ہندوستان کے رہنے والے محو حیرت اور مبہوت ہو کر حیران کن منظر دیکھ رہے تھے، جس نے بھی یہ منظر دیکھا اُس کی سانس رُک گئی آنکھیں پتھراگئیں اور وہ سنگی مجسمے کی طرح ساکت ہو گیا، دل و ماغ اور نظر یہ منظر اور اِس کی حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے، منظر واقعہ ہی بہت حیران کن اور دل و دماغ کو مفلوج کرنے والا تھا کیونکہ کوئی بھی ذی روح یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا کہ کل تک جو خود کو مشکل کشا ‘ان داتا اور شہنشاہ ہند سمجھتا تھا وہ خود آج سوالی بن کر اپنا خالی دامن پھیلائے اپنی عظیم سلطنت کا ولی عہد وارث مانگنے اجمیر شریف میں ایک ایسے مرد حق فقیر کے در پر جارہاتھا، جو سالوں پہلے اس فانی دنیا سے پردہ کر کے آسودہ خاک ہو چکا تھا ‘روحانیت اور تصوف کے مخالفین نے شہنشاہ کو بہت سمجھانے کی کو شش کی کہ آپ کے فقیر کے در پر جانے سے عوام کے ذہن خراب ہو جائیں گے کہ لوگ تو آپ سے مرادیں مانگتے ہیں اور آپ ایک قبر سے اپنی مراد مانگنے جا رہے ہیں‘بادشاہ سلامت آپ تو خود روزانہ ہزاروں حاجت مندوں کی خالی جھولیاں بھرتے ہیں اور اگر آج آپ اپنا دامن کسی فقیر کی قبر پر جاکر پھیلائینگے تو آپ کی بادشاہت کی عظیم عمارت زمین بوس ہو جائے گی کیونکہ یہ وہی بادشاہ تھا جو دین الٰہی کا موجد تھا مخلوق کا مشکل کشا مغلیہ خاندان کا وہ عظیم بادشاہ جس نے برصغیر پاک و ہند پر تقریباً پچاس سال حکومت کی جس نے جو چاہا وہ کیا لیکن آج بے بسی کی تصویر بنا ننگے پاؤں اجمیر شریف جارہا تھا۔مغلیہ سلطنت کے عظیم ترین بادشاہ اکبر اعظم کا یہ سفر کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ اِس سفر کی گواہی خود اکبر اعظم کے بیٹے شہنشاہ جہانگیر نے دی ہے ‘جہانگیر نے اپنی خود نوشت میں اِس تاریخی واقعہ کوبیان کیا ہے کہ میرے والد صاحب نے میری ولادت کے لیے فتح پور سے اجمیر تک پیدل سفر کیا تھا، یہ فاصلہ ایک سو بیس کوس ہے سینکڑوں کلو میٹر پیدل ننگے پاؤں سفر کرنے کی وجہ سے شہنشاہ کے پاؤں میں چھالے پڑگئے تھے ‘آغازسفر پر وزیروں مشیروں اور خدمت گزاروں نے بادشاہ سلامت کو بہت سمجھایا کہ راستہ بہت مشکل پتھریلا ہے اِس لیے بادشاہ سلامت سواری استعمال کریں تو آسانی ہوگی لیکن اکبر اعظم نے کیا خوب کہا کہ ہم اصل سلطان الہند کے دربار سوالی بن کر جارہے ہیں اِس لیے ادب و احترام کا تقاضہ یہی ہے کہ ننگے پاؤں سوالی بن کر جایا جائے۔