اتوار، 18 مارچ، 2018

مرادِ رسول ﷺ فاروق اعظم ؓ

مرادِ رسول ﷺ فاروق اعظم ؓنبوت کا چھٹا سال جا رہا تھا صرف انتالیس افراد حلقہ بگوش اسلام ہو ئے تھے ۔ مسلمانو ں کو کعبے میں نماز پڑھنے کی اجازت تک نہ تھی کو ئی مسلمان اگر عبادت کر تے نظر آجاتا تو اُس کی زندگی جہنم بنا دی جاتی اُس پر قیامت ٹوٹ پڑتی ‘مکہ کی گلیاں بازار اور وادی اہل ِ اسلام کے لیے عقوبت خانے بن چکے تھے ‘مشرکین ظالم اور مسلمان مظلوم تھے ۔تمام مسلمانوں کی حالت تو کیا ہو گی خود محبوب خدا ﷺ کئی بار تشدد کا نشانہ بن چکے تھے ۔ غریب اور غلام مسلمانوں کے لیے مکہ شہر پھانسی گھاٹ بناہوا تھا ‘صحابہ کرام گردنیں جھکا کر چھپ چھپ کر زندگی گزار نے پر مجبور تھے ۔ مسلمانوں کی حالت زار سردار الانبیاء ﷺ سے برداشت نہ ہو تی تھی اور پھر تاریخ اسلامی نہیں تاریخ انسانی کا عظیم واقع رونما ہوا ‘یہ ذوالحجہ کا مہینہ تھااور بدھ کا دن سرور کائنات ﷺ نے اپنے ساتھیوں کی بے بسی اور اہل مکہ کی بے حسی دیکھ کر بارگاہِ الٰہی میں دعا کے لیے ہا تھ اٹھائے ‘خدایا اسلام کو عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے تقویت عطا فرما ‘ان دونوں میں سے جو بھی تجھے محبوب ہو اسے مشرفِ بہ اسلام فرما اور پھر اگلے ہی دن قریش کے قبیلہ عدی کا طویل قامت سرخ چہرہ جنگجو دلیر اور بے باک شجاع انسان گھر سے اِس لیے نکلا کہ سر زمین عرب خدا کا پیغام سنانے والے کو تہہ تیغ کر کے اہل قریش کے بتوں کو سر بلند رکھے گا ۔ اُس کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر لوگوں نے کہا تو پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو تمھاری بہن اور بہنوئی بھی مسلمان ہو چکے ہیں یہ سن کر وہ اپنی بہن کے گھر غضب ناک ہو کر گیا اور بولا یہ کیا سرگوشیاں تم کر رہے ہو اور بولا تم گمراہ ہو چکے ہو اِس پر اُس کے بہنوئی نے کہا گمراہ ہم نہیں تم ہو تو وہ غصے سے بے قابو ہو گیا اور اپنی بہن اور بہنوئی کو مارنے لگا جب وہ بہت مار چکا تو تھک کر بولا مجھے بتاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے پھر اُس نوجوان کے سامنے وہ کلام پڑھا گیا جو پہاڑوں پر نازل کر دیا جا تا تو پورا سلسلہ کوہسار خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا ‘کلام کی تاثیر ایک زلزلہ تھی جس نے نو جوان کے دل کی زمین کو زیر و بر کر کے رکھ دیا اور پھر قبیلہ عدی کا نوجوان سردار اِس کلام کی ہیبت سے لرزنے لگا ‘پھر قبیلہ عدی کا سردار انسان نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان محبوب خدا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو ا اور اپنی تلوار اور سر بھی رسالت مآب ﷺ کے قدموں میں رکھ دیا اور مسلمان ہو گیا تو مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی اِس طرح آپ ؓ کو متمم الاربعین کا لقب ملا پھر یہی نوجوان ایک مسلمان کی حیثیت سے میدانِ بدر میں نمودار ہوا قریش کے تمام قبائل کے سرکش کفار بہترین اسلحہ سجا کر اہل ِ ایمان کے مقابل آئے مگر قبیلہ عدی کا کو ئی فرد اِس خوف سے اِدھر نہیں آیا کہ حلقہ اسلا