اتوار، 18 مارچ، 2018

اﷲ کا در کھلا ہے

اﷲ کا در کھلا ہےاُس کے منہ سے نکلا فقرہ بم کی طرح پھٹا اور میرا منہ حیرت سے کھل گیا، میرا ہاتھ لکھتے لکھتے رک گیا، نظریں ٹھہر گئیں اور دل حلق میں آگیا، میری سانسیں بے ترتیب ہو چکی تھیں مجھے اپنے حلق میں پتھر سے گرتے محسوس ہوئے، میرے قلب واحساس میں عجیب سی ہلچل پیدا ہو گئی تھی، وہ موت کی دہلیز پر کھڑی امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی، وہ پتہ نہیں اذیت کے کتنے دریا پار کر کے میرے پاس آئی تھی اُس کے لہجے میں گہری سیاہ رات کا درد تھا۔مجھے اپنی سماعت پربلکل بھی یقین نہیں آیا میں نے خوفزدہ اور بے یقینی کے لہجے میں دوبارہ اُس سے پو چھا تو اُس نے وہی پہلے والا جواب دیا، اب میں حیرت بے بسی اور دکھ کے گہرے احساس کے ساتھ اُس کی طرف شفقت بھری نظروں سے دیکھا رہا تھا، مجھے بلکل بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ چند دنوں بعداُس کی روشن آنکھیں روشنی نور امید کے چراغوں اور مستقبل کے سہانے خوابوں سے محروم ہو جائیگی، میری آنکھیں میں اُس کے لیے دکھ نمی بن کر تیرنے لگا، میں یہ یقین کرنے کو بلکل بھی تیار نہیں تھا کہ میرے سامنے بیٹھی، پچیس سالہ خوبصورت نوجوان لڑکی جو دو معصوم بچوں کی ماں بھی ہے کرہ ارض کی لا علاج اور خوفناک ترین بیماری کا شکار ہو سکتی ہے۔یہ ہولناک اور لا علاج بیماری جو پچھلے چند عشروں سے ہزاروں لوگوں کو نگل چکی ہے، پوری دنیا کے ہسپتال، لیبارٹریاں اور قابل ترین ڈاکٹر اِسکے سامنے بے بسی کے مجسمے بنے نظرآرہے ہیں، مغرب اور دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنے بے پناہ وسائل کے باوجود اِس لا علاج بیماری کا علاج کرنے سے قاصر ہیں، ایک ایسی خوفناک اور لا علاج بیماری جو خوفناک عفریت کی طرح ہر سال بے شمار انسانوں کو نگل رہی ہے، ایسی بیماری جس کا نام آتے ہی دل و دماغ پرخوف طاری ہو جاتا ہے ایسی بیماری جس کے بارے میں بتاتے ہوئے بھی انسان شرماتا اور گھبراتا ہے۔ پوری دنیامیں ہر گزرتے دن کے ساتھ اِس کے مریض بڑھتے جارہے ہیں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وطن عزیز میں یہ بیماری بہت کم ہے اُس کی خبر نے مجھے بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیا مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ کہ میرے سامنے بیٹھی صحت مند خوبصورت نوجوان لڑکی ہر گزرتے دن کے ساتھ موت کی طرف بڑھ رہی ہے، اُس کے جسم میں دوڑتا ہوا گرم صحت مند خون جلد ہی سرد ہونے والا ہے، موت کا وائرس اُس کے خون میں شامل ہوچکا ہے اور کسی دن اچانک اُس کو گرفت میں لے کر موت کے اندھے غار میں دھکیل دے گا، یہ صحت مند جسم جلد ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہونے والا ہے، میرے سامنے بیٹھی نوجوان لڑکی نے ایک خط مجھے دیا کہ سر آپ اِس کو پڑھ لیں اِس میں تفصیل درج ہے۔خط میں وہ لکھتی ہے: سر پانچ سال پہلے میری شادی دوبئی میں میرے کزن کے ساتھ ہوئی لہذا میں شادی کے بعد لاہور سے دوبئی شفٹ ہوگئی، میں اپنے خاوند کے ساتھ بہت خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے لگی پہلے تین سالوں میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بیٹی اور بیٹے کی نعت اور رحمت سے نواز دیا، ہماری فیملی مکمل ہو چکی تھی میرا خاوند اچھی کمپنی میں نوکری کرتا تھا کوئی پرابلم مسئلہ نہ تھا ہم دونوں میاں بیوی اپنے ننھے منے بچوں میں گم زندگی کا بھرپور طریقے سے لطف اٹھا رہے تھے، فطری طور پر ہم دونوں میاں بیوی مذہبی رجحان رکھتے ہیں، اِس لیے ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ زندگی مذہب اسلام کے مطابق گزاری جائے۔