٹ بعد یا آدھے گھنٹے بعد پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے، میں ہڑ بڑاکر اٹھ بیٹھتا ہوں گولیوں کا اثر جلد ختم ہوگیا اور پھر میری آنکھ کھل گئی۔اب میں نے ہمیشہ کی طرح کھلے آسمان کے نیچے جانے کا فیصلہ کیا میری یہ پرانی عادت ہے کہ جب بھی میں بہت پریشان ہوتا ہوں تو یا تو کسی پارک یا باغ میں چلا جاتا ہوں‘ جہاں درختوں میدانوں اور پھولوں کے درمیان خود کو بہتر محسوس کرتا ہوں اب کیونکہ رات کا آخری حصہ گزر رہا تھا اِس لیے میں گھر کی چھت پر آگیا آسمان پر چاند اور ستارے چمک رہے تھے‘ میں کرسی پر بیٹھا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگا اور پروردگار سے دعا اور مدد کے درمیان مجھے بار بار اُس بے بس مجبور لاچار خوف زدہ نوجوان خوبصورت لڑکی کا چہرہ یاد آرہا تھا اُس کی آنسوؤں میں ڈوبی آنکھیں جو رو رو کر سوجھ چکی تھیں، اُس کی آنکھوں میں دعا التجا مدد کی پکار تھی اُس کا چہرہ غم میں ڈوبا مدد مدد پکار رہا تھا اور میں بے بسی کی تصویر بنا اُس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی داستان غم سنا کر چلی گئی لیکن مجھے ایسا روگ اور غم دے گئی کہ میں دو دن سے انگاروں پر لیٹ رہا تھا، میں نے ساری زندگی کسی انسان سے نفرت نہیں کی مجھے اﷲ سے عشق ہے اور اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز سے محبت ہے، ہر دکھی بے بس انسان کو دیکھ کر شدت سے مجھے خدا کی یاد آتی ہے اور جو مجھ سے ہو سکتا ہے اُس کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اِس کیس میں مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح اُس حوا کی بیٹی کی مدد کروں۔میں جو انسانوں سے پیارکرتا ہوں آج مجھے انسانوں کا یہ روپ بہت بُرا لگا میرا دل کررہا تھا کہ اِن کو اُڑھا کر جہنم کے شدید ترین حصے میں پھینک دوں اور اُوپر سے ڈھکن رکھ کر جہنم کو بند کر دوں، اِن کو آتش فشاں کے دہا نے پر رکھ دوں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ہی انسان پر ظلم کرتا ہے لیکن اِیسا ظلم کہ دل دماغ پگھلنا شروع ہو جائے سانسیں رکنی شروع ہو جائیں اور انسان کا وحشی اور قاتل بننے کا دل کرے اخلاقیات کی ساری حدیں کراس کرنے کو دل چاہے‘ ہمارے پیارے آقا نبی کریم ﷺ نے بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑنے کو سختی سے منع اور ظلم عظیم قرار دیا ہے لیکن ہم مسلم معاشرے میں آج بھی یہ گھناؤنا کام مختلف طریقوں سے صبح و شام کر رہے ہیں ہمارے ہی معاشرے میں کچھ ظلم اور بدکردار لوگ حوا کی بیٹیوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا یہ ظالمانہ کھیل کس آزادی اور ڈھٹائی سے کھیل رہے ہیں، ہمارے اندھے قانون میں اتنی جان نہیں کہ ایسے لوگوں کو کیفرِکردار تک پہنچا سکے، ایسی مجبور بے بس لاچار خوف زدہ بچیوں کو سہارا دے سکے ، پتہ نہیں ہمارا یہ عوام کُش نظام کب تبدیل ہوگا۔ کب انصاف اور قانون اتنا طاقتور ہوگا کہ مجبور کی داد رسی ہو سکے، اِس ظلم کی داستان کچھ اِس طرح سے ہے۔میں روزانہ کی طرح دفتر سے شام ڈھلے گھر آیا تو گھر کے برآمدے میں ایک نوجوان خوبصورت لڑکی بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی، میں اُس کے سامنے بیٹھا اور سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھنے لگا۔ اُس نے پہلا سوال ایسا کیا کہ میری ساری تھکاوٹ سے بھرپور حسیات اور چوکنا ہو گئیں، وہ کہنے لگی سر میں نے خودکشی کرنی ہے موت کا کوئی ایسا طریقہ کہ میری روز محشر پکڑ نہ ہو، سر سُنا ہے خودکشی حرام ہے ، نہیں سر میں روز روز کے مرنے سے ایک ہی دن مر کر اِس جہنم سے آزادی چاہتی ہوں جس میں آجکل میں زندہ رہ رہی ہوں۔ میرے سامنے تقریباً روزانہ ہی ایسے لوگ آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے خودکشی کرنی ہے اور مجھے ہمیشہ کی طرح اُن پر غصہ آتا ہے، لیکن اِس لڑکی کی الم ناک داستان سننے کے بعد مجھے اِس پر غصہ نہیں آیا، رحم ، محبت، شفقت اور بہت ترس اور دکھ ہوا۔ یہ لڑکی اپنے ماں باپ کے ساتھ کویت میں پچھلے بیس سال سے رہ رہی تھی، ماں باپ پڑھے لکھے اور بچوں سے محبت کرنے والے ، یہ جوان ہوئی تو اِس کو پڑھنے کے لیے پاکستان بھیج دیا، اِس نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور اپنی پڑھائی شروع کردی ‘یونیورسٹی میں ہی ایک لڑکے سے اِس کی دوستی ہوگئی جو بعد میں محبت اور عشق میں بدل گئی۔ لڑکی کی آنکھوں میں مستقبل کے بہت سارے خواب تھے، یہ دن بدن اُس کی محبت میں ڈوبتی چلی گئی، اب لڑکے نے اِس کو پرپوز کیا اِس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ، لڑکے نے اپنی چکنی چوپڑی باتوں میں اِس طرح الجھایا کہ اِس نے ماں باپ سے کہا کہ میں نے فوری شادی کرنی ہے، ماں باپ نے بہت سمجھایا لیکن یہ نا مانی اور لڑکے والوں کا پتہ بھی نہ کرایا، اور شادی کرلی گھر والے بہت ناراض تھے، لیکن اُسی نے ساری ذمہ داری اپنے سر لی کہ میں کبھی شکایت نہیں کروں گی، اور ہر حال میں گزارا کروں گی۔اِس کے گھر والوں نے اِس کی شادی کی اور واپس کویت چلے گئے یہ آنکھوں میں ہزاروں سپنے سجائے خوشی خوشی پیا گھر آگئی، یہ شادی کی خوشیوں میں اِس طرح کھوئی کہ ایک ماہ گزر گیا اورپتہ بھی نہیں چلا، اِس دوران اِس نے محسوس کیاکہ رات کو اِن کے گھر میں بہت سارے مشکوک کردار کے لوگ آتے ہیں، اِن کے گھر میں 10 کے قریب نوجوان لڑکیاں تھیں جن کے بارے میں بتایا گیا کہ رشتے دار ہیں پڑھنے کے لیے آئی ہیں۔ اِسی دوران اِس کا میاں کسی دوسرے شہر کام کے لیے گیا تو رات کو کوئی مرد شراب کے نشے میں دھت اُس کے کمرے میں آگیا اِس نے رو رو کر اپنی جان اور عزت بچائی، اگلے دن گھر میں موجود لڑکیوں میں سے ایک نے اِس کو بتایا کہ یہ جسم فروشی کا دھندہ کرتے ہیں، یونیورسٹی اور کالجوں میں لڑکے داخل ہوتے ہیں خوبصورت لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر یہاں لاتے ہیں کچھ دن یہاں رہ کر لڑکا پیسے لے کر بھاگ جاتا ہے یہاں اِن لڑکیوں کی غلط فلمیں بنائی جاتی ہیں پھر اُن کو بلیک میل کر کے جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ آگے کی داستان اتنی الم ناک ہے کہ میرا قلم لکھنے سے عاجز ہے، کاش نوجوان لڑکیاں اندھی محبت میں غلط فیصلے نہ کریں، اپنی داستان غم سنانے کے بعد وہ لڑکی چلی گئی لیکن مجھے غم کا مجسمہ بنا گئی۔
ہفتہ، 17 مارچ، 2018
سکون کی تلاش
