اتوار، 18 مارچ، 2018

ہر دور کی ضرورت اِمام حسینؓ

ہر دور کی ضرورت اِمام حسینؓروز اول سے لے کر آج تک ہر دور میں کرہ ارض پر ایک سے بڑھ کر ایک انسان اپنی پوری توانائیوں اور شان و شوکت سے طلوع ہوا ، اپنی شخصیت آن بان اور کارناموں سے پوری دنیا کو لرزا براندام کر دیا۔ خالق کائنات نے معاشرے اور مختلف قوموں کی ضرورت اور توازن کے لیے غیر معمولی انسان پیدا کئے اِن عظیم ترین شخصیتوں میں بعض تو مسند علم کی وارث ٹھہریں کچھ طبعیات اور سائنس کی امام بنیں، معاشروں کی اصلاح کے لیے کچھ دنیا کی مرشد قرار پائیں کسی نے آرٹ میں کسی نے فلسفے میں کسی نے شاعری اور ادب میں اپنا نام بنایا ، لیکن گردش لیل و نہار اور تاریخ کے دھارے میں بہت ساری یہ عظیم شخصیتیں بہہ گئیں ‘کچھ کو زمانے کی کروٹیں نگل گئیں ‘کچھ حوادث شبُ و روز کی نذر ہو گئیں ‘کئی عالمی تبدیلیوں کی ہوا میں تحلیل ہو گئیں ‘کچھ تو کتابوں اور تاریخ کے کوئزبکس میں زندہ رہیں، جبکہ اکثر یاد ماضی کا حوالہ داستان پارینہ یا قصہ بن گئیں ‘اِن میں سے اکثریت صدیوں کے غبار میں دھندلا گئیں۔اربوں انسانوں کے ہجوم میں ایک بڑی تعداد ایسی شخصیات کی بھی ہے کہ گردش لیل و نہار اور زمانے کی کروٹیں بھی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں یہ دنیا میں پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہوئیں اور پھر اِس ابدی شہرت اور شان سے دنیا سے رخصت ہوئیں کہ قیامت تک امر ہو گئیں، یہ وہ شخصیات تھیں جنہوں نے وقت سوچ دل و دماغ جذبات تاریخ اور سمت کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے کر اِس طرح خود کو مقام امر پر فائز کر لیا کہ صدیوں کے غبار میں دھندلا ہو نے کی بجائے اِن کا نام اور کام اور نکھرتاجارہا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ اِن کی شان و شوکت اور روشنی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے انہی میں ایک نام جناب حضرت حسینؓ کا ہے، آپ کا نام تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر اِس آب و تاب سے چمک رہا ہے کہ ہر گزرے دن کے ساتھ آپ کی شان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، چودھاں صدیاں بیت جانے کے باوجود ہر دور میں حسینؓ کی شان اور ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔دنیا نے مروجہ اصولوں کے مطابق کسی بھی شخص کی عزت و احترام کے لیے حوالہ بہت اہمیت رکھتا ہے وہ کسی بڑے روحانی خاندان کا چشم و چراغ ہو کسی اونچے معاشرتی خاندان کا سپوت ہو کسی بڑے سیاسی گھرانے یا لیڈر کا بیٹا ہو کسی بڑے شاعر ادیب کا بیٹا ہو اِس طرح کی کوئی نسبت کسی شخص کے لیے شان و شوکت کی دائمی سند رکھتی ہے، کسی بڑے انسان کے بعد آنے والی نسلیں اُسی احساس تفاخر سے معمور رہتی ہے اور