اتوار، 18 مارچ، 2018

نگاہ مرد مومن

نگاہ مرد مومنروزِ اوّل سے اِس کرہ ارض پر دو طرح کے لوگ طلوع اور غروب ہوتے رہے ہیں اور حشر تک یہ سلسلہ اِسی طرح جاری و ساری رہے گا۔ اِن میں ایک وہ جو ’’تاجور‘‘ کہلاتے ہیں اور دوسرے وہ جو ’’دیدہ ور‘‘ ہوتے ہیں، اِن دونوں میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ تاجور صدیوں کے غبار کی نذر ہوجاتے ہیں جبکہ دیدہ ور پیوند خاک ہوکر بھی تاریخ کے سینے پر ثبت ہوجاتے ہیں چشم فلک نے بار بار ایسا منظر دیکھا کہ کبھی جن کے سروں پر ہیرے موتیوں سے دسجے تاج روشن تھے آج اُن کی قبروں کی خاک اُڑ رہی ہے، جو دامن چاک نظر آتے تھے اُن کے نام کی شہرت زمین و آسمان تک پھیلی ہوئی ہے، جو کبھی چوبداروں کے ہجوم میں چلاکرتے تھے آج اُن کا کوئی نام لینے والا نہیں ہے اور جو شہروں بستیوں سے دور جنگلوں، میدانوں اور پہاڑوں میں فرش نشین پڑے رہتے تھے آج دنیا اُن کی نسبت پر فخر محسوس کرتی ہے اور جن کی پیشانی پرنازک سی ایک سلوٹ سے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آجاتا تھا وہ گردش زمانہ کی نذر اِس طرح ہوئے کے تاریخ نے اُن کے ناموں پر گمنامی کا کفن ڈال دیا اور جن کی جبینِ نیاز میں خالق ارض و سماء کی اطاعت و محبت کے سجدے تڑپتے تھے آج اُن کی چوکھٹ پر بادشاہ وقت کُہنیا رگڑ تے نظر آتے ہیں۔اقتدار کی چند ساعتوں پر قابض لوگ صدیوں کے غبار میں کھو گئے اور بوریا نشین تاریخ کے ماتھے پر جھومر بن کر چمک رہے ہیں، تاریخ کی مراد ایسے عظیم لوگ کہ جس وقت کرہ ارض کے کسی گوشے میں جب بھی طلوع ہوئے ہزاروں گناہ گاروں کو صرف ایک نظر سے ہی نیکوکاروں میں شامل کرتے گئے، نگاہ مرد مومن سے انسانی تقدیر کا تبدیل ہوجانا کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ تاریخ انسانی میں ہزاروں ایسے واقعات سے تاریخ کے اوراق روشن ہیں جب کسی مردمومن کی ایک نظر سے گناہ گاروں کی دنیا ہی بدل گئی، ایسے ہی عظیم ترین مرد مومن حضرت خواجہ معین الدین ؒ چشتی اجمیری بھی ہیں برصغیر پاک و ہند کی پوری تاریخ میں غریبوں نادار و بے بسوں سے محبت کرنے والا شاید ہی کوئی دوسرا انسان گزرا ہو۔برصغیر پاک و ہند کی سب سے زیادہ با اثر اورپر کشش شخصیت ، جنہوں نے ہندوستانی تاریخ کا دھارا ہی بدل ڈالا اور خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اپنے ورثے میں کروڑوں مسلمان چھوڑے، آپ سراپا محبت تھے اپنی اِسی ادا کی وجہ سے ہندو مسلم آپ کو ’ ’غریب نواز‘‘ سمجھتے ہیں آپ کی زندگی کرامت مسلسل تھی ایک دفعہ دوران سیاحت آپ سبزوار تشریف لائے ابھی چند دن ہی گزرے ہونگے کہ مقامی باشندوں کی ایک جماعت آپ کی بارگاہ میں حاضرہوئی اور درد ناک لہجے میں اپنی داستان ظلم سنائی۔’’