روزِ اول سے اِس رنگ و بو کی دنیا میں حضرت انسان اپنے حصے کا کردار اور اظہار کر تا ہے اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر مٹی کا حصہ بن جا تا ہے انسان اپنی فطرت اور مزاج میں عجب مجموعہ ہے عفو و در گزر پر آئے تو قا تل کو شربت کا جام پیش کر دیتا ہے اور اگر دشمنی اور انتقام پر آئے تو مخالف کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلاخیں پھروا دیتا ہے ۔ بے نیاز قلندری اس قدر کہ تخت شاہی چھوڑ کر بن باس لیتا ہے اور حریص اِس قدر کہ تخت شاہی اور اقتدار کے لیے با پ کو جیل بھجوا کر بھائیوں کی گردنیں تن سے جدا کرکے زندہ کھال کھینچوا دیتاہے ۔ سخی اتنا کہ ہزاروں بار کسی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان دینے کو تیار اور بخیل اِس قدر کہ چند سِکوں کی خاطر اپنے بھائیوں کا خون بہا دیتاہے مال و دولت اکٹھی کر نے پر آئے تو لگتا ہے ہزاروں برس زندہ رہے گا اور اگر قربانی پرآئے تو یوں لگتا ہے اگلے ہی لمحے مرنے والا ہے ۔ یقینا حضرت انسان کا یہی تضاد کائنات کا اصل حسن ہے ۔کر ہ ارض پر اربوں انسانوں کے اِس ہجوم میں ایک مقدس گروہ ایسا بھی ہر دور میں رہا ہے جو کائنات کے لا زوال حسن اور ترتیب کو دیکھ کر خالق کائنات کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے پھر یہ لوگ مالک بے نیاز کے قرب کے لیے اپنے جسم اور روح کی کثافتوں کو لطافتوں میں بدلنے کے لیے عبادت ریاضت اور مجاہدے کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں جب یہ اپنی اِس کو شش میں خالق ارض و سما کو اپنی طرف متوجہ کر تے ہیں تو اول و آخر ظاہر و باطن رحمن رحیم کریم اِن پر محبت بھری ایک نظر ڈالتا ہے جیسے ہی مالک بے نیاز کی پہلی تجلی کسی عاشق ِ الہی پر وارد ہو تی ہے تو عاشق و سالک خلوت گزینی تنہائی کی طرف مائل ہو جا تا ہے دنیا کے ہنگاموں سے دل اچاٹ ہو جا تا ہے کا ئنات کے حسن اور خالق کے جلوؤ ں میں اِیسا گم ہو جا تا ہے کہ دنیا کی خبر نہیں رہتی خالقِ کائنات اور مظاہرفطرت پر غور و فکر اور مراقبہ عاشق پر غالب آجا تا ہے ایسے لوگ پھر پہاڑوں ، غاروں ، صحراؤں اور دریا کے کناروں کا رخ کر تے ہیں ۔ دریا کا پانی مٹی کی خوشبو آزاد ہو ائیں فضا ئیں سالک کی روح کو معطر اورمشام کو مسحور کر دیتی ہیں ۔ چند صدیاں پہلے ایک نوجوان پر ایسی ہی تجلی وارد ہو ئی تو وہ ذہنی آسودگی اور اطمینان قلب کے لیے دنیا کو چھوڑ کر دریا کے کنارے ڈیرا لگاتا ہے ۔ دریا کا پانی اور آزاد ہو اؤں فضاؤں نے اُس پر اور بھی جذب و سکر کا غلبہ کر دیا کئی دن اِسی استغراق کے عالم میں گزر گئے کئی دن کی بھوک کے بعد جسم پر کمزوری نے غلبہ ڈالنا شروع کر دیا ۔نوجوان نے ادھر اُدھر دیکھا لیکن یہاں پر کھانے کو کچھ نہ تھا اچانک دریا میں بہتے ہو ئے سیب پر نظر پڑی نوجوان نے سیب کو رازقِ عالم کی رزاقی سمجھا پکڑا اور کھا لیا ۔ سیب کھانے کے بعد طمانیت کا احساس ہوا لیکن اچانک دماغ میں ایک اندیشے نے سر ابھارا کہ یہ سیب کس کا تھا اِس کا مالک کو ن تھا میں نے مالک کی مرضی کے بغیر ہی سیب کھا لیا یہ تو چوری ہو گئی نوجوان کی روحانی کیفیت بسط سے قبض میں تبدیل ہو گئی کہ میں نے مالک کی مرضی کے بغیر سیب کھا لیا نوجوان کا اضطراب و حشت میں بدل گیا ۔ بے قراری اِس قدر بڑھ گئی کہ جدھر سے سیب آیا تھا ادھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ کا فی لمبے سفر کے بعد اُسے سیبوں کا باغ دکھائی دیا کیونکہ سیبوں کے درخت دریا کے اوپر جھکے ہو ئے تھے ۔ نو جوان کو یقین ہو گیا کہ وہ سیب اِسی باغ سے گیا تھا نوجوان تیزی سے با غ میں داخل ہو اتو سامنے ایک مزدور ملا اُس سے مالک کا پو چھا تھوڑی دیر میں ہی باغ کا مالک ایک بوڑھا شخص آگیا بوڑھے شخص کے چہرے پر ملکوتی نور پھیلا ہو اتھا بوڑھے مالک نے دلنواز تبسم سے نوجوان سے آنے کا سبب پو چھا تونوجوان نے سارا واقعہ سنا دیا اور کہا کیونکہ میں نے سیب کھا کرجرم کیا ہے اِس لییآپ مجھے اِس جرم کی سزا دیں باغ کے مالک نے غور سے نوجوان کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور سنجیدہ لہجے میں کہا میرا تمہارا احسان برابر ہو سکتا ہے لیکن اِس کی دو شرطیں ہو نگیں ۔ پہلی شرط یہ ہو گی کہ تم ایک ماہ مسلسل میرے باغ کو پانی دو گے جب تم یہ ڈیوٹی احسن طریقے سے سر انجام دے دو گے تومیں تمھیں دوسری شرط بتاؤں گا اب اِن دونوں شرطوں میں سے اگر تم نے ایک بھی پو ری نہ کی تو روزِ محشر تم میرے قرض دار ہو گے نوجوان نے فوری طور پر اقرار میں گردن ہلا دی کہ مجھے آپ کی دونوں شرطیں منظور ہیں بوڑھے مالک نے حیرت اور سکوت سے نوجوان کو دیکھا اور کہا تم ٹھیک ہو ، تم آج سے ہی اپنی ڈیوٹی شروع کر وٹھیک ایک ماہ بعد تم سے ملا قات ہو گی بوڑھا شخص یہ کہہ کر چلا گیا ۔ نوجوان نے بہت ایمان داری اور محنت سے ایکماہ باغ کو پانی دیا ۔ نوجوان ایک بار پھر باغ کے مالک کے سامنے سر جھکائے کھڑا اگلے حکم کا منتظر تھا باغ کا مالک حیرت سے نوجوان کو دیکھ رہا تھا ۔ جس کے ماتھے پر عبادت کا نشان اور کردار کا نو رچمک رہا تھا جو اپنی دوسری شرط پو ری کر کے احساس ندامت کے سمند ر سے نکلنا چاہتا تھا بوڑھے مالک نے غور سے نوجوان کو دیکھا اور دوسری شرط بیان کی کہ دوسری شرط کے مطابق تمہیں میری بیٹی سے شادی کر نا ہو گی ۔ نوجوان نے حیرت سے مالک کی طرف دیکھا اور کہا میں آپ کی بیٹی سے شادی کر نے کے لیے تیا ر ہوں اب بوڑھا مالک سنجیدہ لہجے میں بو لا میں شادی سے پہلے تمہیں اپنی بیٹی کے عیب بتا دینا چاہتا ہوں میری بیٹی پیدائشی بد صورت ہے گردش ِ تقدیر نے اُسے اندھا اور اپاہج بنا دیا ہے ۔ نوجوان نے بات سن کر کہا اے محترم انسان کیا آپ کی اندھی اور معذور لڑکی سے شادی کر کے میری غلطی معاف ہو سکتی ہے ۔ نوجوان کا سوا ل سن کر باغ کا مالک بھی پریشان سا ہو گیا اور بولا دنیاوی قانون کے مطابق تو یہ شرط ٹھیک نہیں لیکن میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تمہا ری معافی اسی صورت پو ری ہو گی جب تم میری دوسری شرط پو ری کرو گے ۔ نوجوان نے دل میں اپنے خدا کو یا دکیا اور دعا کی کہ اے مالک مجھے استقامت دے اور پھر نوجوان نے اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیا ۔بوڑھے شخص نے جلدی جلدی شادی اور نکاح کے سارے انتظامات کر دئیے بوڑھے باپ اور نوجوان کے چہروں پر خاص قسم کا نور پھیلا ہوا تھا جو واضح طور پراِس چیز کی نشاندہی کر رہا تھا کہ دونوں کے چہروں پر فرض کی ادائیگی کا نور تھا ۔اور پھر رات کو نوجوان اپنی دلہن کے کمرے میں گیا تو اُس کو خوشگوار جھٹکا لگا اندر جو لڑکی تھی وہ صحت مند اور بہت خوبصورت تھی نہ ہی وہ اندھی تھی اور نہ ہی معذور نوجوان تیزی سے با ہر نکلا اور اپنے خُسر کے پاس جا کر کہا کہ اندر کو ئی اور لڑکی بیٹھی ہے تو خُسر مسکرایا اور کہا اے بچے وہ تیری ہی بیوی ہے اور مالک کا ئنات نے تجھے اِس آزمائش میں ثابت قدم رکھا ۔ مگر آپ نے غلط بیانی سے کیوں کام لیا ؟ نوجوان سچ جاننے کے لیے بے قرا ر تھا ۔ تو بوڑھا بولا نوجوان میں نے جھوٹ نہیں بولا میں نے اپنی بیٹی کی پر ورش اسلام کے مطابق کی ہے وہ آج تک کسی نامحرم کے سامنے نہیں آئی اِس لیے وہ اندھی ہے اور آج تک اس کے قدم گنا ہ کی طرف نہیں اُٹھے اِ س لیے وہ اپاہج ہے ۔ نوجوان نے خوشگوار حیرت سے اپنے خُسر کی باتیں سنیں مالک خدا کا شکر ادا کر کے اپنے کمرے میں داخل ہوگیا جہاں نیک پاکباز دوشیزہ اُس کا انتظار کر رہی تھی ۔ باغ کے مالک کا نام حضرت سید عبداﷲ صو معی ؒ تھا جو اپنے وقت کے بہت بڑے صوفی تھے ان کا سلسلہ نسب تیرھویں پشت سے حضرت حسین ؓ سے مل جا تا ہے اُن کی بیٹی کا نام فا طمہ تھا جو اپنے وقت کی بہت بڑی عابدہ اور نیک خاتون تھیں اور نوجوان جس سے سیدہ فاطمہ ؒ کی شادی ہو ئی وہ اپنے وقت کے نامور بزرگ حضرت سید ابو صالح موسٰی ؒتھے ۔ قدرت کا ایک بہت خوبصورت راز ہے جب وہ اپنے کسی خاص بندے کو دنیا میں بھیجتا ہے تو اُس کے لیے شاندار زمین تیار کر تا ہے جس میں دنیاکی انمول فصل تیار ہو سکے سیب کھانے والے نوجوان اور عظیم صوفی کی بیٹی یہی وہ عظیم والدین تھے جن کے گھر میں اولیا ء کے سر تاج اولیاء کے چاند روشن ہو ئے جس کو دنیا غوث ِ اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے نام سے جانتی ہے ۔
جمعرات، 22 مارچ، 2018
نعت کی شان
صدیوں سے نعت لکھی ، پڑھی اور سنی جا رہی ہے نعت تخیل کے نرم و نازک آبگینے عشق و محبت ، عقیدت کے بے بہا خزینے ریشمی حروف کے رواں دواں سفینے اور اظہار بیاں کے خوبصورت قرینے کا دوسرا نام ہے ۔ کہنے والوں نے عقیدت و احترام میں ڈوب کر زبان مشک سے دھو کر نعت لکھی ۔ پڑھنے والوں نے لحن ِ داودی مستعار لے کر نعت پڑھی اور سننے والوں نے نوائے سروش سمجھ کر نعت سنی ۔ نعت کہنا عظیم اور لازوال عطیہ خداوندی ہے خالق ارض و سما اپنے پیارے محبوب ﷺ کا تذکرہ عام کر نے کے لیے کچھ ایسے افراد گراں مایہ کا انتخاب کر لیتا ہے جن کا دل و دماغ اور روح کے عمیق ترین گوشوں میں سرور ِ کائنات ﷺ کی محبت کو ٹ کوٹ کر بھری ہو تی ہے ۔ جن کی زندگی کا مقصد اور جینے کی آرزو صرف یہی ہو تی ہے کہ محبوب خدا ﷺ کے مقام و مرتبہ کو چار دانگ عالم میں اِس طرح پھیلایا دیا جائے کہ کائنات کے چپے چپے میں آقائے دو جہاں کا ذکر آپ ﷺ کی فکر و سیرت النبی ﷺ کی خوشبو مہک جائے معطر ہو جائے ۔ انسانی ذہن جب نقطہ عروج پر پہنچتا ہے تو نعت کے ذریعے اظہار کر تا ہے صبح سعادت جب طلوع ہو تی ہے تو نعت بن جاتی ہے طلب صادق جب موج بن کر کروٹ لیتی ہے تو نعت بن جاتی ہے اور شاعری جب پیکر التجا میں ڈھلتی ہے تو نعت بن جاتی ہے نعت سے روح کی کثافتیں لطافتوں میں ڈھلتی ہیں باطن سے عشقِ رسول ﷺ کے چشمے پھوٹتے ہیں گلشن ِ ایمان تازہ ہو تا ہے قلب کون و مکان دھڑکتا ہے زندگی کے تمام رنگ نکھرتے ہیں ایسی سر شاری مستی اور سرور کے سُوتے پھوٹتے ہیں جن کا نشہ جنت سے بھی بڑھ کر ہو تا ہے مدینہ کی گلیاں روضہ رسول ﷺ کا تصور اور گنبدِ خضرا کا تصور ہی روح پرور ہو تا ہے نعت سے دل و دماغ اور روح کو روشنی قلم پاکیزگی افکار تازگی خیالات زندگی الفاظ رنگینی اور لہجے رعنائی پاتے ہیں مضمون کو لا زوال عزت عنوان کو عروج و شہرت اسلوب کو ندرت بیان کو وسعت اور کلام کو قوت عطا کرتی ہے ۔نبوت کے بعد جب قریش کے ہجو گو شعرا نے جب رسالت ِ مآب ﷺ کی شان میں گستاخی شروع کی تو سرور دو عالم ﷺ نے اُن مشرکین کے مقابلے کے لیے حضرت حسان بن ثابت ؓ ، حضرت کعب ِ بن مالک ؓ اور حضرت عبداﷲ بن رواحہ ؓ کو لسانی اور شعری معرکوں کے لیے حکم دیا اور پھر ان تینوں صحابہ کے اشعار کے بارے میں فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو قریش کے تیروں کی بو چھاڑ سے بھی زیادہ سخت ہیں ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت ؓ سے فرمایا :ترجمہ: اِن کی ہجو کر اﷲ کی قسم تیری ہجو ان کے لیے تاریکی شب میں تیر لگنے سے بھی سخت تر ہے تیرے ساتھ جبرائیل القدس ؑ ہیں ان شاعرانِ اسلام نے ایک تو مشریکن کو تابڑ توڑ جواب دیا اور دوسری طرف اِن کے قلم نے پیارے آقا ﷺ کی محبت و مدح و نعت میں ایسی جو لائیاں دکھائیں کہ سامعین کے اندر آپ ﷺ کی محبت و الفت کے ناپید ا کنار سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتے اُس دور کے شعراء میں حضرت احسان بن ثابت ؓ کا فن آسمان کی بلندیوں پر نظر آتا ہے اُنہوں نے شہنشاہِ دو عالم ﷺ کی شان میں کئی اشعار کہے جو آج بھی اپنی سحر انگیزی اور تابا نیوں کے ساتھ زندہ جاوید ہیں ۔ ترجمہ : چشم فلک نے اے محبوب ﷺ کہیں بھی اور کبھی بھی آپ ﷺ سے زیادہ خوبصورت کو ئی نہیں دیکھا اور کسی عورت نے کسی زمانہ میں آپ ﷺ سے زیادہ حسین و جمیل بچہ نہیں جنا پیدا کر نے والے نے آپ ﷺ کو ہر عیب و نقص سے مبرا منزہ پیدا فرمایا ہے گویا آپ ﷺ کے خالق نے آپ ﷺ کی اِس طرح تخلیق کی جیسی آپ ﷺ کی مرضی تھی عا شقانِ رسول ﷺ اشعار سن کر محبت عشق ، عقیدت کے سمندر میں غوطہ زن تھے اور محبوب کدا و نے فرمایا ’’ تم نے درست کہا ‘‘ حضرت سیدنا کعب بن مالک ؓ بھی آپ ﷺ کے مشہور شاعر تھے رسول اقدس ﷺ کے وصال پر تڑپ اٹھے اور بے ساختہ ان کے لبوں پر درج ذیل اشعار مچل گئے ۔ ترجمہ: اے آنکھ اچھی طرح اشکبار ہو کیونکہ میرے آقا ﷺ مخلوقات میں سب سے اعلی و برگذیدہ تھے ۔ آقائے نامدار ﷺ سردار تھے بزرگ تھے اور تمام جہاں میں سب سے بڑھ چڑھ کر تھے ۔ محبوب پر وردگار ﷺ ہمارے حق میں بشیر بھی تھے نذیر بھی تھے اور ایسے نور تھے جن کی شعاع نے ہم کو روشن کر رکھا تھا۔اﷲ تبارک و تعالی نے آپ ﷺ کے نور کے طفیل میں ہمیں محفوظ رکھا اور رحم فرما کر آتشِ دوزخ سے نجات دی ۔ بلاشبہ انسانی آنکھ اِس اہلیت سے محروم ہے کہ وہ رسول ِ دو جہاں ﷺ سید المشتا قین ﷺ کے حسن و جمال کا مشاہدہ کر سکے عاشقِ رسول صدیقِ اکبر ؓ کو بھی تاب نظارہ نہ تھی کہ نظر بھر کر روئے تاباں کے حسن بے مثال سے کیف حاصل کر سکیں ہماری اماں جان حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جنہوں نے اپنے محبوب سر تاج ﷺ کے دندان مبارک سے طلوع ہو نے والے نور میں اپنی گمشدہ سوئی کو تاریکی میں تلاش کر لیا تھا آپ ؓ فرماتی ہیں اگر زنان مصر میرے آقا و مولا ﷺ کو ایک نظر دیکھ لیتیں تو اپنی انگلیاں کاٹنے کی بجائے چھریاں اپنے سینوں میں اتار لیتیں اور انہیں خبر تک نہ ہو تی ۔ پیارے آقا ﷺ کی دنیا میں آمد کے بعد آج تک ہر محب رسول ﷺ کے حسن و جمال کے ذکر میں رطب اللسان ہے لیکن آپ ﷺ کے حسن بے مثال کی یکتائی و کمال کا حق ادا کر نے سے قطعی قاصر و بے بس ہے ۔ پھر نور اسلام کی شعاعیں جب عرب سے نکل کر اطراف ِ عالم تک پہنچیں تو اہلِ عجم نے بھی حضو ر ﷺ کی شان میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے عربی کے بعد فارسی شعراء نے اِس فن کو نقطہ عروج تک پہنچایا فارسی میں سعدی ، جامی ، اور قدسی نے بہت بلند پایہ کی نعتیں لکھی ہیں برصغیرپاک و ہند میں حضرت امیر خسرو کا نام فارسی میں سند کی حیثیت رکھتا ہے اردو میں پہلی نعت فخرلدین نظامی کی بتائی جاتی ہے پھر اردو نعت قلی قطب شاہ ملا و جہی نصرئی ہاشمی ، میر محمد باقر اور کرامت علی شہدی تک کا سفر طر کر تی ہو ئی محسن کا کو ری تک پہنچی ، محسن کاکوری اردو نعت کے وہ اولین شاعر مانے جاتے ہیں جنہوں نے نعت کو ایک مستقل صنف کے طور پر پیش کیا پھر امیر مینائی مولانا الطاف حسین حالی اور اقبال نے رسول پاک ﷺ کی شخصیت کو نشاہِ ثانیہ کے محرک کے طور پر پیش کیا پھر مولانا احمد رضا خان کو اﷲ تعالی نے اِس عظیم کام کے لیے چُنا پھر مولانا ظفر علی خان بیدم وارثی اور بے شمار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم شعرا نے بھی رسول کریم ﷺ کی شان میں لازوال قسم کے اشعار کہے بقول سردار بشن سنگھ
گر مسلمانوں کا اک پیغمبر ِ اعظم ﷺ ہے تُو
اپنی آنکھوں میں بھی اِک اوتار سے کب کم ہے تُو
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...