دیکھنے والے حیران اِس بات پر تھے کہ یہ وہی شہنشاہ تھا جس نے نیا مذہب دین الٰہی ایجاد کیا تھا، اکبر اعظم جب تخت نشین ہوا تو ابھی کم سنِ تھادنیاوی اور مذہبی تعلیم نہ ہونے کے برابرتھی، درباری علماء مبارک اور اُس کے دونوں بیٹوں ابوالفضل اور فیضی نے اکبر کی کم عمری کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کیا ‘اکبر کے مذہبی عقیدے کو کمزور اور غلط رنگ دینا شروع کردیا اِن دنیا پرستوں نے ہندو برہمنوں کے ساتھ مل کر اِس کم عقل حکمران کو اِس حد تک متاثر اور مجبور کیا کہ بادشاہ نے نیا مذہب دین الٰہی ایجاد کر لیا، اکبر کے اِس مذہب پر ہندو دھرم کا رنگ زیادہ نمایاں تھا، اکبر کے سامنے آگ جلائی جاتی اور سریلے گوئیے اپنی سریلی آواز میں حمدکے اشعار گنگناتے اِس طرح وہ آتش پرستی کا جواز فراہم کرتے‘ بادشاہ سلامت مخصوص اوقات میں سورج کے سامنے سر جھکا کر بیٹھ جاتا یہ ایک قسم کی آفتاب پرستی تھی، گنگا جمنا کا پانی مقدس بتایا گیا‘ بادشاہ سلامت گھر اور سفر میں یہی پانی استعمال کرتا‘ ملازمین کی باقاعدہ ایک جماعت تھی جو دریا کنارے مامور رہتی جو سر پر مہر کوزے بھر کر لاتی ‘تمام کھانے گنگا جل میں پکائے جاتے ‘آتش پرستی آفتاب پرستی اور گنگا جل پینے کا بعد اکبر اعظم نے تمام ہندووئں کو خدائے واحد کا پجاری قرار دیا۔ہندووئں کو مزید خوش کر نے کے لئے گائے کا ذبیحہ حرام قرار دے دیا گیا، بادشاہ ہر قسم کے گوشت پر پابندی لگا نا چاہتا تھا ہندووئں کو خوش کرنے کے لئے ایک فرمان جاری کیا گیا کہ قصابوں اور ماہی گیروں کے گھروں کو عام آبادی سے علیحدہ کر دیا جائے اور معاشرے کے باقی لوگ اگر اِن سے مراسم رکھیں تو اِن سے تاوان لیا جائے، اسلام نے سورکے گوشت کو حرام قرار دیا ہے اکبر کو اِس پر بھی اعتراض تھا کہ اگر سور کو بے غیرتی کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہے تو شیر یا اِس طرح کے دوسرے جانوروں کو حلال ہونا چاہیے، اکبر اپنی بدتمیزیوں اور گستاخیوں میں تمام حدود کراس کرتا جارہا تھا کہ اب وہ سرعام مذہب اسلام کی تعلیمات اور عقائد کا مذاق اڑاتا، ایک دن تو اِس تک گرگیا کہ سرعام درباریوں سے مخاطب ہو کر بولا ’’ملت اسلامی کا سارا سرمایہ بد عقلی کا مجموعہ ہے‘‘ (معاذ اﷲ) حقیقت میں مبارک اُس کے بیٹے اور چالاک عیار برہمنوں نے اکبر کے دل و دماغ پر پوری طرح غلبہ پا لیا تھا اب اکبر کی زبان سے وہی الفاظ ادا ہوتے جو یہ مکار اور عیار ٹولہ چاہتا تھا، دیوان خانے میں کسی کو جرات نہ تھی کہ وہ اعلانیہ نماز پڑھ سکے۔صاحب نصاب لوگوں پر زکوٰۃ معاف کردی اِس کی وہ کمزور دلیل یہ دیتا کہ وہ لوگوں کے معاشی حالات بہتر بنانا چاہتا ہے، اور پھر سجدہ تعظیمی کا اجراء کیا گیا اب جو بھی بادشاہ سے ملنے یا دیدار کے لئے آتا تو وہ اکبر کو سجدہ کرتا پھرسجدہ کی رسم اتنی زیادہ ہو گئی کہ سجدہ کرنے والااپنی دستار کو سرسے اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیتا اور ننگا سر بادشاہ کے پاؤں پر رکھ دیتا اور زبان سے یہ کہتا ’’میں اپنے دل کی توجہ بادشاہ کی اطاعت کی طرف مبذول کرتا ہوں‘‘، تعظیمی سجدہ دین اسلام کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی کیونکہ اسلام میں قیامت تک کے لئے خدا کے علاوہ تمام سجدوں کو حرام قرار دیا ہے، ملاقات کے وقت ’’اسلام علیکم‘‘ کی بجائے ایک دوسرے کو ’’اﷲاکبر‘‘ کہا جاتا، درباری فتنہ گر مبارک اُس کے بیٹے بادشاہ کو نبوت کے بعد خدا بنانے کے چکر میں تھے۔