اتوار، 18 مارچ، 2018

حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ

حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہروز اول سے آج تک کروڑوں انسان اپنے وقت پر اِس کرہ ارض پر آئے، کھایا پیا افزائش نسل کا حصہ بنے اور مٹی کا ڈھیر بن کے مٹی کا حصہ ہو گئے۔ زیادہ تر کا نام نہ تو تاریخ کے اوراق میں ہے اور نہ ہی لوگوں کے اذھان میں لیکن کچھ انسان اِس دھرتی پر ایسے بھی آئے کہ اُن کا نام قیامت تک کے لئے تاریخ کے سینے پر نقش ہوگیا اور وہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر مثل آفتاب چمک رہے ہیں اُن جیسا نہ کوئی آیا اور نہ ہی کوئی آئے گا۔چودہ صدیاں پہلے ایسا ہی ایک عظیم انسان خطہ عرب میں اِس شان کے ساتھ طلوع ہوا کہ قیامت تک اُن کا کوئی ثانی نہیں ہے ‘یہ سورج قریش کے سردار حضرت عبدالمطلب کے گھر طلوع ہوا ، قریشی سردار کا دسواں اور سب سے چھوٹا بیٹا حضرت عبداﷲ ؓ نورمحمدی ﷺ جو حضرت آدم ؑ کے ماتھے میں رکھا گیا وہ مختلف پیغمبروں اور نیک ترین انسانوں سے ہوتا ہوا آخر حضرت عبداﷲؓ کے ماتھے پر چمکا، آپ نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان ‘سرتاج الانبیا ‘سرور کائنات ‘محبوب خدا کے باپ ہیں جو وجہ تخلیق کائنات ہیں، دنیا کا کوئی باپ آپ سے زیادہ خوش قسمت اور بلند اقبال نہیں ہو سکتا، اول و آخر انبیاء مرسلین اور ان کی اُمتیں جس کے فیض اور ہدایت سے فیض یاب ہیں جو آسمان نبوت و رسالت کے روشن آفتاب ہیں جس کے ظہور کے بعد ہدایت کی روشنی اتنی تیز ہو گئی کہ کائنات کے بعید اور عمیق ترین گوشے بھی چمک اُٹھے اور پھر کسی ہدایت اور روشنی کی ضرورت نہ رہی۔جس نے اپنی نگاہ کرم سے جان بلب تڑپتی انسانیت کو حیات جاوداں عطا کی، اُس عظیم مسیحا کائنات ہستی کے باپ کا نام حضرت عبداﷲؓ ہے آپ حضرت عبدالمطلب کے سب سے لاڈلے اور خوبصورت بیٹے تھے ‘آپ کے والد بزرگوار نے یہ منت مانی تھی کہ جب اُس کے دس بیٹے جوان ہوجائیں گے تو وہ اُن میں سے ایک بیٹے کو راہ خدا میں قربان کر دیں گے اور پھر جب حضرت عبداﷲؓ کی عمر تقریباً بیس سال ہو گئی تو باپ کو اپنی نذر کا خیال آیا تو باپ نے اپنے بیٹوں کو پاس بلایا اور اپنی نذر کا بتایا سب سعادت مند بیٹوں نے احترام سے اپنی گردنیں جھکا دیں اور کہا بابا جان ہم حاضر ہیں آپ جس کی نذر دینا چاہیں دیدیں، طے یہ پایا جس کے نام کی فال نکلے گی اُس کو خدا کی راہ میں قربان کیا جائے گا فال میں نام حضرت عبداﷲؓ کا نکلاجو باپ کے لاڈلے اور سب سے خوبصورت حسین و جمیل تھے لیکن معاملہ عبدالمطلب اور اُس کے خدا کا تھا ‘بوڑھے باپ نے چھری منگوائی اپنی آستینیں چڑھائی اور بیٹے کو ذبح کرنے کی تیاری کی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے مکہ میں پھیل گئی۔اہل مکہ دوڑتے ہوئے آئے اور حضرت عبدالمطلب سے فریادیں کرنے لگے کہ چاند اور پھول جیسے چہرے کو قربان نہ کرو لیکن بوڑھا باپ اپنی نذر پوری کرنے پر تلا ہوا تھا، لیکن جب باقی بیٹوں اور اہل مکہ نے بہت زیادہ التجا ئیں کیں تو بوڑھا باپ نرم ہواآخرحضرت عبداﷲؓ اور دس اونٹوں کا قرعہ ڈالا گیا جب بھی قرعہ ڈالاجاتا نام حضرت عبداﷲؓ کاہی آتاتو دس اونٹ اور بڑھادیے جاتے یہاں تک کے اونٹ بڑھتے بڑھتے سو اونٹ تک پہنچ گئے، اب قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداﷲؓ کی بجائے سو اونٹوں کا نکلا باپ اب بھی ضد پر تھا کہا نہیں تین بار قرعہ اندازی کرو اگر تینوں بارقرعہ اونٹوں کا نکلا تو مانوں گا ورنہ نہیں۔