ہم دونوں شدت سے حرام حلال کا خیال رکھتے ہیں کہ کوئی بھی ایسا کام نہ ہو جس کی ہمیں اسلام اجازت نہیں دیتا، کیونکہ دوبئی میں دنیا جہاں کی قومیں آباد ہیں آزادی اور عیاشی کے تمام ذریعے اور سہولتیں موجود ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ہر قسم کی غلط آزادی ، عیاشی اور گناہوں سے پاک زندگی گذار رہے تھے کوئی غم پریشانی نہ تھی ہر طرف خوشیوں کے رنگ اور گلستان مہکے ہوئے تھے، اِسی طرح ہماری ازدواجی زندگی کے پانچ سال پورے ہوگئے‘ ایک ماہ پہلے میرے میاں کا سالانہ میڈیکل ٹیسٹ ہوا تو میرے میاں نے احتیاطً میرا بھی میڈیکل ٹیسٹ کروا یا میرے میاں کا میڈیکل ٹیسٹ تو بلکل ٹھیک آیا لیکن میرے ٹیسٹ کے مطابق میں دنیا کی خوفناک اور لا علاج ترین بیماری ایڈز کا شکار ہو چکی ہوں۔ایڈز کی خبر میرے اور میرے خاوند کے لیے زلزلے اور آتش فشاں کے پھٹنے سے کم نہ تھی، ہماری پریشانی اور حیرت اِس لیے زیادہ تھی کہ ایڈز کے پھیلنے میں جو وجوہات ہیں میری زندگی میں کوئی ایک وجہ بھی ایسی نہیں ہے جو اِس کا موجب بنتی ہے، ڈاکٹر بھی بہت پریشان ہیں وہ میرے ساتھ کئی سیشن کر چکے ہیں وہ سوالات پر سوالات کر کے تھک چکے ہیں کہ یہ بیماری میرے جسم میں کس طرح اُتری، میری پچھلی تمام سرگرمیوں کونوٹ کیا گیا میں کہاں کہاں گئی کس کس سے کس حد تک ملی ہوں اِن تمام اعداد و شمار اور تفصیلات نوٹ کرنے کے بعد ڈاکٹرز اور ہم میاں بیوی پریشان ہیں کہ کوئی ایسی غفلت عیاشی یا وجہ جو اِس بیماری کا موجب بنتی ہے میں نے نہیں کی تو پھر یہ بیماری میرے جسم میں کیسے آئی۔میں نے اُس کا خط پڑھ کر اُس کی طرف دیکھا وہ پر سکون چہرے سے میری طرف دیکھ رہی تھی، میں عجیب ذہنی کشمکش اور اضطراب کا شکار ہو چکا تھا میں بے بسی لاچاری محسوس کر رہا تھا کہ میں اُس کو کیا جواب دوں میری پریشانی دیکھ کر وہ بولی سر آپ دعا کریں اﷲ بہت رحیم کریم ہے وہ میرے اوپر ضرور کرم کرے گا، اُس کی امید اور زندگی سے بھرپور آواز سن کر میں گوری طور پر بے بسی کے سمندر سے نکل آیا میں تو بھول ہی گیا تھا وہ خدا جو ہم سب کا مالک ہے ہم جیسے نافرمانوں، ظالموں، فرعونوں، نمرودوں اور ناشکروں کو برس ہا برس سے مسلسل رزق صحت و مہلت دیے جارہا ہے وہ خدا جو دل و دماغ اور روح کی عمیق ترین گہرایوں کے اندرسات غلافوں میں لپٹی خواہشوں اور آوازوں سے بھی با خبر ہے وہ خدائے بزرگ بر تر اِس معصوم اور بے گناہ بچی پر بھی ضرور رحم کریگا، ہم دنیا اور مادیت پرستی کے لق و دق صحرا میں اِس طرح گم ہو چکے ہیں کہ یہ بھول چکے ہیں کہ وہ تو پتھر کے اندر حرکت کرنے والی کیڑوں سے بھی با خبر ہے، کائنات میں اربوں درختوں کے کھربوں خشک پتوں کے گرنے سے بھی با خبرہے۔اپنے وقت کے بہت بڑے بزرگ حضرت حسن بصری نے بلند آواز سے کہا: لوگو اﷲکے دروازے کو کھٹکھٹاتے رہو، دروازہ ضرور کھلتا ہے۔ پاس ہی ایک بڑھیا نے سنا تو بولی اے حسن کیا اﷲ کا دروازہ بند بھی ہوتا ہے؟ حضرت حسن بصری بڑھیا کی بات سن کر غش کھا گئے اور بولے اے اﷲ یہ بڑھیا تجھے مجھ سے زیادہ جانتی ہے، وہ لڑکی تو مجھ سے مل کر چلی گئی لیکن اس کا روشن اور طمانیت سے لبریز چہرہ آج بھی میرے حافظے سے چپکا ہوا ہے اور اُس کا فقرہ کہ اﷲ کا در ہمیشہ کھلا رہتا ہے وہ مجھ پرضرور کرم کریگا۔