اگر کوئی اِن بڑے ناموں یا حوالوں کے ساتھ جو بھی ادبی، روحانی، معاشرتی، علمی، سیاسی مقام کا حامل ہو تو خاندانی شہرت کا چارچاند لگ جاتے ہیں، اِسی اصول کے تحت جب ہم حضرت امام حسینؓ کی تاریخ ساز شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ امام حسینؓ اپنی دیگر خصوصیات کی طرح اِس خصوصیت میں بھی الگ اور نرالی انفرادی شان کے مالک نظر آتے ہیں، کیونکہ جو عظمتیں شان اور نسبتیں امام حسینؓ کے مقدر میں آئیں وہ نسل انسانی کے کس نواسے، کس نورنظر، کس کے لختِ جگر اور کس کے بھائی یہاں پر ایک سے بڑھ کر ایک ایسی شاندار لازوال اور عظیم بزرگی اور نسبت کہ دیکھنے کے لیے کوہ ہمالیہ جیسا قد کاٹھ چاہیے پھر بھی ممکن نہیں۔حضرت امام حسینؓ کو سرتاج الابنیا سرورِ کائنات کا نواسہ ہو نے کا لازوال شرف عظیم حاصل ہے، حسینؓ کے نانا ﷺ جو وجہ تخلیق کائنات، جن کی نسبت معراج انسانیت ہے، جن کا وجود برہان الٰہی ہے، جن کی بشریت آبروئے آدمیت ہے، جن کے نور سے شبستان عالم چمک اور جن کے رنگ و بو سے چمنستان دہر مہک رہا ہے، جن کا خیال الہام اور جن کا نطق وحی ہے وہی حسینؓ کے عظیم نانا ﷺ جن کے قدموں کی آہٹ سن کر کوئی خضرؑ بنا اور جن کے در کی بھیک پا کر کوئی سکندر کہلایا۔ حضرت حسینؓ کا عظیم بابا جن کی پیشانی کبھی غیراﷲ کے سامنے نہیں جھکی، جن کو باب العلم کا لازوال خطاب حاصل ہے، جو ہر جنگ میں حیدرِ کرار کہلایا، جس کی روحانیت ہر سلسلہ تصوف کی منزل ٹھری، جس کو کعبے میں ولادت اور مسجد میں شہادت ملی، پھر حسینؓ کو آغوش کونسی نصیب ہوئی خاتون جنت کی آغوش جس کے گھر کا طواف جبرائیل امین نے بار بار کیا، جس کو محبوب خدا نبیوں کے سردار ﷺ نے بار بار لخت جگر اور گوشہ دل کہا اور جن کے نام لینے کے لیے زبان کو ہزاروں بار مشک و گلاب سے وضو کرنا پڑتا ہے۔جن کی ناراضگی کا کبھی رسولؐ بھی متحمل نہیں رہا، جس کے گھر میں کبھی سورج کی شعاع نے بھی جھانکنے کی جرات نہ کی جس کے نام کے دو نفل پڑھ کر دنیا کا گناہ گار سے گناہ گار انسان بھی جب بارگاہ رسالت میں معافی کی عرضی دیتا ہے تو فوری درجہ قبولیت نصیب ہوتی ہے، اور پھر حسینؓ بھائی کس کے پانچویں خلیفہ راشد کے، جس کے ایثار نے ملت کا وقار بڑھایا جنہوں نے حکومت پر وحدت امت کو ترجیح دی، جن کی طبع صلح پسند نے قوم رسول ہاشمی ﷺ کو شیرازہ بند رکھا ورنہ خلافت بھی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی۔ امام حسینؓ کی شان اور الھ خوبی یہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین ہستیوں اور حوالوں سے جڑے ہوئے ہیں، اکثر اوقات ایسے عظیم حوالوں سے جڑے ہو نے سے ایک طرف اگر بہت اونچا مقام ملتا ہے تو یہ خطرہ بھی موجود ہوتا ہے کہ وہاں اس کا نام گُم ہونے کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے، امام حسینؓ ان حوالوں سے ایک لافانی شہرت اور پہچان کے حامل تو ہیں ہی اِس کے ساتھ ساتھ تاریخ میں ان کا اپنا ایک الگ اونچا مقام اور باعزت نام بھی موجود ہے۔