نسل انسانی اور کائنات کی عظیم خوش قسمتی کے تینوں بار قرعہ اونٹوں کے نام نکلا تو باپ نے مانا، دعوت عام دی گئی سو اونٹ ذبح کئے گئے اور اعلان عام کر دیا گیا کہ جو کوئی جتنا چاہے گوشت اٹھالے جائے یہاں تک کہ درندوں اور پرندوں کو بھی نہیں روکا گیا، باپ سو اونٹوں کے بعد بہت خوش تھا کہ اُس کالاڈلا بیٹا بچ گیا اب سر زمین عرب کے سب سے خوبصورت نوجوان حضرت عبداﷲؓ کی شادی کا سوچنا شروع کیا ‘حضرت عبداﷲؓ نور محمدی ﷺ کی وجہ سے کمال حسن و جمال رکھتے تھے اور قصہ ذبح سے اور بھی مشہور ہو گئے تھے، قریش کی عورتیں آپ کے بے مثال حسن و جمال کی وجہ سے آپ پر قربان ہونے کو تیار رہتی تھیں۔حضرت عبداﷲؓ کی نگاہیں شرم سے ہر وقت جھکی رہتیں آپ کے رخ روشن پر شرم و حیا اور شرافت کے انوار برستے رہتے اِن کی وجہ سے آپ کے چہرہ اقدس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے، آپ کو دیکھ کر حضرت یوسف ؑ کی بے مثال خوبصورتی اور حُسن یاد آجاتا مکہ کی نوجوان دوشیزائیں جب آپ کو ایک نظر دیکھ لیتیں تو صبر کا دامن چھوڑ دیتیں جن سے صبر نہ ہوتا وہ آپ کے حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے بے بس ہو کر اپنا حسن و شباب آپ کے قدموں میں ہر وقت نچھاور کرنے کو تیار رہتیں، اپنی بے بسی کا برملا اظہار کر دیتیں مزید براں سو اونٹ کا نذرانہ پیش کرنے کی جسارت بھی کی گئی تھی تا کہ اُن سو اونٹوں کا معاوضہ ہو سکے جو اُن کی جان بچانے کے لیے قربان کیے گئے تھے، لیکن حضرت عبداﷲؓ کے ماتھے پر نور محمدی ﷺ کی خیرہ کن کرنوں کی وجہ سے آپ اُن کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھتے بلکہ ہر بار ایسی دعوت کو بے نیازی سے ٹھکرا دیتے۔آپ کے حسن کے جلوے اتنے زیادہ تھے کہ جس گلی سے بھی گزرتے سینکڑوں دل سینوں میں مچلنے لگتے غزالی آنکھیں قدموں میں بچھ جانے کے لیے بے چین ہو جاتیں عرب کی حسینائیں کھل کر اور چھپ چھپ کر آپ کا نظارہ کرتیں اور ماہی بے آب کی طرح تڑپتیں، علمائے سیرت لکھتے ہیں حضرت عبداﷲؓ کو اپنے زمانے میں عورتوں کی طرف سے مشکل اور صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا جو حضرت یوسف ؑ کواپنے زمانہ میں عزیز مصر کی بیوی کی طرف سے پیش آئے، حضرت عبداﷲؓ قریش میں ایک تابندہ نور تھے اور سب سے زیادہ خوبصورت تھے قریش کی عورتیں ان کی محبت میں اسیر تھیں اور قریب تھا کہ وہ ان کی محبت میں ہوش و حواس کھو بیٹھتیں لیکن قربان جائیں حضرت عبداﷲؓ پر کہ آپ کی نظر ہر وقت جھکی رہتیں اور ہر بار ایسی دعوت کو ٹھکرا کر کہتے میں ایسی بات کو کیسے قبول کر سکتا ہوں جو تم چاہتی ہو۔ کریم ہمیشہ اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہے اور اپنے دین کی۔