جمعرات، 22 مارچ، 2018

بابا شاہ جمال ؒ کا جلال

بابا شاہ جمال ؒ کا جلالروزِ اول سے اہلِ اقتدار کی یہ روش رہی ہے کہ اپنا اقتدار قائم اور نام اونچا رکھنے کے لیے نجانے کتنی گردنوں کو بزورِطاقت جھکایا اپنے شاہی محلات کے خزانے بھرنے کے لیے شہروں کے شہروں ، ملکوں کے ملک اجاڑے اپنے ایک لمحے کے آرام کے لیے نجانے کتنوں کو مبتلائے اذیت کیا اپنی شان کے لیے کتنوں کو ذلیل کیا اپنی بقا کے لیے کِتنوں کو موت کے گھاٹ اتارا حصول تاج کے لیے سگے بھائیوں کی گردنیں اڑا دیں ذاتی آسائش کے لیے ہزاروں کو آزمائش میں ڈالا نام و نمود کے لیے شہروں کے شہر نیست و نابود کر دئیے ۔ دوسری طرف جب اہل حق پر نظر پڑتی ہے تو اُن کے روشن چہروں پر آثار عبا دت تو نظر آتے ہیں مگر نشان ملامت ہر گز نہیں اِن کے دامن پر فقر کے پیوند تو ہیں مگر گدائی کا دھبہ تک نہیں ۔ اِن کی وراثت ہیرے جواہرات نہیں حسن اخلاق و کردار ہے اِن کا ترکہ شاہی محلات نہیں بلکہ حسن اخلاق اور اعلی اقدار ہیں یہی وہ لوگ جو کتنی روحوں کو معرفت کی چمک دے گئے کتنے ہاتھوں کو مصروف ِ دعا اور کتنی زبانوں کو ذکر کی لذت سے ہمکنار کر گئے ۔ دنیا کا چپہ چپہ ان کے روشن کارناموں کا گواہ ہے ارضِ بسطام سے خاک سرہند تک اور کو چہ بغداد سے اجمیر کی پہاڑیون تک یہ داستان مہر و وفا تو ذرے ذرے پر رقم ہے انہی روشن لوگوں کے دم قدم سے رنگِ محفل ابھی پھیکا نہیں پڑا ورنہ ہر دور کے جابر ظالم چنگیز اور ہلاکو نے اِس بزمِ رنگ و بو کو اُجاڑنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی اپنے نام کے خطبے پڑھوانے والوں کو کو ئی فاتحہ خواں نہ ملا اقتدار اور شہرت کی چکا چوند میں زندگی میسر کر نے والوں کو مرنے کے بعد قبر پر کو ئی چراغ جلانے والا نہ مل سکا جن کے شاہی محلات کے کبھی بہت چرچے تھے آج اُن کی مٹی برباد ہے جن کے ناموں پر شہر بستے تھے آج اُن کی قبروں پر گمنامی کے ڈیرے ہیں۔
جن کی نوبت کی صدا سے گونجتے تھے آسمان 
دم بخود ہیں قبروں میں ہوں نہ یاں کچھ بھی نہیں ۔

روز اول سے جب بھی کسی مردِ درویش کے گرد حاجت مندوں کا میلا لگا تو حکمرانوں نے ہمیشہ اِسے اپنی توہین سمجھا ایسا ہی ایک واقعہ مغلیہ دور میں لا ہو ر میں پیش آیاشہر لاہور کو یہ خاص اعزاز حاصل رہا ہے کہ ہر دور میں کسی نہ کسی بڑے کامل درویش کا یہاں بسیرا رہا ہے شہر لاہور میں مغل بادشاہ اکبر کی بیٹی اپنے لیے ایک شاندار فلک بوس شاہی محل تیا کرا رہی تھی شاہی محل پر روپیہ پانی کی طرح بہا یا جا رہا تھا پو ری دنیا کے قابل ترین ماہر تعمیرات اِس عالی شان محل کو دن رات بنانے میں مصروف تھے اِس محل کے سامنے ہی ایک درویش کامل کا ڈیرا تھا جو روحانیت میں بہت بڑے مقام کے حامل تھے انہوں نے بھی ایک بلند فلک بوس دمدمہ بنوانے کا ارادہ کیا دمدمہ کا مطلب عارضی قلعہ ہے ۔