م میں ان کا سردار موجو د تھا ‘عزت رعب دبدبے کی یہ عجیب مثال تھی کہ آج تک تاریخ دان اور نفسیات دان اِس بات پر حیران ہیں ‘بدھ کے دن نبی کریم ﷺ نے دعا مانگی اور اگلے ہی دن یہ نوجوان جس کا نام عمر بن ہشام تھا اسلام کے دائرے میں کیا داخل ہوا کہ تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہو ئی حضرت عمر بن خطاب ؓ کو پوری اسلامی تاریخ میں منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ہر ایک نے اپنی خوا ہش اور طلب پر حضور ﷺ سے مصاحبت اختیار کی لیکن حضرت عمر ؓ کو اپنی صحبت اور رفاقت کے لیے سرور کو نین ﷺ نے اﷲ تعالی سے دعا کر کے منتخب کیا ۔ آپ ؓ داخل ِ اسلام کیا ہو ئے کہ مصائب و الام کی دھند چھٹنے لگی اور قبول ِ اسلام کے بعد آپ ؓ سیدھے خانہ کعبہ پہنچے اور بلند آواز سے اہل ِ مکہ کو پکا را جو کو ئی اپنی ماں کو ماتم گسار ‘اپنے بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ بنانا چاہتا ہے وہ آئے اور ہمیں اﷲ کے گھر میں عبادت سے روکے ‘حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں حضرت عمر ؓ کا اسلام ہماری کامیابی تھا اِن کی ہجرت ہماری نصرت اور انکی خلافت ہمارے لیے باعث ِ رحمت تھی جب تک حضرت عمر ؓ اسلام نہیں لائے تھے ہم کعبے میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے جب وہ اسلام لا ئے تو قریش سے لڑ بھڑ کر ہمارا حق تسلیم کرا لیا کہ ہم بھی کعبے میں نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ پھر سرور کائنات ﷺ کے حکم پر جنگ کے لیے آدھا سامان نبی کریم ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا ۔ پھر جب حضور ِ اکرم ﷺ اپنی بیویوں سے ناراض ہو تے ہیں تو دربار رسالت ﷺ میں پیش ہو کر کہتے ہیں شاید آقا ﷺ یہ سمجھتے ہیں کہ میں اپنی بیٹی حفضہ کی سفارش کے لیے آیا ہوں تو ربِ کعبہ بہتر جانتا ہے کہ حفضہ کے لیے میرے دل میں عکسِ ملال تک نہیں میں تو حضور ﷺ کی تنہائی کے خیال سے آزردہ ہوں اگر آقا ﷺ مجھے حکم دیں تو اﷲ کی قسم اِسی وقت حفضہ کی گردن کاٹ دوں ‘سرور دو جہاں ﷺ آپؓ ہی کے بارے میں فرمایا کر تے تھے ۔ اﷲ تعالی ( بعض اوقات ) عمر کی زبان سے بولتا ہے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا شیطان عمر ؓ کے سائے سے بھی دور بھاگتا ہے اور اگر میرے بعد کو ئی نبی ہو تا تو وہ عمر ؓ ہو تا لیکن میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا ۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے جن بلندیوں کو چھوا وہ آپ ؓ کا ہی مقدر تھا ۔ جب مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہو ئے تو ایسی با ت کہی کہ پوری انسانی تاریخ میں کو ئی دوسری مثال نہیں آپ ؓنے کہا اے لوگوں میں نے اپنے دروازے کے کواڑ نکال پھینکے ہیں تاکہ میرے اور تمھارے درمیان کو ئی دیوار حائل نہ رہے اور پھر کہا اگر فرات کے کنارے کو ئی بھی بھوکا مر جائے تو اس کا جواب دہ میں ہوں عہد جہالت میں دریائے نیل ہر سال خشک ہو جا تا پھر نوجوان دو شیزاؤں کی قربانی اور خون دیا جاتا تو پانی آجاتا جب آپ ؓ بر سر اقتدار آئے تو حضرت عمر ؓ نے دریائے نیل کے نام خط لکھا کہ اے نیل اگر تو میرے خدا کے حکم سے چلتا ہے تو چل ورنہ تیرے پانی کی ہمیں کو ئی ضرورت نہیں اور پھر نیل اِس طرح ابل پڑا کہ آج تک پانی بند نہیں ہوا ۔ انداز حکمرانی ایسا کہ ہندوستان کے نجات دہندہ گاندھی نے کہا تھا اگر بھارت ایک مثالی ترقی چاہتا ہے تو اُسے دوسرا عمر فاروق ؓ پیدا کر نا ہو گا ۔ اِن کے عہد حکومت میں اسلامی ریاست کرہ ارضی کے شرق و غرب اور شمال و جنوب کی وسعتوں پر محیط تھی لیکن کمال عجز کا عالم یہ تھا کہ کپڑوں پر پیوند لگے تھے ۔ بیت المال کے اونٹوں کی گلہ بانی خود کر تے ۔ اور جب آخری حج کے بعد پلٹ رہے تو ایک وادی میں رک گئے اور فرمایا بے شک اﷲ جسے چاہے نواز دیتا ہے میں کبھی اِس وادی میں اپنے باپ کے اونٹ چرایا کر تا تھا وہ مجھے غلطی پر خوب مارتا تھا اور آج یہ وقت ہے کہ میرے اور اﷲ کے درمیان کوئی نہیں جس کا مجھے خوف ہو اور پھر شعر پڑھا تمھارے سامنے جو کچھ ہے اِس کی حلاوت باقی نہیں رہے گی صرف اﷲ کی ذات ہی باقی رہنے والی ہے یہ مال و دولت سب کچھ ختم ہو جا ئے گا بے شک اب موت کے حوض میں داخل ہو نے کا وقت آگیا ہے وہی حوض جس میں ہم سے پہلے لوگ داخل ہو ئے پھر ابو لولو فیروز کے حملے میں زخمی ہو گئے اور محسوس کیا کہ اب جانبر ہو نے کی امید نہیں تو فوراً اپنے بیٹے عبداﷲ کو بلایا اور فرمایا ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے پاس جاؤ اور کہوعمر ؓسلام کہتا ہے ‘یاد رکھنا امیر المومنین نہ کہنا عرض کرنا عمر بن خطاب ؓ اجازت مانگتا ہے اُسے دونوں رفیقوں کے ساتھ دفن کیا جائے ‘ سیدہ عائشہ ؓ آپ ؓ کی حالت پر پہلے ہی دکھی تھیں فرمایا یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی تاہم میں عمر ؓ کی آرزو کو اپنی خواہش پر ترجیح دیتی ہوں پھر محرم کی پہلی تاریخ کو حضرت عمر ؓ نبی کریم ﷺ کے پہلو میں دفن ہو نے کا لافانی اور لا زوال اعزاز نصیب ہو گیا یوں آپ ؓ کے اعزازات میں ایک اور اضافہ ہو گیا دنیا تو نبی ﷺ کے ہوا کو ترستی ہے مگر حضرت عمر ؓ کو روز محشر تک محبوب خدا ﷺ کے دامن کی ہوا ملتی رہے گی جہاں دنیا کا بڑے سے بڑا بادشا ہ اور ولی اپنی سانس روک کر حاضر ہو تا ہے وہاں حضرت عمر ؓ کو ابدی نیند سونے کی عظیم سعادت میسر آگئی حضور ﷺ نے اﷲ سے مانگ کر لیا تو دور کیسے کر تے ۔

سکندر اعظم مجذوب کے در پر

سکندر اعظم مجذوب کے در پرروز اول سے کروڑوں انسان اِس دنیا میں آئے ‘کھایا پیا افزائش نسل کا حصہ بنے اور پیوندِ خاک ہوگئے، کروڑوں کے اِس ہجوم میں کچھ ایسے انسان بھی اِس کرہ ارض پر طلوع ہوئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا، اﷲ کی دی ہوئی بے پناہ صلاحیتوں کے بل پوتے پر یہ مقدر شہرت اور کامیابی و کامرانی کے اُس بلند مقام پر فائز ہوئے کہ صدیوں کا غبار بھی اُن کی شہرت کو دھندلا نہ سکا، ایسا ہی ایک عظیم انسان356 قبل مسیح مقدونیا (یونان) کے دارلخلافہ پیلا میں پیدا ہوا، اِس کا باپ بادشاہ فلپ دوئم انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال اور عقل و شعور سے معمور تھا۔