حضرت عبدالمطلب اپنے خوبرو بیٹے کے لیے ایسی نایاب عورت کی تلاش میں تھے جو شرف نسب و عفت میں ممتاز ہو پھر باپ کی نظر میں ایسی ہی ایک لڑکی آگئی، آپ بنوزہرہ کے سردار وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ کے ہاں گئے وہب کی بیٹی آمنہ زہرہ قریشی نسب و شرف اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں قریش کی تمام عورتوں میں کوئی بھی آپ جیسی حسین و جمیل نہ تھی، حضرت عبدالمطلب نے وہب کو حضرت عبداﷲؓ کی شادی کا پیغام دیا وہب نے حضرت آمنہؓ کارشتہ حضرت عبداﷲؓ کو دینا قبول کیا اور پھر جلد ہی شادی کی شاندار تقریب منعقد ہو گئی اور حضرت آمنہؓ اپنے عظیم سسر اور بے مثال شوہر نامدار کے ساتھ شاندار ازدواجی زندگی بسر کرنے لگیں۔حضرت عبد المطلب کا پیشہ تجارت تھا شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداﷲؓ کو تجارت کے سلسلے میں ملک شام جانا پڑا تجارتی امور نپٹانے کے بعد آپ مکہ واپسی کے لیے سفر پر روانہ ہوئے راستے میں ہی بیمار ہو گئے قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اِس لیے آپ مدینہ میں ہی اپنے ننہال ٹھہر گئے لیکن بیماری میں آفاقہ نہ ہوا ایک ماہ بیمار رہنے کے بعد آپ واصل حق ہو گئے، آپ کی اچانک وفات سے باپ، بھائیوں اور اہل مکہ کو بہت صدمہ ہوا لیکن حضرت آمنہ ؓ پر جو قیامت ٹوٹی اُس کا اندازہ لگانا مشکل تھا آپ نے اپنے خاوند کے انتقال پر قصیدہ کہا جس کا ایک شعر یہ بھی تھا، تر جمہ: اگرچہ موت اور اسکی مشکلات نے اس کو جھپٹ لیاہے لیکن وہ در حقیقت بہت سخی اور بہت رحم والا تھا۔ مسیحائے دو عالم سردار الانبیا ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔علامہ احمد بن ذینی اپنی کتاب اسیرۃ النبویہ میں لکھتے ہیں، حضر ت ابن عباسؓ سے مروی ہے جب حضرت عبداﷲؓ نے وفات پائی تو فرشتوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی اے ہمارے خدا اور ہمارے سردار تیرا نبی یتیم ہو گیا اِس کا باپ نہ رہا اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اِس کے حافظ اور مددگار ہیں ، دوسری روایت میں ہے اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا میں ہی اِس کا دوست ہوں ‘نگہباں ہوں ‘مدد گار ہوں ‘پروردگار ہوں ‘اِس کی مددکرنے والا ہوں ‘اِس کو رزق دینے والا ہوں اور ہر بات میں اِس کے لیے کافی ہوں پس تم اِس پر درود پڑھا کرو اور اِس کے نام سے برکت حاصل کرو۔

واقعہ اصحابِ فیل

واقعہ اصحابِ فیلقبیلہ قریش کے سردار عبدالمطلب اپنی بے مثال میزبانی اور فہم و فراست کی وجہ سے اپنی قوم کی آنکھوں کے تارے تھے ‘آپ عظیم باپ کے بیٹے تھے ‘اﷲ تعالی نے آپ کو دس خوبصورت صحت مند کڑیل جوان بیٹے عطا کئے تھے ۔ ایک دن آپ کعبہ میں حطیم میں تشریف فرما تھے آپ کے دس بیٹے شیروں کی طرح آپ کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ ایک اعرابی وہاں سے گزرا اور یہ خوش گوار منظر دیکھ کر بے ساختہ بولا ۔اﷲ تعالی جب کوئی مملکت بنانا پسند کر تا ہو تو اس کے قیام کے لیے اِس قسم کے جوانمرد پیدا فرما دیاکرتا ہے ۔ اور پھر عبدالمطب کی زندگی میں عظیم واقعہ پیش آیا جب ابراہہ نے خانہ کعبہ پر لشکر کشی کی ۔ ابراہہ نے پہلے خوبصورت عظیم الشان گرجا تعمیر کیا ‘گرجے کو ہیرے جواہرات سے مرصع کیا کہ دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ ہو جاتیں لیکن بیت اﷲ کے شیدائیوں نے گرجے کو ایک نظر بھی اٹھا کر نہ دیکھا ۔ ابراہہ کی خواہش تھی کہ اب لوگ خانہ کعبہ کی بجائے اُس کے بنائے ہو ئے گرجے کی پو جا کریں اب اُس نے کعبہ کی زیارت کو آنے والے قافلوں کو روکنا شروع کر دیا ۔ لیکن اُس کی کو ئی بھی کو شش کا میاب نہ ہو ئی تو نفرت کی آگ میں جل کہا کہ اب میں خانہ کعبہ کو پیوند ِ خاک کر دوں گا (نعوذ باﷲ ) خانہ کعبہ کو گرا دوں گا ۔ یہ خبر پورے عرب میں آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر ابراہہ (حبشی ) والی یمن ایک کو ہ پیکر ہا تھی پر سوار ہو کر اپنے ساتھ ہا تھیوں کا لشکر لے کر مکہ مکرمہ پر چڑھائی کے لیے نکلا ۔ ابراہہ اپنے لشکر کے ساتھ طائف پہنچا ‘یہاں کے باشندوں نے اِس کی اطاعت کی اب ابراہہ وادی مکہ میں آکر ٹھہر گیا اور اپنے سواروں کا ایک دستہ اہل مکہ کی طرف بھیجا تا کہ وہ اہل مکہ کو خو فزدہ کر سکے اِس دستے نے خوب لوٹ ما ر کی لو گوں میں خوف و ہراس پھیلایا ۔ لوگوں کا بہت سارا مال اور جانور لوٹ کر لے گئے ۔اِن میں عبدالمطلب کے سو اونٹ بھی شامل تھے ۔ پھر ابراہہ کا سپاہی حناط صمیری عبدالمطلب کے پاس گیا اور آپ کو لے کر ابراہہ کے پاس حاضر ہوا ابراہہ نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کی بہت تعظیم کی تخت سے نیچے اُتر کر قالین پر بیٹھ گیا اور عبدالمطلب کو بھی اپنے پہلو میں بیٹھا لیا اور پو چھا کیا کام ہے تو عبدالمطلب بولے آپ کے سپاہی میرے اونٹ لے آئے ہیں میں اُنہیں واپس لینے آیا ہوں تو ابراہہ بہت زیا دہ حیران ہوا کہ تمھیں اپنے اونٹوں کی پرواہ ہے لیکن تمھیں خانہ کعبہ کا احساس نہیں ہے جس کو میں گرانے آیا ہوں جو تمھاری اور تمھارے آباؤاجداد کی عبادت گا ہ ہے تمھیں اُس کی کو ئی پریشانی نہیں ہے تو فہم و فراست کے مالک جناب عبدالمطلب نے کہا میں اپنے اونٹوں کا مالک ہو ں اور میں اُنہیں ہی لینے آیا ہوں اور جس گھر کو تم گرانے آئے ہو اس کا بھی ایک مالک ہے اور وہ خود اُس کی حفاظت کر ے گا تو حبشی ابراہہ غرور سے بولا اب میرے شر سے کو ئی بھی کعبہ کو نہیں بچا سکتا میں کعبے کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا تو عبدالمطلب بو لے تُو جان اور کعبے کا مالک جانے ۔اِس کے بعد عبدالمطلب واپس مکہ گئے اور قریش کو سارے حالات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ابراہہ کے پاس ہزاروں کا لشکر ہے جس کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے لہذا اب بہتر یہی ہے کہ آپ تما م لو گ مکہ سے نکل جائیں ‘پہاڑوں غاروں اور بلند جگہوں پر چلے جا ئیں تاکہ اُس کے عذاب سے محفوظ رہ سکیں ۔ اور پھر اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ آئے اور غلا ف کعبہ پکڑ کر مالک دو جہاں خالقِ ارض و سما سے دعا کر نے لگے ابراہہ اور اُس کے لشکر پر فتح کی دعا کر نے لگے ۔ اے اﷲ بندہ بھی اپنے کجاوے کی حفاظت کر تا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما ایسا نہ ہو کہ اِن کی صلیب کل تیرے گھر پر غالب آجا ئے اور نصب کر دی جا ئے اور اگر تو ان کو اور ہما رے قبیلہ کو آزاد چھوڑنے والا ہے تو جس طرح تیری مرضی ہو تو اِس طرح کر، اور پھر علا مہ علی قاری کے بقول جب قریش حرم سے نکل گئے اور اصحابہ فیل نے حملہ کیا تو حضرت عبدالمطب نے کہا بخدا اﷲ کے حرم سے ہر گز نہیں نکلوں گا تاکہ اس کے علاوہ کسی اور کے پا س عزت تلا ش کروں میں تو اﷲ تعالی کے بدلے میں اور کسی چیز کا متمنی نہیں ہوں اور جب ابراہہ فوج اور ہا تھیوں کو روانہ کر نے کا حکم دیا تو جب ہا تھی کا منہ مکہ کی طرف کر تے وہ بیٹھ جا تا اور جب اُس کا منہ کسی اور جانب کر تے تو وہ تیزی سے بھا گنا شروع کر دیتا جب مکہ کی طرف منہ کر تے وہ بیٹھ جا تا ہا تھی کو بہت ما را گیا وہ زخمی ہو گیا لیکن اُس نے مکہ کی طرف بڑھنے سے انکار کر دیا ۔ اِسی دوران سمندر کی طرف سے اﷲ تعالی نے ابا بیلوں کے غول کے غول بھیجے جن کے منہ میں کنکریاں تھیں ایک منہ میں اور دو کنکریاں پنجوں میں ابراہہ کے لشکر پر آکر کنکریوں کی بارش شرو ع کر دی کنکری کا سائز چنے اور مسور کے دانوں برابر تھا جس کے سر پر پڑتی اُس کے فولادی خول کو چیرتی ہو ئی اُس کے جسم سے پا ر ہو جاتی لشکر میں بھگڈر مچ گئی اُن کو واپسی کا راستہ نہیں مل رہا تھا ‘خدا کا ہو لناک عذاب جا ری تھا ‘ابراہہ کے ہا تھی اور لشکری بر باد ہو ئے ‘ابراہہ واپسی کی طرف بھا گا اُس کی حالت بہت خراب تھی‘ خطرناک بیماری کا شکا ر ہوا ‘اُس کا جسم گلنے لگا ‘جسم میں پیپ پڑھ گئی جس سے غضب کی بُو آتی آخر میں اُس کا جسم پرندے کے چوزے جیسا ہو گیا ‘آخر میں سینہ پھٹا دل نکلا اور وہ بھی پھٹ گیا وہ اِس طرح وہ اذیت ناک موت کا شکار ہوا۔ یہ وا قعہ سر تاج الانبیا ء نبی کریم ﷺ کی پیدائش سے پچاس یا پچپن دن پہلے ماہ محرم میں پیش آیا اِس واقعے کی وجہ سے دنیا کی نگاہیں خا نہ کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئیں ‘اقوام عالم کو شدت سے اندازہ ہو گیا یا قدرت کی طرف سے واضح پیغام دیا گیا کہ قیامت تک کے لیے اﷲ تعالی نے اِس گھر کو عزت و احترام کے لیے چُن لیا ہے لہذا آئندہ اِس شہر سے کسی انسان کا دعویٰ نبوت اﷲ کی مرضی کے عین مطابق ہو گا ۔قصہ اصحاب فیل میں ایک یہ بھی اشارہ تھا کہ اگر ابراہہ کا لشکر غالب آجا تا تو سرور کائنات ﷺ کی قوم کو قید کر لیا جاتا اور وہ غلام بنا لیے جا تے اور سر تاج الانبیا ﷺ پر حمل و طفولیت کی حالت میں غلامی کا دھبہ لگ جا تا ‘اﷲ تعالی نے کعبہ شریف کی عظمت اور حرمت کو قائم رکھا اور یہ واقعہ دو جہاں ﷺ کی نبوت کا پیش خیمہ تھا کیونکہ آپ ﷺ کے دین میں اِسی کعبہ کی تعظیم حج اور نماز کا حکم ہوا ۔ ابراہہ اور اُس کے لشکر کی تبا ہی اقوام عالم کے لیے واضح اشارہ تھا کہ صدیوں کے انتظار کے بعد اب سسکتی تڑپتی انسانیت جو ظلم و جبر اور جہالت کے سمند ر میں غرق تھی اُس کا مسیحا اب اِس شہر سے طلوع ہو گا جو قیا مت تک آنے والے مجبوروں بے بسوں کا والی ہو گا ‘بے آسروں کا آسمان ہو گا ‘نسل ِ انسانی کے سب سے بڑے انسان ‘نبیوں کے سردار اور خدا کے محبوب ‘وجہ تخلیق کائنات کا ظہو ر اب اِسی شہر سے ہو گا اور پھر یہ شہر قیا مت تک اربوں انسانوں کی عبادت گا ہ ہو گا ۔

loading...