درویشِ وقت نے یہ دمدمہ ایک اونچے ٹیلے پر بنانے کا ارادہ کیا اور انتظامات شروع کر دئیے جب تما م تیاریاں مکمل کر لی گئیں تو سب سے بڑا مسئلہ یہ سامنے آیا کہ تمام ماہر مزدور اور مستری یعنی معمار سب کے سب شہزادی سلطان بیگم کے شاہی محل کی تعمیر میں مصرو ف تھے ۔ جب مزدوروں اور معماروں کو بلایا گیا تو اُنہوں نے بنانے سے صاف انکار کر دیا کہ ہم شہزادی کے محل کی تعمیر میں مصروف ہیں اور جو اُجرت ہمیں شہزادی دیتی ہیں وہ آپ نہیں دے سکیں گے اور سارا دن ہم وہاں کام کر تے ہیں اِس لیے آپ کے پاس کا م نہیں کر سکتے درویش نے دلنواز مسکراہٹ سے کہا آپ اُجرت پر پریشان نہ ہو ں آپ کو جتنی اُجرت وہاں سے ملتی ہے اتنی ہی ہم بھی دیں گے بلکہ ایک پہر کا معاوضہ پورے دن پر دیں گے اور اگر آپ دن میں وہاں مصروف ہیں تو آپ رات کو ہمارے ہاں مزدوری کریں آپ کو منہ مانگی مزدوری دی جائے گی مزدوروں نے درویش کی بات مان لی اب وہ دن کو شاہی محل کی تعمیر کر تے اور رات کو درویش کے دمدمہ کو تیار کر تے اِسی دوران ایک رات چراغوں کا تیل ختم ہو گیا بہت کوشش کے بعد بھی جب تیل نہ ملا تو کامل درویش نے کہا آپ تیل کہ جگہ میرے کنویں کا پانی چراغوں میں ڈالیں وہ تیل کا کام دے گا درویش کے حکم کی تعمیل کی گئی مردِ درویش کے منہ سے نکلے ہو ئے الفاظ بارگاہِ الہی میں قبولیت اختیار کر گئے پھر مزدوروں اور اہل لا ہور نے دیکھا پانی کے چراغ جلنا شروع ہو گئے ۔ آپ کی یہ کرامت اتنی زیادہ مشہور ہو ئی کہ مزدور اب بلا معا و ضہ کام کر نے کو تیار ہو گئے لیکن درویش نے یہ بات نہ مانی آپ کا یہ معمول تھا مزدور جیسے ہی اپنا کام ختم کر تے آپ اپنے مصلے کے نیچے سے رقم نکال کر دے دیتے مزدور حیرت میں تھے کہ مصلے کے نیچے کو ن سا خزانہ ہے جہاں سے انہیں مزدوری دی جاتی ہے پھر دمد مہ کی سات منزلیں تیا ہو گئیں درویش کی عمارت کی شان کے سامنے شا ہی محل بے رونق اور پست نظر آنے لگا تو درباریوں اور مصاحبوں نے شہزادی بیگم کے کان بھرے کہ درویش کے دمدمہ کی اونچائی سے شاہی محل میں بے ستری ہو نے کا احتمال ہے شہزادی نے درویش کو پیغام بھیجا کے تمھارے دمدمہ کی اونچائی سے ہمارے محل میں بے پردگی ہو تی ہے لہذا تم کو حکم دیا جا تا ہے کہ فوری طور پر اِس عمارت کو گرادو اور ہم سے مقابلہ بازی ترک کر دو درویش نے شاہی پیغام سنا تو کہا تمہیں اپنے شاہی مقام اور عمارت پر بہت ناز ہے لیکن کیونکہ تم نے پردے کی بات کی ہے جو خدا کے احکام سے متعلق ہے اس لیے ہم اِس پر عمل کر تے ہیں لیکن یاد رکھو عنقریب تمھارا شاہی محل اور گلشن کا نام و نشان نہیں رہے گا اور پھر دمدمہ کی سب سے اوپر والی چھت پر حالت وجد میں دھمال ڈالنی شروع کر دی آپ کے جلال سے 5منزلیں زمین بوس ہو گئیں صرف دو منزلیں رہ گئیں جو آج بھی زائر ین کو توجہ کا مرکز بنتی ہیں ۔ وقت نے کروٹ لی بعد میں سکھوں کی حکومت آئی تو شہزادی کا محل اور باغات اُجاڑ دئیے گئے اِسطرح درویش کامل کی پیشن گوئی سچ ثابت ہو ئی شاہی محل اور باغات کا آج نام تک نہیں جبکہ درویش کامل کا دمدمہ آج بھی مرجع خلائق ہے اور مقبرے کی شکل میں متلاشیان حق کی تو جہ کا مرکز ہے درویش کامل کا نام حضرت بابا شاہ جمال ؒ تھا جو جلال و جمال کا مرقع تھے آپ ؒ کا شجرہ نسب حضرت امام حسین ؓ سے جا ملتا ہے آپ ؒ کے والد حضرت عبدالواحد کشمیر کے رہنے والے تھے جو کشمیر سے سیالکوٹ آکر آباد ہو ئے قدرت نے عبدالواحد کو دو عظیم بیٹوں سے نوازا جن کے اسمائے گرامی حضرت شاہ جمال ؒ اور حضرت شاہ کمال ؒ تھے دنیاوی تعلیم کے بعد حضرت شاہ جمال ؒ نے عظیم بزرگ حضرت پیر ککرا بیگ ؒ کے ہاتھ پر سہروردی سلسلے میں بیعت کی جن کی زیر نگرانی آپ ؒ نے عبادت ریاضت مجاہدے کئے مرشد کی صحت نے آپ کو پارس بنا دیا مسلسل ریاضت اور مجاہدوں کی بدولت جمال میں جلال کا رنگ آگیا تھا مرشد کے حکم پر آپ ؒ لاہور تشریف لا ئے اور اچھرہ کے قریب ہی آباد ہو گئے جس جگہ آپ ؒ کا مزار ہے یہی وہ جگہ تھی جہاں آپ ؒ تشریف لا ئے آپ ؒ کا شمار اُن علمائے حق میں ہو تا ہے جنہوں نے اکبر کے دین الہی کی کھل کر مخالفت کی آپ صاحب کرامت بزرگ تھے آپ ؒ کی لا زوال شہرت چاروں طرف پھیل چکی تھی آپکا ایک ہندو عقیدت مند اکثر آپ ؒ کے پاس حاضری دیتا جو بے اولا د تھا آپ ؒ نے اُس کو دو خربوزے دئیے اور کہا دونوں میاں بیوی کھا لو تمھارے ہاں دو بیٹے پیدا ہو نگے ایک مسلمان ہو گا دوسرا ہندو ہو گا مردِ درویش کے الفاظ بارگاہِ الہی میں قبول ہو ئے ہندو کے ہاں دو بیٹے پیدا ہو ئے ایک پیدائشی مختوں تھا ہندو دونوں بیٹے لے کر آپ ؒ کے بارگاہ میں حاضر ہوا مختوں بیٹا آپ ؒ نے رکھ لیا دوسرا ہندو لے گیا مسلمان بچے کا نام شیخ فخر الدین رکھا گیا آپ ؒ نے اُس کو بیٹا بنا لیا اس کی تربیت کی شادی کی اِس بیٹے نے بھی آپ ؒ کی خدمت والد کی طرح کی ایک بار شاہ جمال ؒ اپنے بیٹے کے گھر گئے اور آواز دی فوراً گھر سے باہر نکل آؤ تابع فرما بیٹے نے فوری تعمیل کی اپنے اہل و عیال کے ساتھ با ہر نکل آیا تو فوری مکان دھماکے سے گر گیا تو شاہ جمال ؒ بو لے مجھے کشفی قلبی سے اطلاع ملی کہ تمھارا مکان گرنے والا ہے آپ ؒ کے مریدوں میں حسن شاہ جو شیخ حسو تیلی کے نام سے مشہور ہے وہ غلہ فروشی کا کام کر تا جو ہر گاہک سے کہتا اپنے ہاتھ سے تول لو اُس کا کاروبار بہت پھیلا اتنا امیر ہو گیا کہ تو لنے والے با ٹ سونے کے بنا لیے مرید مرشد کی خدمت میں سونے کے باٹ لے کر حاضر ہو اتو مرشد نے حکم دیاسونے کے باٹ دریا میں ڈال دو مرید نے تعمیل کی اگلے دن لوگوں کو سونے کے باٹ دیکھے تو جان گئے یہ تو حسو تیلی کے ہیں وہ لے کر حسو تیلی کے پاس آگئے مرید مرشد کے پاس لے کر پھر آگیا کہ اب کیا حکم ہے تو مرشد بو لے تیرا ایمان داری کا کمال یہ ہے کہ دریا بھی تیرے باٹ واپس کر دیتا ہے ۔