اہلِ حق

اہلِ حقروز اول سے آج تک ہر دور میں اہل حق کا ایسا طبقہ موجود رہا ہے جو اپنے کردارسے حق گوئی کی خوشبو پھیلاتا رہا ہے، اُن کی حق گوئی اور کردار کی روشنی سے مظلوم انسانیت ہدایت لیتی رہی ہے، یہ سچ ہے کہ جس کا دل خوف خدا اور عشق الٰہی سے آشنا ہوا وہ پھر ہر قسم کے دنیاوی خوف و حزن سے آزاد ہو گیا کیونکہ جس نے اپنا دست سوال رب ذوالجلال کے سامنے پھیلادیا وہ دنیاوی جھوٹے خداؤں کی غلامی سے آزاد ہو گیا، جو خدا کے آگے سرخم کر گیا وہ پھر کسی دنیادی خدا کے سامنے خم نہیں ہوتا۔ارشاد خداوندی ہے ’’بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اﷲ ہے وہ اس پر ڈٹ گئے تو اُن پر فرشتے نازل ہو تے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم کوئی خوف نہ کرو اور نہ غم کھاو اور اِس جنت سے شادمان ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے اور ہم ہی تمہارے دنیا و آخرت کے ساتھی ہیں اور تمھارے لئے جنت میں وہ کچھ ہے کس کی تم خواہش کرتے ہو اور جس کی تمھیں طلب ہے یہ غفور و رحیم خدا کی طرف سے ضیافت ہے‘‘ (حم السجدہ 30 تا 32)۔اہل حق نے ہر دور میں سچائی اور حق کا دامن تھامے رکھا، تاریخ میں جب منگول حکمرانوں کے اہلکاروں نے امام اِبن تمیمہ کو ڈرانے کی کو شش کی اور روپے کی بھی آفر کی تو آپ نے کہا تمھارا اقتدار اور پوری منگول سلطنت میرے نزدیک ایک کھوٹے سکے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی یہ کہا اور جیب سے ایک معمولی سِکہ نکالا اور ہوا میں اچھال دیا کہ یہ تمھاری حکومت کی اوقات ہے۔ وقت کے بہت بڑے درویش خواجہ حسن بصری ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیں ایک بادشاہ کسی درویش کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ درویش نے پرانے پھٹے ہوئے کپڑے پہن رکھے ہیں، اُس کی حالت بہت شکستہ ہے لیکن اِس کے باوجود اُس درویش نے بادشاہ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا درویش کی بے نیازی پر بادشاہ غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اعتراض کیا، تو درویش نے کہا اے بادشاہ جولوگ تیرے انعامات اور احسان کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں تو ان سے تابعداری اور اطاعت کی امید رکھ۔وہ اگرتیری اطاعت نہ کریں تو ان سے ضرور پوچھ جبکہ مجھ جیسے خاک نشیں کو بھلا تیری کیا ضرورت، درویش کی حق گوئی بادشاہ کو ناگوار گزری غصے سے تلملا کر بولا تو بہتر حال میں ہے کہ میں؟ درویش نے اُسی بے نیازی اور جرات سے کہامیں نے اپنے نفس کو گدھا بنا رکھا ہے اور اِس پر سواری کررہا ہوں مگر تیرا نفس نے تجھے گدھا بنا رکھا ہے اور وہ تیرے اوپر سوار ہے درویش کی بات سن کر بادشاہ پر سکتہ طاری ہوگیا، کچھ دیر بعد درویش پھر بولا یقینًا یہ سچ ہے کیونکہ تیرے چہرے کا رنگ اور تاثرات بتا رہے ہیں کہ تجھے میری یہ گستاخی بہت کڑوی لگی ہے بادشاہ درویش کی حق گوئی اور جرات سے دل میں متاثر ہوچکا تھا بولا تمھاری کوئی ضرورت یا حاجت ہے جسے میں پورا کر سکوں‘ درویش کی بے نیازی نقطہ عروج پر نظر آئی وہ کہنے لگا ہاں ایک حاجت ہے وہ یہ آج کے بعد تو میرے پاس نہ آنا۔