بدھ، 21 مارچ، 2018

روپے کی بے توقیری : معاشی اثرات وخدشات

تحریر:محمدصدیق پرہار
 اخبارات میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک دن میں ڈالرکی قیمت میں ساڑھے چارروپے کے اضافے نے کرنسی مارکیٹ کے ساتھ ساتھ معیشت کوبھی ہلاکررکھ دیاہے۔سوموارکے روزاوپن مارکیٹ میں ڈالرایک سوبارہ روپے سے ایک سوتیرہ روپے تک فروخت ہوا۔جب کہ ڈالرکاانٹربینک ریٹ ایک سودس روپے تھا۔گزشتہ روزانٹربینک میں ڈالرکاریٹ ایک سواٹھارہ سے شروع ہوا۔جوبعدمیں ایک سوپندرہ روپے پرآگیا۔اسی طرح اوپن مارکیٹ میں صبح ڈالرکی قیمت ایک سوبیس روپے رہی جوشام کوایک سوسولہ روپے پربندہوئی۔ایک روزمیں ڈالرمیں انٹربینک ریٹ میں سات روپے تک اضافہ ہوا۔جب کہ مجموعی طور پر گزشتہ روزکی نسبت ساڑھے چارروپے بڑھ گئی۔اسی طرح اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں سات روپے اضافہ ہوا۔ذرائع کے مطابق ملکی ایکسپورٹ،ترسیلات زرمیں کمی اورامپورٹ بل میں مسلسل اضافے سے روپے پردبائومزیدبڑھ جائے گااورڈالرکی قیمت میں اضافہ ہوگا۔اس وقت پاکستان کی درآمدات ترپن ارب ڈالر اوربرآمدات بیس ارب ڈالرہیں۔ترسیلات زرانیس ارب ڈالرسے کم ہوکرسترہ ارب ڈالررہ گئی ہیں۔اس طرح سولہ ارب ڈالر خسارے کاسامناہے۔جس میں سے ہمارے پاس چودہ ارب ڈالرکے زرمبادلہ کے ذخائرتھے۔جب کہ ہم نے بیرونی قرضوںکی مدمیں سترہ ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔اب سترہ ارب ڈالرکی ادائیگی کے لیے چودہ ارب ڈالرزرمبادلہ کے تمام ذخائراستعمال ہوں گے اورپھربھی تین ارب ڈالرکی ضرورت ہے، جسے پوراکرنے کے لیے صرف روپے کی قدرمیں کمی اورڈالرکی قیمت میں اضافے والی آپشن ہی رہ جاتی تھی جوکہ سرکارنے استعمال کی اورمارکیٹ سے ڈالرکی خریداری کی گئی۔اس طرح ڈالرکی قیمت میں اضافہ ہوا۔ماہراقتصادیات ڈاکٹرقیص اسلم نے ایک قومی اخبارسے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ہماری امپورٹ میں مسلسل اضافہ اورایکسپورٹ میں کمی ہورہی ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوںکی طرف سے ترسیلات زرمیں دوارب ڈالرکی کمی ہوئی ہے۔جوتشویشناک ہے ۔ انہوںنے تجویزدی کہ سٹیٹ بینک فوری طورپرصورت حال کانوٹس لے کرمداخلت کرے اورڈالرکی قیمت کومنجمدکرے۔دوسری صورت میں اس کی قیمت میں مزیداضافہ ہوگا۔کراچی سے بزنس رپورٹرکے مطابق بیرونی کھاتوں کے بلندخسارے اورزرمبادلہ کے ذخائرمیں ودیگرعوامل کی وجہ سے زرمبادلہ کی مارکیٹوںمیں پاکستانی روپے کی قدرپھرگرگئی۔فاریکس ایسوسی ایشن پاکستان کے صدرملک بوستان نے بتایا کہ بیرونی قرضوں کی وجہ سے زرمبادلہ منڈیاںمشکلات کاشکارہوئی ہیں۔کاروبارکے دوران ڈالرکوایک سوسولہ روپے پربھی دیکھاگیا اورصورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے بعض چھوٹے بینکوں نے ڈالرکے انٹربینک ریٹ ایک سواٹھارہ روپے اورایک سواٹھارہ اشاریہ پانچ روپے بھی کوٹ کیے۔