اتوار، 18 مارچ، 2018

چمکا آمنہ ؓ کا چاند

چمکا آمنہ ؓ کا چاندربیع الاول کے لغوی معنی پہلی بہار کے ہیں اِس ماہ کو تاریخ ِ انسانی میں خاص مقام حاصل ہے اِسی مہینے میں محسن انسانیت سرورِ دو عالم محبوب خدا ﷺ کی ولادت با سعادت ہو ئی ربیع الاول ہجری سال کا اہم سنگِ میل اور تاریخ عالم میں نمایاں اور کلیدی مقام رکھتا ہے یہ وہ با برکت اور بہار آفرین مہینہ ہے جس کی آمد سے چمنستان دہر کی مرجھائی ہو ئی کلیاں کھل اُٹھیں خزاں رسیدہ گلستان سر سبز ، شاداب ہو گئے ۔اِسی ماہ میں نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان جن پر انسانیت کو فخر ہے صدیوں سے دکھی تڑپتی سسکتی انسانیت جس مسیحا اعظم کے انتظار میں تھی وہ چاند اِسی ماہ حضرت آمنہ ؓ کے آنگن میں اِس شان اور تابناکی سے چمکا کہ کرہ ارض کا چپہ چپہ تو حید کے نور سے جگمگا اُٹھا ماہ ربیع الاول کو جو غیر معمولی تقدس عظمت اور شان ملی ہے اُس کی وجہ فخرِ دو عالم ، شافع محشر سرور کا ئنات سرور دو جہاں حادی عالم ، ساقی کو ثر ، سرور کونین ، فخرِ مو جودات صاحبِ لو ح و قلم نیرِ اعظم سیدِ عرب و عجم صبح درخشاں شاہِ امم محبوب رب العالمین سید المرسلین سرتاج الانبیاء بشیر و نذیر سراج منیر امام الانبیاء آفتاب دو عالم ﷺ کا اِس ماہ میں حضرت آمنہ ؓ کے آنگن میں چاند بن کر طلوع ہو نا ہے ایسا چاند جو پہلے دن سے آج تک اور روزِ محشر تک غروب نہ ہو گا۔ جس کی چمک کو کبھی بھی اندیشہ زوال نہیں وہ عظیم مسیحا کہ جس کے قدموں سے اٹھنے والی خاک کے ذرے جس پر پڑ گئے وہ قیامت تک امر ہو گئے اِس ماہ سرور دو عالم ﷺ کا صرف ظہور ِ قدسی نہیں ہوا بلکہ عالم نو طلوع ہوا تاریخ عالم نے نئے سفر کا آغا ز کیا اِسی ماہ میں حضرت آمنہ ؓ نے سعادت مند بیٹے کو جنم ہی نہیں دیا بلکہ ماد ر گیتی نے تاریخ ساز اور بے مثال انقلاب کو جنم دیا ۔ حضرت آمنہ ؓ شادی کے بعد جب کا شانہ اقدس حضرت عبداﷲ ؓ اپنے خاوند کے رونق افروز ہوئیں تو نو ر محمدی ؐ حضرت عبداﷲ ؓ کی جبیں سعادت سے حضرت آمنہ ؓ کے شکم ظاہر میں ظہور پذیر ہوا ۔ یہاں بھی نور محمدی ؐ کے جلوے نرالے تھے ۔ حضرت آمنہ ؓ فرماتی مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں حاملہ ہو گئی نہ مجھے بوجھ کا احساس ہوا ۔ جو اِن حالات میں دوسری عورتوں کو محسوس ہو تا ہے مجھے صرف اتنا معلوم ہوا کہ ایام ماہواری بند ہو گئے ہیں ۔ ایک روز میں خواب اور بیداری کے بین بین تھی کہ کو ئی آنے والا میرے پاس آیا اور پو چھا تجھے علم ہے کہ تو حاملہ ہے ؟ میں نے جواب دیا نہیں پھر اس نے بتایا تم حاملہ ہو اور تیرے بطن میں امت کا سردار اور نبی تشریف فرما ہوا ہے اور جس دن یہ واقعہ پیش آیا وہ سوموار کا دن تھا ۔ آپ ؓ فرماتی ہیں کہ حمل کے ایام بڑے آرام سے گزرے جب وقت پورا ہو گیا تو وہی فرشتہ جس نے مجھے پہلے خو شخبری دی تھی وہ آیا اور آکر مجھے کہا ترجمہ : یہ کہو میں اﷲ واحد کی اِس کے لیے ہر حاسد کے شر سے پناہ مانگتی ہو ں ۔ اور پھر دو شنبہ کا دن اور صبح صادق کی ضیا بار گھڑی تھی سیا ہ رات کی سیاہی چھٹ رہی تھی دن کا اجالا پھیل رہا تھا جب آفتاب عالم سرور دو عالم مالک ِ دو جہاں آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت با سعادت سے کائنات کے بے نو ر گو شے چمک اُٹھے آپ ﷺ کی ولادت سے ابدی مسرتوں کا نو رچمکا صدیوں کی کثافت لطافت میں بدلی ایمان اور رشد و ہدایت کی ایسی بہار کا آغاز ہوا جس کو کبھی خزاں نہیں ایسی بہار جو ظلم و جبر اور جہالت کے اندھیروں میں غرق انسانیت کو حیات ِ جاودانی عطا کر گئی ۔ بقول میاں محبوب احمد اِس کائنات رنگ و بو میں بہت ساری بہاریں مہکیں اور خزاں کا شکار ہو گئیں بہت سے سورج ابھرے اور فنا کے گھاٹ اُتر گئے بہت سے چاند چمکے اور پھر گہن گئے بہت سے پھول کھلے اور مرجھا گئے ہاں ایک بہار ایسی کہ جسے جان ِ بہاران کہیئے خزاں اُس کے کبھی قریب نہ آسکی ایک سراج ِ منیر ﷺ ایسا کہ غروب کی سیاہیاں اس سے آنکھیں نہ ملا سکیں ۔طلعت و زیبا ئی کا ایسا پیکر کہ کو ئی دھند اس کے جلوؤں کو گہنا نہ سکی ایسا رشک ِ گلستان کہ جس کے تلوؤں کو چوم لینے کا شرف رکھنے والی پیشانیاں بھی مرجھانے سے محفوظ رہیں وہ جان بہاراں سراج ِ منیر بدر فلک ِ رسالت فخر ِ گلزار نبوت ہمارے آقا ہمارے مو لیٰ ہمارے حادی ہمارے راہبر حضرت محمد ﷺ ہیں جو ہر مومن کی نظر کا نور روح کا قرار اور دل کا سرور ہیں اور معروف سیرت نگار مولانا شبلی نعمانی نے اپنی عقیدت کا اظہار کر تے ہو ئے پھولوں اور ہیرے جواہرات جیسے الفاظ جو عشق ِ رسو ل ﷺ میں لپٹے ہو ئے نظر آتے ہیں بارگاہِ رسالت ﷺ میں پیش کئے ہیں ۔ آپ کا انداز تحریر ملاحظہ فرمائیں ــ’’چمنستان دہر میں بار ہا روح پرور بہا ریں آچکی ہیں چرخ نادرہ کار نے کبھی کبھی بزمِ عالم اِس شان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں لیکن آج کی تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیر کہن سال دہر نے کروڑوں برس صرف کئے سیارہ گان فلک اِسی دن کے انتظار میں ازل سے چشم براہ تھے چرخ کہن مدت ہا ئے دراز سے اسی صبح جان نواز کے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا کارکنان قضہ قدر کی بزم آرائیاں عناصر کی حدت طرازیاں ، مہہ و خورشید کی فروغ انگیزیاں ابر و بار کی تر دسیاں ، عالم اقدس کے انفاس پاک ، توحید ابراہیم ، جمال ِ یوسف معجز طرازلی مو سیٰ ، اِسی لیے تھی کہ یہ متاع ہا ئے گراں بہا تا جدار عرب و عجم کے دربار گہر بار میں کا م آئیں گی ۔ آج کی صبح و ہ صبح جہاں نواز وہ ساعت ہمایوں وہ دور فرخ فال ہے کہ آج توحید کا غلغلہ بلند ہوا ۔ بت کدوں میں خاک اُڑنے لگی نفرت و کدورت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑنے لگے ، محبت اوراخوت کے پھول مہک اُٹھے چمنستان سعادت میں بہار آگئی شبستان حیات جگمگا اُٹھی اخلاق ِ انسانی کا آئینہ پر تو قدس سے چمک اُٹھا ابراہیم ؑ کی دعا قبول ہو ئی نطق عیسٰی ؑ کی تبشیر وجو دمیں آئی کبھی نہ غروب ہو نے والا آفتاب افق سے نکلا جمعیت خاطر اور اطمینان قلب کے لیے ٹھوس عقیدے اور جا مع نظام و دستور کی کمی پو ری ہو گئی ۔ اِس رات ایوان ِکسرٰی کے چودہ کنکرے گر گئے آتش کدہ فارس بجھ گیا دریائے سا وہ خشک ہو گیا لیکن سچ یہ ہے کہ ایوان ِ کسٰری ہی نہیں بلکہ شانِ عجم شوکت روم اوج ِ چین کے قصر ہا ئے فلک بوس گِر پڑے آتش کدہ فارس ہی نہیں بلکہ آتش کدہ کفر آزر کدہ گمراہی سرد ہو کر رہ گئے صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی لت کدے خاک میں مل گئے شیرازہ مجوسیت بکھر گیا نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے توحید کا غلغلہ اٹھا چمنستان سعادت میں بہار آگئی ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اخلاق انسانی کا پر تو قدس چمک اٹھا یعنی یتیم عبداﷲؓ جگر گو شہ آمنہ ؓ شاہِ حرم حکمران عرب فرماں روائے عالم شہنشاہ کو نین ﷺ عالم قدس سے عالم امکاں میں تشریف فرما ہو ئے (شبلی نعمانی سیرت النبی ) حضرت آمنہ ؓ فرماتی ہیں جس رات مسیحا کا ئنات کی ولادت با سعادت ہو ئی میں نے ایک نور دیکھا جس کی روشنی سے شام کے محلا ت جگمگا اُٹھے یہاں تک کہ میں اُن کو دیکھ رہی تھی۔ دوسری روا یت میں ہے جب پیارے آقا ﷺ کی ولادت با سعادت ہو ئی حضرت آمنہ ؓ سے ایک نو رنکلا جس نے سارے گھر کو بقعہ نور بنا دیا ہر طرف نو ر ہی نور نظر آتا تھا ۔ حضرت آمنہ ؓ فرماتی ہیں جب آپ ﷺ اس دنیا میں تشریف لا ئے تو آپ ﷺ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھے تھے اور آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے آپ ﷺ کی ناف پہلے سے کٹی ہو ئی تھی ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں آپ ان لوگوں سے روایت کر تی ہیں جو ولادت با سعادت کے وقت موجود تھے ۔ کہ مکہ میں ایک یہودی رہتا تھا جب نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کی رات آئی تو اُس یہودی نے قریش کی ایک محفل میں جاکر پو چھا کہ اے قریش کیا آج رات تمھارے ہاں کو ئی بچہ پیدا ہوا ہے ؟ اہل قریش نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا تو اس یہودی نے کہا میری با ت غور سے سنو اور یاد کر لو اِس رات آخری امت کا نبی پیدا ہو گا اور اے اہل قریش وہ تمھارے قبیلے سے ہو گا اور اس کے کندھے پر ایک جگہ با لوں کا گچھا ہو گا لوگ یہ بات سن کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور گھروالوں سے پو چھاتو انہیں بتا یا گیا کہ آج رات عبداﷲ بن عبدالمطلب کے ہاں ایک فرزند پیدا ہو ا ہے جس کو محمد ﷺ کے بابرکت نام سے موسوم کیا گیا ہے تو لوگوں نے جا کر اُس یہودی کو بتایا اس نے کہا چلو اور مجھے مو لود دکھاؤ چنانچہ وہ اسے لے کر حضرت آمنہ ؓ کے گھر آئے انہوں نے حضرت آمنہ ؓ کو کہا کہ ہمیں اپنا فرزند دکھا ؤ ۔ وہ بچے کو اُ ٹھا کر اُن کے پاس لے آئیں انہوں نے اِس بچے کی پشت سے کپڑا ہٹایا وہ یہودی بالوں کے اُس گچھے کو دیکھ کر غش کھا کر گِر پڑا جب اُسے ہوش آیا تو لوگوں نے پو چھا تمھیں کیا ہو گیا تھا ؟ تو اُس نے حسرت سے کہا کہ بنی اسرائیل سے نبوت ختم ہو گئی ا ے اہل قریش تم خو شیاں مناؤ اِس مولود مسعود ﷺ کی برکت سے مشرق و مغرب میں تمھاری عظمت کا ڈنکا بجے گا ( السیرۃ النبویہ )۔