بادشاہ اِن حماقتوں میں غرق تھا کہ اچانک ایک واقعہ نے اُس کے ہوش اڑا دیئے، اکبر نے اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لیے راجہ مان سنگھ کی بہن جودھا بائی سے شادی کی تھی ملکہ ہندو دھرم پر قائم تھی اُس نے محل میں ہی ایک چھوٹا سا مندر بنا رکھا تھاجس کے اندر ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی ہوئی تھی، اکبر اعظم لوگوں کا داتا بن کر بیٹھا تھالیکن اپنا مسئلہ دیکھ کر دہل گیا کہ مغل شہنشاہ کے کئی بیٹے ہوئے مگر جلدی ہی مر گئے جودھابائی نے اپنے دیوتاؤں کے سامنے بہت ماتھا رگڑا لیکن وہ ماں نہ بن سکی، اکبر اکثر سوچتا کہ کیسا مشکل کشا ہے کہ اپنا مسئلہ تو حل نہیں کر سکا لہٰذا بادشاہ پریشان رہنے لگا ایک دن ایک درباری نے بادشاہ سے کہا کہ جناب آپ کی پریشانی کا حل فتح پور میں ایک فقیر حضرت سلیم چشتی کے پاس ہے، جو آپ کو ہندوستان کا وارث دینے میں مدد کر سکتا ہے ۔
اتوار، 18 مارچ، 2018
خدا کا بندہ بن کے تو دیکھ
روز اول سے حضرت انسان اِس کو شش میں لگا ہوا ہے کہ وہ شہرت کے اُس مقام تک پہنچ جائے کہ جس کے سامنے کوئی سر اٹھا کر نہ دیکھ سکے، خود کو قیامت تک زندہ اور امر کرنے کے لیے انسان عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے، سکندراعظم، چنگیز خان، ہلاکو خان اور امیر تیمور لنگ اِسی بیماری کا شکار ہو کر دنیا فتح کر نے نکلے، چنگیز خان، ہلاکو خان اور امیر تیمور نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے ‘اپنی دہشت پھیلانے کے لیے شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹادیے اِن کے علاوہ بے شمار اور انسان بھی اپنے اپنے وقت پر کرہ ارض پر طلوع ہوئے ‘طاقت و اختیار کے نشے میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا، اور پھر مٹی کا ڈھیر بن گئے اور آج اُن کی قبروں کا نشان تک نہیں ہے۔جب یہ متکبرلوگ زندہ تھے تو یہی سمجھتے تھے کہ اُن کے اقتدار اور شہرت کو قیامت تک اندیشہ زوال نہیں ہے، لیکن ماہ سال کی گردش اور صدیوں کے غبار میں آج اُن کا نام تک بھی کوئی نہیں جانتا، انسان یہ سمجھتا ہے کہ ابدی شہرت اُس کے اپنے ہاتھ میں ہے لیکن ہر دور کا متکبر انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اُس کا اور اِس کائنات کو بنانے والا خدا ہے وہ جس کو چاہے قیامت تک کے لیے امر کردیتا ہے اور جس کو چاہے نشان عبرت بنا دیتا ہے ، حضرت انسان طاقت اور اقتدار کے نشے میں یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اُس کا اپنا جسمانی نظام تو اُس کے قبضے میں ہے نہیں تو دوسروں کو وہ کیا اپنے اختیار میں لاسکتا ہے لیکن یہ بات صاحب اقتدار لوگوں کو کم ہی سمجھ آتی ہے۔