انہوںنے بتایا کہ ڈالرکے انٹربینک میںاچانک اضافہ سے اوپن مارکیٹ میں بحرانی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔جہاں ایک گھنٹے سے زائدوقت تک امریکی ڈالرکی لین دین روک دی گئی ۔لیکن تقریباًساڑھے بارہ بجے دوپہراوپن مارکیٹ میں سرگرمیاں بحال ہوئیں اوراوپن مارکیٹ میں ڈالرایک سوچودہ اشاریہ پانچ تاایک سوپندرہ اشاریہ پانچ روپے میں ٹریڈ کیاگیا۔ملک بوستان نے بتایا کہ روپے کی قدر میں غیرمتوقع طورپرکمی کے سبب اوپن کرنسی مارکیٹ میں معمول کی لین دین نوے تاچھیانوے فیصدکم ہوگئی اورایکس چینج کمپنیوں میں امریکی ڈالرکی کوئی بڑی لین دین نہیںہوئی۔ان کاکہناتھا کہ حکومت اپنی عوام پرہمیشہ چھپ کروارکرتی ہے۔اپنی عوام پردشمن کے ڈرون حملے کی طرح وارکیاگیا۔مشیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن نہ لینے کااعلان کیاتھا لیکن اب آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پرہی روپے کی قدرغیراعلانیہ طورپرکم کی گئی۔انہوںنے بتایا کہ ڈالر بحران پرفاریکس ایسوسی ایشن نے فوری طورپراسٹیٹ بینک حکام سے رابطہ کرکے انہیںکرنسی مارکیٹ کی بحرانی کیفیت سے متعلق آگاہ کیا۔برطانوی نشریاتی ادارے کی اردوسروس کی ویب سائٹ پرلکھا ہے کہ (ڈالرکی قدربڑھنے کے بعد) کرنسی کاکاروبارکرنے والوں اورماہرین نے اس شک کااظہارکیا کہ اس کی وجہ بین الاقوامی فنانشل اداروں سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کیے گئے وعدے ہیں۔سٹیٹ بینک کی جانب سے یہ موقف اختیارکیاگیا کہ ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ مارکیٹ میں اس کی بڑھتی ہوئی طلب ہے۔لیکن سٹیک ہولڈرزنے اس وجہ کوزیادہ قابل قبول نہیں سمجھا۔برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے ایکس چینج کمپنیزایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفرپراچہ نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف )اس جانب اشارہ کرتارہا ہے کہ ڈالرکی موجودہ قیمت اس کی قدرکی صحیح عکاسی نہیںکرتی اوراس کے مطابق اسے ایک سوبیس روپے سے ایک سوپچیس روپے تک لے جاناہوگا۔ظفرپراچہ نے حکومتی اہلکاروںکواس پر کافی تنقیدکانشانہ بنایااورکہا کہ وہ غیرملکی دورںمیں بین الاقوامی اداروںسے وعدے کرکے آجاتے ہیںلیکن ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیںہوتی کہ وہ عوام کوسچ بتاسکیں۔ڈالرکی قیمت میں پانچ فیصداضافے کانتیجہ مہنگائی کے طوفان کی صورت میں آئے گا۔ظفرپراچہ نے مزیدکہا کہ اس کااثرمختلف جگہ پرنظرآئے گا ۔ ماہراقتصادیات صفیہ آفتاب نے برطانوی نشریاتی ادارے کوبتایا کہ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ میں واضح طورپردرج تھا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائرمیں بہت کمی آگئی ہے جس سے انہیں قرضوںکی ادائیگی میں دشواری پیش آسکتی ہے۔