اتوار، 18 مارچ، 2018

شاہ اجمیر کی شان

شاہ اجمیر کی شانمغل اعظم شہنشاہ اکبر جتنا عرصہ زندہ رہا اجمیر شریف خواجہ خواجگان معین الدین چشتی کے مزار پر انوار پر عقیدت سے حاضری دیتا رہا، اجمیر شریف کا راستہ بتانے والے درویش وقت حضرت شیخ سلیم الدین چشتی کے درپر بھی سوالی بن کر جاتا رہا، اکبر اعظم کے بعد اُس کا بیٹا سلیم الدین عرف عام میں جہانگیرتخت نشین ہوا، بلاشبہ شہزادہ سلیم عاشق مزاج تھا لیکن اپنے مرشد کریم حضرت سلیم الدین چشتی سے دیوانہ وار عقیدت رکھتا تھا، بادشاہ کی حضرت سے عقیدت و محبت سے بہت سارے لوگ جلتے تھے ایک بار کسی مقرب درباری نے حضرت شیخ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہہ دیے، یہ درباری بادشاہ کی محبوب اور لاڈلی بیوی ملکہ نور جہاں کا چہیتا تھا اس کی گستاخی اور شیخ کی شان کے بارے میں نازیبا کلمات کا جب جہانگیر کو پتہ چلا تو وہ یہ گستاخی برداشت نہ کر سکا ‘غصے سے پاگل ہو گیا اور یہ حکم جاری کیا اُس نافرمان گستاخ کی زبان گدّی سے کھینچ نکالو اور میرے سامنے پیش کرو، محبوب ملکہ نورجہاں کو پتہ چلا تو اُس نے اُس شخص کی بھر پور سفارش کی ہاتھ جوڑے روئی پیٹی بہت زیادہ منت سماجت کی مگر جہانگیر پر ملکہ کی سحر انگیز اداؤں اور معافیوں کا بلکل بھی اثر نہ ہوا اور غصے سے بولا اگر میرے مرشد شیخ کی شان میں ایسی گستاخی تم کروگی تو تمھارا حشر بھی ایسا ہی ہوگا۔ پھر ہزاروں لوگوں ے یہ خوفناک منظر دیکھا جب اُس شخص کی گردن میں سوراخ کرکے اُس کی گستاخ زبان نکال لی گئی اور پھر جب یہ بے ادب زبان بادشاہ کے سامنے لائی گئی تو بادشاہ دہاڑتے ہوئے با آواز بولا ہر وہ زبان جو میرے مرشد کی گستاخی کرے گی اُس کا حشر یہی ہو گا، لوگ حیرت سے دیکھتے کہ جہانگیر جس کی ماں ایک ہندو عورت تھی جس نے بچپن سے اپنی ماں کو بتوں اور مورتیوں کے سامنے ماتھا رگڑتے دیکھا وہ کبھی بھی ہندو مذہب اور بتوں کی پرستش کی طرف مائل نہ ہوا، یہ بادشاہ سلیم کی اپنے مرشد اور خواجہ معین الدین سرکار سے والہانہ محبت تھی کہ ایسا بچہ جو ہندو عورت کے بطن سے پیدا ہوا کبھی بھی اسلام سے دور نہ ہوا، شہنشاہ اجمیر کا فیض تھا کہ اکبراعظم دین الٰہی کے باوجود خواجہ پاک کے نورانی فیض اور سحر سے نہ بچ سکا اور جہانگیر بھی آخری دم تک شاہ اجمیر اور خواجہ سلیم چشتی کے سحر اور عقیدت میں مبتلا رہا۔وقت کروٹ لیتا ہے جہانگیر پیوند خاک ہوتا ہے تو اُس کا بیٹا شاہ جہاں تخت نشین ہوتا ہے شاہ جہاں کے چاروں بیٹوں میں تخت کی جنگ شروع ہوتی ہے، داراشکوہ، شجاع، مراد اور اورنگ زیب چاروں کی لڑائی میں، دارا، شجاع اور مراد کو شکست ہوتی ہے اورنگ زیب مغلیہ سلطنت کا وارث بن کر جلوہ گر ہوتا ہے، اورنگزیب مذہبی رجحان رکھتا تھا وہ اپنی روزی کے لیے ٹوپیاں سیتا اور قرآن پاک کی کتابت کرتا اِسی دوران جب جوگیوں اور ملنگوں نے اِسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی تو اورنگزیب کی تلوار بے نیام ہوگئی جس نے شراب افینیوں