پیر، 19 مارچ، 2018

جلنے کو مجھے علم کی آگ چاہئے!

جلنے کو مجھے علم کی آگ چاہئے! ابھی معلوم نہیں کے اس مضمون میں آپکو آگے کیا پڑھنے کو ملنے والا ہے۔ زندگی میں بہت سارے معاملات سیدھی سڑک پر چلتے ہوئے اچانک سے دائیں یا بائیں سے کسی گاڑی کا نمودار ہوجانا جو کہ کسی حادثے کا سبب بنتا ہے یا پھر حادثے کے قریب لیجاتا ہے یا پھر بلکل سیدھی وکٹ پر کھیلتے ہوئے اچانک سے کسی وکٹ سے محروم بیزار گیند باز کی ایک گیند کااچانک ٹرن ہوجانا یا پھر اضافی اچھال پیدا ہوجانا بلے باز کیلئے اسکی واری ختم کرنے کا سبب بن جاتی ہے ۔ حادثے ہماری طاق میں لمحوں میں چھپے بیٹھے ہوتے ہیں اور ہمیں تنہا پاتے ہی دبوچ لیتے ہیں شائد یہ وہ لمحے ہوتے ہوں جن میں ہم خودی کی چادر اوڑھ کر دعائوں اور رحمتوں کی چھتری سے کہیں باہر نکل جاتے ہیں۔ کب کہاں سے کیا ہونے والا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی ناممکن سی بات ہے ، اسی طرح سے قدرت ہمیں خوشیاں بھی کب کہاں سے دیتا ہے ہمارے علم سے ماورا ہوتی ہیںاور ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔ ان باتوں سے علم کا بہت گہرا تعلق ہے علم والوں کو کسی حد تک علم ہوتا ہے کہ اب کیا ہوسکتا ہے اور کب کیا ہوسکتا ہے ۔ 
مغرب نے ہم پر مادیت کی چادر تانی اور ہم پر سے آہستہ آہستہ روحانیت کی چادر کھینچ لی ۔ آج مادیت کی آلودگی میں ہم سب لتھڑتے چلے جا رہے ہیں ، ہم نے ہر چیز کو تولنا شروع کررکھا ہے ۔ تعلق داریاں ہوں ، ہمدردیاں ہوں یا پھر نفرتیں ہم نے ہر رشتے اور ہر جذبے کیلئے ترازوں لگا لئے ہیں ۔ ہم نے خود ہی طے کرلیا ہے کہ کس کے تعلق میں کتنی ملاوٹ ہے اور ہم خود ہی درجہ بندیاں بھی کرتے جا رہے ہیں۔ ایسا سمجھ لیا جائے کہ ہمارے تعلقات جسموں سے ہیں مگر ان جسموں میں بسے جذبات و احساسات مختلف ترازئوں کے پلڑوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ اب کوئی لاکھ یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ وہ آپ سے بے لوث مل رہا ہے مگر زمانہ آپ کو یہ یقین دلا دیگا کہ ملنے والا کس مقصد سے مل رہا ہے۔ اس بات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے اور میری خواہش ہے کہ ہر پڑھنے والا میری اس تحقیق کو رد کردے ۔ 
 ہم نے تعلیم کو ایک ایسی خوفناک ڈرائونی چیز بنا دیا ہے جس سے عام لوگوں کو ڈر لگنے لگا ہے، ڈر سے مکتی انہیں ملی ہوئی ہے جن کے پاس روپے پیسے کی فراوانی ہے ایسے لوگوں نے اس ڈرائونے نظام کو خوبصورت ماسک لگا رکھا ہے ۔ ہمارے ملک کا عام آدمی اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی نظام سے باز رکھنا چاہتا ہے جسے وہ نا تو مالی طور پر برداشت کرسکتا ہے اور ناہی اخلاقی طور پر ۔ دنیا کا دبائو ہے کہ علم وہ حاصل کرو جس سے دنیا کو کچھ دے سکو اور دنیا سے بہت کچھ لے سکو،دوسری طرف ایک دائیمی معاملہ درپیش ہے جسکا تکازہ یہ ہے کہ وہ علم حاصل کرو جس کی بدولت دنیا کی عارضی زندگی کے بعد دوبارہ ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی کیلئے آسائشیں جمع کرسکو۔ ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی زندگی بھر اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کے کرنا کیا ہے اور تادم مرگ ذہنی الجھنوں میں الجھے ہی رہتے ہیں۔ 
