میں شدید حیرت اور بے یقینی سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا مجھے اپنی سماعت پر بلکل بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ اُس نے جو کہا وہ سچ ہے مجھے لگ رہا تھا کہ اُس نے مذاق کیا ہے لیکن وہ پہلی بار مجھ سے ملنے آئی تھی اور میری اُس سے فرینک نیس بھی نہیں تھی، میرے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گئے ‘میری تمام حسیات بیدار ہو چکی تھیں ‘میری حیرت آخری حدوں کو چھو رہی تھی ‘اُس کی جرأ ت اور بے باکی نے مجھے ششدر کر کے رکھ دیا تھا‘ میرے سامنے پچیس سالہ خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی ‘وہ پُرسکون اور پراعتماد نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی ‘میں جو زندگی میں ہزاروں لوگوں سے مل چکا ہوں اور روزانہ سینکڑوں لوگوں سے ملتا ہوں لوگوں سے مل مل کر اب میں اگر کسی مختلف مزاج کے انسان سے ملوں تو جلدی ایڈجسٹ کر جاتا ہوں۔لیکن میرے سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی کے منہ سے نکلے ہوئے فقرے اور اعتماد نے میرے اعتماد کو متزلزل کرکے رکھ دیا تھا، میں تھوڑا سا نروس ہو گیا تھا لیکن تھوڑی دیر تک اپنے بکھرے ہوئے اعصاب کو مجتمع کر کے میں دوبارہ بولا کیا کہا مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کرتی ہو تو وہ دوبارہ اتنی اعتماد سے بولی سر میں مُجرا کرتی ہوں میں ڈانسر ہوں اور یہی میرا دھندا ہے، ڈاکٹر یا روحانی معالج سے کچھ بھی نہیں چھپانا چاہیے جب میں ڈانسر ہوں تو بتانے میں کیا حرج ہے میں نے ہمت کر کے اگلا سوال داغا کتنا کما لیتی ہو تو وہ بولی اچھی رات لگ جائے تو لاکھ روپیہ بھی ایک ہی رات میں کما لیتی ہوں میرا تجسس نقطہ عروج پر تھا کہ وہ یہ کام کیوں کرتی ہے اور میرے پاس کس کام کے لیے آئی ہے، میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا اُس کا تعلق ایک چھوٹے شہر سے ہے یہاں میری شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی جو نفسیاتی اور ذہنی مریض تھا، چند دن بعدہی مجھے پتہ چل گیا کہ میری شادی غلط جگہ ہو گئی ہے لیکن اب کیا ہوسکتاتھا باپ بچپن میں ہی فوت ہو گیاتھا ماں کے پاس جا نہیں سکتی تھی، اِس لیے نفسیاتی شوہر کے ساتھ گزارا کرنے کی کوشش کی لیکن میرا شوہر دن بدن ناقابل برداشت ہوتا جارہا تھاپہلے تو وہ ہاتھوں سے مارتا تھا ایک دن اُس نے چھری سے میرے اوپر حملہ کردیا میں نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی اور جیسے ہی میرا خاوند کام پر گیا میں بھاگ کر بیوٹی پارلر چلی گئی اِس شہر میں وہی ہی مجھے جانتی تھی کیونکہ میں اُس کے پاس جاتی تھی۔اُس نے مجھے اپنی جا ننے والی کے پاس بھیج دیا ا ُس کا بھی پارلر تھا لہٰذا میں نے اُس کے پاس نوکری کرلی اور ایک گرلز ہاسٹل میں رہائش اختیار کرلی، پارلر میں بہت زیادہ کام کرنا پڑتاتھا کھڑے کھڑے ٹانگیں شل ہو جاتیں لیکن مجبوری تھی میں جاب کرتی رہی یہاں مجھے نوکری کرتے دوسرا ماہ تھا کہ میری یہاں آنے والی ایک لڑکی سے دوستی ہوگئی بلکہ اُس نے میرے ساتھ دوستی کی، ایک دن وہ مجھے اپنے گھر لے گئی اُس کے گھر