ایسے اہل حق نے ہر دور اور ہر ظالم جابر بادشاہ کے سامنے استقامت اور جرات کا وہ مظاہرہ کیا کہ تاریخ کے اوراق ایسے عظیم انسانوں پر فخر کرتے ہیں، امام مالک ، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام اِبن تمیمہ، سعید بن جبیر، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، نظام الدین اولیا، حضرت علی ہجویری، بابا فرید گنج شکر، عقیل بن عباس، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ہوں یا حضرت مجدد الف ثانی اِن لوگوں نے شہادت حق کا لازوال فریضہ ہر نازک موقع پر بڑی جرات سے ادا کیااِن کا کردار اور زبان ہر قسم کے خوف اور لالچ سے آزاد رہی۔دنیا نے حیرت سے دیکھا جب سعید بن جبیر کو زنجیروں میں باندھ کر وقت کے ظالم ترین شخص حجاج بن یوسف کے سامنے لایا گیا تو حجاج بن یوسف نے فرعونیت سے پو چھاتمھارا نام کیا ہے آپ نے فرمایا سعید بن جبیر ظالم دھاڑ کر بولا نہیں تم شفی بن کسیر ہو، آپ نے نہایت بردباری اور شان بے بیازی سے فرمایا تمھارے مقابلے میں میرے نام کا میری ماں کو زیادہ علم ہے حجاج برہم ہو کر دھاڑا تم بھی بدبخت ہو اور تمھاری ماں بھی، آپ نے طمانیت اورٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا خوش بختی اور بد بختی کا علم صرف اﷲ کو ہے ظالم کا پیمانہ پندار جھلک پڑا اور کہا میں تمھاری زندگی نشان عبرت اور جہنم میں بدل ڈالوں گا، آپ نے پھر فرمایا اگر یہ اختیار میں تمھارے ہاتھ میں سمجھتا تو تمھیں خدا مان لیتا۔آپ کی حق گوئی اور جرات تاریخ کے سینے پر ثبت ہوگئی جو قیامت تک آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ بن گئی، تاریخ کے اوراق خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی استقامت جرات اور ایمان سے قیامت تک کے لیے جگ مگ کر رہی ہے جب پرتھوی راج نے ہر طرح کا ظلم کرنے کے بعدآپ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تو شہنشاہ اجمیر نے ادائے بے نیازی سے کہا کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون زنجیر میں بندھا ہوگا اور پھر چشم فلک نے حیرت انگیز منظر دیکھا جب پرتھوی راج شکست خوردہ آپ کے سامنے کھڑاتھا، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے زمانے میں جب بادشاہ وقت نے قاضی ابوالوفاء کو چیف جسٹس نامزد کیا تو غوث اعظم نے بر سرِ منبر للکار کر کہا کہ تم نے ایک ظالم ا لظالمین شخص کو قاضی القضاۃ بنایا ہے کل روز محشر ارحم الراحمین کو کیا جواب دو گے، تاریخ انسانی کے سب سے بڑے درویش کی زبان سے نکلی حق کی گو نج جب ایوان اقتدار تک پہنچی تو حاکم وقت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔اُدھر مغلیہ دور میں امام ربانی اور جہانگیر کے درمیان تنازعہ اپنے عروج پر تھا اور ظالم بادشاہ نے آپ کوقلعہ گوالیار میں بند کر دیا تو شہزادہ خرم المعروف شاہ جہاں نے آپ کو خط لکھا چونکہ وہ آپ کا ارادت مند تھا اُس نے کہا حضرت شیخ براہ کرم ایسی درمیانی راہ نکالیے کہ میرے والد کی انا کو ٹھیس نہ پہنچے اور آپ کا نظریہ بھی قائم رہے یعنی شہزادہ آپ کو مصلحت یا دنیا داری کا مشورہ دے رہا تھا کہ بادشاہ کی ناراضگی بھی نہ ہو اور آپ کا موقف بھی قائم رہے تو امام ربانی مجدد الف ثانی نے اُسی خط کی پشت پر ایمان افراز جواب دیا ’’اگر اﷲ والے بھی سر جھکا کر چلنا شروع کردیں تو سر اٹھا کر چلنے والا کون ہو گا‘‘۔

loading...