اُس نے اپنی ذاتی صلاحیتوں سے مقدونیاکی منتشر فوجوں میں تنظیم پیدا کی اور اتحاد کی نئی روح پھونک کر اعلی درجہ کی جنگجو فوج میں تبدیل کردیا، پھر یونان کے شمال حصوں کو فتح کیا اور جنوب کی طرف بڑھ کر اُس پر بھی قبضہ کر لیا اور یونان کے مشرق میں عظیم وسیع عریض ایرانی سلطنت پر حملہ کی تیاری کرنے لگا، لیکن وقت کے بے راس گھوڑے نے فلپ کو مہلت نہ دی اور چھیالیس برس کی عمر میں فلپ کو قتل کر دیا گیا ‘باپ کی موت کے وقت بیٹے کی عمر صرف بیس برس تھی کیونکہ بیٹا تاریخ انسانی کے عظیم ترین فاتحین میں سے ایک تھا، مقدر نے ساتھ دیا اور بیٹا بغیر کسی مشکل کے اقتدار کے تخت پر براجمان ہوگیا‘ باپ نے مرنے سے پہلے ہی بیٹے کی جانشینی کی راہیں ہموار کر دیں تھیں بیٹے کو اعلی عسکری تربیت دی گئی تھی۔اُس کی ذہنی صلاحیتوں میں ترقی اور عقل و شعور اور بصیرت کے لیے تاریخ انسانی کے عظیم ترین سائنس دان اور فلسفی ارسطو کو بیٹے کا استاد مقرر کیا گیا‘ یہی بیٹا آگے جاکر دنیائے قدیم کا عظیم فاتح سکندر اعظم کہلایا، بلاشبہ سکندر اعظم تاریخ کا انتہائی افسانوی کردار تھا اُس کی زندگی اور شخصیت میں ایک طرح کا انمول سحر پوشیدہ ہے اِس کی زندگی کے مختلف زاویے اور رنگ بھی ڈرامائی نوعیت کے ہیں، اُس کی اولین خواہش تھی کہ وہ دنیا کا عظیم ترین جنگجو اور فاتح عالم بنے اور وہ اِس کا استحقاق بھی رکھتا تھا وہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین سپہ سالار تھا اپنی گیارہ سالہ فوجی زندگی میں ہمیشہ فتح نے اُس کے قدم چومے شکست کا سامنا کبھی بھی نہ کیا، سکندر ایک سحر انگیز غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت کا مالک تھا۔بارہا اُس نے اپنے ہارے ہوئے دشمنوں کو معاف کیا اور اُس کا رویہ فراغدلانہ اور صلح جو ہانہ تھا، اپنی زندگی میں سکندر نے بیس سے زیادہ نئے شہروں کی بنیاد ڈالی اِن میں بہت اہم اور مشہور شہر مصر میں سکندریہ ہے جو بہت تھوڑے عرصے میں دنیا کے ممتاز اور صف اول کے شہروں میں شمار ہو نے لگا اور علم و تہذیب کا گہوارا بن گیا، اِس کے علاوہ افغانستان کے شہر ہرات اور قندھار بھی دنیا کے اہم شہروں کی فہرست میں شامل ہو گئے، ایران کو فتح کرنے کے بعد وہ کوہ ہندوکش کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا بہت سارے شہر اور علاقے فتح کئے اب وہ مشرقی ہندوستان کی طرف جانا چاہتا تھا لیکن سپاہیوں نے تھکاوٹ کا اظہار کیا تو سکندر واپس یونان چلا گیا اور متحدہ یونانی ایرانی سلطنت کی بنیاد رکھی، جس کا سربراہ تھا اُس نے مشرق اور مغرب کے عنوان سے ایک شاندار جشن کا اہتمام کیا جس میں مقدونیہ کے ہزاروں فوجیوں کی ایشیائی عورتوں سے باضابطہ شادیاں کرائی گئیں، جنگجو کے ساتھ وہ ایک دانشور بھی تھا‘ ارسطو کا شاگرد رہا‘ ہومر کی شاعری سے بصیرت حاصل کی، وہ جب بھی جنگ کے بعد واپس آتا تو اپنے دور کے مشہور مجذوب فلسفی دیو جانس کلبی سے ضرور ملنے جاتا یہ مجذوب اپنی عقل و فراست کی وجہ سے ہر دل عزیز اور مشہور ہو چکا تھا۔