دین میں توبہ کا ایک اہم مقام ہے ‘راہ حق کے مسافر سب سے پہلے توبہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں، توبہ راہ گم شدہ لوگوں کے لیے استقامت کی کلید ہے ‘گناہوں سے تائب ہونا اور عیبوں کو جاننے والے اور عیبوں کو چھپانے والے کی طرح رجوع کرنا راہ سلوک کا پہلا زینہ ہے ‘راہ حق کے مسافر اِسی کو مشعلِ راہ سمجھتے ہیں اور انبیاء اِسی کے ذریعہ سعادت پاتے ہیں، ہمارے جدامجد حضرت آدم علیہ اسلام کے لیے توبہ ہی نجات اور بلندی درجات کا باعث بنی، بشر سے خطا یا گناہ سرزد ہو جانا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کیونکہ خطا بشری تقاضہ ہے ،جب ہمارے باپ حضرت آدم ؑسے خطا ہوئی تو آپ نے عرصہ دراز تک ندامت کے آنسو بہائے اور پھر آپؑ کی توبہ قبول ہوئی، انسان کی جبلت میں دونوں خصلتیں پائی جاتی ہے خیر کی خصلت اور شر کی خصلت بھی ،اب یہ انسان پر منحصر ہے وہ انسان بنے یا شیطان کا ساتھی بن کر گمراہی اور گناہ کے سمندر میں غرق ہو کر خدا سے دور ہو جائے۔حضرت حسنؓ سے مروی ہے جب حضرت آدم علیہ اسلام کی توبہ بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی تو فرشتوں نے اُنہیں مبارک باد دی حضرت جبرائیل علیہ اسلام اور میکائیل علیہ اسلام ان کے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ ؑکی توبہ قبول فرمائی اور آپؑ کے دل کو سکون بخشا تو ہمارے جد امجد نے فرمایا اگر اِس توبہ کے بعد بھی قیامت کے روز مجھ سے سوال ہوا تو کیا ہوگا تو خدائے بزرگ برتر نے وحی نازل فرمائی کے اے آدمؑ تیری اولاد کو تجھ سے مصیبتیں بھی وراثت میں ملی ہیں اور توبہ بھی اِن میں سے جو شخص مجھے پکارے گا میں اُس کی پکار سنو گا جس طرح تیری پکار سنی ہے اور جو شخص مجھ سے مغفرت کا خواستگار ہو گا میں اُس کی مغفرت کر نے میں دیر نہیں کروں گا اِس لیے کہ میں قریب ہوں ،مجیب ہوں ،اے آدمؑ میں توبہ کرنے والوں کو اُن کی قبروں سے ہنستے اور بشارت سنتے ہوئے اٹھاؤں گا اِن کی دعا وقبول ہو گی۔قرآن مجید میں اکثر جگہوں پر توبہ کا ذکر ہے (سورۃ نحل آیت نمبر 119) پھر جنہوں نے نادانی سے برا کام کیا پھر اس کے بعدتوبہ کی اور سنور گئے تو تمھارا رب اُس کے بعد بخشنے والا مہربان ہے، (سورۃ طہٰ آیت نمبر 82) اور جو توبہ کرے اور اﷲ پر کامل ایمان لائے اور اچھے کام کرے پھر سیدھے راستے پر رہے تو بیشک میں بخشنے والا ہوں، (سورۃ فرقان آیت نمبر 70) مگر جس نے توبہ کی اور (اﷲ پر کامل) ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اﷲ بھلائیوں سے بدل دے گا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے، حدیث مبارکہ میں توبہ کی فضیلت اِس طرح بیان کی گئی ہے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا یقینًا اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، اگر کسی شخص کی سواری جس پر کھانے پینے کا سامان لدا ہو کسی صحرا میں گم ہو جائے اور وہ شخص تلاش کرتے کرتے تھک جائے اور پھر مایوس ہو جائے پھر اچانک وہ سواری اُسے مل جائے اِسی وقت اُسے اس سواری ملنے کی کتنی خوشی ہو گی اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ سے (جب وہ اﷲ کی طرف رجوع کرتا ہے اور واپس لوٹ آتا ہے) اِس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب بندہ گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر کہتا ہے اے میرے مولا میں نے گناہ کیا ہے تو مجھے معاف کردے تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف بھی فرماتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے؟ اچھا اسی بات پر میں نے اسے معاف کیا کچھ عرصہ کے بعد پھر اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے معافی کا طلبگار ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ پھر اُسے معاف کر دیتا ہے کچھ مدت کے بعد پھر وہ گناہ کرتا ہے اور پھر کہتا ہے اے میرے رب میں نے ایک اور گناہ کرلیا تو مجھے بخش دے اﷲ تعالیٰ کی رحمت یہ گواراہ نہیں کرتی کہ اس کا بندہ جو اس کے دربار میں کھڑا ہے خالی ہاتھ جائے چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا (بخاری شریف)۔تاریخ اسلام کا دامن توبہ کے لازوال اور ایمان افروز واقعات سے بھرا پڑا ہے ایسا ہی ایک واقعہ سرتاج الابنیا ﷺ کے دور میں پیش آیا، شہنشاہ دو جہاں ﷺ کی رسالت کی کرنیں جب اہل عرب پر پڑی تو وہ گمراہی جہالت اور عیاشی کے عمیق گڑھوں میں غرق تھے لیکن آپ کی آمد کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کی پر نور شعاعوں سے اہل عرب کے سینے ایمان سے منور ہو گئے، اہل عرب جو بات بات پر گناہ کے مرتکب ہوتے تھے اب ان کا ایمان اِس قدر مضبوط تھا آندھی اور طوفان سے پہاڑ تو اپنی جگہ سے ہل جائیں لیکن ان کے ایمان اور تقوی کو کبھی بھی جنبش نہ ہوں، سرورکائنات ﷺ صحابہ کرام ؓکے جھرمٹ میں مسجد نبوی میں جلوہ افروز ہیں ،آپ لوگوں کو اسلام کی تعلیمات دے رہے ہیں کہ اتنے میں ایک باپردہ خاتون مسجد کے دروازے سے داخل ہوتی ہیں، وہ شرم و حیا کا پیکر بنی رسول کریم ﷺ کے پاس آتی ہے اور عرض کرتی ہے یا رسول اﷲ ﷺ مجھ سے زنا سرزد ہو گیا مجھے آپ پاک کردیں، اِس خاتون کے بلند ایمان کی حالت دیکھیں کہ اُس کے جسم کے رگ رگ میں اور خون کے قطروں میں ایمان کی خوشبو اور حرارت رچی بسی تھی اُسے پتہ تھا کہ پاکیزگی حاصل کرنے کامطلب ہے پتھروں کی بارش سے چمڑی اُدھڑ جائے گی ،جسم سے خون کے فوارے نکلیں گے ،تمام اعضا کو توڑ دیا جائے گا ،ہڈیوں ٹوٹ جائیں گی ،جسم پھٹ جائے گا۔یسی موت اور تکلیف کے تصورسے ہی پتھر سے پتھر دل انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اس ایمان سے بھر پور عورت کی جرات اور بہادری دیکھیں کے اُس نے خود کو سزا کے لیے پیش کردیا، اُس عورت نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ میری غلطی کی وجہ سے ایک نئی روح دنیا میں آنے والی ہے میں حاملہ ہوں ،نبی کریم ﷺنے فرمایا جاؤ جب تمھارے بچے کی ولادت ہو جائے پھر آنا، رحمت دو جہاں ﷺ کی رحمت اور شفقت دیکھیں کہ آنے والے بچے کا کیا قصور ہے اِس لیے خاتون کو واپس بھیج دیا بچے کی ولادت کے بعد وہ خاتون پھر آقائے دو جہاں ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی رسول کریم ﷺ نے بچے کو دیکھا تو آپ کا دل معصوم بچے کے لیے تڑپ اٹھا