سیرا لعارفین‘‘ میں حامد بن فضل اﷲ نے اِس واقع کو اِسطرح بیان کیا ہے، یہاں کا حکمران یادگار محمد ایک ظالم جابر حکمران تھا، اپنے ظلم و ستم سے لوگوں کی زندگی جہنم بنائی ہوئی تھی معمولی باتوں پر سخت سزائیں دینا اُس کا شیوہ تھا اپنے ظلم و تکبر میں اِس حد تک بڑھ گیا تھا کہ صحابہ کرام سے بغض و عدات رکھتا تھااِن مقدس ہستیوں کی شان میں مسلسل بے ادبی اور گستاخیاں کرتا جن لوگوں کے نام صحابہ کرام کے ناموں پررکھے گئے تھے انہیں مختلف بہانوں سے سخت سزائیں دیتا، اُس نے اپنی عیاشی کے لیے شہر سے باہر ایک باغ بنایا تھا جسے وہ جنت کہتا تھا یہاں شراب کباب اور رقص و سرور کی محفلیں سجاتا خوبصورت عورتیں شراب پلاتیں، ایک دن حضرت خواجہ معین الدینؒ اِس باغ میں داخل ہوئے یادگار کے حوض میں غسل کیا دو رکعت نماز ادا کی اور تلاوت کلام پاک میں مشغول ہوگئے اِسی دوران یادگار کے ملازم کی نظر آپ پر پڑی تو وہ فوری آپ کے پاس آیا اور منت کی کہ آپ یہاں سے چلے جائیں یادگار بہت ظالم ہے اُس نے آپ کو دیکھ لیا تو قیامت ٹوٹ پڑیگی، حضرت غریب نواز ؒ نے اُس کی باتوں پر دھیان نہ دیا اور اُسے کہا تم درخت کے نیچے بیٹھ جاؤ کچھ نہیں ہوتا۔اِسی دوران یاد گار کے کچھ اور ملازم بھی آگئے اُنہوں نے حضرت خواجہؒ سے پوچھنا چا ہا کہ آپ اِس باغ میں کیسے آگئے لیکن آپ کے جلال معرفت کی تاب نہ لاسکے کہ اُن کی زبانیں گنگ ہو گئیں لہٰذا چپ چاپ حوض کے کنارے قالین بچھائے اور اُن پر شراب کے برتن رکھے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعدبد کرداریادگار اپنے مصاحبوں کے ہمراہ باغ میں آپہنچا حضرت خواجہ معین الدینؒ کو دیکھ کراپنے ملازموں پر برس پڑا یہ کون ہیں جو ہمارے عشرت کدے میں داخل ہو گئے ہیں، خوف و دہشت سے ملازموں کے جسم تھر تھر کانپ رہے تھے اُنہیں اپنا بھیانک انجام نظر آرہا تھا ملازموں کی حالت زار دیکھ کر شہنشاہ اجمیر ؒ اٹھے اوریادگار کے سامنے جاکر بولے میں اپنی مرضی سے یہاں آیا ہوں اور مجھے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔تیرے یہ ملازم بے قصور ہیں اِن پر ظلم مت کر ، یادگارکی نظریں جیسے ہی آپ کی پُرجلال نظروں سے ٹکرائیں تو آپ کے جلالِ معرفت کی تاب نہ لاسکا بولنا چاہا لیکن قوت گویائی کھو بیٹھااُس کے ملازم بھی سنگی مجسموں کی طرح بے حس و حرکت کھڑے تھے، اور پھر خواجہ معین الدینؒ نے ایک خاص نگاہ ِ کرم سے یادگار کو دیکھا ایک بجلی چمکی جو یادگار کی روح کے عمیق ترین گوشوں کو منور کر گئی، یادگار تاب نہ لاسکا لڑکھڑایا اور بے جان بت کی طرح زمین پر گر گیا اور بے ہوش ہو گیا یادگار کے بیہوش ہوتے ہی اُس کے ملازموں اور مصاحبوں نے بھی عقیدت و احترام سے اپنے سر جھکا دئیے اب حضرت خواجہؒ نے ملازم سے کہا حوض کا پانی لے کر اِس کے منہ پرچھڑکو آپ کے حکم پر ملازم حرکت میں آیا اور پانی لے کر یادگار کے منہ پر چھڑکنا شروع کیا، حضرت خواجہؒ کے حکم سے پانی کی چند بوندوں کے پڑھنے سے ہی یادگار ہوش میں آگیا۔