ہفتہ، 17 مارچ، 2018

ماں

ماںستر سالہ بوڑھی ماں اپنی تیس سالہ جوان بیٹی کے ساتھ میرے سامنے بیٹھی تھی ماں کے چہرے پر بڑھاپے کی جھریوں کا جال بچھا ہوا تھا وہ معصوم چہرے اور دُھندلی آنکھوں سے امید، التجا، بے بسی اور لاچارگی سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میری بچپن سے یہ عادت ہے کہ مجھے بوڑھے لوگوں پر بہت پیار آتا ہے میرا دل کرتا ہے کہ میں بوڑھے معصوم سراپا نور بزرگوں کو بچوں کی طرح خوب پیارکروں‘خدمت کروں‘ لاڈ اَٹھاؤں، ماں کے چہرے پر نور کے کئی چاند روشن تھے اور آنکھوں میں مریم کی پوترتا واضح نظر آرہی تھی، جنت کی یہ مخلوق ماں مجھ سے جھوٹ بولنے کا کہہ رہی تھی کہ میں اُس کے کہنے پر جھوٹ بول دوں اور میں نے سوچھے سمجھے بنا ماں کے کہنے پر جھوٹ بول دیا، اور اِس کے بعد جب بھی یہ ماں اپنی بیٹی کے ساتھ میرے پاس آئی تو میں ہمیشہ جھوٹ بول دیتا۔میں حسب معمول لوگوں سے مل رہا تھا کہ یہ بوڑھی ماں میرے سامنے آکر بیٹھ گئی، ماں نے رقعہ میرے ہاتھ میں دیا اور کہا بیٹا پہلے یہ پڑھ لو ‘ماں کے حکم پر میں نے رقعہ پڑھنا شروع کردیا، میں جیسے جیسے پڑھتا گیا اداسی اور غم کے سمندر میں غرق ہوتا گیا ‘ماں نے مجھے مخاطب کیا تھا بیٹا میری بیٹی کو پھیپھڑوں کا کینسر ہے جو آخری اور لا علاج حدود میں داخل ہوچکاہے اِس کے دو معصوم بچے ہیں پچھلے ماہ ڈاکٹروں نے اِس کا آپریشن کرنا چاہا لیکن جب ڈاکٹروں نے اِس کا سینہ چاک کیا تو وہ پریشان ہو گئے کیونکہ کینسر پوری طرح پھیل چکا تھا یعنی پھیپھڑے پوری طرح کینسر کی گرفت میں تھے اور ڈاکٹرز آپریشن کرتے تو مکمل پھیپھڑے نکالنے پڑتے اِس طرح مریضہ کی فوری موت واقع ہو جاتی لہٰذا ڈاکٹروں نے بغیر آپریشن کے سینے کو دوبارہ سی دیا۔مریضہ بے ہوش تھی لواحقین کوبتا دیا گیا کہ آپریشن نا ممکن تھا، اب خاندان اور ماں نے فیصلہ کیا کہ یہ چند دن کی مہمان ہے اِس کو یہی بتائیں گے کہ تمھارا آپریشن کر دیا گیا ہے ‘ڈاکٹروں کو بھی یہی درخواست کی گئی کہ وہ بھی مریضہ کو نہ بتائیں لہذا مریضہ کے ہوش میں آنے کے بعد اُسے بتایا گیا کہ تمھارا کامیاب آپریشن ہو گیا ہے، کیونکہ بیماری نے خوفناک طریقے سے مریضہ کو جکڑا ہوا تھا اِس لیے مریضہ با ر بار شکائت کرتی تھی کہ مجھے آرام نہیں ہے مجھے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے تو ماں بار بار کہتی کہ آپریشن کا درد ہے جلدی ٹھیک ہو جائیگا، اب ماں خدا کی رحمت اور بیٹی کو مصروف رکھنے کے لیے ایک بزرگ سے دوسرے بزرگ تک چکر لگارہی تھی ‘ماں جس بھی ڈاکٹر حکیم یا بزرگ کے پاس جاتی اُس کو یہی رقعہ دیتی جو مجھے دیا اور کہتی کہ آپ کہہ دیں کہ آپریشن بہت کامیاب ہواہے تم چند دن میں ٹھیک ہو جاؤگی۔