دنیا میں ایک جنت بنائی گئی اور اس جنت میں و ہ تمام انتظام کئے گئے جس کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں کیا گیا ہے ۔ اس جنت کے بنانے کا مقصد بہت واضح تھا کہ ان لوگوں کو جو مرنے کے بعد جنت میں جانے کی تیاری میں مشغول تھے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا جائے کہ جب ویسی ہی جنت دنیا میں میسر آسکتی ہے تو پھر نعوذ باللہ مرنے کے بعد وہاں کیا کرنے جائینگے۔ انسان اپنی جبلت سے مجبور رہا ہے اور خواہشات میں ہمیشہ سے محصورہوتا رہا ہے ۔ ان چیزوں کا نقصان تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ہوا ہے مگر سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچا کیونکہ مسلمان ہی وہ ہیں جنہیں سب سے زیادہ جنت کی رغبت ہے ۔ جنت کے حصول کی جہاں اور لاتعداد وجوہات ہیں وہیں ہر مسلمان کیلئے سب سے بڑی وجہ اپنے دائمی رہنما نبی اخروزماں حضرت محمد ﷺ کا ساتھ ہے ۔ صحابہ کرام ؓ جن کو علم کا حصول علم کے سورج سے سمندر سے ہوا ، تمام زندگی جنت سے محبت کے شغف میں گزاری اور اس سرشاری میں بھی مبتلاء رہے کہ آپ ﷺ کی صحبت میسر ہوگی اور سب سے بڑھ کر کبھی نا ختم ہونے والی زندگی ہو۔ 
ہم ہر عارضی شے سے رغبت پیدا کرلیتے ہیں اور عارضی و دائمی کا فرق مٹا دیتے ہیں اور ایک لمبا چکر کاٹ کر حقیقت کے اس حالے میں حصار میں واپس لوٹ آتے ہیں جہاں سے نکل کربھاگے ہوتے ہیں اور بھٹکنا شروع کیا ہوتا ہے ۔ ہمارے مزاج اور ہم، عمر کے ہر حصے میں مختلف ہوتے ہیں شائد یہ قدرتی طور پر ہوتا ہے کہ عمر مختلف ادوار میں تقسیم دیکھائی دیتی ہے ۔ 
ترقی کے لفظ کی ایجاد علم کی مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کے سبب وجود میں آیا کیونکہ مادیت کی افزائش ترقی کہلائی جاتی رہے گی ۔ اس ترقی کی مرہون منت آج دین کا علم دنیا کے علم سے ٹکرا رہا ہے ،ہمارا نقصان ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ہم میں سے ہی ایسے لوگ نکل کر سامنے آرہے ہیں اور غلط رہنمائی کرنے پراپنے سینوں پر تمغے سجا جا رہے ہیں۔ لیکن ان پر بھی وہ وقت آئے گا جس کا علم انہیں اپنے وجود کے پہلے دن سے ہے۔علم سے شناسائی علم پر کچھ لکھنے سے قبل بہت ضروری ہے ۔ ہم سب اپنے اپنے علم کوہی علم مانتے ہیں یا پھر اپنی اپنی سمجھ کے علم کی چار دیواری میں بمعہ چھت کے قید ہیں۔ ایسا قیدی علم تو معلوم نہیں کب کا فوت ہوچکا ہے جسکی وجہ سے ہی تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟تبدیلی نئے اور پرانے علم کا جھگڑا ہے یا پھر تجربہ کا فرق ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔معاشرے میں ایسے لوگ جو علم کی روشنی پھیلانے میں اور جاہلت کو بڑھنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں تقریباً ناپید ہوچکے ہیں۔ افراتفری کی سب سے بڑی وجہ علم کا نا ہونا۔ جہاں علم سے مراد صرف اور صرف ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی معلومات سے ہو تو وہ معاشرہ یا وہ کرہ ارض کس طرح سے خیر و برکت کا اہل ہوسکتا ہے ۔ 