اِس لیے ہر دور میں کوئی نہ کوئی آمر یہی سمجھتا ہے کہ اِس دھرتی یا ملک کا نجات دہندہ میں ہی ہوں نہ میرے سے پہلے کوئی انسان اِس دنیا میں آیا اور نہ اُس کے بعدکوئی آئیگا، ایسے تمام لوگ خدا کا یہ فرمان بھول جاتے ہیں کہ ہم دنوں کو انسانوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں، عقل مند انسان تاریخ سے سبق لیتے ہیں او خود کوخدا کی بندگی میں دے دیتے ہیں جو بھی بندہ خدا کا ہو جائے اُسے خدائے بزرگ و برتر ابدی شہرت سے نوازتا ہے، انسان عارضی شہرت اور اقتدار میں سب کچھ بھول جاتا ہے اگر خدا نے کسی کو چند ساعتوں پر اختیار دے بھی دیا ہو تو یہ عارضی ہے کسی دن پانی کے بلبلے کی طرح ختم ہو جائے گا، خوش قسمت ہوئے ہیں وہ لوگ جو تاریخ سے سبق لیتے ہیں اور دنیاوی جھوٹے خداوں کی بجائے اِس کائنات کے مالک کے سامنے سر جھکادیتے ہیں اور پھر اِیسے لوگوں کو ہی دائمی اور ابدی شہرت نصیب ہوتی ہے۔برصغیرپاک ہند میں اﷲتعالیٰ نے بہت عظیم روحانی بزرگوں کو پیدا کیاجنہوں نے اپنی تعلیمات اور کردار سے لاکھوں لوگوں کی کردار سازی کی، انہی بزرگ ہستیوں میں ایک بزرگ سیدغوث علی شاہ قلندر بھی تھے بہت اعلیٰ پائے کے بزرگ تھے شاعر مشرق علامہ اقبال بھی اُن سے روحانی عقیدت رکھتے تھے، اُن کی کتاب ’’تزکرہ غوثیہ‘‘ کو اہل تصوف میں تو باکمال مقام حاصل ہے ہی کلاسیکل اردو ادب میں بھی اُس کا نمایاں اور باوقار نام ہے اِس میں تصوف اور صوفیاء کے اسرار و رموز کو اس دلچسپی اور آسانی سے بیان کیا گیا ہے ہر بات دل و دماغ میں اُترتی جاتی ہے، تصوف و روحانیت کی زیادہ تر کتابیں مشکل اور خشک سمجھی جاتی ہیں لیکن ’’تزکرہ غوثیہ‘‘ کا اصلوب پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے، دوران مطالعہ قاری خود کہ ایک دل نشین اور پراسرار وادی میں گھومتا ہوا پاتا ہے، غوث علی شاہ قلندر نے اپنی اِس لازوال کتاب میں مغلیہ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے عہد کا ایک واقعہ اِس خوبصورتی اوربلاغت آمیزی کے ساتھ لکھا ہے کہ قاری پڑھ کر عش عش کر اُٹھتا ہے آپ لکھتے ہیں۔