اتوار، 18 مارچ، 2018

روشن لوگ

روشن لوگحضرت نظام الدین اولیاؒ مریدین کے سامنے جلوہ افروز تھے اور روزانہ کی طرح آج بھی آپ کی زبان مبارک سے علم و حکمت اور محبت کے چشمے پھوٹ رہے تھے، ہر دور کے ولی اﷲ کی طرح آپ بھی ہر وقت اپنے مریدین کی کردار سازی پر توجہ دیتے آپ کے دربار میں ہر وقت ہزاروں کا ہجوم دیدار کے لیے بے تاب رہتا ہجوم کو دیکھ کر یوں لگتا کہ دستِ قدرت نے زنجیر پہنا کر لوگوں کو آپ کے آستانہ پر لا کھڑا کیا ہے، مریدین کے چہروں پر عقیدت کا نور اور محبت کا سمندر موجزن نظر آرہاتھا، آج آپ اﷲ تعالیٰ کے نام ’’ستار‘‘ یعنی عیبوں کو چھپانے والا پر روشنی ڈال رہے تھے۔اگر خالق ارض و سما دنیا داروں کی خلوتوں اور راتوں کے راز ظاہر کردے تو بے شمار لوگ اپنے مکروہ کرتوتوں کی وجہ سے منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں لیکن یہ اُس رحیم و کریم کی شان کریمی ہے کہ وہ اپنے بندوں کی حماقتوں ، کوتاہیوں اور گناہوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور خدائے بزرگ و برتر انسانوں سے بھی یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ بھی ایک دوسرے کے عیبوں کو ظاہر کرنے کی بجائے ان پر پردہ ڈالیں تاکہ روز محشر اﷲ تعالیٰ ایسے بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈالے پھر نظام الدین اولیاؒ نے حضرت شیخ عثمانؒ خیرآبادی کی اِسی صفت کے بارے میں بیان شروع کیا جو نہایت پر ہیزگار اور متقی انسان تھے اپنی عبادت ریاضت اور مجاہدوں کو عوام کی نظر سے پوشیدہ رکھتے تھے اور وہ چاہتے بھی یہی تھے کہ ان کے اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان جو عشق کا رشتہ ہے لوگ اُس کے بارے میں نہ جانیں‘حضرت عثمانؒ خیرآبادی غزنی میں قیام پذیر تھے آپ کا کاروبار زندگی سبزیوں کا سالن بنا کر بیچنا تھا، ایک دن آپ کے پاس ایک شخص کھوٹا سکہ لے کر آیا اور کہا کہ مجھے اِس کا سالن دیا جائے ‘حضرت نے کھوٹے سکے کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہ تو کھوٹا سکّہ ہے ‘خریدار کو احساس ہو گیا کہ آپ کو کھوٹے سکے کا پتہ چل گیا ہے اور اب آپ یہ سکہ واپس کردیں گے لیکن خریدار کو اُس وقت شدید حیرت ہوئی جب حضرت صاحب نے اُس کی طرف دیکھے اور احساس جتائے بغیر اُس کو سالن دے دیا، اب خریدار کو یہ لگا کہ آپ کو کھوٹے سکے کی پہچان نہیں ہے لہٰذا وہ چنددن بعد پھر آیا اور چند کھوٹے سکے دے کر اپنی ضرورت کا سامان لے کر چلا گیا پھر یہ بات پورے شہر میں پھیل گئی کہ حضرت عثمانؒ کو کھوٹے کھرے سکوں کی پہچان نہیں ہے ‘اب لوگوں نے ہر دور کی طرح کھوٹے سکے لانے شروع کر دیے۔حضرت شیخ عثمانؒ کھوٹے سکے لیتے رہے یہاں تک کہ اُن کے پاس کھوٹے سکوں کا ڈھیر لگ گیا آپ ساری زندگی کھوٹے سکے لیتے رہے اور جب آخری وقت آیا تو آپ نے بارگاہ الہٰی میں رو رو کر عرض کیا اے بے نیاز مالک تو خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تیرے بندوں کے کھوٹے سکے جانتے ہوئے بھی اِس لیے قبول کرتا رہا کہ وہ میرے سامنے شرمندہ نہ ہوں ، اے رحیم و کریم رب پاک میری عبادات بھی چاہے کھوٹی ہوں، کمزور ہوں، قابل قبول نہ ہوں تو اپنی شان رحمت کے صدقے قبول کر لے انہیں میرے لیے باعث شرمندگی نہ بنانا ‘مجھے شرمندگی سے بچا لینا۔