ہمارے درمیان موجود ہر وہ شخص جو معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے اور ہر طرح کے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہے اسے شائد علم کی آگ مل چکی ہے اور وہ لمحہ لمحہ اس آگ میں جلتا ہوا خاک ہوا جا رہا ہے ۔دنیا نے اس آگہی کی آگ کو بھی بہت سارے نام دے رکھے ہیں جنہیں ہم اور آپ مختلف بیماریوں کے نام سے سنتے رہتے ہیں۔ ذرا سوچئے تو سہی یہ بیماریاں کیوں دائمی ہیں ۔یہ ایک طویل بحث ہے جسے بحث برائے بحث قرار دے کر اکثریت ترک کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ مگر جنہیں علم کی آگ میں جلنے کا شوق ہے وہ پہلے بھی جلتے رہے ہیں اور تاوقت قیامت تک جلتے رہینگے۔ شائد خدا ایسے لوگوںسے کوئی خاص رغبت رکھتا ہو۔ 

آفتابِ چشت

آفتابِ چشتخدائے لازوال کے عظیم تر پلان کے تحت بابا آدم ؑاور اماں حوا ؑ کو جنت سے نکال کرافزائش نسل کے لیے کر ہ ارض پر اتا ر دیاگیا اُس دن سے لیکر آج تک کروڑوں انسان اپنے اپنے وقت پر تاریخ کے کینوس پر ابھرے ‘اپنا کر دار ادا کیا ‘پھر جام ِ فنا پیا ‘مٹی کی چادر اوڑھ کر گمنامی کے غار میں اتر گئے ‘آج ہر روز لاکھوں انسان پیدا ہو تے ہیں اِن میں سے چند ہی ایسے ہو تے ہیں جو تا ریخ کی زینت بنتے ہیں با قی جانوروں کی سی زندگی کھا یا پیا افزائش نسل کا حصہ بنے اور مٹی میں ملتے چلے گئے‘ خالق کائنات کوبنا کر سو نہیں گیا بلکہ تمام تغیرات سے پو ری طرح واقف ہے ‘دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ وہاں پر لطافت کے پیکر خا ص نفوس قدسیہ اتارتا ہے جس کی ساخت میٹریل ‘ روح ‘شعور ‘عقل ‘بصیرت اورعلم دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو تا ہے ‘ایسے خاص لوگوں کو خاص تربیتی ما حول سے گزارا جاتا ہے ‘جس سے گزر کر ایسے خا ص لوگوں کی خوا بیدہ صلاحیتیں خو ب کھل کر سامنے آجا تی ہیں ایسے ہی خا ص لوگوں کی تا ریخ کو تلا ش ہو تی ہے ایسے ہی لو گ تا ریخ کے چہرے کو ضیا ء بخشتے ہیں ‘یہی تا ریخ کی آبرو ہو تے ہیں ‘تا ریخ کی مراد یہ لو گ روز روز پیدا نہیں ہو تے ‘یہ خا ص ما ئوں کی گو د سے پیدا ہو تے ہیں ‘خا ص آغوشوں میں پرورش پا تے ہیں ‘خاص ہا تھوں میں پلتے ہیں ‘نورانی کندھوں پر جھو لتے ہیں ‘مشک و عنبر میں ڈوبی لو ریا ں سنتے ہیں ‘خا ص نظروں میں رہتے ہیں ‘ایمانی دعائوں کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں ‘رزق حلا ل کے لقموں سے نمو د پا تے ہیں ‘وقت کے دھا رے کو بدلنے کے لیے خا ص آدرشوں کی تکمیل کے لیے خو ش قسمت قوموں اور خطوں میں مہتا ب کی طرح طلو ع ہو تے ہیں ‘خو ش قسمت ہو تے ہیں وہ خطے اور معاشرے جہاں ایسے لو گ کہکشائوں کی طرح روشن ہو تے ہیں ‘یہ گو ہر نا یاب آسانی سے ہا تھ نہیں آتے بلکہ فلک کو سالوں گردش کر نا پڑتی ہے ‘بو ڑھا آسمان خا ک چھان کر انہیں ڈھونڈتا ہے ‘ایسے نایاب مو تیوں کی تلا ش میں صدف کو سمندروں کے پاتال میں مرا قب ہو نا پڑتا ہے ‘لاکھوں