پوچھا اِس کے دنیا سے جانے کے بعد اِس معصوم کا کون سنبھالے گا، فرمایا واپس جاؤ اور اِس بچے کو دودھ پلاتی رہو جب اِس کا دودھ چھڑا دو تو میرے پاس آنا، عورت جو شوق دیدار الٰہی میں سرشار تھی اپنے بچے کو دودھ پلانے کے ساتھ روٹی کھلانا بھی جلدی سکھا دی، کیونکہ وہ جلدی خود کو پاک کرنا چاہتی تھی توبہ کی لذت سے ہمکنار ہو نا چاہتی تھی، بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھمایا اور رسالت ماب کی بارگاہ میں حاضر ہو گئی۔سرورکائنات ﷺ نے بچے کو پکڑا اور فرمایا کون ہے جو اس بچے کی کفالت اپنے ذمہ لے گا وہ جنت میں اِن دو انگلیوں کی طرح میرے ساتھ ہو گا، ایک انصاری نے یہ سعادت فوری سمیٹ لی ایک بچے کو ماں سے لیتے وقت رحمت دو جہاں ﷺ اداس تھے، اُس عورت کو شدت سے انتظار تھا کہ کب میرا جسم گناہ سے پاک ہو اور توبہ کے اعزاز سے سرفراز ہو، پھر اُس عورت کو گناہ سے پاک کردیا گیا اُس عورت کو حضرت خالد بن ولید نے جب زور سے پتھر مارا تو خون کا چھینٹا ان کے چہرے پر آپڑا تو حضرت خالد نے عورت کو برُا بھلا کہا ، جب یہ بات شافع محشر ﷺ تک پہنچی تو فورًا بولے چپ رہو اے خالدؓ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس خاتون کی توبہ ایسی ہے کہ اگر ناجائز ٹیکس وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اس کی بھی مغفرت ہو جاتی، پھر محبوب خدا ﷺ نے خود اُس ایمانی عورت کا جنازہ پڑھایا۔حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا اے اﷲ کے نبی آپ ﷺ اِس پر نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں حالانکہ اِس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا؟ تو نبی رحمتؐ، رحمت دو عالمؐ، ساقی کوثرؐ، سرورکائناتؐ، یتیموں کے آسمان اور نبیوں کے سردار ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اِس عورت نے ایسی خالص اور حقیقی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ستر باشندگان مدینہ پر تقسیم کر دیا جائے تو ان سب کی بخشش ہو جائے کیا تو نے اِس عورت سے بڑھ کر کسی کی توبہ دیکھی ہے جس نے اپنی جان خوشی کے ساتھ اﷲ کے لیے قربان کردی ہو؟‘‘
اتوار، 18 مارچ، 2018
مرد ِکامل
کرہ ارض پر بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دل میں اکثر ایک خواہش مچلتی ہے کہ کاش اُس کو کسی مردِ کامل کی زیارت ہو جائے ‘وہ چندگھڑیاں کسی مردِ کامل کی صحبت میں گزارسکے، اُس کے دل و دماغ اور روح کے عمیق ترین اور بعید ترین گو شوں کی کثافت لطافت میں بدل سکے، اُس کی بے نور آنکھوں کو ایمان کی روشنی نصیب ہوسکے کیونکہ کسی مردِ کامل کی صحبت کی چند گھڑیاں سالوں کی عبادت سے بہتر ہے، یہ خواہش کچے گھروں میں رہنے والوں سے لیکر قصر مر مر میں گداز آرام دہ پلنگوں پر استراحت فرمانے والوں میں ضرور انگڑائی لیتی ہے، یہی خواہش ایک رات خلیفہ ہارون رشید کے دل میں جاگی، خلیفہ ہارون رشید ایک بار حج کیلئے مکہ میں گیا مِنی میں قیام کی پہلی رات تھی تو خلیفہ ہارون نے سوچا دنیا کے کونے کونے سے نیک لوگ حج کرنے کے لیے اِس میدان میں جمع ہیں تو یقینًا اِن میں اﷲ کے بہت سارے نیک اور مردِ کامل بھی ضرور ہونگے۔