روحانیت کا یہ سورج 14ربیع الثانی کو وفات پا گیا ۔ آپ ؒ کا سالانہ عرس ہر سال بہت شان سے فیروز پور روڈ اچھرہ کے قریب شاہ جمال کا لونی میں آن بان سے منایا جا تا ہے ۔

حضرت حلیمہ ؓ کا گھرانہ

حضرت حلیمہ ؓ کا گھرانہرشک آتا ہے بوڑھے آسمان پر ہواؤں فضاؤں ملائکہ پر اور حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کے آنگن اور گھر پر نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان محبوب خدا سردار الانبیاء اور مالک دو جہاں پیارے آقا ﷺ کے بچپن کے دلفریب نظاروں اداؤں مسکراہٹوں پہلا قدم پہلا لفظ چلنے دوڑتے اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اماں اماں کر کے حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کا دامن پکڑتے اُن کے پیچھے دوڑتے اپنے رضائی بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتے کھاتے پیتے معصوم گفتگو اور کائنات کی سب سے پیار ی مسکراہٹ کو اِنہوں نے بار بار دیکھا پیارے آقا ﷺ ننھے حضور کی دلنشیں اداؤں سے خود کو چاند تاروں کی خوبصورتی آپ ﷺ کی اداؤں کے سامنے یقینا ماند پڑ جاتی ہو گی جب ننھے حضور ﷺ اپنے رضائی بہنوں اور بھائی شیما ، انیسہ اور عبداﷲ کے ساتھ کھیلتے ہوں گے جب آپ ﷺ کے رضائی باپ حارث بن عبدالغری آپ ﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سعادت حاصل کر تے ہونگے اور جب آپ ﷺ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے جاتے ہونگے تو آسمان پر بیٹھا مالک بے نیاز بھی پہلے آسمان پر آکر اپنے محبوب ﷺ کے معصوم دلفریب نظاروں میں گھر جاتا ہو گا اور نبض کائنات یقینا تھم جاتی ہو گی کیونکہ جب بھی کو ئی اپنے محبوب کے سحر انگیز نظاروں میں گم ہو تا ہے تو اُسے اپنی ہوش نہیں رہتی ۔ ننھے حضور ﷺ کے قدم مبارک جن ذروں پر پڑتے وہ سونے میں تبدیل ہو جاتے آپ ﷺ جدھر نظر اٹھاتے کائنات اور وادی جگمگا اٹھتی آج سعودی عرب میں سونے اور تیل کے جو ذخائر موجود ہیں وہ یقینا آپ ﷺ کے قدموں کی خیرات ہیں ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ فرماتی ہیں ننھے حضور ﷺ کی نشونما اتنی تیزی سے ہو ئی تھی کہ دوسرے لڑکے اتنی تیزی سے نہیں بڑھتے تھے ننھے حضور ﷺ جب دو ماہ کے ہو ئے تو گھنٹوں کے بل چلنا شروع ہو ئے جب آپ ﷺ تین ماہ کے ہو ئے تو دونوں پاؤں مبارک پر کھڑے ہو نے لگے آپ ﷺ کی عمر مبارک نے جیسے ہی چار ماہ کو چھوا تو آپ ﷺ نے دیوار پکڑ کر کھڑا ہو نا شروع کر دیا پانچویں ماہ میں آپ ﷺ کی رفتار میں طاقت آگئی تھی اور ساتویں ماہ ننھے حضور ﷺ نے اچھی طرح چلنا شروع کیا اِس طرح حضر ت حلیمہ سعدیہ ؓ کے آنگن اور گھر کی زمین کو آپ ﷺ کے تلوؤں کو بوسے لینے کی سعادت ملنا شروع ہو گئی ۔ جب ننھے سردار ﷺ کی عمر مبارک نے آٹھ ما ہ کو چھوا تو آپ ﷺ کے لب مبارک نے بولنا شروع کر دیا آپ ﷺ جب بو لے تو پھولوں کی برسات ہو ئی جب آپ ﷺ نو ماہ کے ہوئے تو فصیح گفتگو فرمائی اور جب آپ ﷺ دس ماہ کے ہو ئے تو دوسرے بچوں کے ساتھ تیر اندازی فرمائی ۔ آپ ﷺ کی گفتگو اور الفاظ کی ادا ئیگی بلکل صاف اور واضح تھی آپ تتلا کر بات نہیں کر تے تھے آپ ﷺ عام بچوں کی نسبت تیز چلتے اور دوڑتے تھے اور پھر جب آپ ﷺ کی عمر مبارک دو سال کی ہو ئی تو آپ ﷺ دوسروں کی نسبت زیادہ طاقتور تندرست اور بڑے معصوم ہو تے ۔ آپ ﷺ کی خوبصورتی اور ملکوتی حسن کا یہ مقام تھا کہ صبح جب اٹھتے تو سرمہ لگائے بغیر بھی آنکھیں سُر مگین ہو تیں اور بالوں میں تیل نہ لگانے کے باوجود بال چمک دار ہو تے آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے انوار کے آبشار ہر وقت اُبلتے رہتے اماں حلیمہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک ہر وقت ایسا روشن اور چمک دار تھا کہ مجھے کبھی بھی چراغ جلانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو ئی بچپن سے ہی آپ ﷺ کی ذات کی بر کات سے مسلسل معجزوں کا ظہور ہو رہا تھا آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ نے رسول کریم ﷺ سے کہا آپ ﷺ کے دین میں شامل ہو نے کی وجہ آ پ ﷺ کی نبوت کی دلیل تھی میں نے دیکھا آپ ﷺ انگلی سے جس طرف اشارہ فرما تے چاند ادھر چلا جاتا ۔ عرشی فرشتے ہر وقت آپ ﷺ کی ذات کا طواف کر نا اپنی سعادت عظیم سمجھتے تھے اماں حلیمہ ؓ فرماتی ہیں آپ ﷺ کا جھولا کبھی بھی ہمارے ہلانے کا محتاج نہیں ہوا آپ ﷺ جب بھی جھولے میں ہوتے تو کسی کو بھی آپ ﷺ کا جھولا ہلانے کی ضرورت نہ ہو ئی بلکہ جھولا خود بخود ہی ہلتا رہتا کیونکہ قدسی ملائکہ آپ ﷺ کے جھولے کو ہلاتے رہتے ۔اماں حلیمہ ؓ فرماتی ہیں جب سے ننھے حضور ﷺ ہماری وادی میں آئے تھے مسلسل آپ ﷺ کے وجود مبارک کی وجہ سے برکات کا نزول ہو رہا تھا یہاں تک کہ تمام لو گ آپ ﷺ کی برکات سے واقف ہو گئے اور اب ہمارے قبیلے کے لوگ اپنے چرواہوں سے کہتے تم بھی اپنی بکریوں کو اُسی چراگاہ میں لے جایا کرو جہاں بنت ِابی ذوہب کی بکریاں چرتی ہیں پھر لوگوں نے اپنی بکریاں بھی ہماری بکریوں کے ساتھ چرانا شروع کر دیں تو مالک دو جہاں نے اُن کی بکریوں اور اموال میں بھی بر کت ڈال دی اس طرح ننھے حضور ﷺ کے آنے سے پوری وادی اور قبیلے میں برکت پھیلا دی گئی لوگوں کو جیسے جیسے ننھے حضور ﷺ کی بر کات کا احساس ہو رہا تھا وہ آپ ﷺ کے عقیدت مند ہو تے جا رہے تھے وہ مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے آپ ﷺ کے پاس آتے آپ ﷺ کے ننھے ہا تھ مبارک کو بیماری والی جگہ پر پھیرتے تو صحت یاب ہو جا تے آپ ﷺ کی عقیدت انسانوں کے علاوہ جانوروں میں بھی آگئی تھی ۔