انسانیت ظلم و جبر اور جہالت کے سمندر میں جب غرق ہو گئی تو ہمیشہ کی طرح خالقِ ارض و سماء کو دکھی تڑپتی انسانیت پر ترس آیا اور اپنے محبوب سرتاج الانبیا ء ﷺ کو عرب کی سر زمین پر نجات دہندہ کے طور پر بھیجا ‘سرور کائنات ﷺ کی آمد کے بعد اور آپ ﷺ کے دنیا فانی سے جانے کے بعد آج تک مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت کے لیے دنیا کے کسی بھی خطے کو اپنی برکات سے محروم نہیں رکھا ۔ مسلمان جہاں بھی گئے انسانیت نواز ثقافت اپنے ساتھ لے کر گئے ‘علم انسان سازی اور خدمت خلق اِن کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔ مسلم فاتحین نے جب ہندوستان کا رخ کیا تو اُن کے ساتھ اہلِ ہُنر کے ساتھ صوفیاء کرام بھی آئے ‘صوفیا ء کرام کی مقدس جماعت کے عظیم صوفی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ اِسی سلسلے میں اجمیر شریف وارد ہو ئے ۔ یہ وہ چشمہ معرفت تھا جس سے کروڑوں لوگوں نے اپنی بے نور پیاسی روحوں کی پیاس بجھائی۔ خواجہ معین الدینؒ سے فیض خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ اُن سے بابا فرید گنج شکر ؒ اور پھر بابا فرید ؒ سے یہ فیض حضرت نظام الدین ؒ کو منتقل ہوا آپ ؒ نے اپنے وقت کے فاضل ترین اساتذہ سے حدیث ‘فقہ ‘اصول تفسیر اور علم ہندسہ کی تعلیم حاصل کی اور پھر بابا فرید گنج شکر ؒ سے روحانی تعلیم حاصل کی ‘عوام میں آپ ؒ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ قیامت تک کے لیے محبوب الٰہی قرار پائے ۔ خالق بے نیاز نے آپ ؒ کی عبادت ریاضت اور مجاہدے کے بعد اپنا قرب ِ خاص عطا کیا اور شہرت کا وہ مقام بخشا کہ قیامت تک کے لیے امر ہو گئے ۔ ہزاروں بندگان ِ خدا ہر وقت آپ کے آستانہ عالیہ پر جمع رہتے ‘ہزاروں بھوکے آپ کے لنگر سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ‘آپ ؒ کے لنگر کی یہ خصوصیت تھی کہ غیر مسلموں کے لئے سبزی دال کا لنگر بنایا جا تا ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ ؒ کی شہرت میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا ۔ آپ ؒ کے در پر جو بھی آتا ہر قسم کی ضرورت سے بے نیاز ہو جا تا ۔ دنیاوی مسائل سے ستائے ہو ئے ہزاروں مجبور بے بس لوگ اپنی جھولیا ں پھیلائے آپ ؒ کے در اقدس پرآتے اور اپنی جھولیاں مرادوں سے بھر کو لو ٹتے ۔جب بھی کو ئی پریشان حال شخص سے کو ئی پو چھتا کہ تم کہاں جا رہے ہو تو وہ بے اختیار پکار اٹھتا میں شہنشاہ کے پاس جا رہا ہوں ‘سننے والا دوبارہ پو چھتا بادشاہ علاؤالدین خلجی کے دربار میں جا رہے ہو تو جانے والا کہتا میں کسی بادشاہ کو نہیں جانتا میرے سلطان اور شہنشاہ تو حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی ہیں میں اُن کے دربار جا رہا ہوں ۔ دربار نظامی ؒ کی شہرت چاروں طرف پھیل چکی تھی ۔ یہاں تک کہ عوامی حلقوں میں حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو ہی حقیقی بے تاج بادشاہ کہا جا نے لگا ۔ پھر اِن آوازوں میں اتنی شدت پیدا ہو گئی کہ بادشاہ علاؤالدین خلجی کی سماعت بھی ان سے محفوظ نہ رہ سکی ‘حاسدوں نے بادشاہ سے کہنا شروع کر دیا کہ حضرت نظام الدین ؒ کے ہزاروں مریدین ہیں اور وہ کسی وقت بھی لشکر کا روپ دھار سکتے ہیں اور عوام بھی اصل دربار شاہی اور بادشاہ حضرت نظام الدین ؒ کو سمجھتی ہے ۔ اور اگر بادشاہ نے اس طرف توجہ نہ دی تو کسی دن یہ بوریا نشین تخت ہندوستان کا وارث نہ بن بیٹھے ۔ حاسدوں اور خو شامدوں نے دن رات اِسی حاشیہ برداری سے بادشاہ کے ذہن کو منتشر کر دیا اب وہ بھی پریشان نظر آنے لگا ۔ اب بادشاہ دن رات اِس مسئلے کے بارے میں سوچتا رہتا کہ کس طرح پتہ چلایا جائے کہ حضرت نظام الدین ؒ اولیا اقتدار کی خواہش رکھتے ہیں یا نہیں کئی دن سوچنے کے بعد بادشاہ نے ایک طریقہ نکالا اور بہت چالاکی سے ایک مسودہ مرتب کرایا جس کا مضمون حسب ذیل تھا ۔ سلطان المشائخ پو ری دنیا کے مخدوم ہیں ۔ تمام ہند کے لوگ دنیاوی اور مذہبی معاملات میں آپ ؒ کی طرف رجوع کر تے ہیں ۔ جبکہ اﷲ تعالی نے اِس ملک کی حکومت مجھے بخشی ہے اور عوام کی ذمہ داریاں میرے سپر د ہیں اِس لیے مُجھ پر لازم ہے کہ میں تمام امور میں آپ ؒ سے مشورہ کروں براہِ کرم مجھے تحریر فرما دیجئے کہ میں کس طرح امورِ سلطنت چلاؤں اور کس کام میں میری سلطنت کی بہتری ہے میں آپ ؒ کو یقین دلاتا ہوں کہ پوری کو شش کروں گا کہ آپ ؒ کے حکم کی تعمیل کر سکوں ۔ پھر بادشاہ نے اِس تحریر کو اپنے بیٹے خضرِ خاں کے ہاتھوں حضرت نظام الدین ؒ کے ہاں بھیجا ۔ خضرِخان سلطانی تحریر کے ساتھ نظام الدین ؒ کے درِ اقدس پر حاضر ہو ا ۔ خضرِ خاں شاہی مسودے اور مضمون سے بے خبر تھا ۔ اُس نے جاکر نہایت احترام سے سلطان کا خط حضور ؒ کو پیش کر دیا ۔ محبوب الٰہی نے چند لمحے بند لفافے کو دیکھا اور کھولے پڑھے بغیر ہی بولے ‘بوریا نشین فقیروں کو شہنشاہی کاموں سے کیا غرض ؟ میں ایک خاک نشین فقیر کی حیثیت سے تمھارے شہر میں رہتا ہوں اور پچھلے کئی سالوں سے یہی میرا طر ز زندگی ہے‘ یہاں کے رہنے والوں کے لیے دعائے خیر کر تا ہوں اور میں جب تک زندہ ہوں یہ دعا کر تا رہوں گا اس کے باوجود اگر شہنشاہِ ہند کو میرے یہاں قیام پر اعتراض ہے تو پھر میں اِس شہر کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلا جا تا ہوں کیو نکہ اﷲ کی زمین بہت وسیع ہے ۔ یہ بات کہہ کر خط پڑھے بغیر بادشاہ کے بیٹے کو واپس کر دیا ۔ اور پھر خضرِ خاں نے جاکر اپنے والد کو تمام تفصیلات بتا دیں ۔ بادشاہ حیران تھا کہ محبوب الٰہی نے خط پڑھے بغیر وہی جواب دیا جو خط میں درج تھا بادشاہ بہت زیادہ حیرت میں تھا اور اِس طرح وہ حضرت نظام الدینؒ کے روحانی تصرف اور کشف سے بھی واقف ہو گیا ۔ پھر بادشاہ نے سب کے سامنے اعلان کیا ۔ جو لوگ مجھے حضرت ؒ کے خلاف اکسا رہے تھے وہ ہمیشہ کے لیے اپنی گستاخ زبانیں بند رکھیں کیونکہ وہ تو واقعی بے نیاز مردِ قلندر ہیں ‘جنہیں میری سلطنت سے کوئی غرض نہیں اور اﷲ تعالی کا شکر ادا کیا کہ وہ ایک بڑے گناہ سے بچ گیا ۔ یہ سن کر تمام حاسدوں کے منہ اُتر گئے اور ان کی تمام سازشیں ناکام ہو گئیں ۔ پھر سلطان خلجی نے ایک معذرت نامہ حضرت ؒ کی خدمت میں بھیجا ۔ کہ میں حضور ؒ کا تہہ دل سے معتقد ہوں مجھے میری جرات بے باکی اور گستاخی پر معاف کیا جائے اور یہ اعزاز بھی بخشا جا ئے کہ میں خود حاضر ہو کر قدم بو سی کی عظیم سعادت حاصل کر سکوں جس کے جواب میں بے نیاز مردِ قلندر نے کہا آپ ؒ کو میرے پاس آنے کی کو ئی ضرورت نہیں ہے ۔ میں یہاں آپ کے لیے غائبانہ دعا کر تا رہوں گا کیونکہ غائبانہ دعا میں زیادہ تاثیر ہو تی ہے ۔ ہندوستان کے بادشاہ نے جواب سنا تو بہت اداس ہوا اس کی زندگی میں حضرت محبوب الٰہی واحد بزرگ جو نہ تو اُس کی نظر قبول کر تے تھے اور نہ ہی اپنے پاس آنے کی اجازت دیتے تھے ۔بلاشبہ دنیاوی بادشاہ تو علاؤالدین ہی تھا مگر دلوں اور روحوں کے حکمران تو محبوب الٰہیؒ ہی تھے جن کے دربار میں ہزاروں سوالی اپنی جھولی پھیلائے آتے اور جھولیاں بھر لوٹتے دربارِ نظامی سے کبھی کو ئی خالی ہاتھ نہ گیا ۔
اتوار، 18 مارچ، 2018
سید ہجویر ؒ کی عظمت
صدیوں کے غبار اور رفتار زمانہ نے نہ جانے کتنی تہذیبیں کھنڈر بنا ڈالیں کتنی سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں کتنے نامور خانوادوں کا نام تک نہ رہا کیسے کیسے قد آور نامور گمنام بلکہ بے نام ہو گئے ‘صدیوں کی شان و شوکت لمحوں میں نشان عبرت بن گئی ہمالیہ جیسے قد آور لوگ پیوند خاک ہو گئے گردشِ لیل و نہار نے بڑے بڑوں کے سر چکرا دیے ۔وقت کے بے راس گھوڑے نے ہمالیہ جیسے لوگ راکھ بنا کر اڑا ڈالے ۔ سکندر ۔چنگیز خان اور امیر تیمور جیسے بہادر خشک پتوں کی طرح وقت کی آندھیوں کی نظر ہو گئے ۔ مشرق و مغرب تک پھیلی سلطنت کے مالک جو اپنے نام کے خطبے پڑھواتے تھے اُن کو فاتحہ پڑھنے والا نصیب نہ ہو سکا ۔ کروڑوں دلوں کی دھڑکن شہرت کی چکا چوند میں زندگی بسر کرنے والوں کو بعد از مرگ قبر پر شمع جلانے والا نہ مِل سکا ۔جن کے محلوں اور حویلیوں میں رنگ و نور کی برسات ہو تی تھی جن کے چمن آباد تھے آج اُن کی مٹی برباد ہے جن کے ناموں پر شہر بستے تھے آج اُن کے مقبروں پر ویرانی اور تنہائی برستی ہے ۔
جن کی نوبت کی صدا سے گونجتے تھے آسمان
دم بخود ہیں مقبروں میں ہوں نہ یاں کچھ بھی نہیں
ماضی اور حال کے اربوں انسانوں میں کچھ لوگ اِس کر ہ ارض پر ایسے بھی طلوع ہو ئے جو کبھی سر یر آرائے سلطنت ہو ئے اور نہ وارثان تاج و تخت ٹہرے ‘نہ خود کو سجدے کرا ئے اور نہ ہی عالم پناہ کہلائے ‘نہ ہی کبھی خدائی کا دعویٰ کیا اور نہ ہی کبھی شاہی محل کے جھروکوں میں بیٹھ کر دیدار ِ عام کروایا اور نہ ہی کبھی اپنے نام کا سِکہ جاری کیا ۔ بے شک یہ لوگ سریر آرائے سلطنت نہیں ہو ئے لیکن کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ پر آج بھی حکومت انہی کی ہے تخت و تاج کے وارث تو کبھی نہ بنے مگر عقیدتوں کا خراج آج تک موصول کر رہے ہیں ‘یہی وہ خاک نشین تھے جنہوں نے کبھی ایک نظر بھی شاہی محلات کی طرف نہیں دیکھا لیکن عوام کے حقیقی حکمران آج بھی یہی ہیں یہی لوگ تاریخ کی مراد ہیں تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں جن پر تاریخ ناز کر تی ہے ۔ میں جب بھی کسی اولیاء اﷲ کے بارے میں لکھنے لگتا ہوں تو سوچتا ہوں ایسا زور دار قلم اور انداز تحریر کہاں سے لاؤں کہ اِن کی عظمت کا حقیقی اظہار ہو سکے ‘آج بھی جس عظیم ترین حیران کن اہل حق کا ذکر حاصل محفل ہے اُس کے بارے میں لکھتے وقت بھی الفاظ کہیں کھو جاتے ہیں ۔ جس طرح آپ کسی خوشبو یعنی عطار کی دوکان پر پہنچ کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ کونسی خوشبو خریدیں کیونکہ چار سو خوشبو کے جھونکے آپ کے مشام کو مست اور خوشبو کے سمندر میں عرق کر دیتے ہیں کہ ایک پر دوسرے کو فوقیت دینا اور بے شمار ورائٹی میں سے ایک کا انتخاب کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے اِسی طرح کسی عظیم اور پہلو دار شخصیت پر گفتگو کر نا اورمقالا لکھنا بہت مشکل کام ہو تا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے نامور صوفی بزرگ حضرت سید علی ہجویری ؒ کی شان اور عظمت کے بارے میں لکھنا بھی بہت مشکل کا م ہے آپ ؒ کی تعریف سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے ‘اولیا ء اور صوفیا کی پوری جماعت میں جو شہرت اور محبوبیت سید علی ہجویری ؒ کے حصے میں آئی ہے وہ یقینا کسی اور کا مقدر نہیں بنی ۔ جنہیں صدیوں کی اُلٹ پھیر ابھی تک صفحہ عزت اور لوح شہرت سے محو نہ کر سکی ۔تاریخ جتنی با ربھی نئی کروٹ لے اُس کی ہر کروٹ سے علی ہجویری ؒ کی شخصیت پہلے سے بھی زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے زمانہ چاہے جتنی بار گردش کھائے ہر گردش سے فیض عالم ؒ کی تصویر پہلے سے زیادہ نکھر کر سامنے آتی ہے ۔ وقت چاہے جتنے پہلو بدلے اُس کے ہر پہلو سے سید علی ہجویری ؒ نیا جنم لیتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔ ہر دور میں آپ ؒ کا وجود اہل حق کے لیے چشمہ معرفت اور بادِ بہاری رہا ہے ۔ اپنے مرشد کے حکم پر جب آپ ؒ لا ہور تشریف لا ئے تو اس وقت لاہور صنم کدہ بنا ہوا تھا بت پرستی کا دور دورہ تھا ۔ اُس وقت پنجاب کا حکمران رائے راجو تھا ۔ رائے راجو سفلی عملیات کا ماہر تھا اور بہت ساری شیطانی قوتوں کا مالک تھا اِسی وجہ سے لوگ اِس کو راجو جوگی کے نام سے پکارتے تھے ایک دن سید علی ہجویری ؒ اپنی مسجد کے دروازے پر کھڑے تھے کہ ایک ہندو عورت سر پر دودھ کا مٹکا اٹھا ئے گزری آپ ؒ نے اُسے مخاطب کیا ور کہا کہ تھوڑا سا دودھ ہمیں بھی فروخت کر دو تو عورت بولی ہم یہ دودھ جوگی کو دینے پر مجبور ہیں اگر ہم جوگی کو دودھ نہ دیں تو ہمارے جانوروں کے تھنوں سے دود ھ کی بجائے خون جاری ہو جا تا ہے ‘جوگی اپنے سفلی عملیات میں اتنا ماہر ہے کہ کو ئی بھی اُس کی مخالفت اور انکار کی جرات نہیں کر سکتا ۔ سید علی ہجویری ؒ نے فرمایا اب ایسا نہیں ہو گا تم تجربہ کر کے دیکھو لو اُس کے سفلی عملیات اب تم پر اثر نہیں کریں گے ۔ ہندو عورت علی ہجویری ؒ کی گفتگو اور روحانی شخصیت سے بہت متاثر ہو ئی اور دودھ کا مٹکا آپ ؒ کو فروخت کر دیا ۔ شام کو عورت اور اُس کے قبیلے نے حیرت انگیز منظر دیکھا جب وہ جانوروں کا دودھ دوہنے لگے تو گھر کے سارے برتن دودھ سے بھر گئے لیکن تھنوں میں ابھی بھی دودھ ختم نہیں ہو ا تھا ۔ پھر یہ خبر قرب و جوار میں بھی پھیل گئی ۔ اب غریب لوگوں نے قطار در قطار آپ ؒ کے حضور دودھ دینا شروع کر دیا جب گھر جا کر دوبارہ دود ھ دوہتے تو لگتا جیسے تھنوں سے دودھ کے چشمے اُبل پڑے ہیں آخر لاہور کے تمام گوالوں نے جو گی کو دودھ دینا بند کر دیا ۔ اب رائے جوگی غصے میں پھنکارتا ہوا سید علی ہجویری ؒ کے پاس آیا اور کہا تم نے میرا دودھ بند کرا دیا ہے اب تمھاری خیرنہیں، اب کو ئی کمال دکھاؤ، سید علی ہجویری ؒ نے مسکرا کر کہا میں کو ئی شعبدہ باز جادوگر نہیں کہ تمھیں شعبدے دکھاؤں میں تو اﷲ تعالی کا عاجز بندہ ہوں جو اپنے جسم کی حرکات پر بھی قادر نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ اُسی مالک بے نیاز کے حکم سے ہو رہا ہے جو حقیقی پرستش کے لائق ہے جو اول آخر ظاہر باطن اور واحد ہے ہاں اگر تم کو شوق ہے تو اپنا کو ئی کمال یا جادو دکھا ؤ رائے جو گی کو اپنے جادو اور سفلی قوت پر بہت ناز تھا جب اُس نے سید علی ہجویری ؒ کے سامنے اپنی قوت اور فن کا اظہار کر نا چاہا تو اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اُس کا جسم پتھر کے مجسمے میں تبدیل ہو گیا اور و ہ اپنی تمام منفی قوتوں اور کمالات سے محروم ہو چکا ہے رائے جوگی بڑی دیر تک کو شش کر تا رہا آخر سید علی ہجویری ؒ کے روحانی مقام اور تصرف کو مانتے ہو ئے اپنا سر آپ ؒ کے سامنے زمین پر رکھ دیا اور اپنے اباو اجداد کے مذھب بت پرستی سے تائب ہو کر مسلمان ہو ا ۔ حضرت علی ہجویری ؒ کے دست حق پر بیعت ہو نے والا یہ پہلا مسلمان تھا ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...