ان کاکہناتھا کہ میرا خیال ہے ڈالرکی قیمت میں یہ اضافہ سٹیٹ بینک کی جانب سے کیاگیا ہے۔جیساانہوںنے دسمبرمیںکیاتھا۔صفیہ آفتاب نے کہا کہ پاکستان کی معیشت درآمدات پرانحصارکرتی ہے۔ڈالرکی قدرمیں اضافے کے بعدخیال کیاجاتاہے کہ شایددرآمدات کچھ کم ہوجائیںاوربرآمدات میں اضافہ ہولیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔صفیہ آفتاب نے کہا کہ ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت کااثرعام عوام پرآسکتا ہے۔خاص طورپرجب پٹرول کی قیمت میںاضافہ ہواوریہ اضافہ مہنگائی ساتھ لے کرآئے گا۔ادھرظفرپراچہ نے بھی اسی موقف کا اظہار کیا اورکہا ہم درآمدات پرانحصارکرتے ہیںاورحکومت کوایساکوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے سٹیک ہولڈرزسے بات کرنی چاہیے۔کیوں کہ اس سے سب متاثرہوتے ہیں ۔ڈالرکی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے ملک سے سرمایہ چلاجاتا ہے اورسرمایہ داریہاں آنانہیں چاہتے اوریہ ہرطرح سے نقصان دہ ہے۔اسی برطانوی نشریاتی ادارے کی اسی حوالے سے ایک اوررپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدرمیں کمی کابراہ راست اثران اشیاء کی قیمتوں پرہوتا ہے جوبیرون ملک سے درآمدکی جاتی ہیں۔ان تمام اشیاء کی قیمتوںمیں اضافہ ہوجاتاہے۔اس کے علاوہ پاکستان پرآئی ایم ایف اورعالمی بینک کے قرضوںکاحجم بھی بڑھ جاتا ہے ۔ مثال کے طورپرایک ڈالرسوروپے کے برابرہواورایک ارب ڈالرقرضہ ہوتواس حساب سے سوارب روپے قرضہ ہوگا لیکن ڈالرایک سودس روپے کاہوجائے تو قرضہ بھی اسی حساب سے بڑھ جائے گا۔دوسری جانب روپے کی قدرمیں کمی سے ملکی برآمدات کرنے والوںکوبظاہرفائدہ ہوتاہے۔چونکہ برآمدکرنے والوں کو اپنی چیزکی زیادہ قیمت مل رہی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی پیداواری لاگت میں رہتے ہوئے اشیاء کی قیمت میں کمی کرسکتاہے۔اس طرح عالمی منڈی میںبرآمدات بڑھ جاتی ہیں اوراس سے جاری کھاتے اورکرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی کم ہوجاتاہے۔کراچی سے شائع ہونے والی ایک قومی اخبارمیں اس حوالے سے ایک خبراس طرح شائع ہوئی ہے کہ حکومت نے عالمی مالیاتی اداروںکی فرمائش کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے منگل کوروپے کی قدرپانچ فیصدگرادی۔قدرمیں گراوٹ کو برآمدکنندگان کادبائو اورٹیکس ایمنسٹی سکیم کامیاب بنانے کاطریقہ قراردیاجارہا ہے۔روپے کی قدرمیں کمی کافائدہ بیرون ملک چھپائی گئی خفیہ دولت ظاہرکرنے والوںکوہوگا۔روپے کی بے توقیری کی وجہ سے ملک پربیرونی قرضوں کے بوجھ میں لگ بھگ ایک ہزارارب روپے سے زائدکااضافہ ہوگیا۔جب کہ بیرونی قرض کا حجم کم وبیش نواسی ارب ڈالرہے۔ڈالرمہنگاہونے سے ملک میں مہنگائی کاطوفان آنے کاخدشہ بڑھ گیا اورافراط زرکی شرح آٹھ فیصدکے قریب ہونے کاخدشہ بھی ہے۔ہرماہ درآمدات کی مدمیںاضافی پچیس ارب خرچ کرناپڑیں گے۔