گھر کے در و دیوار عزیز و اقارب کے رونے پیٹنے آہ و بکا اور بینوں سے گونج رہے تھے ۔ چند گھنٹے پہلے جو گھر خو شیوں کا گہوارہ تھا موت نے اُس گھر کو ماتم کدے میں تبدیل کر دیا تھا ۔ مر نے والا گھر کا واحد کفیل تھا اُس کی جوانی کی موت نے سب کو اُدھیڑ کر رکھ دیا تھا مرنے والامیرے دوستوں میں سے تھا اِس لیے میں بھی افسوس کے لیے آیا ہوا تھا مرنے والا 40سالہ جوان بزنس مین تھا جو کروڑوں کا بزنس کر تا تھا نہا یت غریب دیہاتی گھرانے کا یہ فرد سب کے لیے سایہ شفقت تھا15سال پہلے کسی دفتر میں چند ہزار کی نو کری شروع کر نے والا یہ عظیم آدمی چند ہی سالوں میں اپنا کا روبار کر کے کروڑوں میں کھیلنے لگا تو اِس نے سب سے پہلے اپنے بہن بھا ئیوں کو اپنے گاؤں سے اپنے پاس بلا یا پھر اپنے سسرالی رشتہ داروں اور با قی رشتہ داروں کو بلا کر اپنے کاروبار میں مختلف عہدوں پر لگا یا جیسے جیسے اِس کا کاروبار ترقی کر تا گیا یہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو نوازتا گیا مزاجاً ایک نہایت شریف اور سخی انسان جس کا ایمان تھا کہ یہ ساری ترقی اور دولت اِن دوستوں اور رشتہ داروں کی وجہ سے ہے اِس لیے وہ اپنی اقربا پروری اور سخا وت کے دائرے کو اور مزید بڑھاتا گیا۔ چند ماہ پہلے جب بیماری نے اِس شخص کو گھیرا تو بہن بھائیوں اور سسرالی رشتہ داروں کے دو گروپ بن گئے اب دونوں گروپوں نے اپنی وفاداری اور قربت شو کر نے کے لیے ایک دوسرے کی مخالفت شروع کر دی اب انہوں نے ایک دوسرے پر گھناؤنے الزامات لگا نے شروع کر دیے اب یہ بیچارہ کبھی ادھر کبھی ادھر پنڈولم کی طرح جھولتا رہا ماں کے پاس بیٹھے تو وہ سچی لگے بیوی کے پاس جا ئے تو وہ سچی اِس پریشانی میں یہ میرے پاس بھی کئی دفعہ آیا رشتہ داروں کی اِس دھینگا مشتی نے اِس کو بہت زیادہ رنجیدہ کر دیا تھا بیماری بڑھتی گئی تو اِس قابل بھی نہ رہا کہ دفتر جا سکے اب دونوں گروپ اِس کی موت کا انتظار کر نے لگے کہ اِس کے بزنس کی وسیع و عریض امارت کے وہ ہی مالک اور حق دار ہیں اِن دونوں گروپوں کی لڑائی اور تلخ باتوں نے مرحوم کو اندر تک چیر ڈالا اِن کی ما دیت پرستی دیکھ کر یہ بہت زیاد ہ افسردہ رہنے لگا ایک گروپ ایک با ت کر تا تو دوسرا کو ئی اور بات اِن باتوں کی وجہ سے مرحوم بہت زیادہ ٹینشن میں رہنے لگا BPانتہائی حدوں کو چھونے لگا رشتہ داروں کے رویوں اور بیماری نے مرحوم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا کاروبار سے تو دن بدن تو جہ ہٹتی گئی جس سے کا روباری معاملات بھی خراب ہو نے لگے یہاں تک کہ کا میاب کا روبار اب گھاٹے میں جا نے لگا اچھے دنوں میں اخراجات بہت زیادہ ہو گئے تھے جب کاروبار نقصان میں جا نے لگا تو اخراجات پو رے نہ ہو