مریضہ بار بار مجھے کہ رہی تھی جب میرا آپریشن کامیاب ہے تو مجھے درد کیوں ہے ‘سانس میں دشواری کیوں ہے ‘میں بار بار نوجوان بیٹی کو دیکھ رہا تھا جس کی زندگی کا چراغ چند دنوں میں بجھنے والا تھا، بیٹی امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی اور میں اُس کو بار بار دلاسہ دے رہا تھا ‘میں بار بار ماں کو دیکھ رہا تھا جو اپنی جوان بیٹی کو آج بھی معصوم بچی کی طرح اٹھائے ایک در سے دوسرے در تک بھاگ رہی تھی یہ کام کرہ ارض پر صرف اور صرف ماں ہی کر سکتی ہے، ماں کی عظمت پر مجھے مرحوم خورشید گیلانی یاد آئے جنہوں نے بہت خوبصورت انداز سے ماں کو خراج تحسین پیش کیا، ضروری نہیں ماں کا تعلق بڑے خاندان سے ہو، وہ آکسفورڈ اور بر کلے کی فارغ التحصیل ہو، سماجی اور سیاسی رتبے کی مالک ہو بلکہ ماں تو فقط ماں ہو تی ہے جس طرح گلاب کا کوئی سا نام رکھ لو اس کی طراوت اور لطافت میں کوئی فرق نہیں ہوتا اِس طرح ماں شاہی خاندان سے ہو یا معمولی محنت کش گھرانے سے تعلق رکھتی ہو وہ نبی وقت اور مجتہد عصر کے لیے مرکز احترام ہستی ہے۔خدا دیدہ بینا دے تو ماں کے گارے میں لُتھرے ہوئے کپڑے خلعت شاہی سے زیادہ قیمتی نظر آتے ہیں، ماں اوپلے تھاپ رہی ہو تو اِس کے وہ ہاتھ تقدیر مبرم کو ٹالنے کی قدرت رکھتے ہیں ‘ماں لوری دے رہی ہو تو اس کے لہجے میں جبرائیل بولتا نظر آتا ہے ‘ماں تنور پر روٹیاں لگا رہی ہو تو وقت کے بادشاہ اُس کے آگے ایک ٹکڑے کے سوالی نظر آتے ہیں ‘ماں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دے تو سارے جہانوں کا مالک عرش سے دو زینے نیچے آکر اُس سے ہمکلام ہوتا ہے، ماں کا دل اداس ہو توجنت کے شگوفے مرجھانے لگتے ہیں، ماں دامن پھیلا دے تو خدا اپنی جنت کی ساری نعمتیں اُس میں انڈیل دیتا ہے، ماں اپنے بچے پر میلا آنچل ڈال دے تو رحمت خداوندی گھٹا بن کر چھاجاتی ہے اور اﷲ نہ کرے ماں کی نگاہ غضب آلودہ ہو جائے تو عرش الٰہی تھر تھر کانپنے لگتا ہے، بادشاہی کے تخت پر بیٹھنے سے وہ عزت کہاں ملتی ہے جو ماں کے قدموں میں لپٹنے سے نصیب ہوتی ہے، وزارت کا حلف اٹھانے میں وہ لطف کہاں جو ماں کے جوتے اٹھانے میں آتا ہے، عالی جناب اور عزت مآب کہلوانے میں وہ سرور کہاں جو ماں کے میرے لعل کہنے میں ہے، بڑے سے بڑا ایوارڈ لینے میں وہ لذت کہاں جو ماں کے ہاتھ سے خرچی کا ایک روپیہ لینے میں ہے۔