پر ڈانس پارٹی تھی یہ تین لڑکیاں تھیں اِن کے دوست جو بعد میں مجھے پتہ چلا اِن کے گاہک تھے وہ پانچ تھے یہ تینوں ڈانس کرتی رہیں اور بندے اِن پر نوٹ وارتے رہے میں حیران پریشان یہ منظر دیکھتی رہی ساری رات ناچ گانے کے بعد وہ لوگ چلے گئے تو انہوں نے پیسے آپس میں بانٹ لیے اب میری دوست نے مجھے کہا تم پارلر سے کتنی تنخواہ لیتی ہو میں نے کہا بارہ ہزار تووہ بولی اِس سے زیادہ تو تم ایک رات میں کما سکتی ہو تم ہو بھی خوبصورت اور نوجوان، چھوڑو پارلر کی مزدوری اور ہمارے ساتھ پارٹیوں پر ڈانس کیا کرو میں اُس کے دلفریب باتوں میں آگئی اور ڈانس شروع کردیا میں دو سال سے یہ کام کررہی ہوں کمائی بہت آسان تھی بعض اوقات تو ایک رات میں لاکھ لاکھ روپیہ کمائی ہو جاتی لہٰذا میں نے چھوٹا سا گھر خرید لیا اور کار بھی لے لی، میں اپنی دنیا میں مست تھی کہ اچانک ایک گاہک ایسا میری زندگی میں آیا جس نے مجھ سے محبت کا دعویٰ کیا میں پہلے تو اُس کو ٹالتی رہی لیکن آہستہ آہستہ میں اُس کی لچھے دار باتوں میں آ گئی اور اُس کی محبت میں گرفتار ہو گئی، جب میں اُس کی محبت میں پوری طرح ڈوب چکی تو اُس نے ٹائم پاس کے بعد اب مجھ سے دور رہنا شروع کردیا جب اُس نے مجھے avoid کرنا شروع کیا تو میری دیوانگی اور بڑھتی گئی۔پھر اُس نے مجھ سے رابطہ ختم کردیا تو میں اُس کی جدائی برداشت نہ کر سکی اور دیوانہ وار بابوں اور عاملوں کے پاس جانا شروع کردیا پچھلے دو ماہ سے میں لاکھوں روپے ضائع کر چکی ہوں لیکن وہ میرے پاس نہ آیا کسی نے آپ کا بتایا تو اب محبوب کی تلاش میں آپ کے پاس آگئی ہوں اِس کے ساتھ ہی اُس نے نوٹوں کی گڈی میری طرف بڑھائی کہ سر آپ یہ رکھ لیں اور میرا کام کردیں میں آپ کو اور پیسے بھی دونگی، جب میں نے اُسے کہا کہ میں تو پیسے لیتا ہی نہیں تو وہ بہت حیران ہوئی کہ پھر آپ یہ کام کس کے لیے کرتے ہیں تو میں بولا اﷲ کے عشق میں کرتا ہوں کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر مجھے راضی کرنا ہے تو میرے بندوں کو راضی کرو، تم بھی دنیاوی عشق چھوڑو اور اُس مالک کائنات سے پیار کرو جو کبھی دھوکا نہیں دیتا بی بی توبہ کر لو توبہ کے بعد اﷲ تعالیٰ تمھارے سارے مسائل حل کرے گا تو وہ بولی سر توبہ سے مسئلے کیسے حل ہونگے کیا مجھ گناہ گار کو اﷲ تعالیٰ معاف کردے گا تو میں نے اُسے کہا کہ انسان گناہ کرتا جائے اور یہ گناہ آسمان تک پہنچ جائیں اور گناہ گار خلوص نیت سے توبہ کرے تو اﷲ تعالیٰ فوری معاف کر دیتا ہے، پھر میں نے اُس کو توبہ کی فضیلت بتانی شروع کردی کہ جب انسان سچی توبہ کرے تو مٹی کو ہاتھ میں پکڑے تو وہ بھی سونا بن جاتی ہے۔حضرت ابراہیم ادھم بلخ کے بادشاہ تھے ایک دن فقیری کے بعد بازار میں لکڑیوں کا گٹھا بیچ رہے تھے کہ اُن کا واقف اُدھر سے گزرا اور پہچان کر بولا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں بادشاہت کا تخت چھوڑ کر یوں لکڑیاں بیچ رہے ہیں تاج و تخت چھوڑ کرآپکو کیا حاصل ہوا ابراہیم ادھم نے گٹھے پر ہاتھ مارا اور کہا کہ دیکھ جب اُس نے دیکھا تو سارا گٹھا سونا بن چکا تھا، فرمایا ملک چھوڑنے پر سب سے کم رتبہ جو ملا وہ یہ ہے