اتوار، 18 مارچ، 2018

مرشد کی خوشبو (آخری حصہ )

مرشد کی خوشبو (آخری حصہ )حضرت امیر خسروؒ عالم حیرت اور مسرت میں بار بار ایک ہی فقرہ دہرائے جا رہے تھے ‘بو ئے شیخ می آید ۔۔۔مجھے میرے مرشد شیخ کی خوشبو آرہی ہے وہ بار بار اپنے اطراف کا جائزہ لے رہے تھے اور اُس جگہ کو ڈھونڈ رہے تھے جدھر سے اُنہیں اپنے مرشد کی خوشبو آرہی تھی ۔ امیر خسروؒ کی حالت اور اضطراب دیکھ کر فوجی افسر بھی گھوڑوں سے نیچے اُتر آئے اور آپ ؒ سے پوچھا امیر آپ کیا محسوس کر رہے ہیں تو امیر خسروؒ بولے میں اِس جگہ اپنے مرشد کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں ‘امیر خسروؒ کے لہجے میں حیرت اور خوشی پنہاں تھی لیکن آپ ؒ کے مرشد تو یہاں سے بہت دور غیاث پور میں قیام فرما ہیں ۔میں جانتا ہوں کہ آستانہ مرشد یہاں سے بہت دور ہے لیکن میں اپنے مرشد کی خوشبو کو کروڑوں خوشبوؤں میں سے پہچان سکتا ہوں اُن کی خوشبو نے میرے دل و دماغ کومعطر اور وجدمیں مبتلا کر دیا ہے امیر خسرو ؒ عقیدت و احترام سے بولے ۔ یہ جگہ اور فضا میرے مرشد ؒ کی خوشبو سے مہک رہی ہے لگتا ہے وہ یہیں کہیں رونق افروز ہیں یا یہاں سے گزرے ہیں ۔ آخر امیر خسرو اور فوجی خوشبو کے تعاقب میں اُس سرائے کی طرف بڑھے جہاں مرشد کے جوتے مبارک تھے قریب جا نے پر خوشبو کا احساس اور بھی تیز ہو گیا ۔ مالک سرائے کو بلا کر جب دروازہ کھلوایا گیاتو خو شبو کے معطر جھونکے اور بھی تیز ہو گئے خوشبو نے امیر خسرو ؒ کے مشام ِ جان اور بھی معطر کر دیا دروازہ کھلنے کے بعد امیر خسروؒ تیزی سے اُس گوشے کی طرف بڑھے جہاں مرشد کے نعلین مبارک سے خوشبو کے جھونکے آرہے تھے ۔ آپ نے اُس مہمان کو اٹھا یا اور معذرت کی اور پوچھا کہ آپ کے پاس سے میرے مرشد ؒ کی خوشبو کیوں آرہی ہے ۔ وہ شخص آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور حیرت سے امیر خسرو ؒ کو دیکھ رہا تھا ۔ حضرت امیر خسروؒ نے اپنا مختصر تعارف کرا یا اور کہا کہ میرے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی خوشبو تم سے آرہی ہے جس نے مجھے تمہاری طرف متوجہ کیا ۔ ہاں میں حضرت نظام الدین ؒ سے ہی مل کر آرہا ہوں اب وہ شخص بولا امیر خسروؒ جذباتی ہو کر بولے میرے مرشد کیسے ہیں وہ خیریت سے ہیں ناں ؟ ہاں وہ خیریت سے ہیں لیکن اُنہوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا وہ شخص بو لا ۔ میں نے اُن کی بندہ پروری اور سخاوت کے بہت چرچے سنے تھے اِس لیے اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے اُن کے پاس گیا لیکن آپ ؒ کے شیخ نے اپنے پرانے جوتے میرے حوالے کر دیے اور فرمایا یہ جوتے ہی تمہاری ضرورت پو ری کریں گے ‘کہاں ہیں میرے مرشد کے نعلین پاک امیر خسروکے چہرے پر عشق و محبت کے سینکڑوں چراغ روشن ہو چکے تھے ۔ اُس شخص نے رومال سے نکال کر جوتے امیر خسروؒ کے سامنے رکھ دیے ‘جوتے دیکھ کر امیر خسرو ؒ کے چہرے پر خو شی اور عقیدت کا آبشار اُبل پڑا تھا آپ ؒ بولے اے شخص کیا تُو اِن جوتو ں کو فروخت کر ے گا ۔ امیر خسروؒ اُس شخص کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔جیسے وہ دنیا کے سب سے بڑے خزانے اور قیمتی چیز کو خرید رہے ہوں وہ شخص حیرت اور پریشانی سے بولا پہلے آپ کے مرشد ؒ نے مذاق کیا اب آپ مذاق کر رہے ہیں ۔ نہ وہ مذاق تھا اور نہ یہ مذاق ہے تو نے میرے مرشد کو پہچانا ہی نہیں امیر خسرو ؒ کے لہجے سے عقیدت اور جلال جھلک رہا تھا ۔ جناب آپ اِن جوتو ں کی کیا قیمت دیں گے اُس شخص نے مذاقاً امیر خسرو ؒؒ سے کہا ۔ اِس وقت میرے پاس پانچ لاکھ نقرئی سکے ہیں اگر یہ تھوڑے ہیں تو میرے ساتھ دہلی چلو میں اتنے ہی اور دے سکتا ہوں ‘سید زادے پر سکتا طاری ہو چکا تھا اُس نے جو تے امیر خسرو ؒ کے حوالے کیے اور کہامیرے لیے تو ایک ہزار ہی کافی ہیں آپ خدا کے لئے مکر نہ جانا امیر خسروؒ نے اُس شخص کا ہا تھ پکڑا اور اُس جگہ پر لے آئے جہاں نقرئی سکوں سے گھوڑے لدے ہو ئے تھے ‘آپ ؒ نے اشارے سے کہا یہ تمام سکے اب تمہارے ہیں یہ سن کر وہ شخص پتھر کا مجسمہ بن چکا تھا اُسے اپنی بصارت پر یقین نہیں آرہا تھا ۔جب وہ حیرت کے سمند رسے نکلا تو بولا میں یہ سب مال اپنے گھر کس طرح لے کر جاؤں گا ، کون میری بات کا یقین کر ے گا کہ یہ ساری دولت میری ہے ۔ لوگ یقین نہیں کر یں گے وہ کہیں گے کہ میں نے ڈکیتی یا راہ زنی کی ہے ۔ آپ برائے مہربانی مجھے ایک تحریر لکھ کر دیں آج سے اِس ساری دولت کا مالک میں ہوں ‘حضرت امیر خسروؒ نے فوری طور پر ایک کاغذ منگوایا اور اس پر یہ تحریر کیا کہ میں امیر خسرو ، سلطان علاؤ الدین خلجی کے دئیے ہو ئے انعام کی رقم شخص مذکورہ کو بطور نذر پیش کر رہا ہوں ۔ سید زادہ مطمئن ہو گیا تو امیر خسر و نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس شخص کو بحفاظت اِس کے گھر چھوڑ کر آئیں تاکہ تما م دولت خیریت سے سید زادے کے گھر پہنچ جائے اور پھر اپنی دستار میں مرشد کے جوتے نہایت عزت و احترام سے باندھے اور تیزی سے اپنے مرشد کے آستانہ کی طرح دوڑے اور پھر مرشد خانے پر پہنچے تو دیکھا دربار نظامی اپنے پو رے جو بن پر تھا‘ محبوب الٰہی ہجوم میریداں میں جلوہ افروز ہیں ۔ پھر چشم فلک اور حاضرین نے نہایت حیران کن منظر دیکھا کہ امیر خسرو نے نہا یت عقیدت و احترام سے اپنے ہا تھ اپنے سر پر بلند کئے ہو ئے ہیں ‘محفل درویش پر سناٹا طاری تھا کہ خسرو آج کیا لے کر آئے ہیں ۔ ہر کو ئی اپنے دل و دماغ میں اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا ‘آج خسرو مرشد کے لیے کیا لے کر آئے ہیں جب امیر خسرو مرشد کریم کے قریب پہنچے تو محبوب الٰہی ؒ نے دلنواز تبسم سے خسرو کو دیکھا اور بو لے خسرو کامیابی کا سفر مبارک ہو لیکن تم اپنے مرشد کے لیے کیا تحفہ لائے ہو ۔امیر خسرو ؒ عقیدت سے جھک گئے اور اپنی قیمتی ریشمی دستار میں بندھے نعلین مبارک آپ ؒ کے قدموں میں رکھ دئیے اور بو لے حضور ؒ میں آپ ؒ کی خدمت میں آپ ؒ ہی کی نشانی لا یا ہوں کیو نکہ پو ری دنیا کے خزانے ایک طرف اور آپ ؒ کے جو تے مبارک ایک طرف آپ ؒ ہی کے جو تے مبارک لا یا ہوں‘ دنیا کی کو ئی اور چیز اِن سے قیمتی نہیں ہے یہ کہہ کر امیر خسرو ؒ محبوب الٰہی ؒ کے قدموں سے لپٹ گئے ‘حضرت نظام الدین ؒ دلنواز مسکراہٹ سے بولے خسرو کتنے میں خریدے ؟