اُس کا جسم نیم جان ہو چکا تھا اُس نے پوری قوت سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اُٹھ نہ سکا آخر خود کو گھسیٹ کر اپنا سر حضرت خواجہؒ کے قدموں پر رکھ دیا، شہنشاہ ہند کی پرُ جلال آواز گونجی کیا تو اپنے گناہوں، ظلم اورعقائد سے تائب ہوا؟ یادگار کی لرزتی آواز ابھری ہاں سرکار میں اپنی حماقتوں اور عقائد سے تائب ہوا حضرت آپ کی نظر سے میرا سینہ اور روح روشن ہوگئی، خدا کی قسم تمام اصحاب رسول ﷺ میرے لیے بہت قابل احترام ہیں اُن کے قدموں سے لپٹی خاک میری آنکھوں کا سرُمہ ہے یادگار عقیدت بھرے انداز سے صحابہ کرام کی شان اور عظمت کا اعتراف کر رہا تھا، خواجہ غریب نوازؒ آگے بڑھے اُس کی پشت پر اپنا دست شفقت رکھا ظالم یادگار اب لرزتے قدموں سے کھڑا ہوگیاعقیدت سے اُس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، خواجہ غریب نوازؒ نے اُسے حکم دیا وضو کرے دو رکعت نماز ادا کرے یادگار کی دنیا بدل چکی تھی، پھر جب شہنشاہ اجمیرؒ باغ سے رخصت ہونے لگے تو یادگار نے دامن پکڑ کر التجا کی کہ اُسے ہمیشہ کے لیے غلامی کا شرف بخشا جائے حضرت خواجہؒ سرکارنے اُسے بیت کیا ، یادگار کا ہاتھ جیسے ہی خواجہؒ کے ہاتھ میں آیا دنیا ہی بدل گئی ساری دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کردی تو شہنشاہ اجمیرؒ نے حکم دیا یہ ساری دولت اُن لوگوں میں تقسیم کردو جو تیرے ظلم و ستم کا شکار ہوئے یادگار نے کھڑے کھڑے ساری دولت تقسیم کردی، غلاموں،نوکروں اور کنیزوں کو آزاد کردیا، یادگار ساری زندگی آپ کے قدموں میں گزارنا چاہتا تھا مگر حضرت خواجہؒ نے اُسی مقام پر لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے اُسے مقرر کیا اور پھر چشم آسماں نے یہ منظر دیکھا کل تک جو خود گمراہ تھا آج وہی لوگوں کو ہدایت کے لیے بلارہا تھا۔شہنشاہ اجمیرؒ کی ایک نظر نے یادگار کی زندگی بدل ڈالی۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

روشنی کے مینار

روشنی کے مینارروز اول سے اِس دھرتی پر ایک سے بڑھ کر ایک انسان وارد ہوتا رہا ہے ‘زیادہ تر کھایا پیا افزائش نسل کا حصہ بنا اور مٹی کا ڈھیر بن کر مٹی کا حصہ ہو گیا لیکن کروڑوں انسانوں کی اِس بھیڑ میں ہر دور اور ہر خطے میں چند لوگ ایسے بھی طلوع ہوئے جنہوں نے اِس کائنات میں صرف اﷲ کو ہی اپنا محبوب بنایا اُس کی رضا میں خود کو پورا ڈھال لیا اُس کی پسند نا پسند کو خود پر طاری کر لیا ‘عبادت ریاضت اور مجاہدوں سے اُس کا قرب خاص حاصل کیا ‘قطرہ سمندر سے ملا اور پھر یہی انسان روحانی قوتوں کو بیدار کرنے کے بعد مخلوق خدا کی خدمت میں شب و روز مشغول ہوتا گیا ‘یہ انسان عام انسانوں سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں‘ تاریخ کے اوراق ہر دور میں ایسے روشنی کے میناروں سے بھرے پڑے ہیں کہ عقل دنگ اور خوشگوار حیرت میں ڈوب جاتی ہے ۔