سرتاج الانبیاء ‘سرور دو جہاں ‘محبوب خدا ﷺ کے حکم پر تاریخ تصوف کے سب سے بڑے ‘انوکھے ‘دلوں کے راجہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کرہ ارض پر سب سے بڑے خطہ کفرستان کے بت پرستی کے گڑھ ہندوستان کی طرف چالیس مریدین کے ساتھ روانہ ہو تے ہیں ‘قشقہ وزنا ر کی ایسی سر زمین جس کے چپے چپے پر خو د تراشیدہ بتوں کی پو جا جا ری تھی ‘تو حید کے ٹمٹما تے چراغ صدیوں قبل گل ہو چکے تھے ‘شاہ چشت ؒ کی منزل اجمیر تھی آپ ؒ ملتان اورلا ہور میں قیام کے بعد اجمیر شریف کی طرف بڑھے ‘وہ خطہ جہاں ابھی تک اسلا م نے ہنو ز جڑ نہیں پکڑی تھی فاتحین اسلام یہاں سے گزرے ضرور تھے مگر اِس سر زمین کے کسی پتلے کو نور اسلام سے فیض اٹھا نے کی عزت و فضیلت ابھی تک نہیں ملی تھی ‘اجمیر کے اطراف میں راجپو تا نہ سلطنتیں قائم تھیں جنہوں نے شاید اسلا م کا نام ہی سنا تھا ‘کفر پر ستی میں غرق یہاں کے با دشاہوں کو اسلام کی سب سے زیا دہ ضرورت تھی ‘اجمیر شہر آگرہ کے مغرب میں تا را گر کی پہا ڑیوں میں واقع ہے ‘یہ ہندوستان کا قدیم اور تاریخی شہر ہے ‘تا ریخی حقائق کے مطا بق اِس شہر کی بنیا د راجہ جے پال نے دوسری صدی میں رکھی‘صدیوںکی الٹ پھیر میں جگہ بدلتا ہوا مو جو دہ مقا م پر آگیا ‘تذکرہ نگا روں نے اجمیر کے اور نام بھی ذکر کئے ہیں مثلا جہانگیر ‘جیر ‘آگ ‘جلو پو ر ‘آدمیر ‘صدیوں کی کروٹوں سے حالات بدلتے گئے پھر گیا رھویں صدی کا دور آتا ہے جب بیسل دیوا اجمیر کا راجہ تھا جس کے عہد حکومت میںاجمیر ایک طا قت و ر ریا ست کے نام سے جانا جانے لگا ‘سلطان محمود غزنوی نے بیسل دیو کو شکست دی‘ اسلام کی حقانیت دیکھ کر راجہ حلقہ اسلام میں داخل ہوا ‘ زندگی سے بیزار ہو کر خلو ت گزینی اختیا ر کی ‘سلطان محمود غزنوی نے سالار ساہو کو حاکم اجمیر بنا دیا ‘بیس سال بعد راجپوتوں نے خو د کو سنبھا لا طاقت کے زور پر مسلمان حکمران کو شکست دی ‘اب انا دیو اجمیر کا حکمران بنا اِسی حکمران کے نام پر ایک تالاب بنا یا گیا جو آج بھی موجود ہے اِس تالاب کا نام انا ساگر رکھا گیا ‘انا دیو کے بعد ایک سمجھ دار اور طاقت ور راجپوت مسند اجمیر پر جلو ہ افروز ہو تا ہے جس کا نام پرتھوی راج تھا ‘جسے راجہ پتھو را کے نام سے ہندو آج بھی یاد کر تے ہیں ‘اِس کے دور میں اجمیر نے غیر معمو لی تر قی کی ‘اجمیر کے چاروں طرف پہا ڑوں کی وجہ سے قدرتی پنا ہ گاہ بھی مو جود تھی اِسی لیے اجمیر اپنے مو قع محل اور حالت کے پیش نظر بلا شبہ ہندو ستان کا کعبہ قرار دیا جا سکتا تھا ۔ ہندوستان اُن دنوں نا زک حالات سے گزر رہا تھا لو گ غزنوی حملوں کو بھو ل چکے تھے ‘شہا ب الدین غو ری دہلی اور اجمیر کے راجوں سے شکست کھا کر تلملا رہا تھا ہندوستان میں چاروں طرف ہندو راجائوں کی حکو مت تھی اِن ہندو راجائوں میں اجمیر کا راجہ پر تھوی راج سب سے زیا دہ طا قتور سمجھا جا تا تھا ‘شاہِ چشت ؒ اجمیر کی طرف جا تے ہو ئے چند دن دہلی قیام کر تے ہیں ‘یہاں پر اپنے خلیفہ خا ص حضرت قطب الدین بختیار کا کی کو رشد و ہدا یت پر فائز کر کے اجمیر کی طرف بڑھ جا تے ہیں ‘شہا ب الدین غو ری کو شکست دینے کے بعد اجمیر کا راجہ غرور میں مبتلا ہو چکا تھا ‘مسلمانوں کے خلا ف نفرت پو رے جو بن پرتھی ‘خو اجہ معین الدین ؒ اپنے چالیس خدا مست مریدوں کے سا تھ اجمیر تشریف آ کر شہر کے نواح میںاپنی جھو نپڑی بنا کر رہا ئش اختیار کر تے ہیں ‘شروع میںاہل اجمیر نے یہی سمجھا کہ کو ئی ہندو جو گی تیاگ لینے کے لیے دنیا سے دور جنگل میںآپڑا ہے جو چند دن گزار کر یہاں سے چلا جا ئے گا لیکن جب آپ ؒ کا قیام تھو ڑا طو یل ہوا تو لوگوں میںآ پ کے حوا لے سے تجسس بیدار ہوا کہ آپ ؒ کون ہیں اور یہاں بسیرا کر نے کی وجہ کیا ہے اب اہل شہر نے آپ ؒ کے با رے میں کھو ج لگا نے کی کو شش کی آپ ؒ کی طرف آئے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ کو ئی ہندو جو گی یا سا دھو نہیں ہے اِس کی عبا دت اور لبا س تو اُن سے مختلف تھا پھر ایک دن وہ شاہ چشت ؒ کے حضو ر آئے جب شاہ ِ چشت ؒ نے اہل علا قہ سے اُن کی زبان میں با ت کی تو وہ بہت حیران ہو ئے ‘اہل علا قہ نے شاہ اجمیر ؒ سے پو چھا آپ ؒ کو ن ہیں اور یہاںآنے کا مقصد کیا ہے تو دلوں کے راجہ جناب حضرت معین الدین چشتی ؒ شفیق لہجے میں مسکرا ئے اور بو لے ہم مسلمان ہیں اور آپ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے آئے ہیں ‘اسلام کا نام سن کر راجپو ت غرانے لگے تم اُسی شہاب الدین غو ری کے مذہب پر ہو جن کی طا قت اورغرور کو ہم شکست دے کر دفن کر چکے ہیں ‘اُس نے بھی اسلا م اور اللہ کا پیغام دیا تھا راجپو توں کی آواز سن کر شاہ چشت دلنواز مسکراہٹ سے بولے ‘خدا کا پیغام کبھی دفن نہیں ہوتا‘زمین و آسمان کائنات ریت کے ذروں میں تبدیل ہو جا ئے تو بھی خدا کی شان میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑے گا ‘خدا کا پیغام اب ہندوستان کے چپے چپے تک پہنچے گا ‘اب کفر کا اندھیرادور ہو گا ‘تم اپنی آنکھیں کان اور دروازے بند کر لو لیکن پیغام حق اب تمہا رے دلوں اور روحوں تک ضرورپہنچے گا ‘اہل علا قہ حیرت سے درویش بے نیاز کی با تیں سن رہے تھے کہ یہ نہتا انسان ہتھیاروں کے بنا کس طرح اتنا بڑا دعویٰ کر سکتا ہے ‘راجپو ت غصے سے بولے ہم یہاں پر یہ سب کچھ برداشت نہیں کریں گے ‘خوا جہ پا ک ؒ نے شفیق نظروں سے اُن کی طرف دیکھا اور چٹانوں جیسی سختی کے ساتھ بو لے پیغام حق کو تم سنو گے آپ کے آہنی لہجے کو دیکھ کر راجپو ت بو لے تم کیا پیغام دینا چاہتے ہو کس خدا کا پیغام لا ئے ہو ‘مسیحا ہند تبسم سے بولے خدا ایک ہے اُس کا کو ئی شریک نہیں ہے وہ ہر چیز سے بے نیا زہے نہ اُس کی کو ئی اولاد ہے نہ اُس کا کوئی با پ ہے ‘خوا جہ دلنوا ز نے سنسکرت زبان میں سو رۃ اخلاص کا ترجمہ سنا یا اور کہا تم جن خود ترا شیدہ مورتیوں کی پو جا کر تے ہو وہ تو اپنی مر ضی سے حرکت بھی نہیں کر سکتیں وہ دوسروں کو کیا دے سکتی ہیں رنگ جلال سر چڑھ کر بو ل رہا تھا ‘راجپو ت غصے میں آکر کھڑے ہو ئے اور تلوا ریں نکالنے کی کو شش کر نے لگے وہ بتوں کی نفی کر نے والے کو سزا دینا چاہتے تھے پھر اُسی وقت درویش چشت نے رنگ جلال میں آکر راجپوتوں کی طرف دیکھا ‘نگا ہِ درویش کی تاب نہ لا تے ہو ئے راجپوتوں پر لر زا طا ری ہو گیا وہ تلواریں نکالنا چاہتے تھے لیکن پتھر کے بتوں کی طرح بے حس ہو چکے تھے ‘پھر لر زا بڑھا تلواریں زمین پر گر پڑیں اور دہشت سے راجپوت بھا گ کھڑے ہو ئے ‘آج وہ راجپوت بھا گ رہے تھے جنہوں نے کبھی جنگ میں مو ت کو دیکھ کر بھی بھا گنے کی کو شش نہیں کی تھی ۔ چند دن کے بعد پھروہی گرو پ دوبا رہ درویش با کمال کا کام تمام کر نے آیا تو دیکھا درویش بے نیاز دنیا سے بے خبر نماز پڑھ رہا ہے آپ رکو ع میں گئے پھر سجدے میں تو مو قع غنیمت جا ن کر آپ ؒ کو قتل کر نے کے لیے آگے بڑھے لیکن اُن کی تلواروں اور خنجروں نے اُن کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ‘پتھر کے مجسموں کی طرح بے حس و حر کت کھڑے تھے لا چارگی کی تصویر بنے شاہ چشت ؒ نے نماز کے بعد سلا م پھیرا اور محبت بھرے انداز سے بو لے آپ ؒ کی خدمت کے لیے میرے پاس جنگلی پھل ہیں وہ پیش کر تا ہوں‘شاہ اجمیر ؒ تبسم دلنواز سے انہیں دیکھ رہے تھے درویش کو قتل کر نے آئے ہو‘ آپ ؒ کی قوت مکا شفہ دیکھ کر راجپو ت ششد رہ گئے ‘جادوگر جا دوگر کہتے ہو ئے بھا گ گئے یہ جا دو گر ہے جو دلوں کے حال جانتا ہے پھر یہی گر وپ تیسری بار شاہ اجمیر کے در پر حاضر ہوا کو ئی غیرمر عی قوت تھی جو انہیں کھینچ کر لا ئی تھی آج وہ با ت سننے کے مو ڈ میں تھے پھر درویش حق پر ست کی شیریں آواز اُن کی سما عتوں میںرس گھولنے لگی حق کی با ت قلب و اذہان کو منور کر نے لگی ‘نگاہِ درویش کی نظر کیمیا اثر کر گئی ‘صدیوں سے بت پر ستی میںغر ق یہ لو گ اپنا مذہب چھو ڑ کر نو ر اسلام میں منو ر ہو گئے کفر کے قلعے میں بہت بڑا شگا ف پڑ چکاتھا سر زمین ہند پر کفر کے کلمے بو لنے والے آذان حق کی آواز بلند کر رہے تھے ۔
