جمعرات، 22 مارچ، 2018

شاہِ بغداد کا خطاب

شاہِ بغداد کا خطابتاریخ ِ انسانی کے سب سے بڑے ولی اﷲ کا با رعب خطاب جاری تھا آپ کی پر جلال آواز گو نج رہی تھی اہل بغداد کا ہزاروں کا مجمع تصویر حیرت سے ساکت آپ کا خطاب سن رہے تھے کہ اچانک آسمان پر کالے بادل چھا گئے اور پھر طوفانی مو سلا دھا ر بارش برسنے لگی بزرگ نے آسمان کی طرف دیکھا اور نہایت درد ناک لہجے میں خدا کو عرض کی اے مالک بے نیاز میں تو صرف تیری مخلوق کو اکٹھا کر تا ہوں اور تُو انہیں منتشر کر نا چاہتا ہے بزرگ کی زبان مبارک سے جیسے ہی الفاظ نکلے بارگاہِ الہی میں قبول ہو ئے تو پھر اہل بغداد نے اپنی آنکھوں سے حیرت انگیز منظر دیکھا جہاں پر لوگ تقریر سننے کے لیے جمع تھے وہاں بارش برسنا بند ہو گئی جبکہ میدا ن کے چاروں طرف موسلا دھار بارش اُسی طرح ہو رہی تھی ہزاروں انسانوں نے اپنی آنکھوں سے بزرگ کی زندہ کرامت دیکھی کہ جب تک بزرگ تقریر کر تے رہے اہل مجمع پر بارش نہیں ہو رہی تھی جبکہ اطراف میں بارش زوروں سے ہو رہی تھی اِس کرامت کی شہرت چاروں طرف پھیل گئی پھر پورا ملک آپ کا وعظ سننے کے لیے اُمڈ آتا ملک کے دور دراز علاقوں سے ہدایت کے متوالے اپنی اندھی بے نورو حوں کے ساتھ تقریر سننے آتے اور پھر کثافتوں کو لطافتوں میں تبدیل کر کے گھر لوٹتے ۔اِسی طرح ایک روز آپ خطاب فرمانے لگے ہزاروں لوگ عقیدت و احترام سے آپ کا وعظ سننے کے لیے جمع تھے ابھی آپ ؒ نے تقریر شروع نہیں کی تھی حاضرین مجلس آپس میں گفتگو کر رہے تھے حاضرین میں ایک اور بہت نیک بزرگ شیخ علی بن ابی نصر بھی موجود تھے جو آپ کے بلکل سامنے بیٹھے تھے کیونکہ ابھی تقریر کا آغاز نہیں ہو ا تھا اِس لیے اچانک شیخ علی پر غنودگی طاری ہو ئی اور آپ کو نیند آگئی بزرگ تقریر کے لیے منبر پر جلوہ افروز ہو ئے تقریر شروع کر نا چاہی ایک نظر ہزاروں لوگوں کو دیکھا پھر بزرگ کی نظر ایک طرف ٹھہر گئی آپ شیخ علی کو دیکھ رہے تھے پھر اچانک بزرگ بو لے خا موش ہو جاؤ خاموش ہو جاؤ بزرگ کی زبان سے یہ الفاظ جیسے ہی حاضرین کی سما عتوں سے ٹکرائے تو حاضرین مجلس فوراً خا موش ہو گئے ہزاروں لو گ تصویر حیرت بنے خاموش تھے لوگوں کی سانسوں کے سوا کوئی آواز نہیں آرہی تھی پھر اہل مجمع نے ایک اور حیرت انگیز منظر دیکھا کہ بزرگ اپنے منبر سے نیچے اُتر کر آئے اور سوئے ہو ئے شیخ علی کے سامنے نہایت ادب و احترام سے کھڑے ہو گئے حاضرین اِس غیر متوقع واقع سے حیران تھے کیونکہ اُن کی نظروں نے آج سے پہلے کبھی ایسا منظر نہ دیکھا تھا ۔ بزرگ نہایت پیار، ادب و غور سے شیخ علی کے چہرے کو دیکھ رہے تھے حاضرین حیران تھے کیونکہ کا فی دیر ہو گئی تھی لیکن بزرگ نہایت خا موشی اور ادب سے کھڑے تھے اورپھر جب شیخ علی نیند سے جاگے تو اُنہوں نے اپنی زندگی کے حیران کن منظر کو دیکھا کہ جس بزرگ کا وہ خطبہ سننے آئے تھے جن کے وہ دیوانے تھے وہ احتراما ً اُن کے سامنے کھڑے ہیں شیخ علی کو کچھ بھی سمجھ نہ آیا وہ گھبرا کر فوری کھڑے ہو گئے لیکن بزرگ نے اپنا دستِ شفقت شیخ علی کے کندھے پر رکھا اور دلنواز تبسم سے فرمایا علی آپ بیٹھ جاؤ لیکن شیخ علی نے عقیدت و احترام سے لبریز لہجے میں کہا یا شیخ آپ کھڑے ہوں تو میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں میں عاجز مسکین یہ گستاخی کیسے کر سکتا ہوں ۔ لیکن بزرگ نے کندھے پر ہا تھ رکھا اور کہا بیٹھ جاؤ علی جب میں کہہ رہا ہوں کہ بیٹھ جا ؤ تو عقیدت کا تقاضہ یہی ہے کہ بیٹھ جا ؤ اب شیخ علی نہ چاہتے ہو ئے بھی حکم شیخ پر بیٹھ گئے تو بزرگ مشفقانہ تبسم سے بولے اے علی کیا ابھی تمہا رے خواب میں سر تاج الانبیا ء سرور کائنات ﷺ نہیں تشریف لائے تھے تو شیخ علی عقیدت سے سر شار اور حیرت سے بو لے جی ہاں آپ درست فرما رہے ہیں ابھی کچھ دیر پہلے ہی جب سو رہا تھا تو مجھے محبوب خدا سردار الانبیاء ﷺ کی زیارت کی سعادت نصیب ہو ئی ہے توبزرگ بو لے میں سرورِ کو نین ﷺ کے احترام میں ہی تو کھڑا تھا ۔ شیخ علی عقیدت اور رقت آمیز لہجے میں بو لے یا شیخ کیا سرور دو جہاں ﷺ نے آپ کو کو ئی ہدایت بھی فرمائی ہے ؟ تو بزرگ بو لے جی ہاں مجھے شہنشاہ دو جہاں ﷺ کا حکم تھا کہ میں آپ کی خدمت میں احتراماً کھڑا رہوں ۔ شیخ علی کے سامنے کھڑے ہو نے والے بزرگ تا ریخ انسانی کے سب سے بڑے بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ تھے ۔ آپ ؒ کی شان اور آقائے دو جہاں ﷺ کی مجلس میں حاضری اور حضوری کا یہ مقام تھا کہ آپ ؒ کی مجلس اور وعظ سننے والوں پر بھی زیارت رسول ﷺ کی سعادت نصیب ہو تی تھی۔ مو رخین لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے وعظ سننے والوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جا تی تھی۔ آپ ؒ کے دور کے ایک اور بڑے بزرگ شیخ ابو الحسن انصاری ؒ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے وجدان اور حالت ِ کشف کا واقعہ اِسطرح بیان کر تے ہیں کہ میں آپ ؒ کا وعظ سننے کے لیے بغداد پہنچا میرے پہنچنے سے پہلے ہی میدان حاضرین سے بھر چکا تھا لہذا مجھے آخری صفوں میں جگہ ملی حضرت شیخ ؒ کا زُہد پر وعظ جا ری تھا میں نے دل میں سو چا کاش آپ ؒ معرفت پر ارشاد فرمائیں تو آپ ؒ نے معرفت پر مدلل اور پر تاثیر فکر انگیز تقریر فرما دی جو اِس سے پہلے میں نے کبھی نہ سنی تھی پھر میرے دل میں خیال آیا کاش حضرت آج ’’شرک ‘‘ کے موضوع پر بھی اظہار خیال فرما دیں اور پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب شیخ جیلانی ؒ نے پہلا موضوع بد ل کر شرک پر ایسی جاندار علمی تقریر فرمائی کہ میں حیرت کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے منہ سے الفاظ و معانی کا آبشار ابل رہا تھا علم و حکمت کے مو تی لٹا رہے تھے ایسا خطاب میں نے پو ری زندگی کبھی نہ سنا تھا ۔ شرک کے اسرار و رموز پر ایسی گفتگو جو میں نے پہلے کبھی نہ سنی تھی میرے ہوش و حواس گم ہو چکے تھے میں تحیر کے آخر ی درجے پر تھا پھر میں نے سو چا کہ کاش شیخ ’’ فنا و بقا ‘‘ کے پیچیدہ مسئلے پر روشنی فرما دیں اُسی لہجے جناب شیخ نے ’’ فنا و بقا ‘‘ پر سیر حاصل تقریر فرمائی الفاظ معانی کا سیلاب جا ری تھا ۔ مجھے لگ رہا تھا آج کی محفل جناب شیخ ؒ نے میرے لیے ہی سجا ئی ہے میں جو دل میں سوچتا تھا آپ اُسی پر پرُ مغز تقریر فرما دیتے مجھے جناب شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے مقام، شان اور کشف کا اندازہ ہو رہا تھا کہ ہزاروں کے مجمع میں جو میں دل میں سوچ رہا ہوں آپ ؒ اُس کا جواب دے رہے ہیں پھر میں نے سوچا کا ش حضرت شیخ ؒ آج ’’ غیب و حضور ‘‘ کے مشکل مسئلے کو بھی آج آسان کر دیں اور پھر میری حیرت آخری حدوں کو چھونے لگی جب شہنشاہ ِ بغداد نے’’ غیب و حضور ‘‘ جیسے مشکل مو ضوع کو اِسطرح بیان فرمایا کہ میری سالوں کی تشنگی دور ہو ئی میرے دل دماغ کو سکون نصیب ہوا ۔اور پھر شہنشاہِ بغداد ؒ کی تقریر ختم ہو ئی تو جناب شیخ ؒ نے حاضرین کی آخری صف پر نگاہ ڈالی اور براہِ راست مجھے مخاطب کیا اور کہا اے ابو الحسن کیا تیری تسلی ہو ئی کیا یہ تیرے لیے کا فی ہے ؟ شہنشاہِ بغداد ؒ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے میرے سماعت سے ٹکرائے اور میری حالت غیر ہو گئی حالتِ وجد میں گریبان چاک کر ڈالا اور دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا ۔

غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ

غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒخا لقِ ارض و سما نے حضور سیدنا غوث الاعظم ، شہباز لا مکانی قندیل نورانی عکس آیات قرآنی محبوب سبحانی کو غوثِ اعظم کا اعزاز بخشا ۔ غوث اہل حق کے نزدیک بزرگی کا ایک خا ص مقام ہو تا ہے صدیوں سے روحانی دنیا میں شیخ حضرت عبدالقادر جیلانی غوثِ اعظم ؒ کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ’’غوث‘‘ کے لغوی معنی ’ ’ فریاد رس ‘‘ یعنی فریاد کو پہنچنے والا چونکہ آپ ؒ غریبوں مسکینوں بے کسوں حاجت مندوں کے مسائل حل کر تے تھے اِس لیے آپ ؒ کو غوث اعظم ؒ کا خطاب دیا گیا ۔ عقیدت مندو آپ ؒ کو ’’پیرانِ پیر ‘‘ اور دستگیر کے لقب سے بھی یاد کر تے ہیں آپ ؒ آسمان ِ تصوف کے روشن ترین چاند اولیائے کرام میں سب سے زیادہ محبوب آپ ؒ کا خاندانی نام محمد عبدالقادر اور لقب محی الدین ؒ ( مذ ہب کو زندہ کر نے والا ) آپ ؒ کی ولادت 470ھ میں ایران کے شہر جیلان میں ہو ئی اولیا ء کے سردار رمضان البارک کی پہلی تاریخ کو اس رنگ و بو کی دنیا میں تشریف لا ئے ۔ اسی رات آپ ؒ کے والد محترم حضرت ابو صالح نے سرور کائنات سردار الانبیاء ﷺ کو خواب میں دیکھا آقائے دو جہاں فرما رہے تھے اے ابو صالح تجھے اﷲ تعالی نے فرزند صالح عطا فرما یا ہے وہ میرے بیٹے کی مانند ہے اور اولیاء میں اُس کا نام بہت اونچا ہے جس را ت محبوب سبحانی اس کر ہ ارض پر تشریف لا ئے اُس رات پو رے شہر میں جس قدر بچے پیدا ہو ئے وہ تما م کے تمام لڑکے تھے اور پھر یہ تمام لڑکے جوا ن ہو کر ولایت کی اعلی منازل پر فائزہو ئے آپ ؒ کی اماں جان فرماتی ہیں کہ عبدالقادر رمضان میں پیدا ہو ئے اور آپ نے پورا رمضان دن کو دودھ نہیں پیا جب اگلا سا ل آیا تو اہل شہر