حضرت نظام الدین اولیاؒ پرسُوز لہجے میں بیان فرمارہے تھے آپ مزید بولنا شروع ہوئے کہ حضرت شیخ ؒساری عمر خود کو لوگوں سے چھپاتے رہے لیکن آخری وقت میں آپ کے روحانی تصّرف اور کرامت کا اظہار اِس طرح ہوا کہ ایک دن ایک درویش آپ کی دکان پر آیا اُس کے پاس ایک روٹی تھی حضرت شیخ نے فرمایا کیا چاہیے تو آنے والا درویش بولا میرے پاس صرف روٹی ہے سالن نہیں ہے کیا آپ مجھے سالن دیں گے ‘حضرت شیخ نے شفقت بھرے لہجے میں جواب دیا کیوں نہیں ضرور دوں گا، میرے پاس سالن موجود ہے آنے والے درویش نے کہا میرے پاس سالن خرید نے کے لیے پیسے نہیں ہیں اب آپ سالن قرض دوگے یا مفت؟حضرت شیخ عثمانؒ مسکرائے اور کہا نہ مفت نہ قرض یہ میری طرف سے آپ کے لیے نذر ہے ، درویش نے شکریہ کہا اور غور سے آپ کی طرف دیکھا اورکہا ٹھیک ہے نذر ہی سہی، اب حضرت شیخ عثمانؒ نے دیگ میں کفگیر ڈالا بھرا اور درویش کی طرف بڑھادیا درویش نے سالن دیکھا اور لینے سے انکار کردیا کہ یہ سالن کی بجائے پتھر ہیں جو میں نہیں کھا سکتا، حضرت نے اپنے کفگیر کی طرف دیکھا تو اُس میں موتی بھرے ہوئے تھے آپ نے شرمندگی سے فوراً وہ موتی دیگ میں ڈال دیے اور دوبارہ کفگیر بھرکے درویش کی طرف بڑھادیا تو درویش دیکھ کر پھر بولا آپ پھر مجھے پتھر دے رہے ہیں، اب درویش تھوڑا سا ناراضگی سے بولا میں آپ سے سالن مانگ رہا ہوں تاکہ میں روٹی کھا سکوں جبکہ آپ مجھے بار بار پتھر دے رہے ہیں ‘حضرت شیخ ؒ نے کفگیر کی طرف دیکھا تو اب وہ سونے کے سکوں سے بھرا ہواتھا۔آپ نے شرمندگی اور معذرت سے کفگیر کو دوبارہ دیگ میں ڈالااور کہا میں معذرت کرتا ہوں آپ کو زحمت ہوئی اب جو شیخ ؒنے کفگیر نکالا تو اُس میں آج پکایا ہوا سالن موجود تھا اب درویش نے سالن لیا اور دوکان کے سامنے ہی کھڑے کھڑے روٹی کھا لی اور پھر پانی مانگا، جب حضرت مٹکے سے پانی نکالنے لگے تو درویش نے کہا میں نے تم سے پانی مانگا ہے مجھے پانی ہی دینا اب کہیں پیالے میں ہیرے جواہرات نہ بھر دینا ‘حضرت نے معذرت کرتے ہوئے کہا نہیں اب ایسا نہیں ہوگا، پھر درویش نے پانی پیا اور حضرت شیخ عثمانؒ خیرآبادی کا شکریہ ادا کیا اور غور سے آپ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اب تمھیں اِس دنیا میں نہیں رہنا چاہیے، حضرت شیخ ؒ نے حیرت سے درویش کی طرف دیکھا لیکن درویش بار بار یہی بات دہراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔پھر چند دنوں بعد ہی حضرت شیخ عثمانؒ کا انتقال ہوگیا، آپ کا نورانی جسم پیوندہ خاک اور پاک روح بالائے آسمان چلی گئی، خوش قسمت ہوتے ہیں وہ معاشرے اور کرہ ارض کے گوشے جن پر ایسے روشن لوگ طلوع ہوتے ہیں اپنی زندگی کا وقت پورا کرتے ہیں اُس دور کے زنگ آلود بے نور روحوں کے زنگ کو اپنے کردار اور تعلیمات سے دور کرتے ہیں، اِن کے کردار اور تعلیمات کی روشنی سے بھٹکے ہوؤں کو روشنی اور گناہ گاروں کو ہدایت نصیب ہوتی ہے، خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو اِن کی صحبت میں چند گھڑیاں گزارنے کا موقع ملتا ہے یہ چند لمحات جو اِن کی قربت میں گزرتے ہیں سالوں کی عبادت سے بہتر ہوتے ہیں۔

اﷲ کے بندے

