روزِ اول سے آج تک اور روز محشر تک دنیا میں بے شمار عظیم لوگ اپنے بڑے قد اور لا زوال شہرت کے ساتھ کھڑے ہو ئے نظر آتے ہیں اِن میں حکما ء بھی ہیں اور فلاسفر بھی سلاطین بھی ہیں اور فاتحین بھی ذہین ترین شعراء بھی ہیں اور علما ء بھی اہل زر بھی ہیں اور اصحاب ہُنر بھی لیکن یہ ہر دور میں دیکھا گیا کہ حکماء باریک نقطے تو پیدا کر سکے لیکن زندگی کے اطوار نہ بدل سکے فلاسفر فلسفیانہ مو شگافیوں میں تو الجھے رہے لیکن انسانیت کو ذلت کی پستیوں سے نکالنے کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے بادشاہوں کی شان و شوکت کے ڈنکے تو بجے مگر انسانی عظمت کو بڑے چر کے لگے فاتحین نے ملک تو فتح کئے مگر دلوں کو مفتوح نہ کر سکے علماء فقہی و کلامی مسائل تو حل کر نے میں کامیاب رہے مگر انسان کے حقیقی مسائل تشنہ تکمیل رہے اہل زر خزانوں کے مالک بنے لیکن انسانوں کے محافظ نہ بن سکے اصحاب ہُنر کی ساری کو ششیں اپنی ذات کے لیے ہی تھیں کائنات ان سے استفادہ نہ کر سکی ، روز اول سے زیادہ تر انسان اپنی ذات کے لیے ہی جیتا ہے اپنا وقت پورا کر کے خاک نشین ہو جا تا ہے ۔ انسانوں کی جماعت میں اہل حق ہی وہ لوگ ہیں جو کائنات کے خوبصورت اور سحر انگیز مناظر دیکھ کر خالق کا ئنات کے عشق میں مبتلا ہو کر تلاش حق کے عظیم سفر کو چُن لیتے ہیں تلاش حق کے لیے یہ فُقر کے راستے کا انتخاب کر تے ہیں کائنات کے مقدس ترین اِس گروہ کو کائنات کے چپے چپے پر پھیلے ہو ئے خوبصورت مناظر خالق کی طرف متوجہ کر تے ہیں ۔ دریاؤں سمندروں اور صحراؤں کی وسعت جھومتے ہو ئے باغ لہلہاتے ہو ئے سر سبز کھیت چھٹکی ہو ئی چاندنی مٹی پر بارش کے گرنے کے بعد کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہو ئی روشنی سانولی شام بہار خزاں اور پت جھڑ کا موسم حسین راتیں ۔ رخشندہ سحر خوبصورت پرندوں کی آوازیں پرواز ، سریلے جھرنے پہاڑوں کی بلندیوں سے گرتی آبشاروں کا سحر انگیز منظر ۔ رقص کرتی مو جیں رو پہلی کر نیں۔ گجراتی آنکھیں رشک گلاب چہرے ریشمی مشکیں ذلفیں رعنا قامتیں ۔ سنگ مرمر سے تراشے خوبصورت جسم ، نیم خوابدیدہ کلیاں ۔ نازک ریشمی پھول ، رنگ برنگ تتلیاں ۔ من بھاتے سبزہ زار دیو قامت بڑے بڑے درخت ، چہچہاتے مرغزار ۔ پہلی کرن ڈوبتے سورج کی تھکن کا منظر ۔ بچوں اور بوڑھوں کے چہرے کی معصوم مسکراہٹ ۔ ادھر اُدھر بھاگتے معصوم بچے ۔ آئس کریم کھاتے ہو ئے بچے کی محویت پھلوں کے ذائقے پھولوں کی سحر انگیز خو شبو اور سمندروں کی مخلوق کے دلفریب نظارے ۔ عام لوگ اِن دلفریب نظاروں کو دیکھتے تو ضرور ہیں لیکن اِن مناظر کے خالق کی طرف دھیان نہیں دیتے لیکن ایک گروہ ضرور ایسا ہے جو کا ئنات میں پھیلے ہو ئے ہزاروں دلفریب مناظر کو دیکھ کر خالق ِ کائنات کے عشق میں مبتلا ہو کر راہِ فقر کا انتخاب کر تے ہیں اور پھر تخت و تاج اور خزانوں کو ٹھوکر مار کر تلا ش حق پر نکل پڑتے ہیں تاریخ انسانی کے اوراق ہزاروں ایسے واقعات سے روشن ہیں ایسے ہی لوگوں میں شامل ایک عظیم صوفی حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ تھے شروع میں یہ حلقہ ذہاد میں شامل نہیں تھے اور نہ ہی فقیروں درویشوں کی جماعت میں شامل تھے لیکن پھر اُن کی زندگی میں ایک انقلابی واقعہ رونما ہوا کہ جس نے اُنہیں تخت سلطنت سے اُٹھا کر مسند ِ فقر پر بٹھا دیا بادشاہی میں انہیں شاید وہ شہرت اور عظمت نہ ملتی جو اُنہیں فقیر ی میں ملی فقیری کے بعد انہو ں نے وہ مقام پا یا کہ آج بھی ایک زمانہ اُن کا نام نہایت عزت احترام سے لیتا ہے اگر وہ فقیری کے راستے کو نہ اپناتے تو شاید آج کو ئی اُن کے نام تک سے بھی واقف نہ ہو تا ہوا یوں کہ ایک رات وہ اپنے شاندار ریشمی نر م و گداز بستر پر محو ِ استراحت تھے کہ اچانک اُنہیں کمرے کی چھت پر کسی کے چلنے کی آہٹ محسوس ہو ئی نازک مزاج بادشاہ نے نوکر کو بلا کر پو چھا کہ شاہی محل کی چھت پر رات کے وقت کون گستاخ چل پھر رہا ہے پو رے محل میں کہرام مچ گیا ۔ کیونکہ بادشاہ کی سیکورٹی کا مسئلہ تھا خدام کی دوڑیں لگ گئیں ایک خادم نے چھت پر جا کر دیکھا تو ایک مجذوب نظر آیا اُسے پکڑ کر بادشاہ کے سامنے کھڑا کر دیا گیا بادشاہ غصے سے دہاڑا تم نے یہ کیا حرکت کی ہے تم چھت پر کیسے اور کیوں پہنچے ہو اور یہاں کیا لینے آئے ہو مجذوب نے پریشان ہو ئے بغیر بہت آرام سے جواب دیا بادشاہ سلامت میں چور ڈاکو یا خطرناک آدمی نہیں ہو ں اور نہ ہی میں کسی بُری نیت سے یہاں آیا ہوں ۔ اصل میں میرا اونٹ گم ہو گیا میں صبح سے اُسے ڈھونڈ رہا تھاکہیں نہیں ملا تواس کی تلاش میں یہاں اور آپ کے محل کی چھت پر چلا گیا کہ کہیں میرا اونٹ محل کی چھت پر نہ ہو ۔ بادشاہ کا یہ سننا تھا کہ وہ غصے میں آگ بگولا ہو گیا ۔ کیونکہ اُس کے آرام میں خلل آجانے سے وہ بہت اپ سیٹ ہو چکا تھا پھٹ پڑا اور کہنے لگا او پاگل بڈھے تیرا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا بھلا شاہی محل میں بھی اونٹ تلاش کر تے ہیں یہ پاگلوں والی بات ہے یہ میرا شاہی محل ہے کو ئی جنگل صحرا کھیت کھلیان تو نہیں جہاں تمھارا اونٹ آگیا ہو ۔ بادشاہ غصے سے دہاڑ رہا تھا لیکن مجذوب اطمینان سے کھڑا تھا جب بادشاہ بہت بو ل چکا تو وہ بولا بادشاہ سلامت میں نے سن رکھا ہے کہ آپ خدا رسیدہ بننے اور کہلا نے کا بڑا شوق رکھتے ہیں ۔ اﷲ تعالی آپ کے شوق کو سلامت رکھے مگر حقیقت یہ ہے اگر شاہی محل میں اور اس کی چھت پر اونٹ نہیں مل سکتا تو پھر تخت تاج اور گداز ریشمی مسہریوں پر بھی خدا نہیں مل سکتا ۔خدا کو پانے کے لیے نرم و گدازبستر سے الگ ہو نا پڑتا ہے آرام دہ میٹھی نیند کو رتجگوں میں بدلنا پڑتا ہے عبادت ریاضت مجاہدوں کے بعد اپنے جسم اور روح کو پاک کر نا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر قرب ِخدا حاصل ہوتا ہے یہ بات بادشاہ کے قلب و روح اور باطن کے عمیق ترین گوشوں کو برقی رو کی طرح جلاتی چلی گئی اور اس کے اوسان خطا ہو گئے فوری طور پر اٹھا مجذوب کو عزت و تکریم کے ساتھ رخصت کیا ۔ مجذوب تو چلا گیا لیکن بادشاہ کی روح کو بنیادوں تک ہلا گیا مجذوب کا سوالیہ فقر ہ بار بار اُس کو یا د آرہا تھا ساری رات کر وٹیں بدلتا رہا اور سو چتا رہا کہ یہ سچ ہے کہ یہاں لذت زندگی اور کہاں لطف بندگی ۔ کہاں گہری میٹھی نیند کے مزے اور کہاں رتجگے کہا ں بندگی کے سجدے اور کہاں آرام دہ ریشمی پلنگ قرب الہی اور حقیقی خدا پرستی کے لیے حقیقی عبادت کی ضرورت ہے ۔ ساری رات سوچنے کے بعد حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ نے تخت و تا ج چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اِس ایک واقعے نے بادشاہ کی زندگی کا رخ موڑ دیا پھر وہ تخت ِ شاہی چھوڑ کر مقبو لان ِ بارگا ہ الہی میں شامل ہو گئے ایک بار جو اِس شاہی کو چے سے نکلے تو پھر کبھی مُڑ کر بھی واپس نہ دیکھا ۔بادشاہی چھوڑ کر راہِ فقر کو اپنا یا اور پھر فقر کی تمام منازل طے کر تے چلے گئے بادشاہی تو تاریخ میں کبھی زندہ نہ رہتی لیکن شانِ فقر ملاحظہ ہو کر قیامت تک کے لیے اَمر ہو گئے ۔
اتوار، 18 مارچ، 2018
اولیاء ﷲ
آج کرہ ارض پر اربوں انسان موجود ہیں اِن میں سے اکثریت اپنے مزاج ،فطرت اور ضرورت کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، زیادہ تر کھا یا پیا افزائشِ نسل کا حصہ بنے اور مٹی کا حصہ بن گئے ‘انسانوں کے اِس ہجوم میں ایک خاص طبقہ ’’اولیاء اﷲ‘‘ کا ہوتا ہے یعنی اﷲ کے دوست ‘یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی ترجیح اول اﷲ تعالیٰ ہی ہوتا ہے، یہ لوگ اِس رنگ برنگی کائنات میں صرف اﷲ تعالیٰ کو ہی چنتے ہیں اْس کی ہی اطاعت کرتے ہیں ‘مختلف عبادات،مجاہدات اور تزکیہ نفس کے کھٹن سفر سے گزرنے کے بعد ظاہری اور باطنی پاکیزگی اور طہارت کے بعد خود کو بارگاہ الٰہی میں پیش کرتے ہیں اور پھر مالک کائنات اِن کی محبت و اطاعت سے متاثر ہو کر اِن اولیاء اﷲ سے محبت فرماتا ہے، یہ اﷲ کی عنایات پر خوش اور خدا اِن سے راضی ہو جاتا ہے ‘یہ اپنے خدا کی ہر بات دل و جان سے مانتے ہیں اور پھر انعام کے طور پر خدائے بزرگ و برتر اِن کی کوئی بات نہیں ٹالتا ‘جب خدا اِن سے راضی ہوتا ہے تو وہ ہواؤں،فضاؤں اور کائنات کی مخفی قوتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے اِن بندوں کی اطاعت کرو ‘پھر مخلوق کے قلوب اﷲ تعالیٰ اِن کے سامنے مسخر کر دیتا ہے ۔یہی وہ مقدس گروہ ہے جیسے اولیاء اﷲ کہا جاتا ہے یہ خالق بے نیاز کے برگزیدہ اشخاص اور مخلوق کے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں، دنیا اور دنیاداری کے تقاضوں سے بے نیاز یہ مقدس لوگ زمانے بھر سے نرالے اور الگ ہی نظر آتے ہیں، عام لوگ جن غموں پر ہلکان ہوتے ہیں یہ اُنہی غموں کو سینے سے لگالیتے ہیں ‘زندگی کی آزمائشوں میں جہاں عام لوگ ڈگمگا جاتے ہیں وہاں یہ ثابت قدمی دکھاتے