عا لمگیر کے عہد میں ایک بہروپیئے کو بہت شہرت حاصل تھی، ہر طرف اُس کی شہرت اور فن کے چرچے تھے ایک روز وہ اورنگزیب کے دربار میں پہنچا اور اپنے فن کے اظہار کی اجازت مانگی چونکہ اورنگزیب مزاجًا دین پسند اور سخت مزاج واقع ہوا تھا اس لیے وہ اِس طرح کی ناٹک بازیوں کو ناپسند کرتا تھا، اُس نے کہا تمھارا بہروپ دراصل بے علم اور کمزور عقیدہ لوگوں کو متاثر اور مائل کرتا ہے ورنہ کوئی صاحب بصیرت اہل علم اور صاف ستھرے عقیدے کا حامل ہو تو وہ اِس طرح کی شعبدہ بازیوں پر نہ تو توجہ دیتا ہے اور نہ ہی اہمیت دیتا ہے اور نہ ان سے متاثر ہوتا ہے، تمہیں اگر اپنے فن پر ناز ہے تو ذرامجھے قائل کر کے دکھاؤ میں تمھارے چکر میں آنے والا نہیں اور اگر تم اپنے فن میں کامیاب ہو گئے اور مجھے دھوکا دے گئے تو پھر میں تمہیں منہ مانگا انعام دوں گا ورنہ میں نے ایسے کئی بازیگر دیکھے اور بھگتائے ہیں وہ بہروپیا مصلحتًا خاموش ہو گیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت میں کہاں اور حضور کی بصیرت کہاں، حضور میں آپ کو اپنے بہروپ سے کیسے قائل کرسکتا ہوں ‘سرکار عالی میرا یہ دھندہ تو پیٹ کے لیے ہے اور عام لوگوں کے لیے، یہ کہہ کر وہ چل دیا اور عالمگیر اپنی ذہانت پر جھوم اُٹھا ۔بہروپیئے نے شاہی دربار سے جاتے ہی ایک بزرگ اور صوفی کا روپ دھارا اور کہیں بیٹھ گیا پہلے اردگرد کے علاقوں میں اس کا چرچا ہوا پھر اُس کا شہرہ قصبوں اور شہروں تک پہنچا ہوتے ہوتے اِس کا تذکرہ شاہی دربار تک بھی پہنچ گیا اور دربار میں بھی اُس کا تذکرہ ہونے لگا، اورنگزیب چونکہ خود ایک متقی اور صوفی دوست شخص تھااُس نے اِس بزرگ کی حاضری کا ارادہ ظاہر کیا اور لاؤ لشکر کے ساتھ اُس بہروپیئے کے پاس پہنچا اور سلام کیا بہروپیئے نے بے رخی سے سلام کا جواب دیا اور سر جھکا کر بیٹھا رہا اِس طرز عمل نے بادشاہ پر اس کی ولایت اور دنیا اور اہل دنیا سے بے نیازی کی دھاک بٹھادی ‘عالمگیر نے چند باتیں کیں مگر بہروپیاہاں ہوں کرتا رہا اُس کی کسی بات میں دل چسپی نہ لی ‘بادشاہ مزید متاثر ہوا آخرکار اٹھنے لگا اور اجازت چاہی جب بادشاہ اٹھ کرجانے لگا تو بہروپیا قہقہہ لگا کر سامنے آگیا اور کہا جہاں پناہ میں وہی بہروپیا ہوں جس کو آپ نے چیلنج دیا تھا کہ میں آپ کو اپنے فن سے قائل کر لوں تو منہ مانگا انعام پاؤں گا۔بادشاہ ہار مان گیا اور کہا تم اپنے فن کے ماہر نکلے ہو تم جیتے میں ہارا اب مانگو کیا مانگتے ہو بادشاہ کا یہ کہنا تھا کہ بہروپیا چیخ مار کر وہاں سے یہ کہتے ہوئے چل دیا یہ تو میں نے اﷲ کا نام اور اہل اﷲ کا حلیہ صرف جھوٹ موٹ سے لیا اور بنایا اور بادشاہ چل کر میرے پاس آگیا اگر میں بہروپ بھرنے کی بجائے حقیقی روپ اِس طرح بنالوں تو خدا جانے مجھے دنیا و آخرت میں کیا اعزاز وانعام ملے، غوث علی شاہ لکھتے ہیں کاش دنیا والوں کو معلوم ہو تا کہ جب بندہ اوپر کے دل سے بھی خدا کو یاد کرتا ہے تو خدا اُسے رسوا نہیں ہونے دیتا اور اگر اصل خدا کا بندہ بن جائے تو پتہ نہیں اﷲ اُسے کیا مقام عطاکرے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...