روپے کی قدرمیں کمی ایسے موقع پر ہوئی جب ایک ماہ چندروزبعدستائیس اپریل کوممکنہ طورپر نوازلیگ کی حکومت آخری بجٹ پیش کرے گی۔بے توقیری کاشکارروپے کو اسٹیٹ بینک یاحکومتی اداروںکی جانب سے سنبھالادینے کی کوشش نہ کی گئی ۔ عالمی بینک کاکہناتھا کہ روپے کی قدرمیں کمی پاکستان کی معاشی نموکے لیے مفیدہوگی۔ذرائع کے مطابق حکومت نے وزارت خزانہ کے ذریعے صرف پانچ فیصدکمی کی۔روپے کی بے توقیری سے ماضی کی طرح عوام ایک بارپھر مہنگائی طوفان آنے کے خوف سے دوچارہیں۔ڈالرمہنگاہونے سے آئندہ ماہ بجلی پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے اورکرائے بڑھنے کے خدشات ہیں۔ادوات، خشک دودھ، دالیں، چائے،برقی آلات ومصنوعات، خام مال، میک اپ کاسامان اورگاڑیاں و دیگر درآمدات بھی مہنگی ہوں گی۔تین ماہ کے دوران روپے کی قدرمیں دس فیصدکمی کی وجہ سے رواںماہ کے آخرمیں پٹرول وذیزل کے نرخ تین سے چارروپے جب کہ خوردنی تیل آٹھ روپے لیٹر، جب کہ دالوںکے نرخ پانچ روپے کلوبڑھ سکتے ہیں۔چائے کی پتی چالیس روپے کلوجب کہ خشک دودھ تیس روپے کلوتک بڑھ سکتاہے۔حکومت کوروپے میںکمی کافائدہ ٹیکس ڈیوٹیزکی وصولی کی صورت میںہوگا۔جس کے نتیجے میں ایف بی آرکی نااہلی پرپردہ پڑجائے گا۔عالمی اداروں کو کامیاب اصلاحات وحکومتی کاوش کے نتیجے میں وصولیوںمیں اضافے کی نویدسنائی جائے گی۔روپے کی قدرمیں گراوٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹیکسٹائل و آئل سنٹرنے خوب سرمایہ کاری کرلی ہے۔وزارت خزانہ کے ذرائع نے منگل کوروپے کی قدرمیںکمی کے پیچھے حکومت کاہاتھ ہونے کی تصدیق کردی ہے ۔ اخبار سے گفتگوکرتے ہوئے سابق وفاقی سیکرٹری خزانہ ڈاکٹروقارمسعودنے کہا کہ ادائیگیوںکاتوازن ناقابل برداشت ہوتاجارہا تھا۔ ڈالرکی قدرمیں تھوڑاتھوڑااضافہ وقت کاتقاضاہے۔پاکستان کے معاشی حالات اچھے ہیں پالیسی ایکشن خراب رہے ہیں۔اب اس کے برے اثرات میں مہنگائی بڑھے گی۔معاشی امورکے ماہر اورسابق مشیرخزانہ سلمان شاہ کاکہناتھا کہ ڈالرکامہنگاہوناغیرمتوقع نہیں۔وفاقی حکومت پردبائوبہت زیادہ تھا ۔زرمبادلہ کے ذخائرتیزی سے گررہے ہیں۔حکومت زرمبادلہ کے ذخائربڑھاسکتی تھی نہ سکوک بانڈزجاری کرنے کی پوزیشن میں ہے۔اسی لیے ڈالرمہنگاہوناہی تھا۔اس وقت حکومت بڑھتے ہوئے جاری کھاتے وتجارتی خسارے کے دفاع کی پوزیشن میں بھی نہیں۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان میں شرح مبادلہ کوحقائق پرمبنی قراردے دیاگیا ہے۔منڈیوںکی نگرانی کرتے رہیں گے ،سٹے بازی ہوئی توقابوپانے کے لیے اقدام کریں گے۔لاہورچیمبرکوڈالرکی قدرمیںاضافے پرتشویش ہے۔ 
 اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کرنسی کی بے قدری کی مندرجہ بالارپورٹس پڑھنے کے بعدیہ قیاس آرائی کرنامشکل نہیں کہ ہم پالیسی سازی میں کتنے آزاداورکتنے مجبورہیں۔عالمی مالیاتی اداروںکی طرف سے حکومت پاکستان پرروپے کی قدرمیں کمی کے لیے دبائوسے یہ بات اوربھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہماری معیشت اب بھی انہی عالمی مالیاتی اداروں کے زیراثرہے۔حکومت وقت نے ملک کومعاشی طورپرآزادوخودمختاربنانے کے اقدامات کاآغازکردیاہے۔موجودہ حکومت کی معاشی وتجارتی سرگرمیوں کارخ امریکہ نہیں چین کی طرف رہا ہے اوررہے گا۔عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشنز سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معیشت کومستحکم کیاجائے، زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ کیاجائے۔ڈالرکی بڑھی ہوئی قیمت کاحکومت فائدہ اٹھائے۔ ملک میں پڑی ہوئی ضرورت سے زائد گندم برآمدکردے۔ اس سے زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ کرنے میںمددملے گی۔ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کومعاشی طورپراتنامضبوط اورمستحکم ضرور بنانا ہوگا کہ کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ ہمیں کوئی بھی مشورہ یاڈکٹیشن نہ دے سکے۔سی پیک کی تکمیل کے بعدایساہی ہوگا۔

قرارداد ِخاتمہ بدعنوانی۲۳ مارچ ۲۰۱۸!

قرارداد ِخاتمہ بدعنوانی۲۳ مارچ ۲۰۱۸!ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھتا چلا جائے اور اسے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ جسکے لئے سب سے لازمی جز آگے بڑھنے کیلئے راستے کا تعین ہوتا ہے جو اسے طے شدہ منزل کی جانب لے جائے۔ہر انسان کی آگے بڑھنے کی جستجو کا مقصد زندگی میں ترقی ہوتی ہے ۔زندگی کو زندہ رکھنے کیلئے اسے کسی نا کسی مقصد کے حصول کی جستجو میں لگائے رکھنا بہت ضروری ہے۔بصورت دیگر یہ زندگی کسی غیر استعمال شدہ زنگ آلود مشین کی طرح خراب ہوتے ہوتے بیکار ہوجاتی ہے ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں قدرت نے اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے اور ان کو عملی طور پر بروئے کار لانے کا موقع فراہم کیا اور انہوں نے دنیا کو انسانوں کے رہنے کیلئے بہترین سے بہترین بنانے کیلئے اپنی زندگیاں وقف کیں یا کسی بھی طرح سے اپنا حصہ ڈالا۔ 

سماجی میڈیا کی مرہون منت ان معاملات تک بھی نظر پہنچ جاتی ہے جنکی دید کی خواہش نا رکھتی ہو مثلاً گزشتہ روز ایک ایسی ہی دلچسپ اور دل دکھانے والی وڈیو بھی دیکھنے کو ملی جس میں ایک میزبان پاکستان کے کسی شہر میں پاکستانیوں سے یہ پوچھتے پھر رہے تھے کہ ۲۳ مارچ کو چھٹی کیوں ہوتی ہے؟ جس پر جو جوابات ہماری سماعتوں نے سنے ان سے دکھ اور شرمندگی دونوں پوشیدہ تھیں جو پاکستان کی معصوم عوام دے رہی تھی کہنے والے نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم یہاں (جس جگہ وہ تھے) نئے آئے ہیںاس لئے ہمیں نہیں معلوم کے یہاں ۲۳ مارچ کو کیا ہوتا تھا، کسی نے کیا خوب کہا کہ پاکستان ۲۳ مارچ ۱۹۴۷ کو آزاد ہوا تھا، ایک صاحب فرما رہے تھے کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور ان سے ملتے جلتے جوابات دئیے گئے اور جہاں تک ہم نے یہ وڈیو دیکھی اس میں شائد ایک صاحب نے سہی جواب دیا تھا ورنہ دس پندرہ افراد اس تاریخ کی تاریخی حیثیت سے قطعی نا آشنا تھے اور اپنی اس کم علمی پر کسی شرمندگی میں بھی مبتلاء ہونے کو تیار نہیں تھے۔ گوکہ اس وڈیو کو پاکستانی معاشرے کی اکثریت سے وابسطہ نہیں کیا جاسکتا مگر سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ اس وڈیو کی اکثریت نے تو پاکستان کی تاریخ پر سیاہی پھینک دی۔ اب ذرا سوچ لیجئے کہ ۲۳ مارچ کی ابھی تک چھٹی چلی جارہی ہے تو اس قوم کا یہ حال ہے اور جن اہم تاریخوں یا دنوں کے حوالے سے چھٹیاں ختم کردی گئی ہیں ان دنوں کو تو شائد آنے والے سالوں میں یکسر بھول جائیں۔ مقصد یہ نہیں ہے کہ چھٹی ہونا ضروری ہے دراصل بات اس امر کی ہے کہ ہم نے دنوں کی اہمیت کو نظر انداز کردیا ہے، اخبارات اور رسائل میں آج بھی وہ سب کو دستیاب ہے جو ہوتا تھا مگر اب لوگوں کا رجحان ان کی طرف نہیں رہا ہے اور اس رجحان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سماجی میڈیا تاریخ کو بدلنے میں سرگرم عمل ہے۔ ۱۴ فروری اور ۸ مارچ جتنے پرتپاک انداز سے یاد رکرایا جاتا ہے اگر اسکا ادھا بھی ان قومی دنوں کیلئے وقف کردیا جائے تو معاملہ قدرے مختلف ہوسکتا ہے۔ جوقومیں اپنی تاریخ یاد نہیں رکھتیں تو تاریخ بھی انہیں یاد رکھنا نہیں چاہتی اور تاریکی میں دفن کردیتی ہے۔ 

ہم بطور پاکستانی قوم ۲۳ مارچ کی چھٹی بھی کسی عام سی چھٹی کی طرح گزار دیتے ہیں صرف ۲۳ مارچ ہی نہیں ہر وہ چھٹی جو تاریخی اہمیت کی حامل ہو جبکہ ان ایام کو بھرپور طریقے سے منانے کیلئے بیچین رہتے ہیں جن کی واجبی سی حیثیت ہوتی ہے ۔ ہم۲۳ مارچ کی اہمیت کو فقط پریڈ تک محدود کر کے رہے گئے ہیں اور وہ بھی ان لوگوں کیلئے اہم ہوتی ہے جنہیں پریڈ گرائونڈ جانا ہوتا ہے یا پھر کچھ ملک کی محبت کے ستائے ہوئے صبح اٹھ کر ملک کی ترقی و دوام کیلئے دعائیں مانگتے ہیں اور گھر میں ٹیلی میڈیا کے توسط سے پریڈ دیکھ کر اپنا سینہ پھلا کر ایٹمی طاقت والا پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہئے تھا کہ ہر سال پریڈکیساتھ ساتھ ہر آنے والے سال کیلئے کوئی نا کوئی قرارداد رقم کرتے رہتے ، بلکل ویسے ہی جیسے ۱۹۴۰ میں پیش کی جانے والی قرارداد تھی اور اسکو عملی جامہ پہنانے کیلئے سب نے تن من دھن کی بازی بھی لگائی اور پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ پاکستان کے ایوانوں میں منتخب سیاستدانوں کو ہر ۲۳ مارچ کو قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کا اجلاس کا انعقاد اس کھلی جگہ کرنا چاہئے جہاں قراد پاکستان پیش کی گئی تھی اور کوئی ایک ایسی قرار داد پیش کی جائے جو کہ سراسر ملکی بقاء کیلئے ہو اور مفاد عامہ کیلئے ہو۔ 