اِس مجذوب کی ساری زندگی غوروفکر ‘مراقبے ‘بے خودی اور عالم استغراق میں گزری ‘ہر وقت عالم بے خودی ‘جذب ‘سُکر اور اپنے ہی خیالوں میں مستغرق ‘دنیا ؤ مافیا سے بے فکر ‘ایک ٹب میں بیٹھا نظر آتا اُسی جگہ بیٹھے بیٹھے زندگی گزار دی، وہ ہر وقت اپنی خلوت سے انجمن کا لطف اٹھاتا ‘جب بھی دیکھو عالم جذب و کیف سرور اور سر شاری میں نظر آتا ‘اگر کوئی آجاتا تو اُسے دانش و حکمت سے مستفید کر دیتا ‘بے نیازی کے عالم نے اُس کو جکڑا ہوا تھا ‘یہی وقت تھا جب سکندر اعظم کی فتوحات کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بج رہا تھا، سکندر اگر چہ جنگجو تھا لیکن اُسے دانش و حکمت اور اربابِ فکر و بصیرت سے ایک گو نہ گو رغبت اور عقیدت تھی، وہ اکثر دیو جانس کلبی سے ملنے جاتا لیکن اکثر ملاقات کے بغیر ہی واپس جانا پڑتا کیونکہ کلبی بے نیاز شخص تھا وہ اُن لوگوں میں ہرگز نہیں تھا جو قرب شاہی کے طلب و آرزو مند ہوں اور شاہی دانشور کہلانے کے جنون میں ہمہ وقت مبتلا ہوں، دیوجانس ساری عمر اِسی بے نیازی پر قائم رہا اُس کی یہ بے نیازی ضرب مثل بن چکی تھی۔ ایک بار سکندر اعظم اُس سے ملنے آیا تو سردی عروج پر تھی کلبی سورج کی حدت اورکرنوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا سکندر حاضر ہوا اور احترامًا کھڑا ہوگیا کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اجازت لیتے ہوئے بولا استادِ محترم میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلا تکلف حکم فرمایے مجھے بہت خوشی ہو گی تو اپنے وقت کے بے نیاز اور بے نفس مجذوب نے کہا نیم باز آنکھوں سے فاتح عالم سے بے تکلفی اور بے ساختگی سے کہا بس اتنی مہربانی کر دیجیے کہ آپ ذرا ایک طرف ہو جایئے آپ نے میری دھوپ روک رکھی ہے، ایک بار سکندر اپنے وزرا اور ساتھیوں کے ساتھ کلبی کے پاس آیا کچھ دیرٹھہرا کھانے کے وقت پر کلبی نے اپنے شاگردوں سے کہا باقی لوگوں کو تو معمول کا لنگر پیش کیا جائے البتہ سکندر اور میں ایک ساتھ کھانا کھائیں گے، ہمارے لیے سونے چاندی کے ٹکڑے اور سکے کھانے کی جگہ دسترخوان پر رکھے جائیں، یہ چیزیں دیکھ کر سکندر بولا حضور یہ کیسے کھائیں گے تو مجذوب وقت بولا دوسروں کے لیے تو عام کھانا ہے یہ صرف آپ کے لیے ہے‘ سکندر نے حیرت سے کہا جناب یہ کھانے والی چیزیں نہیں ہیں میں اِن کو نہیں کھا سکتا تو کلبی بولا میں تو سمجھاتھا تم اب فاتح بن کر عام انسانوں والا کھانہ نہیں کھاتے ہو گے بلکہ سونے چاندی اور ہیرے جواہرات موتی کھاتے ہو گے مگر آج پتہ چلاتمھیں بھی اُسی خوراک کی ضرورت ہے جو عام انسان کھاتے ہیں اگر یہی کھانا کھاتے ہو تو اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور تباہی و بربادی کی کیا ضرورت ہے یہ سب کچھ تو گھر بیٹھے بھی مل سکتا ہے۔اِس پر فاتح عالم کی شرمندگی ندامت اور خِفت کا کیا عالم ہوگا یہ ارباب علم و دانش کی نظر سے مخفی نہیں، بلا شبہ دیوجانس کلبی کی شان بے نیازی تھی جو ابد تک داد وصول کرتی رہے گی اور یہ بھی کہ فاتح عالم اکثر علم و دانش کے موتی سمیٹنے ایک مجذوب کے در پر سوالی بن کر آتا اور احترامً کھڑا ہو جاتا۔

loading...