ننھے حضور ﷺ محبوب خدا نے قدرت کے عظیم پلان کے مطابق بچپن کے جو دن صحرا میں بنی سعد کے ہاں گزارے اُن سالوں کی بدولت آپ ﷺ صحت و تندرستی جسمانی قوت فصاحت و بلاغت جرات اور بے با کی اعلی صفات سے مالا مال ہو ئے ۔ ڈاکٹر مصطفی سیاعی لکھتے ہیں ۔ حضور ﷺ نے جو ابتدائی چند سال بنی سعد کے درمیان صحر ا میں گزارے وہاں گزارے ہو ئے وقت میں قوت تندرستی فصاحت و بلاغت اور بے باکی و جرات جیسی صفات سے مالا مال ہو ئے بچپن ہی سے بہترین شہ سوار ہو ئے اِس صحرا میں آپ ﷺ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے اور سورج کی دھوپ اور کھلی ہوا میں جسمانی و روحانی تربیت حاصل کر نے کے بہترین مواقع میسر آئے آپ ﷺ بچپن ہی سے نجابت و شرافت کا پیکر تھے ہو ش مندی اور بیداری مغزی چہرے سے عیاں تھی جو ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ۔بچپن سے ہی ننھے حضور ﷺ کی فطرت میں کائنات کے حسن ترتیب اور اصولوں کے بارے میں سوچنا موجود تھا آپ ﷺ کی قدرت اور خداکی بنائی ہو ئی ہر چیز کے بارے میں مشاہدہ اور غور کر تے اورپھر اس کے متعلق اپنے بھائیوں اور اپنی ماں سے سوالات کر تے کہ آپ ﷺ کے بہن بھائی اور رضائی ماں باپ دنگ رہ جاتے حضرت حلیمہ ؓ اور گھر والے آپ ﷺ کی عقل و شعور سے معمور باتیں سن کر بہت خوش ہو تے حضرت حلیمہ ؓ اور گھر والے یہ جان چکے تھے کہ اُن کے گھر میں بہت بڑے انسان کی پرورش ہو رہی ہے اور آگے جا کر یہ انسان بہت بڑا نجات دہندہ بنے گا ۔ حضور ﷺ نے ہوش کی آنکھ صحرا اور ریگستان میں کھولی جہاں پر فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر تھی صحرا کی وسعت پراسراریت پہاڑوں کی فلک بوس چوٹیاں چشموں کے ابلتے پانی جنگلی جڑی بوٹیاں صحرائی موسموں کی آنکھ مچولیاں کھلا آسمان سورج اور چاند کے دلنشیں نظارے قدرت نے مستقبل کی تیاری کے لیے ننھے حضور ﷺ کو اِس صحرا میں بھیجا تھا یہاں پر آپ ﷺ کی تربیت فطرت کے عین مطابق ہو ئی ۔ بدویوں کی صحرائی زندگیاں اور انسانی فطرت کے قریب ترین ماحول اور پرورش نے ننھے حضور ﷺ کی زندگی میں حقیقی اور خوبصورت رنگ بھر دئیے آپ ﷺ اپنی وضاحت و بلاغت کا اکثر اظہار بھی کر تے ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا میں تم سے سب سے زیادہ خالص عرب ہوں میں قریشی ہوں اور میں نے بنی سعد بن بکر کے قبیلے میں دودھ پی کر پرورش پائی ہے اِسی طرح مزید فرمایا میں تم سب سے زیادہ فصیح اِ س لیے ہو ں کہ قریش سے ہوں اور میری زبان بنی سعد بن بکر کی زبان ہے جو عربوں میں بہت مشہور ہے ، روایت کے مطابق چار یا پانچ سال صحرائی تربیت کے بعد جب حضر ت حلیمہ سعدیہ ؓ مغموم اداس دل کے ساتھ قدرت کے سب سے بڑے شاہکار ننھے حضور ﷺ کو حضرت آمنہ ؓ سے ملانے کے لیے لا ئیں تو آپ ؓ فرماتی ہیں عالم طفلی میں کو ئی گندی حرکت آپ ﷺ سے سر زد نہ ہو ئی آپ دوسرے بچوں کی طرح گریہ زاری نہیں فرماتے تھے حوائج ضروری سے فراغت کا وقت متعین تھا آپ ﷺ چاند کی طرف بہت راغب تھے اکثر چاند سے باتیں کر تے تھے کو ئی غیبی ہا تھ آپ ﷺ کا پنگھوڑا ہلاتا رہتا بڑے ہو تے ہو ئے عام بچوں کی طرح کھیل کود میں وقت ضائع نہیں کر تے تھے خو د بھی وہاں سے ہٹ جاتے اور اُنہیں بھی کھیلنے سے منع فرماتے ۔ ننھے حضور ﷺ کی پرورش اور خدمت سے حضرت حلیمہ ؓ اور اس کا گھرانہ قیامت تک کے لیے امر ہو گیا جو شہرت اور مقام اس قبیلے کو ملا ہر دور کے بادشاہ بھی اِس مقام پر رشک ہی کریں گے مقام کے ساتھ ساتھ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کے خاندان کو سب سے بڑی دولت اسلام قبول کر نا نصیب ہو ئی جو دنیا بھر کے خزانوں سے بڑھ کر ہے ۔ شہنشاہ دو جہاں محبوب خدا شافع محشر ﷺ نے اِس رضاعت کا پاس عمر بھر رکھا اور آپ ﷺ کے دنیا سے جانے کے بعد آپ ﷺ کے خلفاء نے بھی حضرت حلیمہ ؓ کے خاندان کا احترام رکھا حافظ ابو الفرج البخوری لکھتے ہیں حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ ایک بار نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو ئیں جب نبی کریم ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کر لی تھی حلیمہ ؓ نے اپنی غربت اور قحط سالی کی شکایت کی تو سرور کا ئنات ﷺ نے اپنی رفیق ِ حیات حضرت خدیجہ ؓ کو ان کے بارے میں سفارش کی تو حضرت خدیجہ ؓ نے ان کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ بطور ہدیہ عطا فر ما یاپھر سرور دو جہاں ﷺ کی بعثت کے بعد حاضر ہو ئیں آپ ؓ بھی ایمان لے آئیں اور اُن کے خاوند نے بھی اسلام قبول کر لیااِسطرح دونوں نے حضور اقدس ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔قاضی عیاض لکھتے ہیں حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئیں حضور ﷺ نے ان کے لیے اپنی چادر بچھائی اور اُن کی حاجت کو پورا کیا ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دورِ خلافت میں بھی مدینہ تشریف لائیں اور حضرت ابو بکر ؓ سے ملیں تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے بہت زیادہ احترام کیا اپنے آقا ﷺ کا عمل دہرایا اور بہت کچھ حضرت حلیمہ ؓ کی خدمت میں پیش کیا ۔ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین میں قبیلہ ہوازن اور بنی سعد کے بہت سارے لوگ مال غنیمت کے طور پر مجاہدین میں تقسیم ہو گئے تو ہواز ن کا سردار آیا ایمان لایا اور کہا یا رسول اﷲ ﷺ اِن اسیران جنگ میں آپ ﷺ کے رضائی بہن بھائی اور رشتے دار بھی ہیں جب صحابہ کرام کو اِس حقیقت کا پتہ چلا تو سب نے خوشی سے اپنا مال اور غلام جو جنگ میں ان کے حصے آئے تھے واپس کر دیے آپ ﷺ نے اپنی بہن حضرت شیما ؓ کو اپنی چادر پر بٹھایا اور بہت زیادہ احترام اور محبت کے بعد تحفے تحائف سے واپس کیا ۔ آپ ﷺ کے رضائی والد حضرت حارث کے ایمان لانے کا ایمان افروز واقعہ ابن اسحاق نے یوں بیان کیا ہے ۔ حضور ﷺ پر نزول قرآن کے بعد حارث مکہ مکرمہ میں حضور ﷺ سے ملاقات کے لیے آئے قریش نے اُنہیں دیکھا تو کہا اے حارث تم نے سنا کہ تمھارا بیٹا کیا کہتا ہے انہوں نے پوچھا وہ کیا کہتے ہیں کفار نے بتایا وہ کہتا ہے کہ موت کے بعد ہمیں پھر اٹھا یا جا ئے گا اور اﷲ تعالی نے جنت اور دوزخ بنائے ہیں نیکو کاروں کو جنت اور بد کاروں کو دوزخ میں بھیجا جا ئے گا اس نے قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے تو حارث حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا میرے بیٹے آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کا شکوہ کیوں کرتی ہے پھر قریش نے حضور ﷺ کے بارے میں جو کچھ اسے کہا تھا اُس نے بتا دیا تو حضو ر اقدس ﷺ نے فرمایا بے شک میں ایسا ہی کہتا ہوں جب وہ دن آئے گا میں تمھارا ہا تھ پکڑ کر آج کی گفتگو تمھیں یا د دلا ؤں گا حضور ﷺ کے ارشاد نے حارث کی آنکھیں کھول دیں اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گیا اور پھر ساری زندگی احکام الہی کی تعمیل کا حق ادا کیا اسلام قبول کر نے کے بعد وہ اکثر کہا کر تے تھے ترجمہ: یعنی اگر میرے بیٹے نے میراہاتھ پکڑا اور مجھے وہ گفتگو یاد دلائی تو پھر انشا ء اﷲ تعالی میرا ہاتھ اس وقت تک نہ چھوڑے گا جب تک وہ مجھے جنت میں داخل نہ کر دے گا ۔ حضرت عمر بن سعد ؓ بیان فرماتے ہیں ۔ ایک عورت آئی اور آپ ﷺ سے ملنے کی اجازت چاہی جب سرور کا ئنات مجسم رحمت شافع محشر محبوب خدا ﷺ نے اُنہیں دیکھا تو بے اختیاار پکار اُٹھے میری ماں میری ماں کہتے ہو ئے اُٹھے اپنی چاد ر مبارک بچھا کر عزت سے اُنہیں بٹھا یا فرطِ محبت سے اپنا ہاتھ مبارک اُن کے سینے پر رکھا اور ماں ماں کہتے رہے پیاری بھری گفتگو کر تے رہے اور ان کی ہر ضرورت پو ری کی ۔
جمعرات، 22 مارچ، 2018
غوث ِ اعظم ؒکی شان
اہل بغداد حیرت سے شیخ صدقہ بغدادی کو دیکھ دہے تھے جو بآواز بلند دنیا و مافیا سے بے خبر ایک ہی بات کہے جارہے تھے کہ ایسا کوئی نہیں ہے جو مُجھ جیسا ہے ۔ عالم ِ جذب و سکر میں وہ خود سے اور اہل دنیا سے بھی بے خبر ہو چکے تھے جذب اور حال اُن پر طاری تھا اور وہ بار بار یہی کلمات دہرائے جا رہے تھے ۔ ان کے الفاظ کی باز گشت آخر کار خلیفہ وقت تک بھی پہنچ گئی آپ کے کلمات کی سزا کے طور پر شرعی حد کے تحت آپ کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا ۔ لیکن پھر اہل بغداد نے جو منظر دیکھا اُسے دیکھ کر وہ تصویر حیرت بن گئے جیسے ہی جلاد نے شیخ صاحب کا سر قلم کر نے کے لیے ہا تھ کو حرکت دینا چاہی تو اُس کا بازو شل ہو کر جیسے پتھر کا ہوگیا ہو جلاد جیسے سنگی مجسمہ بن گیا ہو وہ بے حس و حرکت کھڑا تھا جیسے پتھر کا مجسمہ ہو ۔ اب اہل بغداد پر شیخ صدقہ کی روحانی جلالت کا رعب بیٹھ چکا تھا سرکاری اہل کاروں نے خلیفہ کر جا کر سارا ماجرا سنایا تو خلیفہ وقت خود چل کر شیخ صدقہ کے پاس آیا اور جھک کر معافی کا خواستگار ہوا اور فوری طور پر عزت و احترام سے آپ کی رہا ئی کا حکم دیا ۔ شیخ صدقہ عالم جزب میں دنیا و مافیا سے بے خبر تھے وہ قید خانے سے نکل کر بغداد کی گلی کوچوں میں آگئے ۔ یہاں پر شیخ صاحب نے حیران کن منظر دیکھا کہ ہزاروں لوگ عقیدت و احترام سے ایک مدرسے کی جانب رواں دواں ہیں ۔ شیخ صدقہ بھی اِس قافلے میں شامل ہو کر مدرسے کی طرف چلنے لگے ۔ وہ چلتے جا رہے تھے اور زبان ہر وہی کلمات جا ری تھے کہ ایسا کو ئی نہیں جو میرے جیسا ہو اِس وقت کو ئی بھی ایسا نہیں ہے جو میرے ہم پلہ ہو اِسی حالت ِ جذب میں وہ قافلے کے ہمراہ مدرسے میں داخل ہو گئے ۔ جیسے ہی وہ اِس مدرسے میں داخل ہو ئے تو اچانک انہیں لگا جیسے اُن کے اندر سے کو ئی چیز نکل گئی ہو اور وہ عالم ہوش میں آگئے مدرسے میں درود و سلام تسبیح و تہلیل کی آوازیں گو نج رہی تھیں مدرسے کے درو دیوار سے بھی ایسی ہی وجد انگیز آوازیں آرہی تھیں اور پھر اچانک حاضریں پر ایک عقیدت بھرا سکو ت طاری ہو گیا تمام حاضرین کی نظریں ایک سمت اٹھی ہو ئی تھیں شیخ صدقہ نے بھی اُدھر دیکھا تو کیا منظر دیکھتے ہیں کہ مدرسے کے حجرے سے ایک دبلے پتلے نو رانی بزرگ بر آمدہو ئے ہیں درمیا نہ قد گندمی رنگ اور چہرے پر ہزاروں چاند ستاروں کا ملکوتی نور پھیلا ہو ا ہے ۔ اُن بزرگ کے چہرہ انور کو دیکھتے ہیں ہزاروں عقیدت مندوں نے اپنے دامن چاک کر ڈالے آنے والے بزرگ جدھر نظر اٹھاتے رنگ و نور کی برسات برساتے جا تے لوگ دیوانہ وار آپ کو دیکھکر تڑپ رہے تھے ۔ یہ منظر شیخ صدقہ کے لیے بہت حیران کن تھا شیخ صدقہ حیرت کے سمندر میں غرق یہ سوچے جا رہے تھے کہ آنے والے بزرگ نے ابھی نہ کو ئی کلام کیا اور نہ ہی قاری صاحب کو قرآت کاحکم دیا پھر لوگوں میں اتنا زیادہ ردِ عمل کیوں ہوا ابھی شیخ صدقہ انہی خیالوں میں گم تھے کہ آنے والے بزرگ نے ایک نظر بھر کر شیخ صدقہ کو دیکھا اور پر جلال آواز میں کہا میرا ایک مرید صرف ایک قدم میں بیت المقدس سے یہاں آگیا ہے اُ س نے میرے ہا تھ پر تو بہ کی ہے گریباں چاکی دراصل اُسی کی ضافت ہے آنے والے بزرگ کی آواز کے جلال سے شیخ صدقہ کے حواس گم ہو چکے تھے انہوں نے دل میں سو چا جو شخص ایک ہی قدم میں بیت المقدس سے بغداد پہنچ جا ئے و ہ اس بات سے توبہ کر تا ہے روحانیت کے اِس مقام پر فائز بندے کو بھلا پیر کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے اِسی دوران ایک بار پھر آنے والے بزرگ کی با رعب آواز نے فضاؤں میں ارتعاش پیدا کیا اور حاضر ین اور شیخ صدقہ کی سماعتوں میں شگاف ڈالے جو شخص وقت کی لگام کھینچنے پر قادر ہو نے کے باوجود مُجھ سے رجوع نہ کر ے تو وہ اِس امر کا محتاج ہو تا ہے کہ میں اُسے راہ حق دکھاؤں اور پھر آنے والے بزرگ منبر پر کھڑے ہو کر بولنا شروع ہو ئے آپ کی با رعب آواز چاروں طرف گونج رہی تھی آپ فرما رہے تھے میری تلوار مشہور ہے میری کمان چلّے پر اور میرا تیر کمان پر چڑھا ہوا ہے میرا تیرصائب اور میرا نیزہ بے خطا ہے میرا گھوڑا زین کسا ہوا ہے اور میں رب ذولجلال کی روشن آگ ہوں وہ سمندر ہو ں جس کا کو ئی کنارہ نہیں ہے میں صبر میں رہ کر بھی کلام کر نے والا ہوں ۔میں محفوظ ہو ں اور ملحوظ ہو ں اے پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں تمہارے پہاڑ ٹوٹ گئے گر جا والو ! تمہار ے گر جا گھر گئے تم خدا کی طرف آؤ میں خدا کے احکامات میں سے ایک ہوں اور سنو میں وہ ہوں جس سے ایک دن اور ایک رات میں ستر دفعہ کہا جا تا ہے کہ ہم نے تجھے اپنے لیے پسند کیا تا کہ تُو ہماری آنکھوں کے سامنے پرورش پا ئے ۔ منبر پر کھڑے بزرگ کی پر جلال آواز گو نج رہی تھی اُن کی ہیبت اور جلال کا یہ عالم تھا ہزاروں لو گوں کی موجودگی کے با وجود کسی کے سانس لینے کی آواز تک نہ آرہی تھی لوگ حیرت و سکوت میں سنگی مجسموں کا روپ دھارے بیٹھے تھے ۔ جیسے اُن کے جسموں سے روحیں پرواز کر گئی ہوں ۔ ہوا میں فضا بھی دم بخود بے حس و حر کت ہو چکی تھیں کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جا ئے ۔