آج ملک خداداد بری طرح سے بدعنوانی کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے ، بدعنوانی وہ عنصر ہے جسکی وجہ سے ملک میں دہشت گردی پروان چڑھی بلکہ ہم غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے جس سے پاکستان کا خوبصورت روشن و منور چہرہ لہولہان ہوکر رہ گیا۔ پھر ہمارے صاحب اقتدار و اختیار لوگوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے چکر میں اپنے ملک کو کھنڈروں میں تبدیل کرنا شروع کردیا مگر اس بنیادی عنصر پر دھیان نہیں دیا جس کی وجہ سے پاکستان اس نہج تک پہنچا تھا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ بدعنوانی کیخلاف کسی نے آواز نہیں اٹھائی ہو ہاں مگر آواز ہر شخص نے اٹھائی جو کہ خود بدعنوان تھا ۔ ایسے نعروں کا وقت بہت قریب آچکا ہے یہ گزرتا ہوا سال انتخابات کا سال ہے اور انتخابات کی گہما گہمی میں ہر کوئی جلسے کو گرمانے کیلئے یہ کہتا سنائی دیگا کہ اس نے بدعنوانی ختم کرنے کیلئے کیا کیا قربانیاں دیں (جبکہ اصل میں بدعنوانی کرنے کیلئے کیا کیا قربانی دے چکے ہوتے ہیں اور عوام جانتے بھی ہیں)۔ ۲۰۱۳ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے وفاق میں حکومت بنانے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) تھی ، اس جماعت نے جیسے تیسے انتخابات میں کامیابی ہی حاصل نہیں بلکہ میاں نواز شریف صاحب کو پاکستان کی تاریخ رقم کرتے ہوئے تیسری دفعہ وزیر اعظم بنا دیا۔ سچ اور جھوٹ میں اٹا ہوا یہ اقتدار سمندر میں کسی ہچکولے کھاتی نائو کی طرح چلتا رہا اب جبکہ جمہوری روایات کو سنبھالتے سنبھالتے دور اقتدار کا سورج غروب ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔ یہ ایک ایسا جمہوری دور تھا کہ سارا وقت جمہوریت کو سنبھالتے سنبھالتے گزر گیا۔ اس جمہوریت کو سنبھالنے میں معاشرتی اور سیاسی اقدار کی دھجیاں اڑادی گئیں۔ عدالتی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ ملک کا وزیر اعظم بدعنوانیوں میں ملوث ہے۔ 

میری اپنے قارئین سے خصوصی درخواست ہے کہ آنے والے انتخابات میں اپنی تمام تر ذاتیات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف اس کے حق میں فیصلہ دیں جو ہمیں اس بات کا یقین دلائے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کر کے ہی کوئی دوسرا کام کرے گا، ایسے شخص کی اور ایسی جماعت کا تعین ہم نے آپ نے خود کرنا ہے کیوںکہ ہمیں پتہ ہے کہ ملک کے لگی جونکیں کون ہیں اور کون ملک کی رگوں میں خون ڈوڑا رہا ہے ۔ آئیں اس سال کی قرارداد بدعنوانی ختم کرنے کی پیش کرتے ہیں اور ایسی جماعت کو یا ایسے لوگوں کو ایوانوں تک پہنچانے کیلئے کمر کستے ہیں جو اس قرارداد پر قرارداد پاکستان جیسا عمل کرکے دیکھائیںگے۔ اس بدعنوانی کو جڑسے نکال کر پھینکنا ہوگا پھر کہیں جاکہ پاکستان کے چہرے پرحقیقی رعنائی آئیگی اور اسکے لئے کسی قسم کا بنائو سنگھار نہیں کرنا پڑیگا۔

loading...