اﷲ کے بندےاپنے وقت کے بہت بڑے ولی اﷲ عبادت کے بعد حالت استغراق میں مراقبہ الٰہی میں دنیا و مافیا سے بے خبر غرق تھے، بزرگ نشے، سرور، وجد اور کیف کی اُس حالت میں تھے کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ تراب نامی شخص کب اُن کو قتل کرنے کی غرض سے اُن کے حجرہ مبارک میں داخل ہوا ہے، تراب نے جب یہ دیکھا کہ بزرگ مراقبہ میں اِس قدر غرق ہیں کہ انہیں اُس کے آنے کی بلکل بھی خبرنہیں ہوئی ‘بدنیت بہت خوش ہوا کہ آج اُس کی دشمنی کی آرزو پوری ہو جائے گی ، آج بزرگ کی جان لینے کا بہترین موقع ہے کیونکہ بزرگ حالت مراقبہ میں تھے اِس لیے اُن کی طرف سے مزاحمت کا بھی خطرہ نہیں تھا، ظالم نے موقع غنیمت جانا اپنا خنجر نکالا اور نیک بزرگ پر حملہ کر دیا۔ظالم نے پوری طاقت سے معصوم فرشتہ صفت بزرگ پر مہلک وار کئے، بزرگ زخموں سے چور ہو کر بے ہوش ہو گئے ‘ظالم سمجھا کہ اُس کا مقصد پورا ہوگیا ہے اِس لیے اب یہاں سے بھاگ جانا چاہیے، لہٰذا وہ باہر کی طرف دوڑا حملے کے دوران اُس کے کپڑے بھی خون آلود ہو چکے تھے گلی میں لوگوں نے جب اُسے خون آلود کپڑوں کے ساتھ بھاگتے ہوئے دیکھا تو اُس کو پکڑ لیا ‘ظالم نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی، لیکن لوگوں نے مل کر اُس کو پکڑ لیا لوگوں کو شک ہورہا تھا کہ یہ کسی کو قتل کرکے بھاگ رہا ہے ‘اب لوگوں نے اُس سے پوچھنا شروع کردیا کہ تم کس کو قتل کرکے بھاگ رہے ہو پہلے تو اُس نے بلکل بھی نہ بتایا لیکن جب لوگوں نے سچ اگلوانے کے لیے اُس کو خوب مارا تو اُس نے سچ اگل دیا کہ میں آپ کے مرشد کریم کو قتل کرکے آرہاہوں۔مریدین پر سکوت مرگ طاری ہو گیا وہ سناٹے میں آگئے، چند لمحوں کے لیے اُن کے دماغ مفلوج ہوگئے درو دیوار پر ماتمی کیفیت طاری ہوگئی لیکن فوراً ہی انہیں احساس ہو اکہ مرشد کریم کے پاس جانا چاہیے، اب چند لوگوں نے ظالم کو پکڑا باقی مرشد کریم کے حجرہ مبارک کی طرف دوڑے حجرہ مبارک کا فرش معصوم بزرگ کے خون سے لال ہو چکا تھا اور بزرگ بے ہوش پڑے تھے خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے ان کی طبعیت بہت تشویشناک تھی ‘فوری اُنہیں طبیب کے پاس لے جایا گیا آپ کو بہت ساری دوائیں دی گیئں لیکن افاقہ نہیں ہورہا تھا، بہت کوششوں کے بعد آپ تھوڑا ہوش میں آئے ‘شدید زخمی دکھ تکلیف اور کرب کے باوجود آپ کے ہونٹوں پر ازلی تبسم نمودار ہوا اور آپ بولے تراب کدھر ہے؟ لوگوں نے پوچھا حضرت آپ کو کیسے پتہ چلا کہ آپ کی جان لینے کی کو شش تراب نے کی ہے، صاحب کشف بزرگ گویا ہوئے بے شک مجھے پتہ ہے میرے اوپر جان لیوا حملہ تراب نے کیا ہے لیکن میں نے اُس کو اِس لیے نہیں روکا کہ ابھی میری موت کا وقت نہیں آیا اور میں اس کے حملے سے مروں گا نہیں۔جب یہ حجرے میں آیا تو مجھے پتہ تھا لیکن میں نے اِس کی دل شکنی نہیں کی اور اِس کو حملہ کرنے دیا، معالج آپ کی نازک حالت سے ڈر رہا تھا اس لیے آپکو بولنے سے منع کیا کہ اِس طرح آپ موت کے منہ میں جا سکتے ہیں‘بولنا آپ کے لیے جان لیوا ہو سکتا ہے تو آپ نے جواب دیا میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ابھی مرنے کا وقت نہیں آیا تو خوف یا ڈر کس بات کا آپ فوری طور پر تراب کو میرے پاس لاؤ، میں اُس سے چند باتیں کرنا چاہتاہوں‘لوگوں نے سمجھا کہ آپ کو تراب پر بہت غصہ ہے اور آپ اُس کو سزا دینا چاہتے ہیں، لہٰذا انھوں نے کہا حضرت آپ مطمئن رہیں وہ کہیں نہیں بھاگا ‘وہ ہماری قید میں ہے جیسے ہی آپ ٹھیک ہوں گے تو اُس کو آپ کے سامنے پیش کر دیا جائیگاآپ جو بھی اُس کو سزا دیں گے اُس پر پورا عمل کیا جائے گا۔