ایسا ہی ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں، سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ بابا فرید گنج شکرؒ کے عظیم مرید حضرت نظام الدین اولیا ؒروحانی منازل طے کرنے کے بعد مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف تھے ہر طرف آپ کی شہرت اور دربار نظامی کا چرچہ تھا ‘عام آدمی سے لیکر شہنشاہ وقت تک آپ کے دیدار اور حاضری کے لیے تڑپتے رہتے، ہزاروں کا مجمع ہر وقت آپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سراپا انتظارکھڑا رہتا ‘جہاں لاکھوں دلوں پر آپ کی حکومت تھی وہیں پر چند سرکش ایسے بھی تھے جو آپ کی شہرت اور اعلیٰ مقام سے جلتے تھے اور آپ کے خلاف باتیں کرتے تھے ۔انہی میں سے ایک چھجو نامی آدمی بھی تھا، غرور اور تکبر اُس کی ہر ادا سے جھلکتا تھا، بہت زیادہ زبان دراز تھا ‘گالی دئیے بغیر بات نہیں کرتا تھا، وہ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کے بہت زیادہ خلاف اور حاسد تھا ‘بدتمیزی اور خودسری اُس کے مزاج کا حصہ بن چکی تھی جب بھی اُس کے سامنے حضرت نظام الدین اولیا ؒ کا نام آتا تو وہ بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتا اور سرِعام گالیاں بھی دیتا، لوگ اُس سے اکثر پوچھتے کہ تم گالیاں کیوں دیتے ہو تمھاری اُن سے کیا دشمنی ہے اُنہوں نے تمھارا کیا بگاڑا ہے تو وہ اور بھی بے ہودہ گفتگو شروع کردیتا، اُس کا رویہ آپ کے چاہنے والوں کے لیے بہت زیادہ اذیت ناک تھا ‘یہ لوگ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کرچھجوکی بدتمیزی اور گالیوں کا ذکر کرتے اور اجازت مانگتے کہ اگر آپ کہیں تو اسکی زبان بندی کردی جائے۔لیکن درویش وقت نے ہر دور کے درویش کی طرح اعلیٰ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور شفقت بھرے لہجے میں کہتے خدا اُس کا بھلا کرے، جب چھجو کی بدتمیزیاں اور گستاخیاں بہت بڑھ گیئں تو مریدین کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں وہ آپ کو جسمانی نقصان نہ پہنچائے تو مریدوں نے اجازت چاہی کہ اُس کو سختی سے روکا جائے تو حضرت نظام الدین اولیا ؒ ناگواری سے بولے یہ میرا اور اُس کا معاملہ ہے تم درمیان میں بلکل نہ آؤ اور پھر اپنے مریدوں کو احساس دلایا کہ اگر وہ بدتمیز جھگڑالو ہے تو تم بھی اُس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہتے ہو تو اُس میں اور تم میں کیا فرق رہ گیا، چھجو اُسی طرح آپ کی شان میں گستاخیاں کرتا رہا اور آپ آرام سے برداشت کرتے رہے اور پھر ایک دن یہ نافرمان شخص چھجو دنیا سے چلا گیا تو عقیدت مند نے آکر کہا یا حضرت آج وہ برائی کا سرچشمہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا، حضرت نظام الدینؒ یہ سن کر اداس ہو گئے اور پوچھا بتاؤ اُس کو کہاں دفن کیا گیا ہے ‘بتانے والے نے جگہ بتادی تو