ایک دن ننھے سردار ﷺ اپنی ماں حضر ت حلیمہ ؓ کی گود میں تھے کہ چند بکریاں ادھر سے گزری تو ایک بکری نے حضور ﷺ کو سجدہ کیا اور سر مبارک کو بو سہ دیا ۔ ننھے حضور ﷺ نے جب اپنے رضائی بہن بھائیوں کے ہمراہ بکریاں چرانے جانا شروع کیا تو یہاں بھی آپ ﷺ کے بہن بھائیوں نے آپ ﷺ کی برکات کے جلوے ہر لمحہ دیکھے آپ ﷺ جہاں سے بھی گزرتے تو درختوں اور پتھروں میں سے آپ ﷺ کے احترام اور سلام کی آوازیں نکلتیں ۔ ننھے حضور ﷺ جب بھی کسی درخت یا چٹان کے پاس سے گزرتے تو اُس چٹان سے درخت سے آواز آتی ’’ اے اﷲ کے نبی ﷺ آپ ﷺ پر سلام ہو ‘‘ آپ ﷺ کے بہن بھائی اِن خوشگوار آوازوں اور اداؤں پر حیران ہو تے تو آکر اپنی والدہ کو بتاتے تو وہ جو پہلے سے ہی آپ ﷺ کی برکات سے واقف تھیں اپنے بچوں سے کہتیں بچو اِس بات کا ذکر کسی سے نہ کر نا تمھارا بھائی کو ئی عام لڑکا نہیں ہے ۔ یہ بڑا ہو کر بہت بڑا انسان اور سردار بننے والا ہے اِس کی دیکھ بھال بہت محبت اور پیار سے کیا کرو اور اِ س کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے ۔حضر ت حلیمہ ؓ کے بچے پہلے ہی ننھے حضور ﷺ سے بے پناہ محبت کر تے تھے اپنی ماں کی بات سن کر اب پہلے سے بھی زیادہ محبت اور دیکھ بھال کر نے لگے ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ ننھے حضور ﷺ کی بر کات کے با رے میں فرماتی ہیں ۔ جب پہلے دن ننھے حضور ﷺ اپنے بہن بھائیوں کے ہمراہ جنگل میں بکریاں چرانے گئے تو اس دن آپ ﷺ کے انتظار میں ہم کھڑے ہو گئے ہم نے دیکھا کہ ننھے حضور ﷺ کے اطراف میں روشنی پھیلی ہو ئی اور بکریاں دیوانہ وار آپ ﷺ کے قدموں سے لپٹ لپٹ کر بوسہ لے رہی ہیں ایک بکری کا پا ؤں ٹوٹ گیا تو جب آپ ﷺ نے اُس پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا تو ٹوٹا پا ؤں فوری ٹھیک ہو گیا میں نے اپنے بیٹے سے پو چھا آج تم نے اپنے بھائی کی برکا ت کا کیا نظارہ کیا تو وہ بولا آج ہمارے بھائی کے سامنے جو بھی درخت یا پہاڑ اور جنگلی جانور آتے وہ بلند آواز سے کہتے اسلام علیک یا رسول اﷲ ﷺ اور آپ ﷺ کے قدم مبارک جہاں پڑتے وہاں فوراً سبزا نمودار ہو جاتا جب ہم کنویں پر پانی پینے اور بکریوں کو پلانے گئے تو پانی جوش مار کر لبریز ہو گیا اچانک ایک شیر نے ہم پر حملہ کر دیا لیکن جیسے شیر کی نظر ننھے محمد ﷺ پر پڑی تو وہ عقیدت سے فورا ً ننھے محمد ﷺ کے قدموں سے لپٹ گیا اور کہا اسلام علیک یا رسول اﷲ ﷺ اور پھر چلا گیا ۔

loading...