اور دوسرے نشے استعمال کرنے کے بعد فقیری ولائت کا دعویٰ کیا وہ قہر عالمگیری سے نہ بچ سکا، جھوٹے صوفیوں کی زندگی کا دائرہ تنگ ہونے لگا تو اورنگزیب کو درویشوں صوفیوں کا دشمن سمجھا جانے لگا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ تو خود حضرت شیخ مجدد الف ثانی کے بیٹے خواجہ معصوم کا مرید اور عقیدت مند تھا، اصل بات یہ تھی کہ نام نہاد ملنگوں، جوگیوں نے جب تصوف کی حقیقی تعلیمات کی بجائے قبر پرستی اور ناچ گانے کو رواج دیا تو بادشاہ کی تلوار اُن کے خلاف بے نیام ہوگئی اورنگزیب کے غصے کی وجہ یہ تھی کہ مزارات مقدسہ پر ہر وقت میلہ لگا رہتا تھا یہ بھکاری بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ منشیات کی لعنت میں بھی مبتلا ہو چکے تھے ‘معذور گداگروں کے علاوہ بہت زیادہ تعداد میں صحت مند لوگوں نے بھی جعلی معذوروں کا بھیس بدل لیا تھا، اورنگزیب نے جس طرح معاشرے کے دوسرے بے ایمان لوگوں کو سیدھا کیا اِس لیے یہاں بھی اورنگزیب ایسے نام نہاد جھوٹے بھکاریوں اور صوفیوں کے خلاف تھا، اورنگزیب نے تو مزارات مقدسہ پر فضول رسموں اور بدعت کے سیلاب کو روکنے کی کو شش کی ہندوستان کے مختلف مزارات سے ہوتا ہو ا آخر اورنگزیب سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی کے مزار اقدس پر حاضری کے لیے اجمیر شریف کی طرف روانہ ہوا۔اجمیر شریف سے باہرہی اورنگزیب سواری سے اُتر کر پیدل چلناشروع ہوگیاخدمت گاروں نے بار بار سواری پیش کی لیکن اورنگزیب کے جاہ جلال سے ہر طرف خاموشی اور سکوت کا عالم تھا اچانک بادشاہ کی نظر قطار میں کھڑے اندھوں پر پڑی جو نظر سے محروم تھے لیکن بھیک کے لیے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے ، اورنگزیب نے ایک اندھے سے پوچھا تم یہاں کس لیے آئے ہو تو بولا آنکھوں کی روشنی لینے آیا ہوں بادشاہ نے پوچھا کب سے یہاں ہو تو وہ بولا پانچ سال سے ابھی تک تمھارے آنکھیں ٹھیک کیوں نہیں ہوئیں ‘خدا کی مرضی ‘اندھے نے جواب دیا اِسی طرح اورنگزیب نے دوسرے اندھوں سے بھی یہی پوچھا کسی نے بتایا دس سال کسی نے کہا زیادہ عرصہ سے یہاں موجود ہوں لیکن آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوں اورنگزیب جلال میں آکر بولا میں مانگنے جارہا ہوں اگر میری واپسی تک تم لوگوں کی بینائی واپس نہ آئی تو سب کو قتل کردوں گا، پھر بادشاہ شہنشاہ اجمیر کے مزار کی طرف اِس طرح بڑھا جس طرح غلام اپنے آقا کی طرف جاتا ہے۔لوگوں کا سیلاب اُمڈ آتا تھا ہندوستان کے شہنشاہ کو دیکھنے لیکن اورنگزیب دنیا مافیا سے بے خبر غلاموں کی طرح شاہ اجمیر کے قدموں میں ہاتھ باندھ کرکھڑا تھا ‘بادشاہ کے ہونٹوں کو جنبش ہورہی تھی پھر بادشاہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں سے آنسوؤں کی آبشار جاری ہو چکی تھی بادشاہ کو روتے دیکھ کر لوگوں پر بھی رقت طاری ہوگئی، اورنگزیب جو مغلیہ سلطنت کا وارث تھا اصل شہنشاہ ہند کے قدموں میں بھکاریوں کی طرح عقیدت و احترام