میں بہت دیر تک اُسے توبہ کی تلقین کرتا رہا وہ غور سے سنتی رہی پھر میں نے اُسے اسماالحصنٰی پڑھنے کو دیے کہ جاؤ جاکر یہ پڑھو میں دعا بھی کروں گا، اب اُس نے جاکر محبوب کے لیے دن رات عبادت شروع کر دی اِس کے بعد دو بار پھر آئی میں پڑھنے کو بتاتا اور وہ چلی جاتی وہ مجھے بتاتی کہ میرے دل کو اطمینان اور سکون مل گیا ہے پھر ایک دن اُس کا فون آیا کہ سر میں نے ڈانس کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب میں ایک سکول میں جاب کرتی ہوں، پھر اُس کا فون آیا کہ سر میں نے توبہ کر لی ہے آپ میرے لیے دعا کریں۔پھر تقریبًا چھ ماہ کے بعد وہ پھر میرے پاس آئی تو اُس کے ساتھ کوئی نوجوان مرد بھی تھا، اُس کے چہرے پر قوس قزح کے رنگ بکھرے ہوئے تھے اُس نے بتایا سر میں نے توبہ کرلی اور پھر میں محبوب کو بھی بھول گئی تو اچانک یہ 10 دن پہلے دوبارہ میری زندگی میں آیا اور مجھ سے شادی کرلی باقی بات اُس کے میاں نے بتائی سر میں اِس کو چھوڑ کر بھی اِس کی خبر رکھتا تھا جب مجھے پتہ چلا کہ میرے عشق میں یہ دن رات عبادت کرتی ہے اور اِس نے ڈانس بھی چھوڑ دیا ہے تو میں انتظار کرتا رہا کہ اِس کی توبہ سچی ہے کہ جھوٹی جب مجھے یقین ہو گیا تو میں نے آکر اِس سے شادی کرلی۔میں نے اُس سے پو چھا توبہ کے بعد کبھی تمھارے قدم ڈگمگا ئے تو نہیں تم دوبارہ گناہ کی طرف تو نہیں گئی تو وہ بولی توبہ کی جس لذت سے میں آشنا ہوئی ہوں اِس کے بعد میں گناہ یا ڈانس کا سوچ بھی نہیں سکتی، اُس کے چہرے پر نیکی اور شرافت کا نور پھیلا ہوا تھا اور عشق الٰہی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں میں بولا بیٹی تم توبہ کے بعد اُس مقام پر ہو کہ لوگ نہیں جانتے، بیٹی میرے لیے دعا کرو اﷲ تعالیٰ اپنی توبہ کی لذت سے مجھے ہم کنار کردے آمین۔
اتوار، 18 مارچ، 2018
چور و قطب
گناہوں سے پاک اور معصومیت خاصہ پیغمبری ہے، پیغمبروں کے علاوہ کوئی معصوم نہیں ‘دنیا میں آنا اور دوران زندگی کبھی کبھی چھوٹا بڑا گناہ ہونا تقاضہ بشری ہے ‘ہر انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ بہت ساری خوبیوں اور کمزوریوں کا مرقع ہوتا ہے ‘زندگی میں بہت دفعہ ایسی مشکلات یا کمزور لمحات آتے ہیں جب اُس سے غلطی یا گناہ ہو جاتا ہے، فطری طور پر انسان سے گناہ بھی ہوتا ہے اور اُس کا ازالہ بھی ممکن ہے ‘اسلام نے نہ تو انسان کو پیدائشی گناہ گار قرار دیا ہے اور نہ ہی ہمیشہ گناہوں کے ساتھ چپکا رہنے والا قرار دیا ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اِس لیے گناہ کو بشری کمزوری اور گناہوں سے پاک ہونے کی مختلف صورتیں بھی بتادی ہیں۔اسلام میں سزا اور جزا کا تصور بھی اِسی لیے دیا گیا ہے ‘سزاؤں اور دعاؤں کے مختلف طریقے بتائے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر کوئی بھی انسان گناہوں کے بعد نیک اور پاک زندگی گذار سکتا ہے، اِن میں توبہ ایک معروف ذریعہ ہے توبہ کیا ہے سرور کائنات کا ارشاد پاک ہے ’’الندم التوبۃ ‘‘ یعنی ندامت ہی توبہ ہے، گناہ ہو جائے اور پھر گناہ کے بعد شرمندگی اور ندامت نہ ہو تو یہ کسی بھی گناہ گار کے لیے دنیا اور آخرت میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا لیکن اگر گناہ سرزد ہونے کے بعد آدمی کو احساس ندامت ہوجائے ‘اپنی غلطی اور گناہ کا شدت سے احساس ہو تو اِس کا مطلب ہے انسان گناہ کے بارے میں بے باک نہیں بلکہ اُس سے یہ گناہ وقتی فوری منفی جذبے کے تحت ہوا ہے دوسرا اُس کا احساس ندامت اُس لیے حسن نیت کا اشارہ اور اظہار ہے ‘تبھی اُس نے دل میں خلش اور ندامت محسوس کی اور بندہ جب خدا کے سامنے اظہار ندامت کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اُس کی توبہ کو شرف قبولیت بخشا ہے۔تاریخ انسانی کے اوراق ایسے بے شمار واقعات سے چمک رہے ہیں جب کسی نے بہت عرصہ گناہوں اور نافرمانیوں کی بستی میں گزاری اور پھر جب اُس کی زندگی میں لمحہ قبولیت یا لمحہ توبہ آیا تو اُس نے اِس عاجزی اور احساس ندامت کو اتنا پسند کیا گیا کہ وہ پھر اولیا اﷲ میں شامل ہوا اور تاریخ کے سینے پر قیامت تک ثبت ہوگیا، ایسے ہی خوش قسمت ترین انسانوں میں ایک نام فضیل بن عیاض کا بھی ہے فضیل بن عیاض منصب رشد و ہدایت اور مرتبہ ولایت پر فائز ہونے سے پہلے ایک راہزن اور چوتھائی عمر کا زیادہ حصہ چوری راہزنی میں گزرا اِس دوران کئی بار پکڑے بھی گئے مگر اس دھندے سے توبہ نہ کی، لیکن پھر خوش قسمت ترین انسانوں کی زندگی میں وہ لمحہ آتا ہے جب صدیوں کی منزل ایک آہ میں طے ہوجاتی ہے اور انسان چور سے قطب بن جاتا ہے۔ایسا ہی ایک لمحہ فضیل بن عیاض کی زندگی میں بھی آیا جس نے آپ کی گناہ آلود زندگی کو نیکی اور اطاعت الٰہی کی زندگی میں بدل دیا، ایک رات جنگل میں کسی قافلے نے آکر پڑاؤ ڈالااِس قافلے میں ایک شخص قرآن مجید کی اِس آیت مبارکہ کی تلاوت کررہاتھا ’’کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے قلوب اﷲ کے ذکر سے خوف زدہ ہو جائیں‘‘ اِس آیت قرآنی کا فضیل بن عیاض پر اِس قدر اثر ہوا کہ جیسے کسی نے آپ کے دل میں کوئی نشتر اُتار دیا ہو آپ کے دل و دماغ کی دنیا ہی بدل گئی آپ کی آنکھوں سے اشکوں کی برسات جاری ہوگئی، انتہائی رقت آمیز لہجے میں خود سے کہا فضیل تم کب تک یہ چوری راہزانی لوٹ مار جاری رکھوگے ‘اب وہ لمحہ آگیا ہے جب یہ سب گناہ آلود دھندہ چھوڑ کر اﷲ کے بتائے سیدھے راستے پر آجا ‘اِس کے بعد آپ بہت دیر تک اشک ریزی کرتے رہے ‘اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہے اور پھر اُس رات کے بعد عبادت و ریاضت میں پوری یکسوئی کے ساتھ مصروف ہو گئے، عبادت و ریاضت کے لیے ایک ویران ریگستان میں جا پہنچے جہاں ایک قافلہ پڑاو ڈالے ہوئے تھا جب آپ پڑاؤ کے قریب پہنچے تو آپ کے کانوں میں قافلے کے کسی مرد کی آواز پڑی اِس راستے میں ٖفضیل ڈاکے ڈالتا ہے اِس لیے ہمیں اب راستہ تبدیل کر دینا چاہیے ‘فضیل بن عیاض نے یہ سنا تو اُس شخص کے پاس گئے اور کہا لوگوں اب آپ بے فکر ہو جائیں کیونکہ میں نے چوری ڈکیتی سے پکی توبہ کرلی ہے۔