بادلوں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکے تو لوگ شبے میں پڑ گئے کچھ لوگوں نے حضرت شیخ عبدالقادر کی والدہ محترمہ سے پو چھا کہ سیدہ کیا تمھیں چاند نکلنے کا پتہ ہے تو عظیم ماں نے فرمایا آج میرے عبدالقادر ؒ نے دن کے وقت دودھ نہیں پیا اِس لیے میں سمجھتی ہو ں کہ آج پہلا روزہ ہے پھر بعد میں معتبر شہادتوں سے بھی اِس بات کی تصدیق ہو گئی کیونکہ دوسرے شہروں میں چاند نظر آ گیا تھا ۔ پھر عبدالقادر ؒ کی یہ کرامت قرب و جوار میں پھیل گئی کہ یہ سید بچہ دن کو رمضان میں دودھ نہیں پیتا ۔ پھر بچپن میں ہی آپ ؒ کے والد کا سایہ اٹھ گیا تو آپ ؒ کے نانا اور والدہ ماجدہ نے آپ ؒ کی پرورش شروع کر دی ، عظیم والدہ کی زیر نگرانی آپ ؒ نے 26سال کی عمر تک علم قرآن ، علمِ فقہ ، علم کلام ، علم تفسیر ، علم وحدت ، علم نعت ، علم ادب ، علم نحو ، علم عروض ، علم مناظرہ ، علم تاریخ اور علم انساب کی تکمیل کر لی ۔ اتنی کم عمر ی میں اِس قدر علم پر عبور بھی شیخ کی زندہ کرا مت ہے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب آپ ؒ نے فتوی دینا شروع کیا تو دنیاوی علما کی صفوں میں کہرام مچ گیا کہ 26سالہ نوجوان علم شریعت کی گہرایوں سے کیسے واقف ہو سکتا ہے ۔ اِسطرح علما ظاہر نے آپ ؒ کے خلاف دشمنی کا محاذ بنا لیا کہ عبدالقادر ؒ نے فتوی دینے کا اجازت نامہ کس سے حاصل کیا تو آپ ؒ دلنواز تبسم سے فرماتے میرے اساتذہ میرے علم سے واقف ہیں اُن کا اطمینان ہی میرا اجازت نامہ ہے ۔ کیونکہ عبدالقادر ؒ کے اساتذہ زیادہ تر گو شہ نشین تھے جن کی دربارِ خلافت تک رسائی نہ تھی اور نہ ہی اُنہیں اِس کی خواہش تھی ۔ لیکن علما ظاہر کی تسلی نہ ہو ئی اُنہوں نے با قاعدہ مہم چلا ئی کہ جب تک یہ نوجوان بغداد کے نامور علما سے اجازت نہ حاصل کر سکے اُس وقت تک یہ فتوی نہیں دے سکتا اور اجازت نامے کے لیے علما بغداد کے سامنے امتحان سے گزرنا پڑے گا اگر اِن علما کے سوالات کا تسلی بخش جواب دے پا یا تو ہی اجازت نا مہ ملے گا ۔آپ ؒ اِس کے لیے بلکل تیا ر نہیں تھے اہل ِ دنیا کے سلوک سے جنگلوں بیابانوں میں جا نا چاہتے تھے لیکن عقیدت مندوں کے اصرار پر علما بغداد کے سامنے طالب علم کے طور پر حاضر ہو نے کے لیے تیار ہو گئے علما ظاہر بہت خو ش تھے کہ ہم عبدالقادر ؒ کو کبھی بھی پا س نہیں کر یں گے ۔جبکہ عقیدت مند پریشان تھے ۔ آخر وہ گھڑی آپہنچی کہ تمام علما بغداد ایک بڑی عمارت میں جمع ہو ئے بہترین ریشمی لباس پہن کر سرو ں پر عمامے سجائے پیشانیوں پر علم کی آگہی کا غرور اور تکبر کی لکیریں اور یہ اولیا کے سردار ایک معمولی جبہ پہنے عاجزی کا پیکر بنے ہو ئے کمرے میں داخل ہو کر علما کے سا منے پڑی نشست پر بیٹھ گئے علما بغداد غور سے نوجوان کو دیکھ رہے تھے کہ یہ علم کی گہرائیوں سے کیسے واقف ہو سکتا ہے مجلس پر سکوت طاری تھا آخر شیخ عبدالقادر ؒ کی نرم آواز گونجی حضرات میں اِس قابل تو نہیں کہ کسی امتحان سے گزر سکوں لیکن کیونکہ یہ مجلس اِسی لیے آراستہ ہو ئی ہے اِس لیے بسم اﷲ کریں یہ کہہ کر اولیا کے سب سے بڑے ولی اﷲ نے ایک نظر بھر کر علما بغداد کو دیکھا اور پھر ایک نظر نے ہی کمال کر دیا ۔ سب کچھ زیر و زبر ہو گیا علما بغداد کی نظر جیسے ہی عبدالقادر ؒ کی نظر سے ٹکرائی تو عجیب انقلاب رونما ہوا اولیا کے سرتاج کی نظر میں اﷲ کا نور تھا دنیا کی کون سی قوت ہے جو خدا کے نور کے سامنے ٹھہر سکے ۔ علما ئے بغداد کے ذہنوں پر تاریک اندھیرے مسلط ہو چکے تھے اُن کی دماغ تا ریک و یرانوں میں تبدیل ہو چکے تھے ۔ علمائے بغداد کی زبانیں گنگ ہو چکی تھیں شیخ عبدالقادر ؒ نے حالت جذب و کن فیکون کی اِیسی نظر سے دیکھا کے علما بغداد کے ذہنوں کے چراغ تا ب نہ لا تے ہو ئے بجھ گئے ۔ علما ء بغداد کو پتہ ہی نہ چلا جب اِن کے علم کے خزانے چوری ہو گئے اُن کی علمی متا ع لٹ چکی تھی وہ بے بسی اور فالجی کیفیت میں پتھر کے مجسموں کا روپ دھار چکے تھے ۔ علما ء بغداد آپ ؒ کا امتحان کیا لیتے وہ تو اپنی سب سے قیمتی چیز کے چھن جانے کی وجہ سے تصویر حیرت اور سوالی بنے کھڑے تھے ۔ نگاہ ِ مرد، مومن کی ایک نظر نے اُن کی ساری عمر کا علمی ذخیرہ سلب کر لیا علماء بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے ۔ اُنہیں لگ رہا تھا کسی غیر مرئی قوت نے اُن کے ذہنوں کی سلیٹ کو صاف کر دیا تھا بقول امیر خسرو ؒ چھاپ تلک سب چھین لی مو سے نینا ں ملا ئے کے ( وہ تیری ایک نظر کیا تھی کہ جس نے میرے ماتھے سے بت پرستی کی تمام نشانیاں مٹا ڈالی ) سرور دو جہاں ﷺ کی حدیث پاک ہے ۔ ’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے ‘‘ دنیاووی علما اِس حقیقت کو نہ پا سکے کہ اُن کے سامنے شیخ عبدالقادر ؒ اِس وقت کے اﷲ کے نور سے دیکھ رہے تھے ۔ علما ء بغداد کی بے بسی اور لا چارگی دیکھ کر غوث اعظم ؒ شفیق لہجے میں بو لے جناب آپ مجھ سے کو ئی سوا ل کیوں نہیں کررہے آپ کے بار بار کہنے پر حالت شرمندگی میں غرق علما بو لے ہم کیا سوال کریں علم تو ہمارے ذہنوں سے رخصت ہو گیا علما نے اپنی بے بسی اور شکست کا اقرار کیا تو جناب شیخ اٹھ کھڑے ہو ئے اور کہا مجھے اجازت دیں جب آپ ؒ واپس جانے لگے تو اہل بغداد نے عجیب منظر دیکھا علماء بغداد سراپا التجا غوث اعظم ؒ کی منت سماجت اور گر یہ زاری کر نے لگے کہ ہمیں ہمارا علم واپس کر دیں ہم تو خا لی غباروں اور مشکیزوں کی طرح ہو گئے ہیں درو دیوار علما کی فریادوں سے گونجنے لگے اہل بغداد عجیب منظر دیکھ رہے تھے کہ امتحان لینے والے خود امتحان میں پھنس چکے تھے علما ء بغداد طالب علم سے علم کی واپسی اور بھیک مانگ رہے تھے پھر غوث اعظم عالم جذب میں بو لے میں عشقِ خداوندی کی آگ ہوں حال احوال سلب کر نے والا دریائے بے کراں اور راہنمائے وقت ہوں، میں نے آپ سب کو معاف کیا اﷲ بھی آپ کو معاف فرمائے پھر آپ ؒ نے سوالی علما کو علم کی بھیک دے دی آپ ؒ کے جا تے ہی علمائے بغداد کے دماغ دوبارہ علم کے نور سے روشن ہو گئے اُن کے مردہ دماغ زندگی پا گئے ۔اِس واقعہ کے بعد زمانے کو آپ ؒ کے ظاہری اور باطنی علم و مقام کا پتہ چل گیا ۔ 

loading...