شاعر دربارِ رسالت ﷺ حضرت حسان بن ثابت ؓ کو پر وردگار نے لمبی زندگی عطا کی تھی زندگی کے ابتدائی ساٹھ سال کفر اور جہالت میں گزرے اور پھر جب قدرت مہربانی ہو ئی تو ساٹھ سال بحیثیت ایک سچے مومن کے زندگی گزاری آپؓ شہنشاہِ دو عالم فخر، موجودات باعث ِ تخلیق کا ئنات شافع محشر ، محبوب رب العالمین ، سید المرسلین رحمۃ العالمین ، امام الاولین و الاخرین صاحب قاب و قو سین مو لائے کل ختم الرسل محسن انسانیت رہبر انسانیت سرور کا ئنات شہنشاہِ دو عالم ﷺ کی ولادت باسعادت کے بارے میں فرماتے ہیں ۔میری عمر ابھی سات آٹھ سال تھی مجھ میں اتنی سمجھ بوجھ تھی کہ جو میں دیکھتا اور سنتا تھا وہ مجھے یا د رہتا تھا ایک دن صبح سویرے ایک اونچے ٹیلے پر یثرب میں ایک یہودی کو میں نے چیختے چلاتے ہو ئے دیکھا وہ یہ بات باا ٓواز کہہ رہا تھا اے گروہ یہود سب میرے پاس اکٹھے ہو جاؤ وہ اس کا اعلان سن کر بھاگتے ہو ئے اس کے پاس جمع ہو گئے اور اس سے پو چھا بتاؤ کیا بات ہے تو اُس نے کہا وہ ستارہ طلوع ہو گیا ہے جس نے اِس شب کو طلوع ہو نا تھا جو بعض کتب قدیمہ کے مطابق احمد ﷺ کی ولادت کی رات ہے ۔ کعب احبار کہتے ہیں کہ میں نے تورات میں دیکھا کہ اﷲ تعالی نے حضرت مو سیٰ ؑ کو نبی کریم ﷺ کی ولادت سے آگاہ کیا تھا اور مو سیٰ ؑ نے اپنی قوم کو وہ نشانی بتائی تھی آپ ؑ نے فرمایا تھا کہ وہ ستارہ جو تمھارے نزدیک فلاں نام سے مشہور ہے جب اپنی جگہ سے حرکت کرے گا تو وہ وقت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت کا ہو گا اور یہ بات بنی اسرائیل میں ایسی عام تھی کہ علماء ایک دوسرے کو بتاتے تھے اور اپنی آنے والی نسل کو اس سے خبردار کر تے تھے وہب بن زمعہ کی پھوپھی کہتی ہیں کہ جب حضرت آمنہ ؓ کے ہاں شہنشاہِ دو جہاں ﷺ کی ولادت با سعادت ہو ئی تو آپ ؓ نے حضرت عبدالمطلب کو اطلاع دینے کے لیے کسی کو بھیجا جب وہ شخص خوشخبری لے کر خانہ کعبہ پہنچا تو عبدالمطلب حطیم میں اپنے بیٹوں اور قوم کے مردوں کے درمیان بیٹھے تھے جب آپ کو پو تے کی خوشخبری سنائی گئی کہ حضرت آمنہ ؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہو ا ہے تو حضرت عبدالمطلب کی خوشی اور مسرت کا کو ئی ٹھکانہ رہا آپ فوری طور پر حضرت آمنہ ؓ کے ہاں آئے تو حضرت آمنہ ؓ نے پیدائش کے وقت جو نو ر کی برسات اور انوار وتجلیات کا مشاہدہ کیا اور آوازیں سنیں بتایا تو حضرت عبدالمطلب بہت خو ش ہو ئے ننھے حضور ﷺ کو پکڑ اور کعبہ شریف میں گئے وہاں کھڑے ہو کر بارگاہ ِ الہی میں شکر اور دعائیں کیں اور جو انعام اس نے فرمایا تھا اس کا شکر ادا کیا ابن واقد کے بقول اس با برکت اور خو شی کے موقع پر حضرت عبدالمطلب کی زبان پر یہ اشعار جاری ہو گئے ۔ سب تعریفیں اﷲ تعالی کے لیے جس نے مجھے پاک آستینوں والا بچہ عطا فرمایا ۔یہ اپنے پنگھوڑے میں سارے بچوں کا سردار ہے اِسے بیت اﷲ شریف کی پناہ میں دیتا ہوں ۔ یہاں تک کہ اس کا طاقتور اور توانا دیکھوں میں اس کو ہر دشمن اور ہر حاسد آنکھوں کے گھمانے والے کے شر سے اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں ۔حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضو ر ﷺ جب پیدا ہو ئے تو آپ مختون تھے اور ناف کٹی ہو ئی تھی یہ معلوم کر کے آپ ﷺ کے داداحضرت عبدالمطلب کو بڑا تعجب ہوا اور فرمایا کہ میرے اِس بچے کی بڑی شان ہو گی ۔ حضرت عبدالمطلب فرماتے ہیں جس رات ننھے محمد ﷺ کی ولادت باسعادت ہو ئی اُس رات میں کعبہ میں تھا میں نے بتوں کو دیکھا کہ سب بت اپنی جگہ سے سر بسجود سر کے بل گر پڑے ہیں اور دیوار کعبہ سے یہ آواز آرہی ہے مصطفی ﷺ مختار پیدا ہوا، اُسکے ہاتھ سے کفار ہلاک ہوں گے اور کعبہ بتوں سے پاک ہو گا اور وہ اﷲ کی عبادت کا حکم دے گا جو حقیقی بادشاہ اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔بلا شبہ حضرت آمنہ ؓ کے آنگن میں چمکنے والے چاند اور مہکتے والے پھول کی خوشبو سے سارا عالم معطر اور روشن ہو گا ۔حفیظ جالندھری ؒ صاحب نے اِس حقیقت کو کس خوبصورت عقیدت بھرے انداز میں بیان کیا ہے ۔
ربیع الاول امیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا 
دعا ؤں کی قبولیت کو ہا تھوں ہاتھ لے آیا 
ضیفوں بے کسوں ، آفت نصیبوں کو مبارک ہو 
یتیموں کو غلاموں کو غریبوں کو مبارک ہو 
مبارک ہو کہ ختم المرسلین تشریف لے آئے 
جناب رحمتہ للعالمین تشریف لے آئے 
بصد انداز یکتائی بغایت شان زیبا ئی 
امین بن کر امانت آمنہ ؓ کی گود میں آئی 
سلام اے آمنہ ؓ کے لال اے محبوب سبحانی 
سلام اے فخر ِ موجودات فخر نو ع انسانی 
سلام اے ظلِ رحمانی سلام اے نور یزدانی 
تیرا نقش ِ قدم ہے زندگی کی لوح ِ پیشانی 
سلام اے سر وحدت اے سراج بزم ِ ایمانی 
زہے یہ عزت آفزائی زہے تشریف اَرزانی 

ربیع الاول میں صرف آپکا ظہور ِ قدسی نہیں ہوا بلکہ عالم نو طلوع ہوا ننھے محمد ﷺ نے جیسے ہی کر ہ ارض پر قدم رکھا اُسی وقت سے تاریخ انسانی ایک شاندار دور میں داخل ہو گئی آپ ﷺ کے آنے سے حضرت آمنہ ؓ کا آنگن ہی روشنٍ نہیں ہوا پو ری کا ئنات کا ذرہ ذرہ چمک اُٹھا ایک عظیم انقلاب کا آغاز ہوا صدیوں سے انسانیت کی آنکھوں میں مضطرب خواب کو تعبیر ملی آپ ﷺ کی آمد سے زمین ارجمند اور آپ ﷺ کی پائیگا ہ کے بوسے سے آسمان بلند ہو گیا آپ کے چہرہ اقدس سے نور اور ہدایت کے چشمے پھوٹے جن کی روشنی سے کائنات کو روشنی ملی آپ ﷺ کے آنے سے ہی دنیا کو شرف انسانی کا حقیقی اندازہ ہوا ورنہ آپ ﷺ کے آنے سے پہلے حضرت انسان جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں صدیوں سے ٹامک ٹویاں مار رہا تھا اور وہ خود اپنی پہچان اور شان سے غافل تھا اسی بے خبری میں وہ اُس نے ہزاروں جھوٹے خدا بنا رکھے تھے صنم کدوں میں جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز تھا ہر طاقتور اور چمکنے والی چیز کو اپنا خدا بنا رکھا تھا سورج چاند تاروں کی چمک پہاڑوں کی بلندی سے متاثر ہو کر انہیں خدا کا درجہ دے رکھا تھا ۔ راجوں شہنشاہوں نوابوں سرداروں اور طاقتور انسانوں کی طاقت اور اقتدار سے متاثر ہو کر انہیں خدا کے اوتار کا درجہ دے رکھا تھا نسل در نسل انسان جہالت اور ظلم کی پستیوں میں ڈوب چکا تھا ڈر خوف اُس کی فطرت کا حصہ بن چکا تھا جنوں بھوتوں کو سجدے کر رہا تھا ۔ اور پھر محسن انسانیت نے آکر انسان کو بتایا کہ تیری حرمت کعبہ سے زیادہ ہے تیری ذات رازِ الٰہی ہے تو امانت الٰہی کا حامل ہے محسن ِ انسانیت کی تعلیمات سے جہالت اور گمراہی کے سیاہ اندھیرے دور ہو گئے اور انسان جو اپنے ہی ہاتھوں بنائے ہو ئے بتوں کی پو جا کر رہا تھا آج اُس کی عظمت وہیبت سے پہاڑ سمٹ کر رائی بنے ہو ئے تھے جو انسان ، بتوں مو رتیوں بھوت پریت کے واہموں خوف سے نیم جان تھا اب صحرا و دریا اُس کی ٹھوکر سے دو نیم بو ئے جا رہے تھے حضرت آمنہ ؓ کے آنگن میں اُترنے والے چاند کی روشنی سے دنیا میں انقلاب آگیا سرور کائنات ﷺ نے جس ٹھوس عقیدے اور جامع نظام کی بنیاد رکھی وہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین حقیقی انقلاب ہے اگرچہ دنیا میں اور بھی بہت سارے انقلاب آئے اور اپنی مدت پو ری کر کے چلے گئے لیکن تاریخ عالم کی پو ری معلوم تاریخ میں صرف ایک بار ہی پہلی اور آخری بار ایسا انقلاب برپا ہوا کہ تیس برس کے قلیل عرصے میں چند افراد نہیں پورا معاشرہ اپنے ظاہر باطن اور کر دار میں ایسی حقیقی اور واضح تبدیلی پیدا کر لیتا ہے کہ اِس معاشرے کے کردار کی روشنی سے پور ی دنیا فیض یاب ہو تی ہے حضرت آمنہ ؓ کے گھر چمکنے والے چاند محسن انسانیت ﷺ کی تیریسٹھ سال کی زندگی کا ایک ایک لمحہ صدیوں کی راہنمائی کا سامان فراہم کر تا نظر آتا ہے اور یہ عمل روز محشر تک اِسی طرح جاری رہے گا ۔

خدا مدح آفریں مصطفیٰ ﷺ بس

خدا مدح آفریں مصطفیٰ ﷺ بسخالق ارض وسماء نے جب عرش، آسمان، لوح محفوظ،آفتاب،مہتاب و نجوم،بہشت جہنم، عالم برزخ ،شجر پہاڑ ،سمندر صحرا ،ریگستان دریا جھیلیں،جھرنے ندیا نالے آبشار پھل پھول باغات گلشن، چرند پرند،درندے حیوانات، حشرات ارض سمندر اور سمندری مخلوق، پہاڑی سلسلے،برفستان ،آسمان کی ستاروں سے سجی چادر دیوہیکل درخت،اٹھاراں ہزار جہاں،رنگوں خوشبوؤں اور لذت سے بھر پور،پھل حسن و جمال محبت،وعشق سے لبریز اِس کائنات کو تخلیق کر چکا تو چاہا کہ اب اپنی ذات کا اظہار کرے اور اپنے محبوب کریم ﷺ کا ذکر اور نام کو چار دانگ عالمین میں مشہور کرے تو اپنے ہی نور سے اپنے محبوب ﷺ کے نور کو پیدا فرمایا اور پھر ستر ہزارحریر و خوبصورت پردوں میں چھپاکر رکھا اِس واقعہ کو صدیاں بیت گئیں پھر پیشانی عرش پر اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب ﷺ کا اسم پاک مرقوم فرمایا پھر فرشتوں اور حوروں کو وجود بخشا،اور پھر وقت گزرتا رہا تمام تخلیق شدہ اشیاء اور کائنات کا چپہ چپہ محبوب خدا کی آمد کا منتظر تھا جن کی آمد کے لیے کائنات کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا اور پھر خالق کائنات نے اپنے دست قدرت سے حضرت آدم ؑ کوتخلیق فرمایا اور اُن کی خوش قسمتی جبیں اقدس میں اپنے محبوب کے نور کو رکھا۔