نبیوں کے سردار ﷺ کا نواسا ہونا، ولیوں کے سردار کا بیٹا ہونا، عظیم ماں کا فرزند ہونا سعادت اور اعزاز تو ہے ہی مگر یہ آزمائش بھی کم نہیں عظیم نانا اور باپ کی عظمت کی لاج رکھنا، عظیم مقدس ماں کی آغوش کا حق ادا کرنا کوئی معمولی آزمائش نہیں اور اِس کے ساتھ ہی اپنی الگ منفرد شناخت بنانا بھی اور پھر جب اسلام پر مشکل وقت آیا تو امام حسینؓ نے ملوکیت یزید کے مقابلے میں جرات اور استقامت دکھا کر میدان کربلا میں باطل کے سامنے کھڑا ہو کر نہ صرف اپنے عہد میں باطل کی قوتوں کو پاش پاش کیا بلکہ قیامت تک انسانی تاریخ کا رُخ موڑ دیا اور مشعل راہ بنے، واقعہ کربلا کے بعد بہت ساری موروثی حکومتیں قائم رہیں لیکن کسی دور میں بھی انہیں جواز نہ مل سکا۔سانحہ کربلا کے بعد سے آج تک کسی دور میں بھی ملوکیت کے خلاف آواز بلند ہوئی ، تحریک چلی، انسانی حقوق کے لیے لہر اٹھی، معاشی انصاف اور حق خودارادیت کی آواز ٹھی، ظلم و جبر کے خلاف نفرت کا جذبہ پروان چڑھا تو یہ شہادت حسینؓ کا ثمرہ ہے۔ کسی بھی دور میں جب بھی کسی فرعون یزید نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر حق کی زبان دبانے کی کو شش کی تو ہر دور میں ہر اسلامی تحریک یا انقلاب کے وقت ضرورت پڑی تو امام حسینؓ کے کردار کی نظرئیے کی، سچ کی، باطل کے خلاف کھڑے ہونے کی ہر دور کی ضرورت امام حسینؓ ہیں۔
انسان کو بیدار تو ہولینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

آفتاب ِ ولایت گنج شکر

آفتاب ِ ولایت گنج شکربابا فرید گنج شکر شہنشاہِ پا ک پتن ؒ کی پیدائش کا واقع بہت مشہور ہے آپ ؒ ایک نیک عابد زاہدخاتون کے بیٹے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ ؒ شکم مادر میں تھے تو ایک رات آپ ؒ کی والدہ محترمہ قرسم خاتون رات کے آخری پہر مصلے پر بیٹھی نماز تہجد ادا کر رہی تھیں کہ ایک چور چوری کی نیت سے آپ ؒ کے گھر آیا آپ ؒ اﷲ تعالی کی عبادت میں اس قدر محو تھیں کہ اُس چور کی آمد کا آپ کو بالکل بھی پتہ نہ چلا ۔ ظاہر ہے چور چوری کی نیت سے آیا تھا اور وہ گھر کا مال اسباب سمیٹ لینا چاہتا تھا لیکن جب اُس چور نے ایک نیک خاتون کا بارگاہِ الٰہی میں عبادت کر تے دیکھا تو وہ اِس روح پرور منظر میں کھو گیا اور ساکت نیک خاتون کو عبادت ِ الٰہی میں مستغرق دیکھتا رہا وہ نیک خاتون کی عبادت اور انہماک سے بہت زیادہ متاثر ہو گیا تھا نیک عور ت جس طرح خشوع و خضوع سے مصروف عبادت تھی وہ اپنا کام بھول کر اُس ایمان افروز منظر میں کھو چکا تھا پھر اُس نے خود کو اِس سحر انگیز منظر سے نکالا اور چوری کی نیت سے آگے بڑھا ۔ چور نے ارادہ کر لیا تھا کہ اگر عورت نے اُس کو دیکھ لیا تو وہ جبر و تشدد سے اُس کو ہٹا کر چوری کر ے گا یہ سوچ کر اُس نے پھر قرسم خاتون کو دیکھا جو آنکھیں بند کئے اپنے خالق کے تصور میں کھو ئی ہو ئی تھیں اور دنیا ما فیا سے بے خبر قرب ِ الٰہی عشق الٰہی میں غرق تھیں ۔ اب چور ہمت کر کے آگے بڑھا ابھی اُس نے دو چار قدم ہی اٹھا ئے ہو نگے کہ اچانک وہ اپنی آنکھوں کی روشنی سے محروم ہو گیا وہ اندھا ہو چکا تھا ۔ یہ ایک ناقا بل یقین واقعہ تھا ‘چور نے بہت کو شش کی لیکن اُس کی آنکھوں کا نور واپس نہ آیا ۔ اب اُس نے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی اور کافی دیر تک دیواروں سے سر ٹکراتا رہا مگر اُسے واپسی کا راستہ نہ مل سکا ‘فرار کے تمام راستے بند ہو چکے تھے اب چور پر خوف و دہشت نے قبضہ جمانا شروع کیا تو اُسے احساس ہوا کہ یہ تو قہر آسمانی ہے قدرت نے اُس کی آنکھو ں کا نور چھین لیا ہے جب چور کو کو ئی راستہ نہ ملا تو اُس نے چیخنا شروع کر دیا اور با آواز بولنا شروع کیا میں عقیدے کے اعتبار سے غیر مسلم بت پرست ہو ں ‘چوری میرا پیشہ ہے ‘آج رات چوری کی نیت سے ہی میں اِس گھر میں داخل ہوا تھا مگر چوری سے پہلے ہی میں اپنی آنکھوں کا نور کھو بیٹھا ہوں ۔ یہ اندھا پن کو ئی اتفاق نہیں ہے یقینا اِس گھر میں کو ئی بہت نیک ہستی ہے جس کی وجہ سے میں اندھا ہو گیا ہوں اگر وہ بزرگ ہستی میری آواز سن رہی ہے تو میں اُس کو درخواست کر تا ہوں کہ مجھے معاف کر دے ‘میں گناہ گار ہوں ‘مجھے معافی دی جائے ‘ہندو چور بآواز بار بار اپنی غلطی کا اقراراور معافی مانگ رہا تھا ‘قرسم خاتون دنیا و مافیا سے بے خبرخالق ارض و سما کے حضور عبادت میں غرق تھی جب چور نے بہت گریہ زاری کی تو آنکھیں کھو ل دیں اور دیکھا کہ مکان کے صحن میں ایک طویل قامت انسان ٹھوکریں کھا تا پھر رہا ہے اُس کے چلنے اور لڑکھڑانے سے واضح پتہ چل رہا تھا کہ وہ اپنی آنکھوں کے نور سے محروم ہو چکا ہے ۔ نیک دل خاتون اُس طاقتور انسان کو بے بسی اور لا چارگی کی حالت میں دیکھتی رہی جو چوری کی نیت سے اُس کے گھر میں داخل ہوا تھا ۔ چور نے دو بارہ بولنا شروع کیا کہ جو بھی نیک ہستی اِس گھرمیں مو جود ہے اور یقینا وہ میری آواز اور بے بسی دیکھ رہی ہو گی اُسے اس کے خدا کا واسطہ وہ مجھے معاف کر دے ‘میں اقرار کر تا ہوں کہ میں ہمیشہ کے لیے چوری اور ڈکیتی سے توبہ کر لوں گا ‘میری آنکھوں کا نور اگر مجھے واپس مل گیا تو میں ہر برا کام چھوڑ دوں گا ۔ قرسم خاتون خاموشی سے اُس کی حالت زار اور بے بسی دیکھ رہی تھیں ‘نیک دل خاتون کے سکوت مسلسل سے چور اور بھی خوف زدہ ہو گیا اور اب براہ راست نیک خاتون کو پکارا کہ میں نیک دل خاتون سے معافی کی درخواست کر تا ہوں کہ میرے گناہ کو معا ف کر دیں ‘بے شک میں انہیں تنہا سمجھ کر چوری کر نا چاہتا تھا کہ کمزور عورت اور چھوٹے بچے میرے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتے لیکن میں غلط تھا مجھے معاف کر دیں اگر میری بینائی بحال ہو گئی تو میں اپنے آباؤ اجداد کے مذہب بت پرستی کو ترک کر دوں گا ‘ماتھے سے قشقا اور گلے میں زنار توڑ کر پھینک دوں گا اور حلقہ اسلام میں دل سے داخل ہو جاؤں گا ۔ چور کی گریہ زاری آہ و بکا سن کر قرسم خاتون نے اپنا وظیفہ نیم شبی چھوڑ دیا اور دعا کے لیے ہاتھ بارگاہِ الٰہی میں اٹھا دئیے ‘اے مالک ارض و سما دنیا مجھے اکیلا سمجھتی ہے لیکن جس کا تُو مدد گار ہو اُسے لا وارث کو ن کہہ سکتا ہے جس کا اﷲ تو محافظ ہو اُس کو چوروں ڈکیتوں سے کیا خطرہ ‘اگر سا را زمانہ بھی قزاق بن کر اِس گھر پر ٹوٹ پڑے تو میرا اور میرے بچوں کا کوئی کچھ نہیں بکا سکتا ‘بے شک تو ہی میرا کفیل اور وکیل ہے میں تیری بندگی پر شکر گزار ہوں کہ تُو نے مجھ ناتواں عورت کا بدلہ اِس مرد سے لیا جو چور اور طاقتور تھا ‘قرسم خاتون کی رقت اور لہجے میں درد اور التجا بڑھتی جا رہی تھی ‘اے مالک اب میں تجھ سے التجا کر تی ہوں کہ تو اِس کی بینائی واپس کر دے ‘یہ تیرا ہی بندہ ہے جو راستے سے بھٹک گیا تھا میں نے اِس کا جرم معاف کیا اب تو بھی اِس کے گناہوں سے چشم پو شی فرما اِس کی آنکھوں کے ساتھ اِس کے دل کی سیاہی بھی دھو دے اِس کا نور اِس کو واپس کر دے ۔ اور پھر اچانک بت پرست کو محسوس ہوا ُس کی آنکھوں کی سیاہی کی جگہ نور واپس آرہا ہے اور پھر اُس کی بینائی بحال ہو گئی تو وہ تشکر اور لر زتے قدموں سے قرسم خاتون کی طرف بڑھا اور معافی مانگی بت پرست کی آواز ندامت اور شرمندگی سے کانپ رہی تھی ۔ قرسم خاتون بولی تجھے کوئی مجبوری یا ضرورت چوری کے لیے میرے گھر لائی تو میرا مہمان ہے بتا تیری کیا خدمت کر سکتی ہوں ‘چور شرمند گی کے سمندر میں غرق تھا ‘صرف معافی ما نگ رہا تھا جا اُن سے معافی مانگ جن کے حقوق تو نے غضب کئے ہیں پھر ہندو لٹیرا گردن جھکائے واپس چلا گیا ۔ اگلے دن وہ چور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ قرسم خاتون کے دروازے پر کھڑا تھا اور زاروقطار رو تے ہو ئے کہہ رہا تھا اُس ابدی روشنی کی ایک کرن مجھے دے دیں ‘دولت ایمان سے نواز دیں اور پھر یہ بت پرست مسلمان ہو کر دولت ِ ایمانی سے اپنا دامن بھر کر گیا اِس لٹیرے کا نام عبداﷲ رکھا گیا ‘عبادت و ریاضت سے نیک بندوں میں شامل ہوا ‘وفات پانے کے بعد وہیں دفن ہوا آج بھی اُس کا مزار موجود ہے ‘بابا فرید ؒ ابھی ماں کے پیٹ میں تھے جب یہ واقعہ پیش آیا ۔ بچہ بڑا ہوا کر آفتاب ولایت کا سورج ثابت ہوا جس کی روشنی سے لاکھوں اندھی روحوں نے روشنی پائی اور قیامت تک یہ فیض اِسی طرح جاری و ساری رہے گا ۔

loading...