جنت کی مخملیں مسہریوں پر لیٹنے میں وہ نشہ کہاں جس ماں کی گود میں حاصل ہوتا ہے، غزالی و رازی کے فلسفے اور رومی و سعدی کے شعر و سخن میں وہ حسن کہاں جو ان پڑھ ماں کی لوری میں گُھلا ہوتا ہے، قوس و قزح کے حسین رنگ دنیا میں ضرب المثل بن چکے ہیں مگر ماں کے بے لوث پیار کا رنگ بہت دلاآویز ہوتا ہے گلاب کی پنکھڑی لاکھ نازک سہی مگر ماں کے آبگینہ محبت کی لطافت کا کیا مقابلہ، کنول کا پھول بہت شفاف ہوتا ہے مگر ماں کا دل اُس سے بڑھ کر شفاف ہو تا ہے، چاند کی چاندنی بڑی خنک ہے مگر ماں کے سائے کی ٹھنڈی چھاؤں کا کیا جواب ہے، نسیم سحر کا پرلطف جھونکا اپنی جگہ مگر ماں کے دامن کی ہوا کا مقابلہ کون کرے‘ اگرچہ صحرا کے ذرے سمندر کے قطروں اور جنگل کے پتوں کو کوئی نہیں گن سکتا ، پھر بھی ایسے کمپیوٹر کا ایجاد ہو چکے ہیں جو اِن کا شمار کر لیں لیکن ماں کے پیار کا شمار حدامکان سے باہر ہے۔خالق کائنات نے ماں کے سینے میں اپنی رحمت اور اس کے رویے میں اپنی ربوبیت بھر دی ہے، یہ تو ممکن ہے کوئی سمندر کے پاتال تک پہنچ جائے مگر کسی میں دم نہیں کہ وہ ماں کے پیار کا پاتال پاسکے، ماں کا وجود آخر ایسی نعمت تو ہے کہ متحدہ بھارت کا فرماروا اورنگزیب عالمگیر کہہ اٹھا ’’ماں کے بغیر گھر قبرستان لگتا ہے‘‘ نادر شاہ جیسا تیروتفنگ سے کھیلنے والا جرنیل اپنی ساری خشونت اور صلابت بھلا کر کہتا ہے ’’ماں اور پھولوں میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا‘‘ محمد علی جوہر کہتے ہیں ’’دنیا کی سب سے حسین شے ماں اور صرف ماں ہے‘‘ حکیم الامت علامہ اقبال نے ماں کی یادمیں جو نظم لکھی اُسے علمی ادب کا شہ پارہ مانا جاتا ہے وہ ماں کی عظمت کو یوں سلام پیش کرتے ہیں ’’سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھ سے نرم بنا یا جا سکتا ہے‘‘ یورپ کا نامور شاعر ملٹن اپنے سارے ذخیرہ ادب کا نچوڑ اِس طرح پیش کرتا ہے ’’آسمان کا سب سے بہترین تحفہ ماں ہے‘‘۔لیکن آیئے کائنات کی سب سے محترم اور بر تر شخصیت کی بات سنیئے، سچ ہے بادشاہ کا کلام تکلم کا امام ہوتا ہے حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’ ’جنت ماں کے قدموں میں ہے‘‘ جنت ابدی خوشی اور دائمی کامرانی کی آخری منزل ہے اور یہ آخری منزل ماں کی دہلیز کا رتبہ اول ہے، سچ ہے ماں کی شفقت میں اﷲ کی ربوبیت جھلکتی ہے۔

آزادی کے مسافر

آزادی کے مسافربھارت کے شہر گُڑگاؤں میں پردیپ سنگھ کا ڈرائنگ روم پر دیپ سنگھ کی آہوں اور سسکیوں سے ماتم کدہ بنا ہوا تھا، وہ جو کبھی جوانی میں طاقت ا اختیار کا آہنی مجسمہ تھا اب ندامت پچھتاوے اور شرمندگی کی وجہ سے زاروقطار رو رہا تھا، ایک طرف ندامت کا سمندر تھا جس میں بوڑھا پردیپ سنگھ غرق تھا اُس کی آنکھوں سے اشک ندامت کا سیلاب جاری تھا، قیام پاکستان کے وقت چشم فلک نے تاریخ کے ہولنک ترین مناظر دیکھے جب ظالموں نے انسانی حدود سے نکل کر درندگی وحشت اور سفاکی کے وہ بدترین مظاہرے کئے کہ انسانیت نے اپنا منہ چھپا لیا، نفرت درندگی وحشت ظلم اور غصے کے سیلاب نے لاکھوں لوگوں کے چراغ گل کردیے جبر تشدد ظلم و بربریت کی داستان کے جو باب ادھورے تھے وہ تاریخ کے سینے پر ثبت کر دیے گئے۔