جمعرات، 22 مارچ، 2018

برطانیہ کے رنگ

برطانیہ کے رنگمادیت اور نفسا نفسی میں غرق شہر لندن میں ہم ایسے منظر کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لندن کے مقیم جن کی ہڈیوں تک ما دیت اور مطلب پرستی سرا ئیت کر چکی ہے جن کے پاس ایک دوسرے کو سلام کر نے کا بھی وقت نہیں ہے یہاں پر لوگ اگر کسی کو فون کئیے بغیر یعنی اجازت لیے بغیر کسی کے گھر چلے جا ئیں تو لو گ دروازہ کھولنے سے انکار کر دیتے ہیں اور آنے والے کو بد تہذیت جا ہل اور گنوار سمجھا جا تا ہے کہ وہ اطلا ع دئیے بغیر کیوں آگیا ۔ آنے والا ہزار معذرتیں کر لے کہ میراملنے کو دل کر رہا تھا میں بہت اداس تھا مجھے آپ کی بہت یا د آرہی تھی لیکن یہاں زندگی کی بھاگ دوڑ میں کسی کے پاس وقت نہیں ہے ۔ مشینی نظام میں ہر کو ئی بُری طرح الجھ چکا ہے کہ وہ خو د بھی مشینی پرزے میں ڈھل چکا ہے یہاں پر پتہ ہی نہیں چلتا کب انسان جوانی کی بھاگ دوڑ سے بڑھا پے کی وادی میں اُتر جا تا ہے اور پھر دواؤں سے اور تنہا ئی سے دوستی کر نی پڑتی ہے ۔ ما دیت کی عالمگیر لہر نے پو رے لندن اور بر طانیہ کو اپنے آہنی شکنجے میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے اِس لیے جب ہم سنٹرل لندن کرا س کر تے ہو ئے پٹنی کے علا قے میں مقیم میزبان کے گھر پہنچے تو ہمارے ساتھ رابطے کی وجہ سے اُس نے ہما رے آنے تک وسیع و عریض ڈائینگ ٹیبل کو دنیا جہاں کے لذیز خو ش رنگ اور اشتہا انگیز کھا نوں سے بھر دیا تھا ۔ ہما ری حیرت اور خو شی آخری حدوں کو چھو رہی تھی کیونکہ کھا نوں میں اکثر یت پا کستانی روایتی کھا نو ں کی تھی دن بھر کی سیر اور لمبے سفر کی وجہ سے ہما ری بھو ک نقطہ عرو ج پر تھی اوپر سے اشتہا انگیز کھانوں کی خو شبو اور کھانوں سے اٹھتی ہو ئی بھاپ نے تو ہما ری بھو ک کو پا گل پن کی حد تک بڑھا دیا تھا میزبان نے میزبا نی کا اعلی مظا ہر ہ کر تے ہو ئے آتے ہی کہا سر با ت چیت کھا نے کے دوران اور بعد میں ہو تی رہے گی آپ ہا تھ دھو لیں اور ڈا ئریکٹ کھا نے کی میز پر آجا ئیں میزبان اور اُس کی فیملی کے چہروں پر عقیدت محبت کے چراغ روشن تھے اُن کے چہروں کی چمک اور مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ ہما رے آنے سے بہت خو ش ہیں ۔ کھا نوں کی اشتہا انگیزی اور ہما ری تیز بھوک کی وجہ سے ہم نے فوری طور پر کھا نے پر حملہ کر دیا ہما ری بھو ک اور کھا نے کی لذت نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیا ہم دنیا و ما فیا سے بے خبر کھا نا کھا رہے تھے ابھی ہما رے کھا نے کا عمل درمیان میں ہی پہنچا ہو گا کہ اچانک بہت تیز میوزک بجنا شروع ہو گیا میوزک کی تیز آواز سے ہما رے کا نو ں کے پر دے پھٹنے کے قریب تھے پہلے تو ہم نے میو زک کی تیز آواز کو نظر انداز کر نے کی کو شش کی لیکن میو ز ک اتنا تیز اور بے ہنگم تھا ہما ری سما عتوں میں شگا ف پڑتے محسوس ہو نے لگے ۔ تیز میو زک کے درمیان کبھی کبھی کسی نسوانی آواز کی آمیزش بھی ہو جا تی ۔ بے وقت اور بے ہنگم تیز میوزک نے ہما رے کھا نے کو بھی متا ثر کر نا شروع کر دیا ہما رے میزبان اور ان کے نو جوا ن بیٹے جو جو ش و خروش سے ہمیں کھا نا Serveکر رہے تھے سا تھ سا تھ وہ کھا نوں کی ترکیبیں اور بنا نے کے طریقے بھی بتا ئے جا رہے تھے ۔ کھانا بنا نے والے کو اگر تعریف مل جا ئے تو اُس کی سا ری تھکا وٹ دور ہو جا تی ہے ۔ ہم کھا نو ں پر تبصرہ اور تعر یف دل کھول کر کر رہے تھے اور میزبان ہما ری تعریفوں کو خوب انجوا ئے کر رہے تھے میزبان اور ہما رے وہم و گما ن میں بھی نہ تھا کہ اچانک ا،س مصیبت کا سامنا کر نا پڑے گا ۔ ہما رے میزبانوں کے چہروں پر شر مندگی اور پریشانی کے آثار گہرے ہو تے جا رہے تھے اُن کے چہروں کے تا ثرات اور رنگوں سے واضح طو ر پر پتہ چل رہا تھا کہ اُن کے لیے یہ مصیبت پہلی با ر نہیں آ ئی بلکہ اُن کا واسطہ اِس مصیبت سے اکثر اوقات پڑتا رہتا ہے ۔ وہ بار بار ایک دوسرے کی طرف دیکھ اور اشارے کر رہے تھے ۔ ایک بیٹا با ر بار کہہ رہا تھا اپنے با پ سے کہ وہ پو لیس کو کا ل کر نے لگاہے جبکہ با پ شا ید پو لیس کو نہیں بلا نا چا ہتا تھا ۔ بیٹا کیونکہ جوا ن خو ن تھا وہ بار با ر کہہ رہا تھا کہ پو لیس کو بلا لیا جا ئے ۔ ہم اِس اچانک صورتحا ل سے کنفیوژ اور پریشان ہو چکے تھے ۔ میزبان اصل بات سے واقف تھے ہم با لکل بے خبر تھے میو زک سا تھ والے گھر سے تواتر سے جا ری تھا ۔ کچھ دیر تک تو میزبان آپس میں اشاروں اور دبی زبان مین گفتگو کر تے رہے ۔ اِس دوران میزبان اِس انتظار میں بھی تھے کہ شاید پڑوسیوں کو رحم آجا ئے اور وہ خو د ہی میو زک بجا نا بند کر دیں اس دوران وہ بار بار ہم سے معذرت بھی کر رہے تھے ہم اچھی طرح جان چکے تھے کہ اِس میں میزبانوں کا با لکل بھی قصورنہیں ہے ۔ ہم چہروں پر مسکراہٹ سجا ئے با ر بار کہہ رہے تھے کہ کو ئی با ت نہیں اِس میں آپ کا تو با لکل بھی قصور نہیں ہے ۔ یہ عذاب تو آپ کے پڑوسیوں نے آپ پر نا زل کیا ہے ۔ ہما رے میزبان نا کر دہ غلطی کی شرمندگی اُٹھا رہے تھے ۔ جب کا فی دیر تک میو زک بند نہ ہوا تو میزبان کے صبر کا پیما نہ چھلک پڑا با پ نے جب دیکھا کہ اُس کے نو جوان بیٹے بہت غصے میں آچکے ہیں اور وہ پو لیس کو بلا نے لگے ہیں تو اُس نے بیٹو ں سے کہا آپ انتظا ر کر یں میں پڑوسی سے با ت کر کے آتا ہوں ۔ با پ سختی سے بیٹوں کو روک کر خو د دروازہ کھو ل کر با ہر چلا گیا ۔ با پ کے جا نے کے بعد پو رے گھر پر سکو ت طا ری ہو چکا تھاصرف تیز میوزک جاری تھا ہم سب مجرموں کی طرح سر جھکا ئے بیٹھے تھے وہ گھر جو چند لمحے پہلے خو شگوار قہقوں سے کوگونج رہا تھا جہاں چاروں طر ف مسکراہٹیں رقص کر رہی تھیں اب خا موشی کی چادر تنی تھی ۔ ہم سب سنا ٹے کے اسیرہو کر رہ گئے تھے ۔ میزبان اِس با ت پر شرمندہ تھا کہ مہمانوں کی مو جو دگی میں یہ بد مزگی پیدا ہو ئی ہے ۔ اور ہم اِس بات پر پریشان تھے کہ بیچارے خو اہ مخواہ شرمندگی میں ڈوبے ہو ئے ہیں جن میں میزبانوں کا رتی برا بر بھی قصور نہ تھا ہمیں حیرت اِس با ت کی تھی کہ بر طانیہ جو تہذیب اور اخلا قیا ت کا چیمپئین بنتا ہے جہاں پر انسان تو کیا جا نوروں اور کتوں کا بھی بہت خیال رکھا جا تا ہے اُس ملک میں اِ س درجے کی بد تہذیبی کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بد تہذیبی اور بد اخلا قی ہما رے اور میزبانو ں کے سامنے ہٹ دھرمی اور سینہ زوری سے جا ری تھی ۔ میزبان اور ہم اس بے ہنگم میو زک کوسننے پر مجبو ر تھے ہم بے بسی اور شر مندگی کے مجسموں کا روپ دھا ر چکے تھے ۔ ایک دوسرے سے نظریں چرائے خا موش بیٹھے تھے کہ میزبان صاحب ابھی گئے ہیں وہ میوزک بند کرا کے ابھی واپس آجا ئیں گے ۔ وقت گزرتا جا رہا تھا لیکن میو زک بند نہیں ہو رہا تھا اب میوزک میں کسی نسوانی آواز بلکہ چیخوں کا بھی اضا فہ ہو گیا تھا لگ رہا تھا کہ پڑوسیوں نے میوزک بند کرنے سے انکا ر کر دیا ہے اور وہ لڑا ئی پر آما دہ ہیں پھر نسوانی آواز میں با آواز انگریزی میں گا لی گلو چ بھی شروع ہو گئی اب ہمیں احساس ہو چکا تھا کہ پڑوسیوں نے میو زک بند کر نے سے انکار کر دیا ہے بلکہ وہ بد تمیزی پر اُتر آ ئے ہیں جب کا فی دیر گزر گئی تو بیٹے غصے سے تنگ آکر پو لیس کو فون کر دیا کہ یہاں پر مسئلہ ہو گیا ہے آپ فوری آجا ئیں ۔

برطانیہ کے پردیسی

برطانیہ کے پردیسیاُس نے ایک دم پا ؤں بریک پر رکھا اور ٹیکسی کو سڑک کے کنارے روک دیا میں اُس کے اِس ردعمل کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا ۔ ہم لندن سے آکسفورڈ ہا ئی وے پر برق رفتاری سے جا رہے تھے راستے کے سحر انگیز مناظر ہر یا لی نے مجھ پر وجد کی سی کیفیت طار ی کی ہو ئی تھی میں راستے کے مناظر کو انجوائے کر رہا تھا ۔ اِسی دوران سر سری طور پر میں نے ڈرائیور سے یہ پوچھ لیا کہ تم کب سے پا کستان نہیں گئے اور تمہار ے بیوی بچوں کا کیا حال ہے اُن کی یا د آتی ہو گی میں نے تو عام اور روٹین کا سوال کیا تھا لیکن ڈرائیور کے لیے یہ سوا ل بم کی طرح تھا ۔ جو اُس نے گاڑی کو ایک دم روک دیا تھا ۔ دو دن پہلے میری اِس پا کستانی سے ملا قا ت کسی کے گھر کھا نے پر ہو ئی تو اِس نے کہا میں آپ سے تفصیلاً ملنا چاہتا ہو ں میں یہاں CABیعنی ٹیکسی چلا تا ہو ں آپ نے لند ن میں یا کسی دوسرے شہر جا نا ہو تو آپ مجھے خدمت کا مو قع دیں آج میں نے آکسفورڈ جا نا تھا لہذا میں نے اِس کو بلا لیا تھا اور اِس کے ساتھ جا رہا تھا دوران سفر اس نے اچانک بریک لگا دی وہ میری طرف دیکھ رہا تھا ۔ اُس کے چہرے پر بے بسی بے کسی ، لا چارگی ، در ماندگی ، اور شدید اندرونی کر ب کے واضح اثرات نظر آرہے تھے جو ہر گزرے لمحے کے ساتھ گہر ے ہو تے جا رہے تھے ۔ اُس کی آنکھوں میں ہزاروں خزاؤ ں کے درد نظر آرہے تھے ۔ اُس کی اداس بے قرار آنکھوں اور پلکوں پر آنسو لر ز رہے تھے پھر شدید اندرونی کر ب کی وجہ سے اُس کی نسوں کا خون آنسوؤں میں ڈھل گیا اُس کے جسم میں چھپی سسکیاں سمٹ کر اُس کے خشک ہو نٹوں پر آگئیں ۔ آئیں ہچکیاں اور چیخیں اُس کے حلق سے آتش فشاں کی طرح پھٹنے لگیں پھر درد کی شدت سے اُس کی آنکھیں بر سنے لگیں اور آنکھوں سے آنسوؤں کی دو فرات بہنے لگے ۔ آنسو اُس کے گالوں سے آبشار کی طرح بہہ رہے تھے اور غم کی شدت سے اُس کا جسم لر ز رہا تھا ۔ میں حیران پریشان ساکت اُس کو شفقت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ میں اُس کے اس رد ِعمل اور روئیے کے لیے بلکل بھی تیا ر نہیں تھا ۔ وہ رو رہا تھا اور میں اُسے دیکھ رہا تھا میں اُس کو خو د موقع دے رہا تھا جب اُس نے جی بھر کر رو لیا تو اُس نے لر زتے ہو ئے اپنی داستان الم سنانی شروع کی ۔ سر آج سے کئی سال پہلے میں پا کستان میں بھی ٹیکسی چلا تا تھا با قی پا کستانیوں کی طرح میں بھی یو رپ اور بر طانیہ کے سہا نے خواب دیکھاکر تا کہ کسی نہ کسی طرح بر طانیہ چلا جا ؤں تو غربت ختم ہو جا ئے گی پھر میرے پا س بنگلہ گا ڑی اور ڈھیر سا رے رو پے ہو نگے لہذا اِسی لا لچ میں اپنی گا ڑی اور بیوی کا زیور بیچ کر میں ایجنٹوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک ذلیل و رسوا بھو کے ننگے راشد سے ارشد پھر رشید اور پھر بشیر بن کر میں کسی نہ کسی طرح پا سپورٹ بدل کر تصویریں لگا لگا کر کبھی راشد کبھی ارشد کبھی رشید اور پھر بشیر بن کر میں یہاں آگیا اب میرے کئی نام ہیں پاکستان میں نا م اور ہے یہاں کو ئی اور نا م ہے۔ پا کستان کو جب میں نے چھوڑا تو اُس وقت میری بیوی نو جوان تھی دو بیٹے جوا نی کی دہلیز پر دستک دے رہے تھے ۔ جبکہ بیٹی سکو ل جا تی تھی ۔ کیونکہ میں بر طانیہ میں غیر قا نونی تھا ٹیکسی چلا نہیں سکتا تھا اِس لیے پیسے کمانے اور وکیلوں کو پیسے دینے کے لیے میں نے گو روں کے ٹوائلٹ صاف کیے کتوں کو نہلا یا مزدوری کی ہو ٹلوں میں بر تن دھو ئے بیس بیس گھنٹے لگا تا ر مزدوری کی مختلف کا م کئیے پا کستا ن سے فون اور ہنڈی کا رشتہ رہا دن را ت لگا تا ر مزدوری کر تا بیس بیس بندوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں فرش پر سوتا ایک ہی جینز میں تین سال تک گزارا کیا ۔ گدھوں کی طرح نان سٹا پ کام کیا تا کہ گھر کی غربت دور کر سکوں کیونکہ یہاں پر غیر قا نو نی رہنے والوں کو علا ج کی سہولت میسر نہیں اِس لیے دن را ت مزدوری سے بیماری جکڑ لیتی یا دوران مزدوری اگر چوٹ یا زخم لگ جا تا تو اُس چوٹ زخم یا بیماری کی حالت میں ہی کئی کئی دن کا م کیا آرام نیند کا خیال تو درکار بیماری کا بھی خیال نہ کیا ۔ میری دن رات کی مزدوری سے پا کستان میں میرے گھر میں خو شحالی آنے لگی غربت کے سائے چھٹنے لگے میں بر طانیہ جیسے جنت نظیر ملک میں دوزخ جیسی زندگی گزار رہا تھا لیکن یہاں سے ہزاروں میل دور میرے گا ؤں میں میرا نیا گھر بن گیا ماں با پ نے حج کر لیا ۔ بیوی نے سونے کے بہت سارے زیوارت نئے بنوا لیئے آنے جا نے کے لیے نئی مہنگی کا ر خرید لی ۔ دولت کی دیوی جیسے ہی میرے گھر پر مہربان ہو ئی تو اُس کے منفی اثرات بھی شروع ہو گئے دونوں بیٹوں نے پڑھا ئی چھوڑ دی اور عیا ش لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا برُ ے لوگوں کی برُ ی صحبت، آخر برُ ی صحبت نے رنگ دکھا نا شروع کر دیا ایک بیٹے نے سگریٹ نو شی کی ابتدا ء کی جو ہیروئن پر جا کر رکی ماں نے پیسوں کے زور پر بہت علا ج کر ا یا اُس کو کئی بار نشہ کلینک پر جمع کر ا یا لیکن جیسے ہی وہ علا ج کر ا کے واپس آتا پھر سا رے نشئی اُس کو گھیر لیتے اور وہ پھر نشے کی لت میں مبتلا ہو جا تا اِسی آنکھ مچو لی میں یہ بیٹا زندگی کی با زی ہا ر گیا دوسرا بیٹا بھی روپے کے غلط استعمال کی وجہ سے جرائم پیشہ لو گوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع ہو گیا جرا ئم پیشہ لو گوں نے اُس سے غلط کا م لینے شروع کر دیئے یہ بیٹا چھوٹے چھوٹے جر موں سے بڑے جرموں کی طرف بڑھتا چلا گیا چوری ڈکیتی سے کام شروع ہوا اور پھر کرا ئے کا قا تل اور قبضہ ما فیا کے ہا تھ چڑھ گیا اِس دورا ن قبضہ حاصل کر نے کے چکر میں پو لیس مقا بلہ ہوا اور یہ بھی زندگی کی با زی ہا ر گیا ۔ میرے بو ڑھے ماں با پ عمر کے آخری حصے میں بیٹوں کا الم ناک انجام بر داشت نہ کر سکے بڑھا پے اور غم نے اُن کی کمر اور جھکا دی ۔ میں نے پچھلے پندرہ سالوں میں ہزاروں پو نڈ کما ئے پا کستان میں لو گ مجھے خو ش نصیب سمجھتے ہیں جبکہ میرے جیسا بد نصیب کو ئی نہ ہو گا جو شخص آخر وقت اپنی ماں کی خدمت نہ کر سکے با پ کے جنا زے کو کندھا نہ دے سکے بیٹوں کو آوارگی اور جرا ئم سے نہ بچا سکے اور وہ مو ت کی وادی میں اُترتے گئے اور بیٹی اُس کے غم نے تو میری زندگی اُدھیڑ کر رکھ دی بیٹے اپنی عیا شیوں میں پڑے ہو ئے تھے ماں باپ بو ڑھے ہو چکے تھے بیوی نئے کپڑوں اور زیورات کے نشے میں دھت ہو چکی تھی بیٹی کو کو ئی پو چھنے یا سمجھا نے والا نہ تھا اُس نے زبر دستی بڑی عمر کے ایسے شخص سے شادی کر لی جو پہلے ہی شا دی شدہ تھا یہ آخری زخم تھا جس نے میری زندگی کو جہنم میں بدل دیا میں یہاں غیر قا نونی سے قا نو نی کی جنگ لڑتا رہا اور اُدھر میرا گھر ویرانے اور بر با دی کی زند ہ تصویر بنتا گیا رہ گئی بیگم تو روپے بیسے کی ریل پیل میں وہ پہلے تو مو ٹاپے کا شکار ہو ئی پھر بلڈ پریشر اور شو گر نے اُس کو چا ٹنا شروع کر دیا بیٹوں کی مو ت اوربیٹی کی رسوائی نے بیوی اور مجھے ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے میں جو تر قی اور دو لت کے سہا نے خوا ب لے کر یہاں آیا تھا آج بر بادی اور ویرانی کا چلتا پھر تا اشتہار ہوں ۔ میں نے کئی بار پا کستان جا نے کی کو شش اور ارادہ کیا لیکن پھر حوصلہ نہیں ہوا کہ کس طرح گا ؤں والوں اور دوستوں کا سامنا کر وں گا یہاں پر غیر قا نو نی سے قا نو نی کی جنگ اور گر دش لیل و نہا ر نے میرا سب کچھ ہی مُجھ سے چھین لیا ۔ اب میں یہاں جو بھی کماتا ہوں ویک اینڈ پر جوئے شراب اور عیا شی پر لٹا دیتا ہوں سر آپ پا کستان جا کر لو گوں کو یہاں آنے کی قیمت ضرور بتا ئیے گا ۔ یہاں پر ہزاروں ایسے پاکستانی مو جود ہیں جن کی کہانیاں میری کہانی سے ملتی جلتی ہیں اِن پا کستانیوں نے اپنے گھر والوں کو کو ٹھیاں کا ریں اور عیا شی وا لی زندگی دینے کے لیے یہاں بہت بڑی قیمت ادا کی ہے یہاں پتہ ہی نہیں چلتا کب جوانی بڑھا پے کے ویرانے میں اُتر گئی پا کستان میں اولاد جوا ن اور ما ں با پ قبروں میں اُتر گئے ۔ اُس وقت تک انسان بہت کچھ کھو چکا ہو تا ہے ۔ میں راشد ، رشید بشیر کی دکھی داستان سن کر پا کستان آگیا لیکن جب بھی پتو کی پھو ل نگر گجرات یا کوہ مری کا کو ئی نو جوان میرے پا س آکر دیوانگی سے با ہر جا نے کی خوا ہش کا اظہار کر تا ہے تو مجھے شدت سے راشد رشید اور اُس جیسے ہزاروں پا کستانی یا د آجا تے ہیں جو بر طانیہ یو رپ اور امریکہ میں اپنوں کی جدا ئی کے داغ سینوں پر سجا ئے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

loading...