محبوب خدا سرتاج الانبیاء کا فرمان ہے کہ ’’ہم گروہ انبیاء اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے امتحان کی صعوبتوں میں ڈالے جاتے ہیں‘‘ حضرت ابراہیمؑ خالق ارض و سماء کے جلیل القدر پیغمبر تھے آپ کا مقام و مرتبہ جتنا بڑا تھا آپ پر اﷲ تعالیٰ کی آزمائشیں بھی بہت کڑی تھیں۔ آپ کی پیدائش ایک بت پرست گھرانے میں ہوئی لیکن شروع سے ہی حضرت ابراہیمؑ کو مالک کائنات نے رشد وہدایت کی نعمت سے نوازا تھا آپ کی پہلی آزمائش تو آپ کا والد تھا جو بت پرست ہونے کے ساتھ ساتھ بت تراش بھی تھا لہٰذا حضرت ابراہیم نے پہلی دعوت اپنے والد کو دی جو والد نے سختی سے رد کردی اور گھر سے نکال دیا آپ نے دوسری دعوت حق اپنی قوم کو دی انہوں نے بھی سختی سے انکار کردیا‘ ظالم بادشاہ نے اپنے دربار بلایا تو آپ نے وہاں بھی حق کی آواز کو بلند کیا اور توحید پرستی کی دعوت دی‘ بادشاہ کا مزاج برہم ہوا‘ گستاخی کی سزا یہ ٹھہری کہ آپ کو آگ کے بڑے آلاؤ میں ڈال دیا جائے ‘آپ کو آگ میں ڈالا گیا لیکن آپ نے خدا کے دامن اور حق پرستی کو نہ چھوڑا ‘اسی سال کی عمر میں خدا کے حکم پر خود ہی اپنے ختنے کر ڈالے ‘اپنا سارا مال و دولت مہمان نوازی اور خدا کی راہ میں خرچ کردیا ‘اپنی قوم سے مایوس ہو کر اپنا پیارا وطن چھوڑ کر سر زمین فلسطین میں آباد ہوئے پھر بڑھاپے میں 86 برس کی عمر میں اﷲ تعالیٰ نے بیٹا عطاء کیا جس کا نام حضرت اسماعیل رکھا گیا اب ایک اور کڑا امتحان منتظر تھا اﷲ کے حکم پر بڑھاپے کی پونجی حضرت اسماعیل ؑ اور بیوی کو اپنے سے دور فاران خاران کے بیابانوں میں چھوڑ آئے‘ درج بالا تمام آزمائشوں سے حضرت ابراہیم ؑ سرخرو ہوئے ‘اب ایک اور بڑی آزمائش کی تیاری تھی۔ حضرت ابراہیمؑ تین مسلسل شب سے یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری راہ اپنی محبوب ترین شے اپنے بیٹے کی قربانی دے۔ حضرت ابراہیمؑ اچھی طرح جانتے تھے ان کی محبوب ترین شے بڑھاپے کی اکلوتی اولاد ان کا بیٹا اسماعیلؑ ہے چونکہ انبیاء کا خواب وحی الٰہی اور حکم الٰہی ہوتا ہے جو کبھی بھی غلط یا جھوٹا نہیں ہو سکتا اس لئے حضرت ابراہیمؑ بھی ہمیشہ کی طرح تسلیم و رضا کے پیکر بن گئے پہلے تو ہر بار ذات اپنی ہوتی تھی لیکن اس بار آزمائش کا دوسرا جُز بیٹا تھا جس کی قربانی کا حکم دیا گیا اس لئے آپ نے بہتر سمجھا کہ اپنے بیٹے کو تمام بات بتائی جائے پھر اپنا خواب اپنے بیٹے کو سنایا تاکہ وہ بھی رضا مند ہو جائے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے سے کہا میرے پیارے بیٹے میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اب تو بتا تیری رائے اور مرضی کیا ہے۔ فرماں بردار بیٹے نے خدا کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور کہنے لگا کہ اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو انشاء اﷲ آپ مجھے صابر اور فرماں بردار پائیں گے اس گفتگو کے بعد بیٹا قربان ہونے اور باپ اﷲ کی راہ میں بیٹے کو قربان کرنے کیلئے جنگل کی طرف روانہ ہوگئے۔باپ نے بیٹے کی مرضی کے بعد چھری کو تیز کیا۔ بیٹے کو مذبوح جانور کی طرح ہاتھ پیروں سے باندھ دیا پھر حضرت ابراہیمؑ نے گدی کی طرف سے ذبح کرنے کا ارادہ کیا تھا تاکہ بوقت ذبح وہ اپنے محبوب بیٹے کا چہرہ نہ دیکھ سکیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بیٹے کو عام جانوروں کی طرح پہلو کے بل لٹایا تھا اور اس کی پیشانی ایک جانب سے زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھی‘ مفسرین کا کہنا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کے حلق پر چھری چلا دی اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش میں بھی سرخرو ہوگئے لیکن چھری چلانے سے کچھ بھی نہ کٹا تو اس وقت خالق کائنات کی طرف سے آواز آئی‘ اے ابراہیم ؑ یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا یعنی ہم آپ کی جو جو آزمائش کرنا چاہتے تھے وہ مکمل ہو چکی ‘حضرت ابراہیمؑ اﷲ تعالیٰ کی ہر آزمائش میں ثابت قدم اور کامیاب نکلے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا یقیناً یہ کھلا امتحان تھا اور فرمایا ہم نے ایک بڑا ذبحہ اس کے فدیہ میں دیدیا۔ اب لڑکے کو چھوڑ اور تیرے پاس جو یہ مینڈھا کھڑا ہے اس کو اپنے محبوب بیٹے کے بدلے میں ذبح کر ‘ہم نیکو کاروں کو اسی طرح اپنی رحمتوں اور نوازشوں سے نوازتے ہیں۔ لہٰذا حضرت ابراہیمؑ نے حکم خداوندی کی تعمیل کی اور اس مینڈھے کو ذبح کیا۔رب ذوالجلال کو حضرت اسماعیلؑ کی فرماں برداری اور حضرت ابراہیمؑ کی یہ عظیم قربانی ادا اور عبادت اتنی پسند آئی کہ بطور یادگار کے ہمیشہ کیلئے ملت ابراہیم کا شعار قرار پائی اور آج بھی ذی الحجہ کی دس تاریخ کو تمام دنیا اسلام میں یہ قربانی اور شعار اسی طرح منایا جاتا ہے۔ قربانی، قربان، قربت اور قرب تمام مترادف الفاظ ہیں جس کا مطلب ہے کسی کے نزدیک ہونے کی کوشش، کسی کو راضی کرنا اور کسی کی توجہ چاہنا کوئی ایسی عبادت الفاظ یا کام کرنا جن سے کسی کی توجہ حاصل کی جا سکے یا کسی کے قریب ہوا جا سکے جس دن سے حضرت انسان کرہ ارض پر آباد ہوا ہے اسی دن سے یہی قربانی کا تصور بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا ذکر ملتا ہے ‘فلسفہ قربانی اﷲ تعالیٰ کی رضا اور حصول تقویٰ ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے اﷲ کی بارگاہ میں قربانی کے جانوروں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کی عنایات پر اظہار تشکر کے طور پر اپنے حلال مال میں سے اﷲ کا قرب حاصل کرنے کیلئے اﷲ کی راہ میں قربانی کرنا، قربانی کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ امام ترمذی اماں جی عائشہؓ سے ایک روایت فرماتے ہیں کہ شہنشائے دو عالم ‘محبوب خدا ‘شافع محشر ‘ساقی کوثر نے فرمایا کہ ’’قربانی کے دن اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں انسان کا کوئی عمل خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے‘ قربانی کا جانور قیامت کے دن نیکیوں کے پلڑے میں اپنے سینگوں، بالوں، کھروں اور رگ و ریشہ سمیت آپ کا اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ کی بار گاہ میں قبول ہو جاتا ہے۔ قربانی کا اصل فلسفہ تقویٰ کا حصول اور محبوب کو راضی کرنے کی کوشش ہے اگر تو ہم اسی جذبے اور شوق سے قربانی کریں گے تو یقیناً بارگاہ الٰہی میں قبولیت کی سند پائے گی اور اگر ہم بڑے جانور لوگوں پر اپنا رعب ڈالنے کیلئے معاشرے کو اپنی دولت کی نمائش کرنے کیلئے کریں گے تو ہم روز محشر قربانی کے ثواب سے محروم رہیں گے۔ فلسفہ قربانی یہ بھی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی رضا کیلئے ہر کام کرجانا اپنی قیمتی سے قیمتی شے کو ایک لمحے سے بھی پہلے اس کے حضور قربان کر دینا قربانی کا مقصد رب ذوالجلال کو راضی کرنا ہے اس کی اطاعت کرنا ہے اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے نہ کہ دنیاوی شان و شوکت کہ لوگوں پر اپنی دولت کا رعب ڈالا جا سکے۔
اتوار، 18 مارچ، 2018
حضرت ابراہیم علیہ السلام
فرشتے محو حیرت تھے، ہوا میں، فضاء میں انگشت بدنداں اور بوڑھا آسمان حیرت سے پلک جھپکنا بھول چکا تھا۔ روز اول سے کرہ ارض پر کروڑوں انسان آئے، کھایا، پیا، افزائش نسل کا حصہ بنے اور پیوند خاک ہوگئے۔ چشم فلک عشق و محبت کے ہزاروں مناظر دیکھ چکی لیکن عشق الٰہی تعبداری جرات اور ثابت قدمی کا جو مظاہرہ آج دیکھ رہا تھا یہ شائد پہلی اور آخری بار دیکھ رہا تھا۔ بت پرستوں کے پاس جب کوئی جواب نہ رہا وہ بحث و مناظرے کے میدان میں بری طرح شکست کھا گئے‘ ان کے پاس کسی قسم کی دلیل باقی نہ رہی تو انہوں نے وہی پرانا ظامانہ طریقہ اپنایا جو ہر سرکش شکست کھانے کے بعد اپناتا ہے اس بار حق پرست‘ توحید پرست بندہ خدا اور خدائے بزرگ و برتر کے عظیم عاشق حضرت ابراہیمؑ کیلئے یہ سزاء تجویز کی گئی کہ آپ کو آگ کے آلاؤ میں پھینک دیا جائے اس کیلئے ایک بہت بڑا گڑھا بنایا گیا بت پرستوں نے لکڑیاں جمع کرنا شروع کردیں حتی کہ ان میں سے جب کوئی عورت بیمار ہوتی تو وہ یہ نذر مانتی کہ اگر وہ تندرست ہو گئی تو وہ حضرت ابراہیمؑ کو جلانے کیلئے لکڑیاں اکٹھی کرے گی پھر اس گڑھے کو لکڑیوں سے بھردیا گیا اور آگ لگا دی گئی اس آگ کو مسلسل کئی روز دہکایا گیا جب آگ خوب جل اُٹھی تو اس کے شعلوں سے قرب و جوار کی اشیاء جھلسنے لگیں تو آپ کو آگ میں ڈالنے کی تیاری شروع کی گئی۔ حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں پھینکنے کا پس منظر یہ تھا حضرت ابراہیم ؑ عراق کے قصبہ ’’ اور‘‘ کے باشندے تھے آپ کی قوم بت پرستی کے سمندر میں غرق ہو چکی تھی آپ کے والد کا نام ازر تھا جو اپنی قوم کے مختلف قبائل کیلئے لکڑی کے بت بناتا اور فروخت کرتا‘ رب کائنات نے شروع سے ہی حضرت ابراہیم ؑ کو بصیرت اور رشد و ہدایت عطاء فرمائی تھی وہ بھی بچپن سے یہ دیکھتے آ رہے تھے کہ ان کا باپ مورتیوں کو اپنے ہاتھ سے بناتا ہے ‘جس طرح چاہتا ہے بتوں کے ناک، کان، آنکھیں اور جسم تراشتا ہے تو یہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں‘ انہی سوالات نے آپ کو تلاش حق کی طرف لگایا لہٰذا آپ نے سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو دعوت اسلام دی باپ پر آپ کی دعوت کا بالکل اثر نہ ہوا بلکہ باپ نے کہا اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا جب حضرت ابرا ہیم ؑ نے یہ دیکھا تو باپ سے کہا کہ اگر آپ بت پرستی سے باز نہیں آتے تو میں آپ سے آج سے جدا ہوتا ہوں لیکن میں خدا سے آپ کی ہدایت کی دعا کرتا رہوں گا۔