اور پھر اہل بغداد نے ایک اور منظر دیکھا شیخ صدقہ جو بار بار اپنی بڑائی کا دعوی کر رہے تھے ایک دم حرکت میں آئے اور دیوانوں کی طرح ہجوم کو چیر تے ہو ئے منبر کی طرف دوڑنے لگے شیخ صدقہ لوگوں کی موجودگی سے بے خبر گر تے اٹھتے دیوانہ وار منبر تلک گئے اور بزرگ کے قدموں پر سررکھ کر بے ہو ش ہو گئے وعظ دینے والے بزرگ شیخ عبدالقادر جیلا نی ؒ تھے جن کے حسن و جمال کے سامنے کو ئی دوسرا ولی آج تک نہ ٹھہر سکا جو عروج اور شہرت مالکِ ارض و سما نے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کو عطا کی وہ کسی اور بزرگ کے حصے میں نہ آئی ایسی لا زوال شہرت جیسے قیا مت تک اندیشہ زوال نہیں ، اہل حق کی پو ری جما عت میں جو شہرت اور محبوبیت آپ ؒ کے حصے میں آئی وہ کسی اور کو نہ مل سکی ۔ آپ ؒ کا وجود اسلام کے لیے نئی زندگی کے مترادف تھا جس نے اجڑے دلوں کے قبرستان میں نئی زندگی ڈال دی آسمان تصوف پر باقی اولیا ستاروں کی مانند ہیں تو آپ اکلوتے چاند ہیں اولیا کی جماعت کو اگر ستاروں کا ہا ر تصور کیا جا ئے تو اِس خوبصورت مالا کا چاند آپ ہیں روحانیت کو اگر ایک چراغ سے تشبیہ دی جا ئے تو اِس چراغ کی لو آپ ؒ ہیں ۔ آپ کو قدرت نے حلقہء صوفیاء میں سب سے بلند مقام پر فائز کیا آپ کے سحر خطابت کی ایک دنیا اسیر تھی آپ ؒ جیسے ہی مسند تلقین پر جلوہ افروز ہو کر خطاب فرماتے تو ستر ہزار لوگوں کا اجتماع سکوت کا شکار ہو جا تا کسی کو سرگوشی تک کا ہوش نہ رہتا نہ کسی کو کھانسنے کا ہوش رہنا یوں محسوس ہو تا جیسے لوگوں کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں جن کے اڑ جانے کے خوف سے لوگ چپ سادھے ہو ئے ہیں آپ ؒ کے افکار اور ملفو ظا ت کو قلمبند کر نے کے لیے چار پانچ سو دواتیں مجلس میں لا ئی جاتیں ۔ آپ کے جملے منہ سے نکل کر ہو ا میں تحلیل نہیں ہو تے تھے بلکہ تیر بن کر دل میں کھُب جا تے تھے ۔ آپ کے وعظ کے وقت لوگوں پر سحر طاری ہو جا تا آپ کے وعظ کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ کئی لو گ شدت جذبات سے اپنے گریبان چاک کر لیتے اور کئی جذبات کی شدت سے اپنی جان کھو دیتے آپ کے وعظ کے بعد کئی جنا زے اٹھتے لگتا ہوائیں فضائیں آسمان زمین ہر کو ئی آپ کا دیوانہ ہے آپ کی پر جلال آواز کی اثر انگیزی کا یہ عالم تھا کہ لوگ پھڑک کر مر جاتے آپ کی مجلس سے کئی بار جنازے اٹھائے گئے آپ کبھی کسی حاکم سے ملنے نہیں گئے البتہ کئی بار خلفا ء اور وزرا ء آپ کے در پر حاضر ہو تے آپ کے ہا تھ چومتے مگر آپ انہیں جھٹک دیتے ۔ آپ کے دستر خوان پر فقیروں اور غریبوں کا ہجوم ہو نا جو شہرت آپ کو قدرت نے عطا کی بادشاہ وقت اُس کی حسرت ہی کرتے رہ گئے ۔ حق تعالی نے آپ کو دینی اور روحانی خدمات کے لیے پیدا کیا تھا ِس لیے آپ تمام خو بیاں دے کر بھیجا تھا تدریس اور خطابت میں آج تک کو ئی آپ کا ثا نی نہ بن سکا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل د نیاآج بھی آپ ؒ کو شہنشاہ ِ بغداد ، شاہ جیلانی محبوب سبحانی ، شیخ الاسلام اور خلقِ خدا آپکو ’’ غوث ِ اعظم ‘‘کہتی ہے اور عوام و خواص آپ کو ’’پیرانِ پیر ‘‘ کہتے ہیں بلا شبہ غوثِ اعظم کی شان سب سے بلند اور نرالی ہے ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...