کیونکہ محبوب اور سب سے اعلی ہستی کو آخر میں بھیجا جاتا ہے اِس کی وجہ یہ ہے کہ محبوب سے زیادہ عرصہ جدا نہیں رہا جا سکتا پھر حضرت آدمؑ سے لے کر حضور نبی کریم ﷺ کے اِس عالم رنگ و بو میں تشریف لانے تک نور محمدی ﷺ جن عظیم انسانوں میں منتقل ہوتا رہاوہ سب کے سب عالی نسب و مرتب باوقار و ذی احترام تھے اِن میں انبیاء و رسل بھی تھے اورغیر نبی بھی تمام کے تمام شرک و الحاد سے کوسوں دور تھے،با کردار اور وعفت ماب پاکیزہ ان کی زندگی کا ہر لمحہ گناہوں سے پاک تھا کیونکہ اﷲ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک لوگوں کو ہی پسند کرتا ہے اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ نور محمدی ﷺ ناپاکی کے قریب بھی گیا ہو ‘محبوب خدا نے خود فرمایا کہ میں نکاح سے ظاہر ہوا ہوں ناجائز طریقے سے ظاہر نہیں ہوا،حضرت آدمؑ سے لیکر اس وقت تک جب کہ میرے والد اور والدہ نے مجھے جنا ‘مجھے زمانہ جاہلیت کی کسی غلط چیز نے نہیں چھوا،علمائے کرام کی یہ رائے ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے تمام آباء و امہات اپنے اعتقاد میں انبیاء تمام بندوں سے چنے ہوئے تھے ‘قیامت پر یقین رکھتے تھے اس کی باقی مخلوق سے بہتر ہوتے ہیں اِس لیے ان کو ایسے عناصر سے چنا جاتا ہے جو پاک اور بہترین ہو جو اعلی ہوں اور ہر عیب سے پاک ہوتے ہیں تاکہ لوگ ان کے سامنے سر جھکاسکیں اور غور سے ان کی باتیں سنیں اور ان پر عمل کریں۔خدا تعالیٰ اپنے محبوب سے بہت محبت کرتا ہے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے اے پیارے اگر میں تمھیں پیدا نہ کرتا سارے جہاں کو پیدا نہ کرتا یعنی اگر میری تجھ سے محبت کا اظہار مقصود نہ ہوتا تو میں عرش و فرش کو کبھی وجود نہ بخشتا آپ سے محبت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے تمام انبیاء سے اپنے محبوب کو زیادہ شان اور برگزیدہ بنایا،اﷲ رب العزت نے جب تمام ارواح کی محفل سجائی تو تمام ارواح سے اپنی وحدانیت کا وعدہ اور اقرار لیا اور کہا سورۃعمران کی آیت نمبر 81: اگر تم میرے محبوب ﷺ کا زمانہ پاؤ تو دل و جان سے ان کی مدد کرنا اِن پر ایمان لانا، ارشاد گرامی کو تمام ارواح انبیاء کرام نے سنا اور قبول کیا اور اطاعت کا وعدہ بھی کیا،اِس جہاںِ رنگ و بو کی تخلیق کے بعد خالق بے نیاز نے جس عظیم ہستی کا لباس بشریت سے نوازا وہ ہمارے باپ حضرت آدمؑ تھے اور پھر جب حضرت آدمؑ نے شجر ممنوعہ میوہ کو چکھا تو حکم ربی کی نافرمانی پر اُنہیں زمین پر اُتار دیا گیا،اور پھرخدا تعالیٰ نے اپنے محبوب کی محبت اور عشق کو بھی آسمانوں سے زمین پراتارا تا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ معطر اور روشن ہو جائے، حضرت آدمؑ اس نافرمانی کی وجہ سے بہت شرمندہ اور سوگوار تھے وہ خفت اور نافرمانی کے ازالے کے لیے ہر وقت دعائیں،معافیاں،آہ و بکا گریہ زاری اور توبہ کرتے مگر توبہ کی قبولیت نہیں ہو رہی تھی۔