لہٰذا اِس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور کسی مردِ کامل کی زیارت کی جائے اِس کے لیے خلیفہ ہارون رشید اٹھا اور اپنے وزیر فضل بن ربیع کے خیمے تک گیا اور آواز دی ‘وزیر باہر آیا خلیفہ کو اپنے در پر دیکھا تو ادب سے بولا امیرالمومنین آپ نے میرے خیمے تک آنے کی زحمت کیوں فرمائی، مجھے حکم کرتے میں آپ کے پاس چلا آتا تو ہارون رشید بولا اِس وقت میرے دل میں شدید خواہش جاگی کہ دنیا جہاں کے نیک اور اہل حق یہاں موجود ہیں تو کیوں نہ کسی مردِ کامل کی زیارت کی جائے، لہٰذا تم مجھے کسی مردِ کامل کے پاس لے چلو ‘وزیر نے عرض کی عالی جناب اِس طرف موجودہ دور کے بہت بڑے بزرگ فضیل بن عیاض مقیم ہیں آئیں اُن کی زیارت کرتے ہیں، لہٰذا دونوں فضیل بن عیاض کے خیمے پر پہنچے جو اُس وقت نماز پڑھ رہے تھے ‘جب آپ فارغ ہو گئے تو وزیر نے دستک دی اور بتایا کہ امیرالمومنین تشریف لائے ہیں تو مردِ کامل نے ادائے بے نیازی سے کہا ‘یہاں امیرالمومنین کا کیا کام اُن سے کہو تشریف لے جائیں اور میری عبادت میں مخل نہ ہوں۔وزیر نے کہا سبحان اﷲ کیا صاحب امر (خلیفہ) کی اطاعت آپ پر واجب نہیں؟ تو فضیل نے جواب دیا میری اجازت تو نہیں لیکن ہاں اگرآپ حکومت کے زور پر اندر آنا چاہیں تو آپ کی مرضی ‘ساتھ ہی انہوں نے دروازہ کھول دیا اور چراغ گُل کردیا تاکہ ہارون کا چہرہ نہ دکھائی دے، ہارون اور فضل دونوں خیمے میں داخل ہو گئے اور اندھیرے میں فضیل بن عیاض کو ڈھونڈنے لگے، ہارون کا نرم و نازک ہاتھ فضیل کے ہاتھ سے مس ہوگیا تو انہوں نے فرمایا کیا یہی نرم و نازک ہاتھ کتنا خوش نصیب ہوگا اگر قیامت کے دن جہنم کی آگ سے محفوظ رہا تو خلیفہ بولااﷲ آپ پر رحمت کرے ہمیں کوئی نصیحت کریں تو آپ بولے تیرے باپؓ سرتاج الانبیا کے چچاتھے انہوں نے ایک دفعہ آقائے دوجہاں سے درخواست کی کہ رسول اﷲ مجھے کسی علاقے کی حکومت عطا فرمایے تو حضور ﷺ نے فرمایا اے عباس میں نے تمھیں تمھارے نفس پر امیربنایا ‘ایسا نفس جو اطاعت حق میں مشغول رہے اِس حکومت سے بہتر ہے جس کی ذمہ داریوں کا کوئی شمار نہیں ‘حکومت قیامت کے دن شرمندگی کا باعث ہوگی۔ہارون رشید کچھ اور ارشاد فرمائیے ‘فضیل بن عیاض: امیر المومنین جب عمر بن عبدالعزیز خلافت پر بیٹھے تو انہوں نے رجاء بن حیواۃ، سالم بن عبداﷲ اور محمد بن کعب کو بلا بھیجا اور اُن سے کہا میں آزمائش میں ڈال دیا گیا ہوں مجھے کوئی مشورہ دو، اے ہارون رشید تُو ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو عمر بن عبدالعزیز نے تو خلافت کو آزمائش خیال کیا جبکہ تم اور تمھارے ساتھی اِسے نعمت سمجھ کر اِس پر ٹوٹ پڑے ہیں۔سنو عمر بن عبدالعزیز کو سالم بن عبداﷲ نے کیا کہا تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ روز محشر عذاب الٰہی سے محفوظ رہیں تو مسلمانوں میں جو بڑی عمر کا ہے اُس کو باپ سمجھ جو آپ کی عمر کا ہے اُسے بھائی اور چھوٹا ہے اُس بیٹا سمجھ اِسی طرح عورتوں کو اپنی بیٹیوں، ماؤں اوربہنوں کی طرح سمجھ، رجاء بن حیواۃ نے کہا تھا اگر روز قیامت شرمندہ نہیں ہونا چاہتے تو مسلمانوں کے لیے وہی پسند کیجئے جو اپنے