سے کھڑا تھا، بادشاہ کافی دیر تک نذرانہ عقیدت پیش کرتا رہا پھر باہر آگیا امیروزیر اور سپاہی بادشاہ کے جلال سے بخوبی واقف تھے کہ اب بادشاہ ان اندھوں کو قتل کرادے گا کیونکہ اورنگزیب کے زبان سے نکلے الفاظ کبھی واپس نہیں آتے تھے، جب بادشاہ اندھوں کے پاس پہنچا تو وہاں کا منظر ہی بدل چکا تھا اندھوں کی روشنی واپس آچکی تھی وہ خوشی سے دیوانہ وار ناچ رہے تھے وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ بادشاہ سلامت کی برکت سے ہمیں آنکھوں کی روشنی واپس ملی تو اورنگزیب بولا یہ میری وجہ سے نہیں بلکہ تم جو اتنے سالوں سے شاہ اجمیر کے کوچے پڑے ہو تم نے کبھی دل سے دعا مانگی ہی نہیں۔ آج موت کے خوف سے جب دعا مانگی تو دعا دل و روح کی گہرایوں سے نکلی اور بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی، پھر بادشاہ واپس چلا گیا، لیکن اندھوں کی روشنی کی کرامت دیکھ کر اورنگزیب بھی دل سے شاہ اجمیر کا عقیدت مند ہوگیا پھر جب بھی مشکل جنگ کا مسئلہ ہوتا تو وہ ننگے پاؤں اجمیر شریف حاضری دیتا اور ہر بار فیض اورکامیابی لے کر جاتا، دور غلامی میں انگریز وائسرائے لارڈ کرزن اکثر کہا کرتا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسے بزرگ کو دیکھا ہے جو اپنی وفات کے بعد بھی ہندوستانیوں کے دلوں پر حکمرانی کرتا ہے وہ خواجہ معین الدین چشتی ہیں۔

مغلِ اعظم فقیر کے در پر(2)

مغلِ اعظم فقیر کے در پر(2)مغل اعظم جلال الدین اکبر اعظم جو خود کو ان داتا مشکل کشا سمجھتا تھا، دین الٰہی کے بعد خود کو خدا سمجھنا شروع ہوگیا تھا ‘لوگ شہنشاہ کی خوشنودی کے لیے اپنا سر اُس کے پاؤں میں رکھ دیتے، پچھلے چند دنوں سے شدید تکلیف میں تھا جب سے اُس کی نظر اپنے ذاتی مسئلے کی طرف گئی ایسا مسئلہ جس نے اُس کو اندر تک اُدھیڑ کے رکھ دیا کیونکہ تو کیسا مشکل کشا اور خدائی کا دعوے دار ہے کہ تیری عظیم سلطنت کا وارث ہی نہیں ہے اِس بات سے بادشاہ کی راتوں کی نیند اور دن کا چین رخصت ہوچکا تھا، بادشاہ سلامت کی پریشانی دیکھ کر جب کسی درویش کے ماننے والا درباری نے بادشاہ سے کہا کہ آپ کا مسیحا تو آپ کے پاس ہی فتح پور میں موجود ہے، ایک ایسا درویش جس کی دعاؤں سے روزانہ سینکڑوں لوگوں کی خالی جھولیاں مرادوں سے بھر جاتی ہیں روزانہ سینکڑوں بے بس لاچار لوگ اپنی خالی جھولیاں لاتے ہیں اور اپنی خالی جھولیاں بھر کے واپس جاتے ہیں، بادشاہ نے درباری کی بات سن کر حیرت سے پوچھا کیا شیخ سلیم چشتی کی دعا سے ہمیں ہندوستان کا وارث مل سکتا ہے تو درباری نے عرض کیا بادشاہ سلامت آپ اُس چشمہ معرفت پر جا کر تو دیکھیں میں بار ہا ایسے مناظر دیکھ چکا ہوں جب دکھی مفلس آئے اور اپنے دامن خوشیوں سے بھر کر گئے۔