دعائوں کے بعد مالک کا ئنات ایسے لوگوں کو عطا کر تے ہیں یہ سینکڑوں دما غوں کا عطر اور زمین کا نمک ہو تے ہیں اِن کے کر دار سے انسان تیا ر ہو تے ہیں اِن کے وجود سے معا شرے زند ہ اور ملک اچھا نا م کما تے ہیں ‘عام انسان گا جر مو لی کی طرح کٹ کر زمین کے بو جھ میں اضا فے کا با عث بنتے ہیں لیکن کچھ لو گ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اُن کے آنے سے پو ری دنیا پر لرزا طا ری ہو جاتا ہے لیکن گر دش روز و شب اور وقت کی کروٹوں نے اُنہیں نگل لیا کیسے کیسے نا مور گمنام بلکہ بے نام ہو گئے ‘ہزاروں سالوں کی شان و شوکت مر قع عبرت بن گئی ‘ہما لیہ جیسے لو گ خا ک نشین ہو گئے ‘ مورخ کا دھیان پڑجا ئے تو غبا ر جھا ڑ کر انہیں زندہ کر نے کی کو شش کر تا ہے لیکن پھر وہی سنا ٹا تنہا ئی گمنا می کو چہ فرامو شی لیکن اِن لوگوں کے مقا بلے پر کچھ ایسے نفوس قدسیہ بھی آتے ہیں جو کبھی مسند اقتدار پر جلو ہ افروز نہیں ہو ئے ‘نہ ہی عالم پنا ہ کہلا ئے نہ ہی اعظم کا لقب اپنا یا نہ ہی اپنے نام کے سکے جا ری کئے ‘نہ ہی ہا تھیوں کے جلو میں دیدار کر ایا لیکن اللہ تعالی کے خا ص بندے کچھ ایسے بھی آئے جو کبھی اقتدار پر نظر نہیں آئے لیکن کرو ڑوں دما غوں پر آج بھی اُن کی حکمرا نی ہے ‘صدیوں کی الٹ پھیر انہیں صفحہ عزت اور لوح شہرت سے محو نہیں کر سکی ‘یہی وہ لو گ تھے جنہوں نے وقت سو چ تا ریخ دل و دماغ جذبات کو پو ری طرح اپنے قبضے میں لے کر تاریخ انسانی کے آسمان پر امر کر لیا ‘ایسا ہی اعلیٰ نسب کا سید زادہ 536ھ کو جنو بی ایران کے علا قے سستیان میں سید خوا جہ غیاث الدین کے گھر میں پیدا ہو ا ‘تا ریخ انسانی کے عظیم ترین سید زادے کی پیدا ئش کا دور بڑا پر آشوب تھا ‘سیا سی انتشار زوروں پر تھا افراتفری لوٹ مار عام تھی تا تا ریوں کے جنگجو گروہ نے سنجر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی‘ غیا ث الدین صاحب اپنے بیٹے کے ساتھ خرا سان چلے آئے لیکن یہاں کے حا لات بھی بہت خراب تھے ‘بے گنا ہ لوگوں کی قسمت کے مالک تاتاری وحشی درندے بن گئے تھے ‘پو را علا قہ لو ٹ ما ر کا شکا ر ہو چکا تھا ‘معصوم سید زادے کا بچپن خو نی حا لات میں گزرا ‘جب سید زادے کی عمر پندرہ سا ل ہو ئی تو شفیق با پ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا نوجوان سید زادہ غم کی لپیٹ میں آچکا تھا ‘با پ کی جدا ئی ہڈیوں تک کو چاٹ رہی تھی ‘بیٹے کو مغموم دیکھ کر مہربان والدہ ما جدہ حو صلہ دیتیں اب آپ والدہ بی بی نو ر کے زیر سایہ زیور علم سے آراستہ ہو نے لگے لیکن قسمت کے امتحان ابھی با قی تھے ‘با پ کے جا نے کے ایک سال بعد ہی والدہ ما جدہ بھی خالق حقیقی سے جا ملیں ‘اب سید زادہ اِس ظا لم دنیا میں اکیلا تھا با پ کی وفات کے بعد سید زادے کو وراثت میں ایک با غ اور چکی ملی تھی اب سید زادہ خو د ہی با غبانی اور کھیتی با ڑی کر تا ‘باغ کا کام کر تے ہو ئے علم کے نا مکمل ہو نے کا احساس اکثر اآنسوئوں سے رُلا دیتا ‘اب فطرت میں با غ تنہا ئی تھی ‘ معصوم سید زادہ ایک دن با غ میں پا نی دے رہا تھا کہ وقت کے مشہور بزرگ ابراہیم قندوزی ؒ  اُدھر سے گزرے ‘سید زادے نے دوڑ کر بزرگ کو سلا م کیا ‘بزرگ بچے کی عقیدت احترام ادب دیکھ کر بہت متا ثر ہو ئے ‘بچے کے سر پر ہا تھ پھیرا دعا ئیں دیں اور آگے چلنے لگے تو سید زاد ے نے بزرگ کا دامن تھام لیا ‘بزرگ شفیق لہجے میں بو لے بیٹا تم کیا چاہتے ہو میں تمہا ری کیا مدد کر سکتا ہوں ‘تو سید زادہ بو لا حضرت اگر آپ چند لمحے اِس عاجز کے با غ میں آرام فرمالیں تو اِسے میں اپنی خو ش نصیبی سمجھوں گا پتہ نہیں پھر کبھی آپ کا دیدار نصیب ہو تا ہے یا نہیں ‘شفیق بزرگ بچے کی التجا پر با غ میں تشریف لے آئے ‘بچے کے لہجے اور احترام نے بزرگ کو خاصا متا ثر کر دیا تھا قدرت بھی اپنا کام کر رہی تھی کیو نکہ اب سید زادے کی زندگی نئے دور میں داخل ہو نے جا رہی تھی ‘سید زادے نے بز رگ کو بہت احترام سے بٹھا یا اور اجا زت لے کر با غ کے گو شے میں چلے گئے اور جا کر سب سے اچھے انگو ر تو ڑے اور دو طبا ق بھر کر لا کر بزرگ کے سامنے نہا یت احترام سے رکھ کر غلا موں کی طرح ہا تھ با ندھ کر کھڑے ہو کر کہنے لگے جناب اِس وقت آپ کی خد مت کے لیے میرے پا س یہی کچھ ہے جن سے میں آپ کی توا ضع کر سکتا ہوں اگر آپ اِس عاجز کے اِس حقیر تحفے کو شرف قبو لیت بخشیں تو میں اپنی بہت بڑی سعادت سمجھوں گا ‘بزر گ نو عمر سید زادے کے احترام سے بہت متا ثر ہو چکے تھے ‘دلنواز نظروں سے سید زادے کی طرف دیکھا اور چند انگور اٹھا کر منہ میں رکھ لیے ‘سید زادے کی خو شی کا ٹھکا نہ نہ تھا کہ بزرگ نے سید زادے کی توا ضع قبول کر لی تھی بزرگ نے اشارہ کیا فرزند میرے سامنے بیٹھ جا ئو سید زادہ دو زانو ہو کر بیٹھ گیا بز رگ شفیق نظروں سے نو عمر کو دیکھ رہے تھے پھر پیا ربھرے لہجے میں بو لے نو جوان تم نے فقیرکی خوب خدمت اور مہمان نوا زی کی ہے اللہ تمہیں اِس کا خو ب اجر دے گا ‘سید زادے کی آنکھوں سے خو شی کے آنسو بہہ رہے تھے حضرت قندوزی ؒ  پر جذب کی حالت طا ری ہو گئی تھی با غ کی طرف اشارہ کر کے بو لے آج اِس گلشن پر بہا روں کے رنگ بکھر ے ہو ئے ہیں کل یہاں خزائوں کا سنا ٹا ہو گا ‘یہی زندگی کی اصل حقیقت ہے تیرا  یہ باغ بھی مو سم خزاں اور آندھیاں اجا ڑ دیں گی پھر حق تعا لی تجھے نہ ختم ہو نے والا ‘نہ اجڑنے والالبا غ عطا کرے گا جس کے درخت اور پھل قیا مت تک بہا ر پر رہیں گے تمہا رے  با غ کا جو بھی پھل کھا ئے گا پھر وہ دنیا کے کسی پھل کی طرف بھول کر بھی نہیں دیکھے گا ‘پھر بز رگ نے اپنے پھٹے پرانے کر تے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور روٹی کا خشک ٹکڑا با ہر نکا لا اور کہا بیٹا پہلے تمہا ری دعوت تھی اب میری دعوت قبو ل کر و پھر روٹی کا خشک ٹکڑا سید زادے کے منہ میں ڈال کر با غ سے چلے گئے ‘روٹی کا ٹکڑا جیسے ہی سید زادے کے حلق سے اُترا با طن میں رنگ و نور کے پھوارے پھوٹنے لگے نو ر کی کر نیں با طن کو روشن کر نے لگیں دنیا فضو ل لگنے لگی جسم و روح نو ر میںڈھلتے چلے گئے ‘نوجوان سید زادے کا نا م حضرت خوا جہ معین الدین چشتی  ؒ تھا جو آسمان تصوف پر آفتاب چشت کے طور پر قیا مت تک کے لیے امر ہو گئے ۔

loading...