باپ سے جدا ہو کر اب حضرت ابراہیمؑ نے دعوت حق کیلئے پوری قوم سے رابطہ کیا مگر قوم باپ دادا کی بت پرستی کسی بھی صورت چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھی اور دعوت حق کے سامنے اپنے باطل معبودوں کے حق میں گونگے بہرے بن گئے تو حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم کی اصلاح کیلئے اعلان کیا کہ میں تمہارے بتوں کو دشمن جانتا ہوں اعلان جنگ کرتا ہوں یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے میرا پروردگار تو وہی خدا ہے جس نے مجھے پیدا کیا۔ رزق، صحت اور ہدایت دی جب آپ کی دعوت حق کا قوم پر اثر نہ ہوا تو ایک بار جب آپ کی قوم سالانہ جشن یا میلے کیلئے شہر سے باہر گئی تو آپ فوری طور پر بتوں کی طرف گئے۔ بتوں کے سامنے بہت خوبصورت اور لذیر کھانے پڑے ہوئے تھے آپ نے طنزاً بتوں سے کہا تم یہ کھانے کھاتے کیوں نہیں؟ پھر ہتھوڑے سے بتوں کو توڑنا شروع کردیا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور پھر ہتھوڑا بڑے بت کے کندے پر رکھ دیا کہ بڑے بت نے غصے میں آکر چھوٹے بتوں کو توڑ دیا ہے جب لوگ واپس آئے تو اپنے چھوٹے معبودوں کی یہ حالت دیکھ کر غضب ناک ہوگئے اور انہیں حضرت ابراہیم ؑ کا یہ قول یاد آیا اﷲ کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گئے میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا پھر تمام لوگ ایک جگہ جمع ہوگئے اور حضرت ابراہیمؑ کو بلایا گیا اور کہا ہمارے خدا ؤں کے ساتھ یہ سب کچھ تم نے کیا تو حضرت ابراہیمؑ بولے میں نے نہیں بلکہ اس بڑے بت نے یہ کام کیا ہے یا اگر یہ بت بولتے ہیں تو آپ لوگ ان سے ہی پوچھ لو کہ کس نے ان کے ٹکڑے کئے ہیں حضرت ابراہیمؑ اپنی قوم کو یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ ان کے جھوٹے خدا تو بولنا بھی نہیں جانتے یہ تمام لکڑی، پتھر کے بے جان ٹکڑے ہیں جو اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتے ‘قوم ابراہیمؑ آپ کے دلائل کے سامنے بے بس لاچار ہو گئی لیکن ابلیس کی روش رکھنے والوں نے ڈھٹائی سے کام لیا اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر دیوتاؤں کی خوشنودی چاہتے ہو تو اس کو گستاخی کی سزا کے طور پر دہکتی آگ میں جلا ڈالو تاکہ اس کی تبلیغ و دعوت کا قصہ ہی تمام ہو جائے۔ اسی دوران یہ باتیں بادشاہ وقت تک بھی پہنچ گئیں اس زمانہ میں عراق کا بادشاہ کا لقب نمرود ہوتا تھا اور رعایا بادشاہ کو رب کا درجہ دیتی تھی بادشاہ نے حکم دیا کہ حضرت ابراہیمؑ کو اس کے دربار میں پیش کیا جائے جب حضرت ابراہیم کو دربار لایا گیا تو بادشاہ نے کہا تو باپ دادا کے دین کی مخالفت کیوں کرتا ہے اور مجھے رب ماننے سے انکار کیوں کرتا ہے تو حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا میں خدائے واحد کا پرستار ہوں اور لکڑی، پتھر کے تراشیدہ بت میرے لئے لکڑی، پتھر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور نہ ہی تمہیں رب مانتا ہوں میں اس ہستی کو رب مانتا