حضرت نظام الدینؒ خود چل کراُس کی قبر پر گئے اور اُس کے لیے بارگاہ الٰہی میں ہاتھ پھیلا دئیے اور اِس طرح دعا کی اے مالک ارض و سما یہ شخص مجھے برُا کہتا تھا اور میرے لیے بُرے خیالات بھی رکھتا تھا لیکن اِس کے باوجود میں نے اِس کو معاف کیا اے اﷲ تُو بھی اِس کی گستاخیوں کو معاف کرنا اِس نے میرے ساتھ جو بھی بُرا کیا تو اُس کے لیے اِس کو سزا نہ دینا میری وجہ سے تیرے کسی بندے کو تکلیف نہیں ہو نی چاہیے ‘اے اﷲ تو اِس کے تمام گناہ معاف کردے۔یہ ہوتے ہیں ’’اولیاء اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کے دوست یہی وہ لوگ ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی حقیقی اطاعت کر تے ہیں اور اﷲ اِن سے محبت فرماتا ہے، یہ اپنے سے خوش اور خدا ان سے راضی ہوتا ہے یہ اپنے پروردگار کی ہر بات دل و جان سے مانتے ہیں اور پھر وہ ان کی کوئی درخواست رد نہیں کرتا یہ مالک کائنات کے سامنے ہی جھکتے ہیں دنیاوی خداؤں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے اور پھر خالق ارض و سماکائنات کی مخفی قوتوں اور مخلوق کادل ان کی طرف مائل کردیتا ہے، پھر مالک ہواؤں فضاؤں پر اِن کا نام لکھ دیتا ہے پھر ہر طرف اِنہی اولیاء اﷲ کا ڈنکا بجتا ہے یہ وہ مقدس گروہ ہے جسے اولیاء اﷲ کی جماعت کہا جاتا ہے یہ رب ذولجلال کے برگزیدہ اشخاص اور مخلوق کے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی مرضی اور خواہش کو خدا کی مرضی سے ہم آہنگ کر چکے ہوتے ہیں پوری کائنات میں اِن کی ترجیح اول صرف اورصرف خدا کی ذات ہوتی ہے۔جن کا وجود لوگوں کے لیے باعث رحمت ہو، جنہیں دیکھ کر مل کر خداکی یاد آئے ، جن کے پاس چند گھڑیاں گزار کر زندگی کا قرینہ بدل جائے، جن کی صحبت میں بیٹھ کر دنیا کمتر اور دین برتر نظر آئے ، جن کی باتوں سے خوشبو آئے جن کی تعلیمات، وجود ، کردار اورگردوپیش بھی خدا کا انعام لگے ، جن سے مخلوق آزار نہیں آرام پائے، جو خوف خدا کا پیکر اور اطاعت پیغمبر ؐ کا مظہر ہوں، یہ بڑے عجیب اور خاص لوگ ہوتے ہیں خدمت مخلوق کی کرتے ہیں اجرت خدا سے ما نگتے ہیں، قدم فرش پر جماتے ہیں خبر عرش کی لاتے ہیں، ٹاٹ کی گدڑی اِن کا لباس اور گھاس پھوس کی جھونپڑی اِن کا محل ہوتا ہے، یہی وہ لوگ تھے جو خاک بسر رہے لیکن تاریخ میں امر ہو گئے، یہ وہ خاک نشیں تھے جو ہمسایہ جبریل امین بن گئے جن کی کٹیا میں چراغ نہیں تھا ان کی قبر سے آج چشمہ نور اُبلتا ہے، جن کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں ہوتی تھی آج ہزاروں انسان اُن کے آستانوں پر پلتے ہیں، جو لوگ انہیں دھکے دیتے ہیں یہ اُ سے سینے سے لگاتے ہیں، جو انہیں بدعائیں دیتے ہیں یہ ان کی بلائیں لیتیں ہیں، جو انہیں شہر سے نکالتے ہیں یہ انہیں دل میں جگہ دیتے ہیں۔
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

loading...