لیکن ہمیں ایک درویش بوریا نشین کے درپر دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے، اکبر اعظم شدید تذبذب کا شکار تھا کہ ہم جو سارا دن لوگوں کی خالی جھولیاں بھرتے ہیں خود اپنا خالی دامن فقیر کے سامنے جا کر پھیلادیں، اِس طرح تو ہماری بادشاہت کا سارا وقار ختم ہو جائے گا، درباری خاموش ہو کر چلا گیا لیکن اکبر اعظم کو کشمکش میں ڈال گیا، چند دن کشمکش میں رہنے کے بعد اولادکی خواہش بادشاہ پر غالب آگئی تو بادشاہ نے فقیر کے درپر جانے کا فیصلہ کیا تو خوشامدیوں نے بہت روکنے کی کو شش کی لیکن اکبر اعظم بوریہ نشین فقیر کے در پر سوالی بن کر پہنچ گیا، حضرت شیخ سلیم چشتی شہنشاہ پاک پتن با با فرید گنج شکر کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ‘درویش وقت نے حیرت سے شہنشاہ ہند کو اپنے در پر دیکھا تو ادائے بے نیازی سے بولے لوگوں کا ان داتا مشکل کشا آج بوریہ نشین فقیر کے در پر کیسے تو اکبر اعظم ایک سوالی بن کر بولا شیخ تمام حکیم عاجز آگئے ہیں ‘ساری کوشش ناکام ہو چکی ہیں، مغل اعظم شہنشاہ برصغیر نے اپنی شکست کا کھلم کھلا اظہار کیا اور ملتجی لہجے میں سوال کیا کہ مجھے عظیم سلطنت کا وارث چاہیے۔شیخ سلیم چشتی نے قرآن مجید کی آیت کی تلاوت کی ’’واﷲ خیرالوارثین (اﷲ بہتر وارث دینے والا ہے)‘‘ لیکن توُ تو خود خدا بننے کے چکرمیں تھا اور اور اصل خدا کو بھولاہواتھا تو تجھے وارث کیسے ملنا تھا، شیخ میرے حال پر رحم فرمائیں ‘میں بہت تکلیف میں ہوں ‘میری مدد فرمائیں ‘ میرے لیے دعا کریں، مغل اعظم ایک سوالی کی طرح فریاد کرتا رہا شیخ سلیم چشتی بادشاہ کی گریہ زاری سن کر عالم استغراق میں چلے گئے پھر چند لمحوں بعد آنکھیں کھول کر بادشاہ کی طرح دیکھا تو ہندوستان کا شہنشاہ بنا پھرتا ہے جبکہ اصل سلطان الہند تو کوئی اور ہے ‘اقلیم ہند پر اصل حکومت تو شہنشاہ اجمیر خواجہ معین الدین چشتی کی ہے اور میں بھی اُسی آستانے کا غلام ہوں، اب تو میرے پاس چل کر آگیا ہے تو میں آپ کو اصل شہنشاہ ہند کے حوالے کرتا ہوں ‘اکبر اعظم بار بار فقیر کی منت سماجت کررہا تھا آخرشہنشاہ اکبر نے اپنا سر شیخ سلیم چشتی کے پاؤں پر رکھ دیا کہ میرے لیے کچھ کریں ‘چشم فلک حیرت سے دیکھ رہی تھی فقیر کی شان ہی سچ ہے مالک بے نیازکے در پر دامن پھیلانے والے دونوں جہانوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور اُس کی گلی میں بستر لگانے والے دوسرے کوچے کی پھیری لگانے سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں، دنیاوی شہرت اور مال و زر کس کے دل میں کروٹیں نہیں لیتا ، کون ہے وہ بہادر اور ثابت قدم جس کے قدم یہاں لغرزش نہیں کھاتے اور کتنے چیدہ چیدہ خوش قسمت لوگ ہیں جو اِس پل صراط کو عبور کر پاتے ہیں، بہت کم اور خال خال لیکن جو خدا کی پناہ میں آجائیں وہ دنیاوی شہرت و عظمت کو ٹھوکر مار دیتے ہیں۔