اب محترم نے سختی سے کہا تراب میرا مجرم ہے اُس کے بارے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ یا سزا میں ہی دونگا آپ فوراً اُس کو میرے سامنے پیش کرو، لوگوں نے آپ کے حکم کی تکمیل کی اور تراب کو آپ کے سامنے پیش کردیا ‘ظالم تراب بہت پریشان اور خوفزدہ تھا موت اُس کو سامنے نظر آرہی تھی، محترم بزرگ نے شفقت بھرے لہجے میں تراب سے پو چھا اے تراب تو نے مجھ پر کتنے وار کئے ‘تراب کی نظریں شرمندگی اور خوف سے جھکی ہوئی تھیں ‘آپ نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا لیکن تراب چُپ رہا وہ سوچ رہا تھا کہ حضرت یہ سوال اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ میرے جرم کے مطابق سزا کا تعین کریں ‘بزرگ نے پھر اپنا سوال دہرایا تم بتاتے کیوں نہیں کہ تم نے مجھ پر خنجر کے کتنے وار کئے، میں تمھیں سزا نہیں بلکہ انعام دونگا تم بلکل نہ ڈرو اور بتاؤ تم نے مجھ پر کتنے وار کئے ‘تراب کا جسم خوف اور شرمندگی سے کانپ رہا تھا رنگ ایسا کہ کاٹو تو بدن میں خون کا ایک قطرہ نہ ہو۔ آخر تراب نے کانپتے ہونٹوں اور لرزتے جسم کے ساتھ بولنا شروع کیا حضرت آپ کی شہرت اور لوگوں کا آپ سے دیوانہ وار پیار اور عقیدت نے مجھے آپکا حاسد بنا دیا تھا میں سوچتا تھا کہ میں بھی بہت عبادت و ظائف کرتا ہوں لوگ میری عزت کیوں نہیں کرتے میری مقبولیت اتنی کیوں نہیں اِسی جلن اور حسد کی وجہ سے میں نے آپ کی جان لینے کی کوشش کی کہ جب آپ نہیں ہونگے تو لوگ میری طرف رجوع کریں گے میرے مقام کو جانیں گے، بزرگ بولے میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم نے میرے اوپر حملہ کیوں کیا میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم نے میرے اوپر کتنے وار کئے یہ سن کر مجرم حیران ہو کر بولا حضرت میں نے آپ پر11 وار کئے، حضرت نے پوچھا وار آرام سے کئے کہ طاقت اور زور سے ‘تراب حالت شرمندگی کے سمندر میں غرق تھا ‘اشکِ ندامت کی برسات جاری تھی ‘حضور پوری طاقت سے وار کئے تھے ‘حضرت بولے اِس طرح تو تمھارے ہاتھوں اور بازؤوں کو بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔خیر ہم تمھاری اِس تکلیف کا مداوا کرنے کے قابل تو نہیں مگر اِس تکلیف کاصلہ تمھیں ضرور دیں گے، آپ نے اپنے خادم کو حکم دیا جاؤ میرے کمرے سے نئی پوشاک اور اشرفیوں کی تھیلی لے کر آؤ ‘خادم لے آیا تو حضرت نے پوشاک اور اشرفیاں تراب کے حوالے کیں اور کہا اِس وقت میرے پاس یہی تھا اور ہوتا تو وہ بھی دے دیتا، اِس کے بعدخدام کو حکم دیا تراب کو چھوڑ دیا جائے یہ جہاں چاہے چلا جائے اب یہ آزادہے، مجھے اِس سے کوئی گلا نہیں اورنہ ہی میرے دل میں اِس کے لیے کوئی غصہ اور ملال ہے، اخلاق حسنہ ایثار اور عفودر گزر کی عظیم مثال اِن کا نام حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی تھا آپ حسنی سید تھے، ایسے ہوتے ہیں اﷲ کے بندے جن کے قدموں سے اٹھنے والی خاک کے ذرات اگر کسی گناہ گار پر پڑ جائیں تو وہ گناہ گاروں کی لسٹ سے نکل کر اﷲ کے مقرب بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔

loading...