پھر آپ اُن تمام لوگوں کے پاس گئے جو آپ کے ہاتھوں لٹ چکے تھے آپ نے سب سے معافی مانگی تمام لوگوں نے معاف کردیا مگر ایک یہودی نے آپ کو معافی دینے سے انکار کر دیا اور شرط لگائی کہ اگر تم سامنے والی پہاڑی کو یہاں سے ہٹا دو تو میں تمھیں معاف کر دوں گا، فضیل بن عیاض نے یہودی کی شرط قبول کرتے ہو ئے جاکر مٹی کو ہٹانا شروع کر دیا کیونکہ فضیل بن عیاض کی معافی اور توبہ بار گاہ الٰہی میں شرف قبولیت پا چکی تھی اور خدا کے برگزیدہ بندوں میں بلند مقام پا چکے تھے اﷲتعالیٰ کی غیبی مدد آئی ‘تیز آندھی چلی کہ دیکھتے دہی یکھتے تمام پہاڑی صفحہ ہستی سے اِس طرح مٹ گئی کہ جیسے وہاں تھی ہی نہیں، یہودی نے جب یہ کرامت دیکھی تو بہت زیادہ متاثر ہو کر آپ کو معاف کردیا اور کہا میں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ جب تک تم میرا لوٹا ہوا مال واپس نہیں کرو گے میں تمھیں معاف نہیں کروں گا لہٰذا اِس وقت میرے تکیے کے نیچے اشرفیوں کی تھیلی رکھی ہوئی ہے آپ وہ اٹھا کر مجھے دیدیں تا کہ میری قسم کا کفارہ ہوسکے، چنانچہ آپ نے یہودی کے تکیے سے تھیلی اٹھا کر اس کے ہاتھ دی تو یہودی نے دوسری شرط پیش کردی کہ پہلے آپ مجھے مسلمان کریں پھر میں آپ کو معاف کروں گا تو آپ نے یہودی کو کلمہ طیبہ پڑھا کر مسلمان کردیا۔یہودی نے مسلمان ہونے کے بعد آپ سے کہا میرے مسلمان ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ تورات میں پڑھا تھا کہ اگر سچے دل سے توبہ کرنے والا خاک کو بھی چھولے تو وہ سونا بن جاتی ہے، لیکن مجھے اِس بات کا یقین نہیں تھا اِس حقیقت کو جاننے کے لیے آج جب کہ میری تھیلی میں مٹی بھری ہوئی تھی لیکن کیونکہ آپ نے سچی توبہ کی ہوئی تھی اِس لیے جب آپ نے مٹی والی تھیلی پکڑ کر مجھے دی تھی تو وہ سونا بن چکی تھی، اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اسلام سچا مذہب ہے یہودی زار و قطار رورہا تھا اور فضیل بن عیاض سے بار بار معافی مانگ رہا تھا ‘یوں فضیل بن عیاض نے ایسی توبہ کی کہ حق پر آنے کے بعد سب سے پہلے ایک یہودی کو مسلمان کر کے اپنے سچے ولی اﷲ ہونے کا ثبوت فراہم کیا، پھر توبہ کے بعد بازار میں کھڑے ہو کر باآواز کہا لوگوں میں نے بہت زیادہ جرائم کئے ہیں ‘میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے مجھے ابھی حاکم کے پاس لے چلو تاکہ وہ مجھے سزا دے سکے، لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیسا شخص ہے جو اپنے گناہوں کا خود اقرارکر رہا ہے ، لوگ آپ کو حاکم کے پاس لے گئے۔لیکن حاکم وقت نے آپ کو باعزت بری کردیا، گھر جا کر بیوی کو آواز دی ‘بیوی نے جلدی سے دروازہ کھولا کہ شاید آپ زخمی ہو گئے ہیں وہ بولی میں تو ڈر گئی تھی کہ آپ زخمی ہیں تو آپ بولے نیک بخت میں قلبی طور پر زخمی ہو گیا ہوں ‘حاکم وقت نے مجھے سزا دینے سے انکار کر دیا ہے ‘اب میں حج پر جانا چاہتا ہوں اگر تم چاہو تو تم کو طلاق دے سکتا ہوں ، تو بیوی بولی تو کیا ہوا میں خادمہ بن کر آپ کی خدمت کروں گی، چنانچہ آپ بیوی کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے اور پھر مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ کی مجاوری اختیار کر لی، اِس طرح آپ حقیقی توبہ اور احساس ندامت سے چور سے قطب کے عظیم مقام پر فائز ہوئے اور قیامت تک خود کو تاریخ کے اوراق میں امر کرلیا۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...