جو اعمال صالحہ کے زیور سے آراستہ ہو جائیں اُن کے دلوں کو حُب مال غبار آلود نہیں کرسکتی شیخ سلیم چشتی بھی ایسے ہی مقام پر فائز تھے انہوں نے اکبر اعظم سے کہا جاؤ اور حضرت معین الدین چشتی عطائے رسول نائب رسول کے درِاقدس پر حاضری دو اور فقیروں کی طرح اپنا دامن پھیلادو مجھے یقین ہے شہنشاہ ہند کے وسیلے سے اﷲ تعالیٰ تمھاری خالی جھولی بھر دیں گے، شیخ سلیم چشتی کی زبان سے فصاحت و بلاغت کی آبشار جاری تھی، فقیر کے لہجے کے گداز سے بادشاہ اکبر کا دل پگھلا جارہا تھا، اکبر اعظم کے دل میں امید کی ہلکی سی کرن نمودار ہوئی مگر سورج ابھی گہرے بادلوں میں روپوش تھا، سلیم چشتی کے الفاظ کیا تھے ایک زلزلہ تھا جس نے اکبر کی دل کی دنیا کو زیروبر کر کے رکھ دیا تاریخ میں اکثر ایسے واقعات جنم لیتے ہیں کہ کسی ایک واقعہ یا لفظ نے کچھ لوگوں کی پوری زندگی بدل ڈالی، اکبر اعظم کی زندگی میں بھی اہم موڑ آگیا تھا اکبر اعظم کو لوگوں نے بہت سمجھایا لیکن اکبر نہ مانا اور ننگے پاؤں عقیدت و احترام سے اجمیر کی طرف سوالی بن کے سفر پر روانہ ہوا، لمبے اور پتھریلے سفر کی وجہ سے نازک مزاج بادشاہ کے پاؤں میں چھالے پڑھ گئے۔خوشامدی وزیروں مشیروں نے بادشاہ اکبر کی بہت خوشامدکی کہ عالی جناب پیدل کی بجائے سواری پر سفر کریں، لیکن اکبر جس کے دل کی دنیا بدل چکی تھی اُس نے سواری پر بیٹھنے سے انکار کر دیا اور کہا ہم حقیقی سلطان الہند کے دربار میں حاضر ہو رہے ہیں عقیدت و احترام کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم ننگے پاؤں سفر کریں اور پھر جب بادشاہ لمبے سفر کے بعد شہنشاہ ہند خواجہ معین الدین کے دربار پر پہنچا تو اُس کے پاؤں زخمی تھے جسم اور چہرہ راستے کے گرد و غبار سے سیاہ پڑگیا تھا، اور پھر دیکھے والوں نے عجیب منظر دیکھا کہ ہندوستان کے بادشاہ نے اپنا دامن مراد پھیلا دیا اور کہا بلا شبہ آپ ہی ہندوستان کے اصلی اور حقیقی سلطان الہند ہیں اور میں آپ کا ادنیٰ غلام میری حالت زار پر رحم فرمائیں، بادشاہ کے پورے جسم پر لرزا طاری ہوگیا اور آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا، طاقت و اختیار کا آہنی مجسمہ زار و قطار رورہا تھا پھر جوش اضطراب میں اکبر نے خواجہ پاک کے مزار کی چادر مبارک پکڑ کر اپنے سر پر ڈال لی چادر ڈالتے ہی اکبر کو سکون اور طمانیت کا احساس ہوا، پھر خوب دعا اور گریہ زاری کے بعد بہت سارا زر نقد لوگوں میں تقسیم کیا اور واپس چلا آیا، مخالفین درپردہ بادشاہ کا مذاق اڑاتے کہ بادشاہ پتھروں کے ڈھیر سے کیا مانگنے گیا تھا، لیکن شہنشاہ ہند خواجہ خواجگان کے چشمہ معرفت کا فیض جاری ہوچکا تھا آخر ایک دن شاہی محل شادیانوں اور پٹاخوں سے گونج اُٹھا ‘مغل بادشاہ کو ولی عہد کی پیدائش کی خبر سنائی گئی ‘بادشاہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا، شہنشاہ اجمیر کے آستانے پر حاضری اور مانگی گئی دعا نیلے آسمان کے اوپر مالک بے نیاز نے قبول فرمائی اور مغلیہ سلطنت کو وارث کی عظیم نعمت سے نوازا‘ اکبر کا خالی دامن بیٹے کی نعمت سے بھر دیا دارلحکومت کے درو دیوار چراغوں اور قندیلوں سے جگمگا اٹھے اکبر بیٹے کو لے کر سلیم چشتی کی خدمت میں حاضر ہوا، اظہار عقیدت کے لیے اپنے بیٹے کا نام بھی سلیم رکھا اور وہی بیٹا سلیم نورالدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔

loading...