ہوں جو روزانہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب لے جاتا ہے اگر تم خدا ہو تو سورج کو مغرب سے نکال کر مشرق میں چھپا، بادشاہ یہ سن کر بے بس اور لا جواب ہوگیا‘ بادشادہ وقت نے دلائل و براہین کی قوت کے مقابلے میں مساوی طاقت و سطورت کا مظاہرہ شروع کیا اور آپ کو سزاء کے طور پر آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور جب آگ کے شعلے بہت زیادہ بلند ہوگئے تو حضرت ابراہیم کو ایک منجنیق میں ڈال کر آگ میں ڈالا جانے لگا جب حضرت ابراہیمؑ کو باندھا جا رہا تھا تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے تیرے سواء کوئی معبود بر حق نہیں اے تمام جہانوں کے پروردگار تو پاک ہے تیرے لئے ساری تعریف ہے تیرے لئے ساری بادشاہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں اور جب پھینکا جانے لگا تو آپ کی زبان پر یہ کلمات تھے ہمیں اﷲ ہی کافی ہے اور وہی اچھا کارساز ہے۔ حضرت ابوھیرہ سے مروی ہے کہ سرتاج الانبیاء نے فرمایا جب حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکا گیااور وہ ہوا میں تھے تو انہوں نے کہا اے اﷲ تو آسمان میں اکیلا ہے اور میں زمین پر تیرا اکیلا عبادت گزار ہوں بعض علماء نے بیان کیا کہ فضاء میں حضرت جبرائیل آپ کے پاس آئے اور کہا اے ابراہیم ؑ کیا آپ کو کوئی ضرورت ہے تو آپ نے کہا میرا رب بہتر جانتا ہے مجھے آپ سے کوئی کام نہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کا یقین اور خدا پر ایمان دیکھ کر خدا کی رحمت جوش میں آئی۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ بارش کے فرشتے نے کہا مجھے بارش برسانے کا حکم دیا جائے لیکن اس سے پہلے ہی اﷲ کا حکم جاری ہو چکا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ہم نے فرما دیا کہ اے آگ تو ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کیلئے سلامتی بن جا۔ حضرت کعب بیان کرتے ہیں اس روز زمین کے انسانوں میں سے کسی نے بھی آگ سے فائدہ نہ اُٹھایا اور آگ نے صرف حضرت ابراہیم ؑ کی وہ رسیاں ہی جلایں جن سے انہیں باندھا گیا تھا۔ منہال بن عمرو سے مروری کہ ابراہیمؑ آگ میں 40 یا 50 دن تک رہے اور فرمایا کہ جتنی خوشگوار زندگی میں نے ان دنوں میں گزاری ہے ان کے علاوہ کبھی نہیں گزاری۔ میری خواہش ہے کہ میری ساری زندگی اسی طرح کی ہو جائے۔ کافروں نے حضرت ابراہیمؑ سے بدلا لینا چاہا لیکن خود ذلیل ہوئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے دنیا میں انہیں ناکامی اور ذلت نصیب ہوئی اور آخرت میں ایسی آگ میں پھینکا جائیگا جس میں نہ تو ٹھنڈک ہوگی اور نہ سلامتی، انہیں اس میں سلام بھی نہیں کیا جائیگا۔ خدا پر پختہ یقین اور عشق کی وجہ سے خالق ارض و سماء نے جو مقام اور شان حضرت ابراہیمؑ کو بخشی وہ کسی کو نہ بخشی، حضرت ابراہیمؑ کو اپنا دوست خلیل اﷲ کہا ‘خانہ کعبہ کی تعمیر آپ سے کرائی۔ قربانی قیامت تک کیلئے لازمی قرار دی حج کی شان سے نوازا اور سب سے بڑھ کر نبیوں کے سردار شہنشاہ دو عالم کو آپ کی اولاد میں سے پیدا کیا۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...