لیے اور جس چیز کو اپنے لیے بُرا سمجھتے ہیں اسے مسلمانوں کے لیے بُرا سمجھئے، اے ہارون رشید میں تمھیں اُس دن کا خوف دلاتا ہوں جب بڑے بڑے قدم ڈگمگا جائیں گے اﷲ تم پر رحم کرے کیا تمھارے ساتھی عمر بن عبدالعزیز کے ساتھیوں کی طرح ہیں ‘یہ سن کر ہارون رشید پر رقت طاری ہو گئی اِس قدر رویا کہ غشی طاری ہو گئی جب ہوش میں آیا تو عرض کی کچھ مزید فرمائیے تو فضیل بن عیاض بولے ‘ہارون رشید تیرے نرم و نازک حسین چہرے کو دیکھ کر ڈرتا ہوں کہ کہیں جہنم کی آگ میں جھلس نہ جائے۔یاد رکھ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ تجھ سے ایک ایک مسلمان کی نسبت سوال کرے گاتو نے انصاف کیا کہ نہیں زندگی اِس طرح گزار کہ تیرے دل میں اپنی رعیت کے بارے میں کوئی کھوٹ اور کینہ نہ ہو کیونکہ محبوب خدا ﷺ کا فرمان ہے جس حاکم نے اِس حالت میں صبح کی کہ اس کے دل میں اپنی رعایا کے خلاف کینہ بھراہوا ہو وہ جنت جانا تو دور کی بات ہے وہ جنت کی بو بھی نہ سونگھ پائے گا، ہارون رشید زاروقطار رونے لگا اُس کی ہچکی بندھ گئی اور وہ چیخیں مار کر رونے لگا تو وزیر نے درخواست کی کہ آپ امیرالمومنین کے حال پر رحم فرمائیں آپ نے تو انہیں مار ہی ڈالا تو آپ نے فرمایا اے ربیع کے بیٹے ہارون رشید کو تم اور تمھارے ساتھیوں نے ہلاک کیا ہے میں نے نہیں، میں تو خلیفہ کی خیر خواہی کر رہاہوں۔وہ آج جتنا روئیں گے کل قیامت کو گریہ زاری سے بچ جائیں گے ایک تم ہو خلیفہ کو یہاں خوش رکھنے کی کوشش کر رہے ہو لیکن کل یوم آخرت کو رنج و الم میں تنہا چھوڑ دوگے، پھر جب ہارون رشید ہوش میں آیا تو عرض کی اگر آپ پر کوئی قرض ہو تو وہ میں خزانہ خلافت سے چکانے کو تیار ہوں آپ نے فرمایا ہاں مجھ پر اﷲ کا قرض ہے مگر اُسے میرے سوا کوئی اور ادا نہیں کرسکتا اور میں ہی کیا کرہ ارض پر موجود ہر انسان اﷲ کے کرموں مہربانیوں اور نعمتوں کا مقروض ہے اور اِس قرض کو صرف عبادت و اطاعت سے ہی چکایا جا سکتا ہے ‘خزانے اور دولت سے نہیں تم بھی قرض کی ادائیگی کی فکر کرو ، قرض بندوں کا ہو یا اﷲ کا وہ کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا، ہارون رشید: میں نے لوگوں کے قرض کی بات کی ہے تو فرمایا: میرے رب نے مجھے اِس کا حکم نہیں دیا اﷲ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے سوا اورکسی غرض کے لیے پیدا نہیں کیا بے شک اﷲ ہی رزاق اور زبردست قوت والا ہے۔ہارون رشید: یہ ایک ہزار دینار کی تھیلی ہے میری والدہ کی میراث ہے اور خالص طیب ہے اِس کو قبول فرمائیے، فضیل: افسوس میری تمام نصیحتیں رائیگاں گئیں اور تم نے اِن کو دل میں جگہ نہ دی یہ مال اُس کو دو جس کو اِس کی ضرورت ہے مجھ پر ظلم نہیں تو کیا ہے میں تجھے نجات دلانا چاہتا ہوں اور تو مجھے ہلاکت میں ڈالنا چاہتا ہے، اِس کے بعد ہارون رشید نے سلام کیا اور خیمے سے باہر آگیا ‘واپسی پر ہارون رشید نے اپنے وزیر سے کہا دیکھا مردِ کامل مردان حق ایسے ہوتے ہیں آئندہ میں جب بھی تم سے کہوں کہ کسی مردِ کامل کے پاس لے چلو تو تم فضیل بن عیاض جیسے مردِ کامل کے پاس لے جایا کرو۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...