آپ دن رات گریہ زاری میں مصروف تھے اور پھر خدا کو ان پر رحم آیا اور پھر حضرت آدمؑ نے اِس نام کے وسیلے سے دعا کی: اے میرے مالک اے غفور و رحیم تیرے نام کے ساتھ جو تیرے محبوب کا اسم پاک ہے تو اس کے صدقے میری خطا درگزر فرما مجھے معاف فرما دے، اِس نام کے ساتھ دعا مانگتے ہی قبولیت کا لمحہ آیا اور توبہ کا دروازہ کھل گیا یہ رسول کریم ﷺ کے مبارک نام اقدس کی رحمت کی پہلی جلوہ گری تھی جس کے وسیلے سے مالک کائنات انسانوں کے گناہ اور خطا ئیں بخشنے لگا،اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں اے لوگو یہ کارخانہ عالم خدائے رحمن و رحیم نے صرف اپنے محبوب کی خاطر قائم کیا ہے اگر تم اُن کا زمانہ پاؤ تو اُن پر ایمان لے آنا،اور ہر دور میں انبیاء کرام اﷲ کے حضور یوں دعا کرتے تھے اے اﷲ تیرے محبوب کی عظمت و تو قیر اور محبت ہماری روح میں رچی بسی ہے ہم سے نبوت لے لے اور ہمیں اپنے محبوب ﷺ کا اُمتی بنا دے۔محبوب ہمیشہ آخر میں آتا ہے اور پھر اس کے آنے کے بعد کسی کے آنے کی ضرورت نہیں رہتی جب تمام انبیاء کرام اِس دنیا میں تشریف لا چکے تو آخر میں مالک کائنات نے اپنے محبوب کو بھیجا اور ان کا نام بھی خود ہی رکھا ‘عاشقان محبوب ﷺ کہتے ہیں،قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا حساب کتاب تو صرف چار گھنٹوں میں ختم ہو جائے گا باقی تمام وقت رسول اﷲ ﷺ کی حمد کرنے میں گزرے گا، جب خدا تعالیٰ نے اِس جہاں رنگ و بو کو رونق بخشی چاروں طرف عشق و محبت کے چشمے پھوٹنے لگے تو خالق ارض و سما نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: اے کتاب والو! بے شک تمھارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرماتے ہیں بیشک تمھارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب (سورۃ المائدہ)۔قرآن مجید میں سورۃ ال عمران میں ارشاد گرامی ہے: اور یاد کرو جب اﷲ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمھارے پاس وہ رسول کہ تمھاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اُس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا،فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایا ایک دوسرے پر گواہ ہو جاؤ اور میں تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔اﷲ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے محبوب کی محبت کو کائنات کے گوشے گوشے اور عالمین کی وسعتوں اور پنہائیوں میں پھیلا دیا ہے کائنات کا ذرہ ذرہ اِس نور سے سرشار اور لبریز ہے خالق اپنے محبوب کا اور محبوب اپنے خدا کا ذکر بلند کرتے ہیں یہی محبت و عشق کا جوہر ہے یہی وجہ ہے کہ جو صلوۃ و سلام سردارالانبیا پر بھیجتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کا خاص بندہ بن جاتا ہے اور جو رب کریم کا ذکر کرتا ہے وہ حضور کا اُمتی بن جاتا ہے۔اور پھر روز محشر جب مالک بے نیاز کا جلال اپنے پورے جوبن پر ہوگا انبیاء کرام اور اولیا کرام جلال رب سے کانپ رہے ہونگے کسی کو بولنے کی جرات نہ ہوگی تو ایک طرف کالی کملی والے آتے نظر آئیں گے تو نسل انسانی مدد اور بخشش کی التجا کرے گی اور محبوب خدا سجدے میں سر رکھ کر اُمتی اُمتی کریں گے اور یا حی یا قیوم یا ذولجلال والاکرام فرمائیں گے اے محبوب سر اٹھا اور جو مانگتا ہے لے جا آج تیری ہر بات مانی جائے گی اور پھر شافع محشر امت کی بخشش کرائیں گے۔

loading...