ایسے ایسے درد ناک مناظر تھے کہ ایک لمحے کے لیے ظلم کے بانی بھی لرز اُٹھے، ظلم و بربریت کا ایسا ہولناک باب تاریخ کے سینے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہوا کہ تاریخ اپنے دامن پر قیامت تک کے لیے شرمندہ ہوگئی، ظالموں نے نوجوان بوڑھوں عورتوں نوجوان لڑکیوں اور معصوم بچوں پر ایسے ایسے شرم ناک حملے اور ظالم کئے لاکھوں لوگوں کو شہید کردیا گیا اور نوجوان لڑکیوں کو زندہ اٹھا لیا گیا، ظلم کی ایسی اندوہناک داستان پوری دنیا کے دریاؤں اور سمندروں کا پانی بھی قیامت تک اِس ظلم کی سیاھی کو نہیں دھوسکتا، پردیپ سنگھ کی آواز کیا تھی ایک چیخ تھی جس سے ہماری سماعتوں میں گہرے شگاف پڑ گئے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے نبض کائنات تھم سی گئی ہو ساعتیں ناگوار اور لمحات بوجھل تھے نامعلوم سی ادا سی عجیب سی سوگواری۔ ہم خاموش سنگی مجسموں کی طرح ساکت تھے پردیپ سنگھ کے الفاظ کیا تھے ایک زلزلہ تھا جس نے دل کو زیروز بر کر دیاتھا، بوڑھا سکھ کافی رونے کے بعد مخاطب ہوا آپ یقینًا یہ سوچ رہے ہونگے کہ میں اتنا زیادہ شرمندہ اور پچھتا کیوں رہا ہوں، مجھے اپنے خاندان اور بڑوں کی قتل و غارت کا اتنا زیادہ پچھتاوا کیوں ہے‘ ہمیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں نے آنے والے سکھوں کا قتل تمام اور لوٹ مار شروع کر رکھی ہے، یہ میرا کزن دلاور سنگھ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ راولپنڈی کے واپس رہتا تھا ہمیں یہ بتایا گیا کہ اِن کو لوٹ مار کے بعد قتل کردیا گیا ہے، جب کہ ایسا نہیں تھا دلاور سنگھ اور اِس کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا یہ آپ کو خود دلاور سنگھ بتاتا ہے۔اب دلاور سنگھ نے بولنا شروع کیا کہ میں پانچ سال کا تھا ‘میرا بھائی 8 سال کا اور اُس سے بڑی بہنیں15 اور 16 سال کی تھیں، اب جب پاکستان بن گیاتو لاکھوں لوگوں کی طرح ہم بھی بہت پریشان ہوئے کہ کس طرح اپنا کاروبار اور مکان جائیداد چھوڑ کر ہندوستان جائیں یہ افواہیں بھی آرہی تھیں کہ ہندستان جانے والوں کا قتل عام کیا جارہاہے اور روپیہ پیسہ بھی لوٹ لیا جاتا ہے، طرح طرح کی خوفناک اور دل کو ہلا دینے والی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں اب جب ہم نے ہندستان آنے کا ارادہ کیا تو ہمارے پڑوس میں رہنے والے خاندان کے سربراہ حاجی کریم صاحب نے پہلے اپنے گھر میں پناہ دی کہ حالات بہتر ہوں تو ہم بھارت کا سفر شروع کر سکیں، جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو حاجی کریم صاحب نے کہا کہ ابھی بھی راستے میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے اِس لیے حاجی کریم صاحب اور اُن کے دو نوجوان بھائی ہمارے ساتھ ہماری حفاظت کے لیے چل پڑے۔میرے والد صاحب نے بہت کہاکہ ہم چلے جائیں گے لیکن حاجی صاحب نہیں مانے کہ آپ کے ساتھ تین خواتین بھی ہیں اِس لیے خطرہ زیادہ ہے، لہٰذا حاجی صاحب ہمارے ساتھ بارڈر تک آئے سارا رستہ ہمارا خیال رکھا‘ راستے میں کھانے پینے کا خصوصی خیال رکھا‘ میری ماں اور بہنوں کو اپنی بہن اور بیٹیاں کہہ کر پکارتے رہے آخر کار ایک لمبے سفر کے بعد جب ہم بارڈر پر آکر اپنے لوگوں سے ملے جو یہ سمجھ چکے تھے کہ ہم کو لوٹ مار کے بعد قتل کر دیا گیا ہے اور ہماری عورتوں کو اٹھا لیا گیا لیکن جب ہم نے آکر اِن کو حاجی کریم صاحب کی جانثاری محبت اور ایثار قربانی کی غیر معمولی داستان سنائی تو ہمارے رشتہ داروں نے یہاں جو قتل و غارت شروع کر رکھی تھی فوری ختم کی اور اپنے عمل پر شرمندہ اور تائب بھی ہوئے۔ہمارے یہاں کے خاندان والے اُس دن سے آج تک اپنے کئے پر شرمندہ ہیں کہ ہم نے خواہ مخواہ معصوم مہاجرین پر ظلم کیا، ہندو جو پہلے دن سے مکار اور عیار ہے اُس نے سکھوں کو اِس ظلم عظیم پر اکسایا لیکن اب سکھ یہ سمجھ چکے ہیں کہ یہ ساری کی ساری ہندوؤں کی سازش تھی، میرے والد صاحب اور والدہ صاحبہ جتنا عرصہ بھی زندہ رہے روزانہ حاجی کریم کے لیے دعا کرتے رہے جب بھی کوئی پاکستان سے آتا تو حاجی کریم صاحب اور اس کے خاندان کو یاد کر تے، اُن کے لیے تحائف بھی بھیجتے یہاں آکر جب میری ماں کو پتہ چلا کہ مسلمانوں پر قیامت سے پہلے قیامت نازل ہو گئی تھی، میرے ماں باپ اِس ظلم کا مداوہ کرنا چاہتے تھے آخر انہیں اِس کا موقع مل گیا ہندوستان سے جو لاکھوں آزادی کے مسافر پاکستان کے لیے چلے اُن میں سے لاکھوں کو شہید کر دیا گیا اور نوجوان لڑکیوں کو اُٹھا لیا گیا۔اِسی قتل و غارت کے دوران ہمارے گاؤں میں ایک پانچ سالہ مسلمان لڑکی بھی ملی جس کا پورا خاندان آزادی کی بھینٹ چڑگیا اِس کا خاندان بھی اُن لاکھوں شہیدوں میں سے ایک تھاجن کی لازوال قربانیوں کی بدولت پاکستان معرض وجود میں آیا، میرے ماں باپ نے فوری یہ فیصلہ کیا کہ اِس مسلمان بچی کو وہ پورے احترام کے ساتھ اُس کے مذہب پر پالیں گے، لہذا اُس بچی کو جس کا نام جنت بی بی رکھا گیا میرے ماں باپ گھر لے آئے پہلے تو پتہ کرایا کہ اِس کا کوئی مل جائے لیکن یہی پتہ چلاکہ یہ آزادی کے کاروان کی واحد بچی ہے جو بچ گئی باقی تمام آزادی کے پروانے شمع پاکستان پر قربان ہو گئے۔