امیر خسرو شدت جذبات سے روتے ہو ئے بو لے حضور پانچ لا کھ نقرئی سکوں میں ۔ بسیار ارزاں خریدی ( بہت سستے داموں خریدے ) نظام الدین ؒ محبت سے بولے سستے خریدے امیر خسرو ؒ روتے ہوئے کہے جا رہے تھے حضور اس شخص نے اس پر قناعت کی ورنہ اگر وہ اِن جوتوں کے بدلے میری ساری جائیداد اور دولت بھی مانگتا تو میں اُس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا ۔ خسرو اگر تم ایسا کر تے تب بھی یہ سودا بہت سستا تھا محبوب اٰلہی ؒ نے محبت سے فرمایا ۔ خسرو نے گلو گیر لہجے میں کہا حضور یہ سب اِس غلام پر آپ ؒ کی ایک نگاہ کا کرم ہے ورنہ یہ حقیر اِس قابل کہا تھا ۔ امیر خسروؒ اور محبوب الٰہی ؒ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ محبوب الٰہی ؒاکثر فرمایا کر تے تھے کہ قیامت کے دن اگر مجھ سے سوا ل کیا گیا کہ تُو دنیا سے کیا لے کر آیا ہے تو عرض کرو ں گا خسروؒ کے سینے کا سوز کے کر آیا ہو ں ایک بار کہا اگر میری پیشانی پر آرا رکھ دیا جا ئے اور کہا جا ئے کہ خسرو ؒ کو چھوڑ دو تو میں اپنی پیشانی کو چھوڑ دوں گا مگر خسر وؒ کو ہر گز نہ چھوڑوں گا ۔ امیر خسرو ؒ واحد مرید تھے جو جب چاہتے محبوب الٰہی ؒ کے حجرے میں چلے جاتے آپ ؒ حجرے میں جاکر خاموش کھڑے ہو جا تے مرشد حکم دیتے تو اپنا کلام یا کسی کا کلام سنا دیتے اور باتیں کر تے کر تے اگر محبوب الٰہی سو جاتے تو امیر خسرو ؒ مرشد کے پیروں پر سر رکھے رکھے سو جا تے ایک بار کئی دن تک خسرو ؒ کو اذنِ بازیابی نہ ملا بہت اداس اور تڑپے اور پھر جانے کی اجازت ملی اور محبوب الٰہی ؒ نے حجرے میں طلب فرمایا تو شدت ِ جذبات سے رونے لگے محبوب الٰہی ؒ نے رونے کی وجہ پو چھی تو خسرو ؒ پا ؤں سے لپٹ گئے پا ؤں کو بو سے دینے لگے اور عرض کیا ۔ غریب خسرو اِس حسرت میں کئی راتوں سے جاگ رہا ہے کہ کب موقع ملے کہ حضور ؒ کے تلوؤں پر اپنی آنکھیں رکھ کر سوئے ۔

مرشد کی خوشبو (حصہ اول)

مرشد کی خوشبو (حصہ اول)چشمِ فلک روزِ اول سے یہ منظر دیکھتی آرہی ہے کہ جب بادشاہ وقت نے حیرت اور حسرت سے کسی خاک نشین اہل ِ حق کو دیکھا کہ دنیا کے گوشے گوشے سے ہزاروں انسان اپنی آنکھوں اور چہروں پر عقیدت و احترام کے چراغ جلائے غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اِن عقیدت مندوں کی اندھی عقیدت سے یوں محسوس ہو تا کہ جیسے غیر مرئی قوت نے ان کو محبت کی زنجیر سے باندھ کر بوریا نشین کے دربار میں کھڑا کر دیا ہے ‘ہر دور کے صاحب اقتدار کو شدت سے یہی احساس ہوا کہ ظاہری حکومت تو میرے پاس ہے لیکن دلوں کا تاجدار یہی خاک نشین ہے ۔ برصغیر پاک و ہند کی زندہ جاوید ہستی حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کا شمار بھی ایسے ہی عظیم بزرگوں میں ہو تا ہے جب بادشاہ وقت علاؤالدین خلجی حسرت سے آپ ؒ کی شان اور دلوں پر حکمرانی دیکھتا ‘ساری عمر علاؤالدین خلجی کی یہ حسرت ہی رہی کہ وہ خود بھی حضرت نظام الدین ؒ کے دربار میں عقیدت سے حاضری دے لیکن بے نیاز قلندر نے ہر بار انکار کیا ۔ حضرت نظام الدین ؒ کا دربار اور حلقہ اثر بہت وسیع ہو چکا تھا عقیدت مندوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے دس ہزار تک پہنچ گئی ‘رب ذولجلال نے انسانوں کے قلوب مسخر کر دیئے تھے لوگ دیوانہ وار ان دیکھی کشش سے آپ ؒ کے حضور حاضر ہو تے اپنی روحانی اور دنیاوی مشکلات کے حل لے کر واپس جا تے حیرت اِس بات کی تھی کہ دس ہزار عقیدت مندوں کا ہجوم اور اُس وقت لاؤڈ سپیکر بھی ایجا د نہیں ہو ئے تھے لیکن یہ حضرت نظام الدین ؒ اولیاء کا روحانی تصرف تھا کہ آپ ؒ نے درس سے حاضرین پو رے طور پر مستفیض ہو تے ۔ آپ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ دیوانوں کی سماعتوں سے ٹکراتا اور اُن کے قلب اور باطن میں نوربکھیرتا چلا جاتا ۔ عقیدت مندوں کو سردیوں میں تو کوئی مشکل پیش نہ آتی لیکن گرمی کا زمانہ شائقین درس پر بہت بھاری گزرتا ۔ خانقاہ کے سائبان میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ اتنے زیادہ لوگ آسانی سے بیٹھ سکیں ۔ اِسی طرح ایک روز آ پ ؒ جلوہ افروز تھے درس کا سلسلہ جاری تھا آپ ؒ کی زبان مبارک سے علم و حکمت کا آبشار جاری تھا دیوانے اپنی روحانی پیاس بجھا رہے تھے سورج کی تمازت اپنے جوبن پر تھی ۔ لوگ دیوانہ وار آآکر جلتے سورج کے نیچے بیٹھ رہے تھے‘ دلوں کے تاجدار نے یہ منظر دیکھا تو برداشت نہ ہوا درس روک دیا اور مخاطب ہو ئے لوگو ذرا قریب قریب بیٹھو اِس طرح آپ دھوپ میں بیٹھنے والوں کے لیے آسانی اور سایہ فراہم کر نے کی کوشش کر تے پھر بھی لوگ دھوپ میں ہوتے تو انتہائی شفقت اور محبت سے فرماتے ‘پاس پاس ہو جاؤ تاکہ دھوپ والے لوگ بھی سائے میں آسکیں ‘تمھیں نہیں معلوم سورج کے نیچے آپ لوگ بیٹھتے ہو لیکن جلتا میں ہوں یہ ہی حقیقی درویشی اور خدمت خلق چوٹ کسی کو لگتی ہے درد یہ محسوس کرتے ہیں ۔ جو لوگ تصوف اور صوفیوں کا مذاق اڑاتے ہیں تو اِن کے لیے تاریخ کے ہزاروں واقعات گواہ ہیں جب اِن خاک نشینوں نے دکھی لو گوں کے لیے خود زخم کھائے خود بھوکے رہ کر لوگوں کی بھوک کا مداوا بنے ۔ دھوپ میں عقیدت مند لیکن جلن آپ ؒ محسوس کر تے انسانیت نوازی اور محبت کی اِس سے بڑی مثال ہمیں کہیں نظر نہیں آتی‘ حضرت محبوب الٰہی 95سال تک خدمت خلق کرتے رہے ہندوستان میں یہ بات ضرب المثل بن چکی تھی کہ تاج شاہی بظاہر تو علاؤالدین خلجی کے سر پر سایہ فگن ہے لیکن حقیقی بادشاہ تو محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء ؒ ہی ہیں ۔ آپ کے آستانے پر جو بھی ضرورت مند آیا اپنی جھولی بھر کر واپس گیا ۔ آپ کی بندہ پروری کے چرچے چاروں طرف پھیلے ہو ئے تھے ۔ ایک سید زادے کے غربت اور مفلسی جب آخری حدوں کو چھونے لگی تو اُس نے بھر دربار نظامی ؒ میں حاضری دی کئی دن پیدل سفر کے بعد جب یہ مفلس شخص آپؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپؒ اُس وقت درس دے رہے تھے اِس شخص کی حالت ہے ہی بد حالی اور غربت کا اظہار ہو رہا تھا محبوب الٰہی کی نظر جب اِس شکستہ حال شخص پر پڑی تو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا ۔ درس ختم ہونے کے بعد جب سب لوگ چلے گئے تو آپ ؒ نے اُس بد حال پریشان شخص کو محبت و شفقت سے اپنے پاس بلایا اور آنے کا سبب پو چھا ۔ آپ ؒ کی شفقت دیکھ کر آنے والا شخص آبدیدہ ہو گیا اور عرض کی میں ایک سید زادہ ہو ں ساری زندگی غربت میں گزاری ‘ساری زندگی محنت مزدوری سے گزاری کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا مگر اب میری تین بیٹیاں جوان ہو چکی ہیں ۔ میری خاندانی شرافت پر کوئی بھی رشتہ لے کر نہیں آتا لوگ قیمتی جہیز اور فرمائشیں کر تے ہیں میری مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ قیمتی جہیز اور لوگوں کے مطالبات پو رے کر سکوں‘ میں تو دو وقت کی روٹی کا بندوبست بڑی مشکل سے کر تا ہوں آپ ؒ کی بندہ پروری سنی تو آپ ؒ کے در پر جھولی پھیلانے آگیا ۔ آپ ؒ نے اُس کو حوصلا دیا اور کہا میں تو ایک بوریا نشین ادنی انسان ہو ں لیکن مالک بے نیاز نے اپنی رحمت لا زوال کے سائے میں لے رکھا ہے وہ اپنے لا محدود خزانوں سے جو کچھ مجھے عطا کر تا ہے میں ضرورت مندوں میں بانٹ دیتا ہوں ساتھ ہیں محبوب الٰہی نے اپنے خادم خاص خواجہ اقبال کو بلایا کہ آج تمھارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سارے کا سارا لے آؤ خانقاں میں آنے والے تمام تحائف اور نذرات ‘خواجہ اقبال آپ ؒ کا حکم سن کر گیا اور تھوڑی دیر بعد اداس چہرے کے ساتھ واپس آیا اور کہا آج ایک سکہ بھی باقی نہیں بچا تمام پیسے خرچ ہو گئے یا لوگوں کو دے دیئے گئے محبوب الٰہی نے خادم کو حکم دیا اب جو بھی نذر نیاز آئے فوری میرے پاس لا نا ۔ پھر آپ ؒ نے سید زادے کو حوصلہ دیا کہ بہت جلد تمھاری بیٹیوں کی شادیاں ہو جائیں گی آج جو بھی تحائف یا نذر آئے گی وہ آپ کی ہو نگیں جب سے محبوب الٰہی ؒ پر فتوحات کا دروازہ کھلا تھا اس روز سے آج تک روزانہ ہزاروں کی نذر نیاز آتی تھی لیکن آج ایک سکہ بھی نہ آیا ۔ آپ نے مہمان سے معذرت کی اور کہا کل جو بھی نذر نیاز آئے گی آپ کو پیش کر دی جائے گی ۔ لیکن اگلے دن بھی کو ئی نذر نہ آئی اور پھر تیسرا دن بھی اِسی طرح خالی گزر گیا آپ ؒ نے مہمان سے معذرت کی اور کہا جلدی رحمت کو دروازہ کھلے گا اورپھر کہا میرے پاس میری ضروریات میں بہترین اثاثہ میرے جوتے ہی ہیں جو میں آپ کی نذر کر تا ہوں ، کیونکہ میرا لباس اِس قابل نہیں کہ جو آپ کو پیش کیا جاسکے جو تے ہی اچھی حالت میں ہیں جو آپ کو پیش کر سکوں ۔ مہمان نے بے دلی سے جوتے پکڑے رومال میں باندھے اور واپس چل پڑا سارا دن سفر کر تا رہا اور رات کے وقت ایک سرائے میں قیام کیا اور پریشان سوچوں میں ہی سو گیا۔ اِسی دوران محبوب الٰہیؒ کے لاڈلے مرید حضرت امیر خسروؒ کسی جنگی مہم میں کامیابی کے بعد اِس سرائے کے پاس سے گزرے جنگ میں کامیابی پر امیر خسروؒ نے خوبصورت قصیدہ پڑھا تو انعام کے طور پر بادشاہ نے آپ کو پانچ لاکھ نقرنی سکے انعام کے طور پر پیش کئے‘ ان سکوں کے ساتھ امیر خسروؒ واپس اِس سرائے کے پاس سے گزرے جہاں ان کے مرشد کے جوتے مہمان کے رومال میں بندھے ہو ئے تھے ۔ آپ ؒ نے اچانک دوسرے لوگوں کو ٹھہرنے کا حکم دیا اور بار بار ایک ہی فقرہ دہرانے لگے ’’ بوئے شیخ می آید بو ئے شیخ می آید‘‘ یعنی مجھے میرے شیخ کی خوشبو آ رہی ہے۔ 

loading...