جمعرات، 5 اپریل، 2018
پیر، 2 اپریل، 2018
خط ہی کیوں لکھے جائیں
انتظار ایک شاندار چیز بھی ہے اور جاندار پہلوزندگانی بھی ، یہ انسانی زندگانی کی بہتی ندی کے ساتھ ساتھ تیرتا چلا جا تا ہے بعض اوقات انسان کو اس کیفیت ہی کی جانکاری نہیں ہو پاتی مگرحقیقت میں وہ اسی نایاب کیفیت کا اسیر نظر آتا ہے ، یہ جذبات کے مختلف پہلوئوں کا بنیادی جز ہے جس کی موجودگی جذبا ت کی کہانی کو چار چاند لگا دیتی ہے،جیسے رات روشنی کے انتظار میں تڑپتی رہتی ہے اور ہجر کی گھڑیوں کوہر لمحہ وصل کا انتظار رہتا ہے ، یہی کہانی خطوط کے آپس میں تبادلے کی ہے، بقول عباس تابش
جب بھی انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں
گلی کے لوگ ، میر ے دل پہ چلنے لگتے ہیں
اظہار جذبات کے کئی انداز ہیں کوئی مخالف سمت کے روبرو ہو کر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کر تا ہے تو کوئی ٹیکنالوجی کی مدد سے چلنے والے آلات کا سہارا لے کر دلی کیفیات بیان کر تا ہے ، کوئی تھرڈ پرسن کی مدد لیتا ہے تو کوئی قلم وکاغذ یعنی خطوط لکھ کر معاملات زندگی سے آگاہ کر تا ہے اگر کوئی عزیز منزل مقصود پر خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہو تو طویل تر مسافت کی تھکاوٹ ختم ہوجا تی ہے بالکل ایسے ہی خطوط کی دنیا استوار ہے کہ جذبات کی گرم جوشی میں مز ید اضافہ ہوجا تا ہے اگر کسی عزیز کے خط آنے کا انتظار درپیش ہو ۔
دنیا کے مختلف کونوں اور حصوں کو جوڑنے میں خطوط کلچر کا اہم کر دار رہا ہے ، برسوں خطوط کے ذریعہ کو ابلاغ کے دوسرے ذرائع پر فوقیت حاصل رہی ہے ، خطوط لکھنا ، اس کی نہایت خلوص سے پڑتال کرنااور پھر پوری دلجمی سے اس کا جواب روانہ کر نا ہماری روایات و ثقافت کا لازمی پہلو رہا ہے، جذبات کی گٹھڑی کو ایک لفافے میں بند کرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسا دریا کو کوزے میں بند کر نا ، خطوط روانہ کر نا اور پھر ان کے جواب موصول ہونے کا عمل دونوں طرف آگ کے برابر لگنے کی طر ف واضح اشارہ تھا ، گڑیا کا سلام سب سے پہلے لکھا جا تا ، پھرمنے کی شرارتوں پر عمیق نگاہ دوڑائی جا تی پھر چپکے سے بڑوں کی کبھی کبھار پڑنے والی ڈانٹ ڈپٹ کی طرف اشارہ کے ماحول کی رونق کو گرما دیا جا تا ، خط وصول کر نے والاشاعر کی طرح خط کے لوازمات سے اتنا آگاہ نہ ہوتا ’’میں جانتا ہوں کہ وہ کیا لکھیں گے جواب میں ‘‘ ۔