لہٰذا اب یہ فیصلہ ہوا کہ آج سے یہ ہماری بچی ہے میرے ماں باپ نے اپنی اولاد سے بڑھ کر جنت بی بی کو پالا اور اہم بات اِس کو مسلمان مدرسے میں مسلمانوں کی تعلیم دلائی اور جوان ہونے پر مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کر دی، میرے ماں باپ جتنا عرصہ زندہ رہے جنت بی بی اُن کے دل کا ٹکڑا رہی اور آج جنت بی بی ہم سب کی جان مان اور عزت ہے ، جب بھی کوئی پاکستان سے آتا ہے تو وہ بھی اُن سے ملنے آتی ہے اور آج بھی میری بہن میری جان یہاں آئی ہوئی ہے اِس کے ساتھ ہی دلاور سنگھ نے آواز دی جنت بی بی کو اندر لاؤاِس کے ساتھ ہی نور کی پوٹلی ساٹھ سال سے زیادہ باوقار عورت داخل ہوئی جو بوڑھی ہو چکی تھی آکر بیٹھ گئی، ہم خوشگوار حیرت کے سمندر میں غرق تھے دلاور سنگھ اٹھا اور جنت بی بی کے پاؤں چھوئے وہ بتا رہا تھا کہ جنت بی بی ہمارے خاندان کی جان ہے اِس کے 4 بچے ہیں جو اب جوان ہیں جنت بی بی کا حکم کوئی ٹال نہیں سکتا وہ بولے جارہا تھا اور میں فرشتہ صفت جنت بی بی آزادی کی اُس عظیم مجاہدہ کو دیکھ رہا تھا جس کا سارا خاندان پاکستان پر قربان ہو گیا۔اُس کے چہرے پر سیرت و کردار اور ایمان کی آگ روشن تھی اور ہونٹوں پر ملکوتی تبسم نمایاں تھا، جب وہ بولیں تو ہماری سماعتوں میں شہد و شبنم کی لہریں اُتر نے لگیں دونوں بوڑھے سکھ جنت بی بی کے سامنے غلاموں کی طرح احسان شناسی کے پیکر نظر آرہے تھے، جنت بی بی کے منہ سے لفظ نہیں ریشم کے تار نکلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ‘چاندنی جیسی نرم میٹھی مسکراہٹ اُس کے چہرے پر رقصاں تھیں، جب وہ بولیں تو لہجے میں صوفیانہ مٹھاس اور بڑھ جاتی اُس کے لہجے اور آنکھوں میں مریم کی پوترتا تھی، میں سوچ رہا تھا کہ آج کل پاکستان کی نوجوان نسل جو وضو اور طہارت سے نا بلد یہ کیا جانیں آزادی کے اِن عظیم لوگوں کو جن کی لازوال قربانیوں کے طفیل ہم پاکستان میں آزادی کا سانس لے رہے ہیں۔فرط عقیدت سے میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں میں اٹھا اور جنت بی بی کے قدموں میں بیٹھ گیا اور جنت بی بی کا ہاتھااپنے سر پر رکھ لیا جنت بی بی کے ہاتھ رکھتے ہی میرے بدن میں ایمان و سرور کی لہریں دوڑنے لگیں میں نے روتے ہوئے کہا میرے لیے دعا کریں تو اُن کے ہونٹوں سے دعاؤں کے پھول جھڑنے لگے جن کی خوشبو سے میری روح معطر ہوگئی۔

loading...