ہیں، یہی وہ مقدس گروہ کے عظیم لوگ جو ساری عمر خاک نشین رہے لیکن تاریخ کے اوراق میں امر ہو گئے ‘جو بے نشان رہے اُن کے آستانے بنے یہی خاک نشین ہمسایہ جبرائیل ؑبنے ‘اِنہی کی جھونپڑیوں میں کبھی چراغ بھی نہ جلتا تھا لیکن اِن کی قبروں سے نور کے چشمے ابلتے ہیں ‘جن کے پاس کبھی دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہوتی تھی آج لاکھوں بھوکے اِن کے نام پر پلتے ہیں، یہی لوگ کبھی ٹھنڈے پانی کے لیے ترستے تھے لیکن آج لاکھوں پیاسوں کی یہ جسمانی اور روحانی پیاس بجھاتے ہیں یہی لوگ جو ساری عمر محروم التفات رہے آج سب کے مرکز توجہات ہیں، دنیا دار اقتدار کے دسترخوانوں کے پیچھے بھاگتے رہے یہ مٹی کے پیالوں پر راضی رہے، دنیا دار ریشمی مسہریوں اورگداز بستروں پر بے خوابی کا شکار رہے اور یہ بسترِ خاک پر میٹھی پر سکون نیندکے مزے لوٹتے رہے، مادیت پرست دولت کے حصول میں سرگرداں رہے لیکن یہ خرقہ فقر پر شاداں رہے۔ سارے زمانے سے الگ اور نرالے یہ لوگ کانٹا کسی کو چبھتا تڑپ یہ اپنے جسم پر محسوس کرتے پیاس کسی کو لگتی ہونٹ اِن کے خشک ہو جاتے، بھوک کسے ہوتی ہوک اِن کے دل سے اُٹھتی ‘بیماری کسی کو جکڑتی بے چینی بے قراری اِن کو ہوتی، مبتلائے درد کوئی ہوتا آہیں اِن کی نکلتیں ‘زندگی کے مسائل کے صحراوں،دلدلوں اور نوکیلی چٹانوں سے گزرتے ہوئے آنکھ کسی کی دکھتی نیند اِن کی اڑتی، گمراہی کے سمندر میں غرق کوئی ہوتا مصروف دعا یہ ہوتے ‘ٹھوکر کسی کو لگتی چوٹ سے زخمی اِن کا دل ہوتا، تکلیف میں کوئی مبتلا ہوتا نبض اِن کی ٹوٹنے لگتی۔جو لوگ اِن کو ٹھکراتے دھکے دیتے یہ انہیں گلے سے لگاتے جو اِن کی بے عزتی کرتے یہ وقت پڑنے پر انہیں اپنے پاس بٹھاتے، جو انہیں ٹھکراتے بد دعائیں دیتے یہ اُن کی بلائیں لیتے جو انہیں ذلیل و رسوا کر کے بستی بدرکرتے یہ انہیں اپنی آنکھوں پر بٹھاتے جو اِن کی عزت کو خراب اور شہرت بگاڑتے یہ ان کی قسمت سنوارنے کی دن رات کو شش کرتے، جو انہیں برا کہتے یہ ان کا بھلا چاہتے جو ان کو دھکے دے کر دور کرتے اِن سے بگڑتے یہ اُن سے جڑتے انسانوں کے ہجوم میں انوکھے نرالے یہ عجیب لوگ خدمت مخلوق کی کرتے اُجرت خدا سے مانگتے۔قدم فرش پر جماتے خبریں عرش کی لاتے،مزاج قلندرانہ دماغ سکندرانہ رکھتے، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو شکر کی ایسی کیفیت کو جانتے ہیں جو نعمتوں کو دوام بخشتی ہے،دوران زندگی بے شمار مشکل مراحل میں بھی اپنے آپ کواﷲ کی اطاعت و خوشنودی کی راہ سے ڈانواں ڈول نہیں ہونے دیتے نسل انسانی کا یہی مقدس گروہ جب انہیں کوئی نعمت دی جاتی ہے تو مالک کے اِس احسان کا شکر ادا کرتے ہیں اور کبھی اگر کوئی آزمائش آتی ہے تو خوشی سے صبر کرتے ہیں، انہی اولیاء اﷲ کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے: حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ وہ سردارالانبیا ﷺ سے روایت کرتے ہیں اور آپ جبرائیل ؑامین سے اور وہ اپنے پروردگار سے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے میرے ولی کی اہانت کی تو اُس نے مجھے جنگ کا چیلنج دیا اور میں کسی چیز کو کرنے والا ہوتا ہوں تردّد نہیں کرتا جیسا کہ مومن کی جان قبض کرنے میں،کہ میں اُس کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتا اور اس سے کوئی چارہ بھی نہیں اور میرے بعض مومن بندے ایک نوع کی عبادت کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اس کو اِس سے روک دیتا ہوں تاکہ اس کے اندر عجب نہ داخل ہو جائے اور وہ اس کو تباہ کردے اور میرے بندے نے میرے فرض کی ادائیگی کے برابر کسی اورچیز سے میرا قرب حاصل نہیں کیا اور ہمیشہ میرا بندہ نفل ادا کرتا رہتا ہے،یہاں تک کے میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور میں جس سے محبت کرتا ہوں تو اس کا کان اور اس کی آنکھ اور اس کا ہاتھ اور اس کا مددگار ہوجاتا ہوں وہ مجھ کو پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کو قبول کرتا ہوں۔وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور وہ میرے ساتھ خلوص اختیار کرتا ہے تو میں اس کا ساتھ خیر کا معاملہ کرتا ہوں اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کو فقرواخلاص ہی درست رکھ سکتا ہے اور اگر میں اس کو کشادگی عطا کردوں تو وہ اس کو تباہ کردے اور میرے بعض بندے ایسے ہیں کہ جس کے ایمان کو غنا اور تونگری ہی درست رکھ سکتاہے اور اگر میں اس کو مفلس کردوں تو وہ اسکو تباہ کردے اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ جن کے ایمان کو بیماری ہی درست رکھ سکتی ہے اور اگر اس کو صحت عطا کردوں تو وہ اس کو تباہ کردے اور بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ جس کو صحت ہی تندرست رکھ سکتی ہے اور اگر میں اس کو بیمار کردوں تو وہ اس کو تباہ کردے میں چونکہ اپنے بندوں کے احوال قلوب کا علم رکھتا ہوں اس لیے اسی کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں یقینا میں علیم اور خبیر ہوں۔عبدالکریم جزری نے اِسی روایت کو مختصراً روایت کیا ہے حضرت انس ؓ فرماتے ہیں جس میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے اولیاء کی مدد کرنے کے لیے سب سے زیادہ جلدی کرتا ہوں میں اُن کے واسطے غضبناک شیر سے بھی زیادہ غضب کرتا ہوں۔ ایک اور خوبصورت ایمان افروز حدیث مبارکہ جس سے اولیاء اﷲ کی عظمت مقام اور شان کا اظہار اِس طرح ہوتا ہے کہ وجد اور ایمان تازہ ہو جاتا ہے: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ محبوب خدارسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ بیشک اﷲ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر اﷲ پر قسم کھا لیں تو اﷲ تعالیٰ اُس کو ضرور پورا کر دے (بخاری،مسلم،ابوداود،نسائی، ابن ماجہ، احمد)۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...