پاکستان پوسٹ کو برصغیر کے ان پرانے محکمہ جا ت میں شمار کیا جا تا ہے جو قیام پاکستا ن سے پہلے ہی اپنے فرائض ’پوسٹ اور ٹیلی گراف ‘کے نام سے سرانجام دے رہا تھا تاہم 1962ء میں اس کو ٹیلی گراف اور ٹیلی فون سے علیٰحدہ کر کے الگ محکمہ بنا دیا گیا ، پاکستا ن پوسٹ (محکمہ ڈاک) سے متعلقہ جو ذمہ داریا ں ہیں وہ ملک کے کونے کونے میں سرانجام دینے کے لیے اس کے دفاتر موجود ہیں ، پاکستانی پوسٹ بیس لاکھ گھرانوں اور بزنس سے وا بستہ لوگوں کو آپس میں جوڑنے کا اہم ذریعہ ہے اس کے علاوہ پاکستان پوسٹ وفاقی اور صوبائی سطح کی حکومتوں کے درمیان لائف انشورنس ، ٹیکسوں کو اکٹھا کرنا ،بجلی پانی ٹیلی فون کے بلوں کی وصولی اور ان کے درمیان رابطے و ہم آہنگی کا ذریعہ ہے ، ساتھ ہی پاکستان پوسٹ یونیورسل پوسٹل یونین کا بھی حصہ ہے جو پور ی دنیا میں بروقت رقوم کے تبادلے کا موثر ذریعہ کا گردانہ جا تا ہے ۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں وزارت موصولات اور بیوروکریسی نے پاکستان پوسٹ پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے محکمہ ڈاک کا خسارہ دس ارب روپے سے زیادہ ہوچکا ہے،اب موجودہ حالات میں محکمہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر نے سے قاصر ہے ،وزیرا عظم نے تین سال قبل اصلاحاتی منصوبے کی منظوری دی تھی جس میں پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ڈاکخانہ جا ت کی ری برانڈنگ ، موبائل منی آرڈر پروگرام اور لاجسٹک کمپنی کا قیام شامل ہے مذکورہ تینوں پروگرامز کے لیے نجی شعبہ کو دعوت دی گئی ہے تا ہم ابھی تک کوئی معاہد ہ ہو سکانہ محکمہ کے لیے بہتری کا کوئی سامان ۔
محکمہ ڈاک ہماری روایات اور ثقافت کا آئینہ دار رہا ہے ، اس کا شمار ان محکموں میں کیا جا تا ہے جن پر آج بھی عوام کا اعتماد قائم ہے ،دور دراز کے علاقوں تک ڈاک اور ڈاکیے کی سہولت موجود ہوتی ہے ان میںگلگت بلتستان اور کشمیر کے وہ پہاڑی علاقے بھی شامل ہیں جن میں آ ج بھی موبائل سروس کی دستیابی مشکل کا م ہے ، خط کو’’ آدھی ملاقات‘‘ کہا جاتا ہے ملاقات کی اس سہولت کو ہر سطح پر بحال رہنا چاہیے ، پہلے ہی خطوط کلچر ختم ہونے کے قریب ہے اور اب تو محکمہ ڈاک ایک اور حکومتی محکمہ یعنی ریڈیو پاکستان کی طرح آخری سانسیں لینے پر مجبور ہے ۔ بقول جان ایلیا
تم نے مجھ کو لکھا ہے
میرے خط جلا دی جیئے
مجھ کو فکر رہتی ہے
آپ انہیں گنوادی جیئے
جرم کے تصور میں ، گریہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں ، جرم ہی کیے تم نے
جرم کیوں کیے جا ئیں
خط ہی کیوں لکھے جائیں ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...