میرے سامنے 25 سالہ نوجوان امیر زادہ بیٹھا تھا جو پریشانی میں با ر بار اپنے ہاتھ مل رہا تھا۔ اسکے چہرے پر اضطراب بے چینی ناشکری کے تاثرات ہر گزرتے لمحے کے ساتھ گہرے ہوتے جارہے تھے، وہ بار بار کہ رہا تھا سر میری خواہش کب پوری ہو گی میرے مسائل کب حل ہونگے ‘میری ٹینشن کب دور ہو گی۔ میں کب اپنی زندگی کب اپنی مرضی کے مطابق گزار سکوں گا، کب میرے خواب اور خواہش حقیقت کا روپ دھاریں گے، چیزیں اور لوگوں کے روئیے میری مرضی کے مطابق کیوں نہیں ، مجھے سکون کیوں نہیں ہے، میں بے چین بے قرار اور مضطرب کیوں ہوں۔سر میں جو بھی کام کرتا ہوں وہ پورا اور میری مرضی کے مطابق کیوں نہیں ہو تا، کیا میں اسی طرح مرجاؤں گا کیا میں ناکام انسان ہی رہونگا کیا میرے خواب اِس طرح ادھورے اور نامکمل رہیں نگے، سر مجھے ایسا وظیفہ یا عبادت بتائیں جس کے کرنے سے میری زندگی میری مرضی کے مطابق ہو جائے، مجھے سکون مل جائے، میرے ادھورے خواب اور منصوبے جلدی مکمل ہو جائیں وہ بولے جارہا تھا اوراسکو کھل کر بولنے کا موقع دے رہا تھا تاکہ اِس کے اندر کی بھڑاس اچھی طرح نکل جائے، بہت سارے لوگ اپنے دل کی باتیں اور اندر کا ڈپریشن کسی کو بتا کر پرسکون ہوجاتے ہیں اِس لیے میں اُس کے خوب بولنے کا موقع دے رہاتھا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ بھی اُنہی نوجوان امیرزادوں میں سے ایک تھا جن کو روٹی پانی نوکری کاروبار گھر کا مسئلہ نہیں تھے، یہ بھی خواہ مخواہ ڈپریشن میں تھا، اﷲ تعالیٰ نے اِس کو زندگی کی تمام آسائشیں دے رکھیں، یہ شکر کی بجائے ناشکری کر رہا تھا اور بلاوجہ خداتعالیٰ کی ناشکری کر رہا تھا۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ فطری طور پر ہر انسان کی یہ شدید اور پہلی خواہش ہوتی ہے وہ زندگی کو بھر پور طریقے سے کامیابی کے ساتھ گزارے یہ سارے کاروبار اور ساری تگ و دو اِسی لیے ہے کہ زندگی کے ہر لمحے سے خوشی کامیابی اور مسرت کشید کی جائے کہ خوف و افلاس اور اندیشہ مرض نہ ہو‘ نہ دل بے چین ہو اور نہ روح کی بے قراری ہو، روحانی جسمانی مالی آسودگی اور کامل اطمینان اور سرشاری ہو، اِس مقصد کے لیے کچھ لوگ تو حکومت کے طالب ہوتے ہیں اُن کے بقول ایوان اقتدار گہوارہ سکون اور گوشہ عافیت ہے، زیادہ تر لوگ کامیابی کی چابی دولت کو سمجھتے ہیں اُن کے نزدیک دولت دنیا کے ہر مسئلے کا حل ہے، ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو طاقت کو ہر کامیابی کی کلید گردانتے ہیں، لہذا وہ طاقتور بننے کے لیے تمام جائز نا جائز ذرائع استعمال کرتے ہیں اِن کے نزدیک کمزوری ہی ہر خوف اور اندیشے کو جنم دیتی ہے اِس مادیت پرست معاشرے میں کچھ لوگ بھرپور اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے کسی طاقتور سیاستدان، صاحب اقتدار اور وڈیرے کی غلامی یا دوستی کو کامیاب گرو سمجھتے ہیں، لہٰذا یہ ساری عمر کسی بڑے اور طاقتور کی خشامد اور غلامی کرتے ہیں کہ بوقت ضرورت یہ اُن کی مدد لے کر زندگی کے مسائل حل کر سکیں۔ اِسی بے جان معاشرے میں کچھ جرائم پیشہ ڈاکووں، بدمعاشوں کی غلامی کرتے ہیں، کچھ دولت مند اِن جرائم پیشہ لوگوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اِن کو پیسے دیتے ہیں تا کہ کسی مشکل کے وقت یہ رسوائے زمانہ جرائم پیشہ لوگوں کی مدد سے یہ زندگی کے مسائل حل کر سکیں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ دکھ اور سکھ مصیبت اور راحت طربت اور امارت بیماری اور صحت جوانی اور بڑھاپا یہ ساری کیفیات انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، گردش لیل و نہار سے فرار ممکن نہیں وقت کی ایک ہلکی سی جنبش سے دن پھرتے دیر نہیں لگتی۔ جو آج خوش ہے وہ کل دکھی بھی ہو سکتا ہے، خوشی غمی میں بھی بدل سکتی ہے، خوشحالی بد حالی کا روپ بھی دھارسکتی ہے اور شاندار طاقتور صحت مند جسم کو بیماری کا گُھن بھی لگ سکتا ہے، یہ سرد گرم اونچ نیچ امیری غریبی صحت بیماری جوانی بڑھاپا سرشاری بیماری عروج و زوال طاقت کمزوری ہی وہ لمحات ہو تے ہیں، جب کسی بھی انسان کا امتحان ہوتا ہے کسی بھی انسان کاپتہ مشکل میں چلتا ہے کہ وہ بندہ خدا ہے یا بندہ نفس ساری عمر خدا کی ہزاروں نعمتوں کو انجوائے کر نیوالا معمولی سی بیماری یا تنگدستی میں صبر و شکر کرتا ہے یا جزع فزاع؟ساری عمر دولت کے انباروں میں کھیلنے والا مالی تنگی میں سراپا وقار رہتا ہے یا ضبط کے سارے بندھن توڑ کر سراپا احتجاج اور رونا پیٹنا شروع کر دیتا ہے یا دنیاوی جھوٹے خداوں کی چوکھٹ پر سجدے کرتا ہے اگر اﷲ تعالیٰ کی انعامات کی برسات ہورہی ہو تو خدا پرستی اور اگر وقت کی ہلکی سی کروٹ سے حالات خراب ہو جائیں تو میرا نماز اور عبادت کو دل نہیں کرتا، یہ ہے خدا کی عبادت اور عشق، ہائے کاش ہم مشکل میں بھی خدا کا دامن نہ چھوڑدیں، اسلام نے اﷲ کے ذکر کو اطمینان قلب قرار دیا ہے، خوف خدا اور آخرت کو سکون کا ضامن کیا ہے۔حضرت ابوہرہ فرماتے ہیں، ایک بار آقائے دو جہان نے ارشاد فرمایا کون ہے جو مجھ سے یہ احکام لے جائے اور اِن پر عمل کرے یا اُس شخص کو سکھائے جو انہیں اختیار کرے میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ وہ میں ہوں آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے پانچ باتیں بتلائیں، فرمایا (1) اُن چیزوں سے اپنے آپ کو بچاوٗ جنہیں خدا نے حرام قرار دیا اور اگر تواُن سے بچے گا تو تیرا شمار بہترین بندوں میں ہوگا۔ (2) جو چیز خدا نے تیری قسمت میں لکھ دی ہے اس پر راضی اور شاکر رہ اگر تو ایسا کرے گا تو تیرا شمار دنیا کے غنی ترین لوگوں میں ہوگا۔ (3) تو اپنے ہمسائے سے اچھا سلوک کر اگر تو ایسا کرے گا تو مومن کامل ہوگا۔ (4) جو چیز تو اپنے لیے پسند کرتا ہے دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کر اگر ایسا کرے گا تو کامل مسلمان ہو گا۔ (5) اور زیادہ نہ ہنس اِس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتا ہے۔محترم قارئین یہ پانچ باتیں زندگی کے وہ اصول اور انمول تحفہ ہیں، اچھا انسان، غنی، مومن، مسلمان اور زندہ دل بننے کے لیے خدائے بزرگ و برتر کی عبادت، قناعت، حسن معاشرت، مساوات اور متانت یہ باتیں اور سنہری اصول سرتاج الانبیا مالکِ دو جہان نے یہاں فرمائے، آپؐ کی زبان اقدس سے نکلنے والا ہر لفظ ہیرے جواہرات سے بڑھ کر ہے، سکون اور اطمینان قلب کے لیے ہمیں سیرت رسول اور رب ذالجلال کی اطاعت کرنا ہوگی تب ہی ہم حقیقی سکون اور اطمینان پا سکیں گے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...