نے کہ وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے جسمانی بیماری کا روباری نقصانات اور گھریلوجھگڑوں نے مرحوم کی رہی سہی ہمت بھی توڑ دی اب مرحوم نے مختلف ڈاکٹروں نفسیاتی معالجوں اور عامل بابوں کے پاس جانا شروع کر دیا لیکن ریلیف کہیں سے بھی نہ ملا بہت بھاگ دوڑ اور کو شش کے بعد جب حالات اور جسمانی صحت میں سدھار نہ آیا تو شدید ڈپریشن اور ما یوسی کے دورے پڑنے شروع ہو گئے غم ، ناکامی ، پریشانی ، کاروباری نقصانات اور سب سے بڑھ کر اپنوں کے بدلتے رویوں سے دل برداشتہ ہو کر مرحوم نے شراب نو شی سے اپنے غم کو ہلکا کر نے کی کو شش کی اور پھر ہمیشہ کی طرح جو بھی اِس دلدل میں پھنسا وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ نشے کی دلدل میں دھنستا چلا گیا ۔ دن رات نشے میں دھت رہنے کی وجہ سے جسمانی صحت اور کاروبار کا ستیا ناس ہو گیا ۔ اب گھر کے اخراجات پو رے کر نے کے لیے دوستوں یاروں رشتہ داروں سے ادھار مانگنا شروع کر دیا شروع میں چند لوگوں نے ادھار دیا پھر لوگوں نے ادھار دینے سے انکار شرو ع کر دیا اب لوگوں نے مرحوم کو Avoidکر نا شروع کر دیا اورجب بھی کو ئی عروج سے زوال کا شکا ر ہو تا ہے تو یہ مو ت جیسی تکلیف ہو تی ہے جن لوگوں نے عروج اور دولت کا اچھا وقت دیکھا ہوا ہو ۔ جب اُن پر مشکل ٹائم آتا ہے اور لو گ نظر انداز کر نا شروع کر دیتے ہیں تو یہ برداشت کر نا بہت مشکل ہو تا ہے لوگوں کے ناروا سلوک اور توہین آمیز روئیے سے تنگ آکر مرحوم نے گھر سے نکلنا بند کر دیا دن رات شراب نو شی اور ڈپریشن نے مرحوم کو موت کی دہلیز پر لا کھڑا کیا اور جب ڈپریشن پریشانی حد سے بڑھتی گئی تو BPاتنا زیادہ بڑھا کہ و موت کی وجہ بن گیا آج ہم سب اِس اچھے انسان کی مو ت اور سوگ کے لیے یہاں اکٹھے ہو ئے تھے اصل کہا نی یہاں سے شروع ہو تی ہے ۔ مجھے صبح جب مرحوم کی موت کی خبر ملی تو میں فوری یہاں آگیا یہاں میرے جا ننے والے زیادہ نہیں تھے میری مرحوم سے ہی دوستی تھی گھر والوں سے زیادہ جان پہچان نہیں تھی میں خاموشی سے ایک طرف کھڑامرحوم کی باتیں اور اچھاوقت یا د کر رہا تھا مرحوم کے 5بچے تھے اور ماں بھی زندہ تھی میں اُن بیچاروں کے نقصان اور دکھ کے بارے میں سوچ رہا تھا اور یہ بھی کہ مو ت کس طرح دبے پا ؤں آتی ہے اور انسان کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتی ہے زندہ چلتا پھرتا ہنستا مسکراتا انسان بے جان لا شے میں تبدیل ہو جا تا ہے جو لوگ زندگی میں اُس کے سامنے کھڑا ہو نے کی جرات نہیں کر تے وہ کس طرح اِدھر اُدھر جا رہے ہو تے ہیں میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ کسی نے میرے شانے پر ہا تھ رکھ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا میں نے دیکھا تو میرے سامنے 25سالہ نوجوان لڑکا افسردہ پریشان چہرے سے کھڑا تھا اُس نے اشارے سے مجھے ایک طرف جا نے کو کہا اور ساتھ تعارف بھی کرا یا کہ میں مر حوم کا چھوٹا بھا ئی ہو ں ۔ جب اُس نے اپنا تعارف کر ایا تو میں فوری طورپر اُس کے ساتھ چل پڑا ایک کو نے میں جا کر وہ رک گیا اور بولا جنا ب بھا ئی کے جا نے کے بعد اب میں ہی اِس گھر اور کاروبار کا مالک ہوں اورآپ مجھے اب بھا ئی کی جگہ سمجھیں میں آپ کی بھر پور تا بعداری اور خدمت کر وں گا میں خا موشی سے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا آخر اُس نے اصل با ت کہہ دی کہ بھا ئی جان آپ کے قریب تھے آپ میری مدد کر یں اُن کی جا ئیداد اور بنک بیلنس اور کا روبار ی معاملات کیا تھے اُ ن کی تفصیلات کیا تھیں اب اُن سب کا میں ما لک ہو ں اور ہاں بھا ئی جان کی خاص بڑی گاڑی بھی اب میری ہے وہ اپنی بکواس کر رہا تھا اور اُس کی ما دیت پرستی دیکھ کر میری کنپٹیوں میں آگ لگ رہی تھی میں نے اُس کی باتوں کو نظر انداز کر تے ہو ئے اُس سے پو چھا جنا زے کا وقت اور جگہ کیا ہے تو اُس نے میرے سوال کو نذر انداز کر تے ہو ئے اپنی ہی با تیں جا ری رکھیں مجھے اُس سے بیزاری شروع ہو گئی میں اُس سے جان چھڑائی اور واپس اپنی جگہ پر آگیا ۔ اب ایک اور نو جوان میری طرف آیا اپنا تعارف کر ا یا کہ وہ مرحوم کا سالا صاحب ہے اب وہ مجھے ایک کو نے میں لے گیا اور کہا مر حوم اپنے بھا ئی سے بہت نا راض تھے اِس کو کا روبار سے نکا ل دیا تھا مرحوم اِس کے رویے سے مرا ہے میں مر حوم کے ساتھ تھا مرحوم کے تما م کاروبار کا واحد ما لک میں ہی ہوں اب اِس نے بکواس شروع کر دی میں اس کو بھی حیرت اور نا گواری سے دیکھ رہاتھا دوران ِ گفتگو اِس نے بھی مجھے بہت سا ری ترغیبات دیں کہ میں صرف اُس کا ہی سا تھ دوں ۔ مجھے اُس سے گھن آنی شروع ہو گئی ۔ میں نے اُس سے پیچھا چھڑا یا ہی تھا کہ ایک نو جوان لڑکی شاید اپنے خا وند کے ساتھ میری طرف آتی نظر آئی وہ شاید مجھے پہلے دو جوانوں سے باتیں کر ے ہو ئے دیکھ رہی تھی اِس انتظار میں تھی کہ کب میں آزاد ہو ں اور وہ مجھ سے مل سکے ۔ وہ میرے قریب آئی سلام کیا اور بتا یا کہ وہ مرحوم کی بہن ہے اور ساتھ اُس کا خا وند ہے مجھے لگا یہ مرحوم کے حقیقی وارث ہیں اور اظہار دکھ کر نے آئی ہے لیکن جب اُس نے بھی وہی با تیں شروع کر دیں کہ میرے خاوند نے میرے بھا ئی کا بہت ساتھ دیا ہے کا روبار سنبھالنے کی اصل اہلیت میرے خاوند میں ہے ۔ تو مجھے اپنے پا ؤں کے نیچے سے زمین سرکتی ہو ئی محسوس ہو ئی بہن بار بار اپنے خا وند کی خدمت اور تعلیمی قابلیت کا ذکر کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ لالچ بھی کہ میں اُن کا ہی ساتھ دوں جیسے ہی یہ گئے تو سالا صاحب اپنے والد صاحب کو لے کر آگئے کہ میرے والد صاحب بھی میرے ساتھ ہیں کیونکہ مرحوم کاکا روبار مختلف جگہوں پر پھیلا ہوا تھا کسی ایک سائٹ کے انچارج سسر صاحب بھی تھے اُنہوں نے آتے ہی اپنی خدمات اور کاروبار کو ترقی دینے اور عروج پر پہچانے میں اپنی شاندار خدمات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا ۔ میں شدید حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ اِس پاگل بوڑھے کو یہ غم نہیں تھا کہ اُس کی بیٹی بیوہ ہو گئی ہے بلکہ یہ غم کھا ئے جا رہا تھا کہ کاروبار کی مسند پر قبضہ کیسے ہو سکتا ہے بوڑھا اور بیٹا اپنی بکواس کر رہے تھے اور میں مر حوم کی لاش کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ زندگی میں انسان جن گھر والوں اور رشتہ داروں کے لیے جا ئز نا جا ئز کی سرحدیں عبور کر تا ہے وہ اُس کے جا نے کے بعد اُس کی جا ئیداد پر گدِھوں کی طرح اِس طرح جھپٹ پڑتے ہیں کاش مر حوم ایک بار اپنے عزیزوں کے بدلتے چہروں کو دیکھ سکتا ۔
جمعرات، 22 مارچ، 2018
انسان اور خدا
خالقِ کائنات نے اِس دنیا کو جس خو بصورتی ترتیب ، تنوع اور رعنائی سے تخلیق کیا ہے اگر غور کریں تو دل و دماغ وجد میں آکر عظیم اکلوتے خالقِ کائنات کی خالقیت کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا پو ری کائنات اور زمین پر خدا کے مظاہر نظارے اس ترتیب اور سحر انگیز خو بصورتی سے پھیلے ہو ئے ہیں کہ جتنا غور کر تے جا ئیں خدا کی عظمت اور عشق میں غرق ہو تے چلے جا تے ہیں ۔ آپ جدھر بھی دیکھیں اُس ذات کے جلوے نظر آتے ہیں صحراؤں کی پراسراریت سکو ت اور سناٹا دریا ؤں سمندروں کی طلاطم خیز مو جیں خا موشی اور خدا کی مو جو دگی کاگہرا احساس جھومتے ہو ئے با غات لہلہاتے ہو ئے کھیت ہر یا لی کی جاذبیت چھٹکی ہو ئی چاندنی اور خنکی پھیلی ہو ئی روشنی اور چاند کی دودھیا روشنی کا ئنات کے چپے چپے کو زندگی دیتی ہو ئی رات کو چھت دریا یا صحرا میں چاند کے دل کش سحر انگیز حسن کو محسوس کر کے دیکھیں سانولی اداس شامیں حسین راتیں اور راتوں کی پراسرار سر گوشیاں اور رخشندہ زندگی بخش سحر سریلے جھرنے ندیاں نا لے دیو ہیکل پہاڑوں سے گرتی دل کش سحر انگیز آبشاریں ۔ رقص کر تی مو جیں ۔ نیم خوابدیدہ کلیاں نازک رنگ بر نگے دل نشیں پھول پھولوں کی تا زگی ۔ اُن پھولوں پر رقص کرتی رنگ برنگی تتلیاں میلوں پھیلے سبزا زار ، گلابی سورج کا ڈوبتا منظر جو اُس کی تھکاوٹ کا احساس دلا تا ہے رشک گلاب سحر انگیز زندگی سے بھر پور چہرے گجرالی آنکھیں حنائی ہا تھ ہاتھوں میں نا زک چوڑیوں کی آوازیں کا جل لگی آنکھوں کا مقنا طیسی حسن ، مشکیں نر م و ملائم سنہری زلفیں انسانی نگاہ کے اٹھنے اور جھکنے کے انداز سے بجلی کے کو ندے کا احساس کسی کی سرمہ آلود آنکھ کا ایک نظارا جسم و روح کو سرشاری اور لذت کے اعلی مقام تک پہنچا دیتا ہے ۔ کسی کا گلابی آنچل ہوا میں لہرائے تو میلوں تک قوس قزح کے رنگ بکھر بکھر جا تے ہیں دیکھنے والے کو گمان ہو تا ہے کہ شاید سرخ گلاب کے پھول سے رنگ جدا ہو رہا ہے کسی کے چہرے کی دل نشیں مسکراہٹ آپ کے دکھوں کو ایک لمحے میں چاٹ جا تی ہے کو ئی جھانک کر چلمن گرا دے تو دیکھنے والوں کی گردنیں ڈھلک جا تی ہیں کسی شاہکار حسن کی کاجل لگی آنکھیں چاند کی روشنی اور ہیروں کی چمک کو شرما دیتی ہے ۔ کسی کی نیم بار آنکھیں میر تقی میر کو شراب کی مستی بھلا دیتی ہیں اور مرزا سودا کے ہاتھ سے ساغر گرا دیتی ہے ۔ کسی کا آنچل ڈھلک جا ئے تو دل دھڑکنا بھول جا ئے کو ئی ایک نظر بھر کر آپ کو دیکھ لے تو ساری عمر کے لیے قیدی بنا لے کسی کی شرارت بھری مسکراہٹ دل و روح کے عمیق اور بعید ترین گوشوں کو جھومنے پر مجبور کر دے کسی کی مصنوعی نا راضگی آپ کی سانسیں صلب کر لے اور کسی کی نا راضگی آپ کے ہوش چھین لے کو ئی خوبصورت پر ی وش دو قدم چل دے تو شاعروں کو فتنہ محشر یا د آجا ئے ۔ کسی کے چہرے پر حیا کے پھول کھلیں تو قوس قزح کا رنگ پھیکا پڑ جا ئے اور اگر محبوب کا مزاج بر ہم ہو تو فانی بد ایوانی کو نبضِ کائنات ڈوبتی ہو ئی محسوس ہو تی ہے اور کو ئی رخ سے نقاب اٹھا دے تو دیکھنے والے سنگی مجسمے کا روپ دھا رلیں اور اگر کو ئی انگڑائی لے تو حسن کے صد رنگ جلوئے میلوں تک پھیل جا ئیں ۔ غرض کا ئنات کا چپہ چپہ خالق کا ئنات کی کاریگری کا مظہر ہے آپ غور کریں تو جیسے جیسے غور کرتے جا ئیں گے اُس خالق کی کا ریگری کے قائل اور عاشق ہو تے جا ئیں گے کائنات کی خوبصورتی میں تنوع اور ترتیب آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لے گی اور پھر خدا کی قدرت کا شاہکار حضرت انسان آ پ تا ریخ انسانی کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ہر دور میں اﷲ تعالی نے بہت با کمال انسان پیدا کئے جب بندہ اُن عظیم با صلاحیت انسانوں کو مطالعہ کر تا ہے تو خوشگوار حیرت گھیر لیتی ہے ۔ ایسے ایسے حیرت انگیز اور با کمال انسان جو لاکھوں انسانوں پر بھاری تھے لاکھوں انسانوں کی عقل و دانش ایسے انسانوں سے عقل کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ایسے عظیم انسانوں کی چوکھٹ پر ہزاروں انسان اپنے ما تھے رگڑتے نظر آتے ہیں اور پھر جب اِن عظیم انسانوں کا انجام بندہ دیکھتا ہے تو عقل حیرت کے سمندر میں غرق ہو جا تی ہے تاریخ انسانی کے عظیم انسانوں میں سے ایک ایسا ہی کردار تھا لیونا رڈو ڈونچی (Leonardo Davinci) ۔ مونا لیزا (Mona Lisa) کا خالق آپ جب اس انسان کے بارے میں مطالعہ کر تے ہیں تو حیران رہ جا تے ہیں کہ قدرت نے اُس کے ساتھ کس قدر کمال کا اظہا ر کیا اُس کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا وہ تاریخ انسانی کا عجیب اور پراسرار انسان تھا تھری ان ون وہ کمال کا سائنس دان مو سیقار اور مصور تھا ۔ وہ دن رات گیلری میں کام کر تا برش اور رنگو ں سے تصویروں میں زندگی کے رنگ بھرتا اور آل ٹائم کامیا ب تصویریں تخلیق کر تا اور جب وہ تصویریں بنا تا تھک جا تا رنگوں سے بو ریت ہو نے لگتی تو برش پھینک کر اپنے میوزک سٹوڈیو کی طرف چلا جا تا جہاں اُس کا گٹار اور ہار مونیم اور با قی آلا ت مو سیقی اُس کا انتظار کر تے اور پھر اُس کی جا دوئی انگلیاں آلات میوزک سے کھیلنا شروع کر دیتیں تو پورا گھر اور سٹوڈیو میوزک کی لہروں سے بھر جا تا اُس کے تاروں سے ایسی سریلی آوازیں نکلتی کہ روح وجد میں آجا تی اور پھر وہ کئی کئی دن مو سیقی سے لطف اٹھا تا اور پھر جب اُس کی انگلیاں اور کا ن تھکنا شروع ہو تے اور اُس کے اعصاب بیزارگی محسوس کر نے لگتے تووہ گٹا ر پھینک کر لیباریٹری میں چلا جا تا جہاں سٹینڈوں پر چڑھی ٹیوبیں اُس کا انتظا ر کر رہی ہو تیں اور پھر وہ کیمیائی ما دوں کے تغیرات اور خواص پر کام شروع کر دیتا نوٹس لیتا تخمینے لگاتا رہتا مختلف مادوں کے ملا پ سے جنم لینے والے نتائج کو جمع اور رقم کر تا اور جب یہ عمل بھی اُس کے لیے کشش کھو دیتا تو وہ تھک کر خود کو نیند کی وادی میں اُتا ر دیتا یا پھر پہلے کام کی طرف چلا جا تا خالق نے اُسے تین مختلف شعبوں میں اعلی درجے کی مہارت اور کمال صلاحیت دے رکھی تھی اِس کے ساتھ ساتھ دونوں ہاتھوں سے ایک ہی وقت میں کام کر نے کی صلاحیت بھی وہ ایک ہی وقت دو کا م کر سکتا تھا ایک سے پینٹ دوسرے سے گٹار یا لکھ سکتا تھا اور پھر قدرت کا عجیب راز شروع ہو تا ہے ایک رات وہ سویا اور اگلے دن جب صبح اُٹھا تو اُس کے دونوں با زو کندھوں سے انگلیوں تک مفلوج ہو چکے تھے اُس کا یہ فا لج ساری زندگی اُس کے ساتھ رہا وہ گھنٹوں گیلری سٹوڈیو یا لیبارٹری میں خا موشی سے اپنے آلا ت کو بے بسی سے دیکھتا رہتا اور پھر بے بسی سے بہت روتا کہ اُس کے باکمال ہا تھ اور انگلیاں اب حرکت سے قاصر تھے کسی نے اُس سے پوچھا اگر تمھارے ہا تھوں میں حر کت آجا ئے تو سب سے پہلے کیا کرو گے تو وہ بے بسی سے بولا خود کو چھو کر دیکھوں گا اور پھر زندگی کی آخری گھڑیوں میں اُس کے کان میں کسی نے سر گو شی کی کہ تمہا ری آخری خواہش کیا ہے تو وہ حسرت سے بولا کا ش میں اپنے ہا تھ سے اپنے چہرے پر بیٹھی مکھی کو اپنی مرضی سے اُڑا سکتا ۔خدا تیرے بھید نرالے جن کو توُ ہی جا نتا ہے ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...