عصر حاضر میں میڈیا بے پناہ اہمیت اختیار کر چکا ہے میڈیا کی مختلف اقسام اپنی نوعیت کے اعتبار سے نمایاں ترین مقام کی حامل ہیں ،ملکی مسائل کے حل اور تعمیر و ترقی کے لئے آزاداور غیر جانبدار میڈیا کا ہونا ازحد ضروری ہے،فی زمانہ پل بھر میں دنیا کے کسی بھی کونے کی کوئی خبر پوشیدہ نہیں رہ سکتی ان خبروں کو اپنے اداروں پرنٹ ہو یا الیکٹرانک تک پہنچانے کے لئے ان کے سٹاف رپورٹرز کے ساتھ ساتھ ملک کے کونے کونے میں پھیلے علاقائی صحافیوں کا کردار ہر لحاظ سے جاندار ،زبردست اور بہترین ہے پاکستان میں تمام قومی معاصر اخبارات کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں سے شائع ہونے والے لوکل اخبار وں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا جو اس وقت تیز ترین ترقی کی جانب گامزن ہے کے نمائندگان ہر ضلعی مقام سے لے کر قصبوں تک پھیلے ہوئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خبریں ڈھونڈتے ،بناتے اور بھیجتے ہیں بڑے شہروں میں چند اہم صحافیوں کے علاوہ مجموعہ طور پر یہ رواج پڑ چکا ہے کسی نہ کسی نیوز ایجنسی کی لائن لو اور بس کسی رپورٹر کو رکھنے کی ضروت نہیں،اس اہم ترین کردار کے باوجود علاقائی صحافیوں کا یہ طبقہ وہ ہے جو ہمیشہ تنہائی کا شکار رہا، بڑے بڑے ادارے جن سے یہ لوگ عرصہ دراز سے منسلک ہوتے ہیں بیک جنبش قلم انہیں نکال باہر کرتے ہیں انہیں نہ تو کوئی تحفظ ہے نہ ہی مراعات،مقام شکر ہے کہ اس معاشرے کے پڑھے لکھے اور با شعور لوگ (کالی بھیڑوںکے علاوہ)اس مشن میں خود کو وقف کر لیتے ہیں،ماضی کے بر عکس اس وقت ملک میں صحافیوں کی درجنوں تنظیمیں موجود ہیں مگر زیادہ تر دائرہ کار بڑے شہروں تک محدود رہ جاتا ہے،اس بہترین طبقے مگر یکجہتی سے محروم طبقے کو یکجا کرنے کا آئیڈیا اوکاڑہ شہر میں سٹی پریس کلب کی بنیاد رکھنے والے نوجوان صحافی عابد مغل کے ذہن میں آیا جنہوں نے پروقار شخصیت و صدر ساہیوال پریس کلب سید شفقت حسین گیلانی اور تاریخی شہر کمالیہ سے تعلق رکھنے والے رائے سجاد کھرل سے رابطہ کیا ،RUJپنجاب کی بنیا رکھی گئی جو اس وقت آزاد کشمیر سمیت پاکستان بھر میں پھیل چکی ہے ہرشہر ،ہر علاقہ ،ہر تحصیل،ہر ضلع میں اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے عہدیداران اور ممبران موجود ہیں،اس وقت ضلعی سطع پر DUJبھی موجود تھی جو آج بھی اوکاڑہ میں فعال ترین ہے،گذشتہ دنوں برادرم عابد مغل نے طلاع دی کہ سٹی پریس کلب اوکاڑہ ،RUJاوکاڑہ اور DUJاوکاڑہ کے نئے ضلعی و تحصیل عہدیداران کی تقریب حلف وفاداری میں آپ اپنی شرکت لازمی بنائیں جو اوکاڑہ کے ایک مقامی میرج ہال میں تھی ،کوئی دو سال بعد اسی شام آبائی قصبہ میں پہلی بار موسلا دھار بارش ہوئی وقت کی پابندی کا سوچ کر بارش میں ہی کاشف علی خان مغل ،مرزا شمریز خان (بیٹا)دونوں ہی مختلف اخبارات کے نمائندے بھی ہیں ساتھ چھوٹا بیٹا مرزا محمد انعام بھی تیار ہو گیا،وہاں پہنچے تو صحافی بھائیوں کی بہار نظر آئی،تقریب میں ،سیاسی نمائندگان ،وکلاء ،مذہبی ،تاجر ،سیاسی وسماجی شخصیات ،ڈی پی او سمیت متعدد صاحبان شعور کا جم غفیر اپنی مثال آپ تھا ،تقریب میں ضلع بھرکے تمام اہم مقامات سے آنے والے صحافیوں کے علاوہ ریجنل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی صدر سید شفقت گیلانی،مرکزی سینئر نائب صدروزیر احمد مہر آف سندھ ،صدر آزاد کشمیر جاوید احمد چوہان ،مرکزی سیکرٹری جنرل رائے سجاد حسین کھرل(کمالیہ)،نائب صدر پنجاب سید طاہر شاہ (بہاولنگر)،ایڈیشنل جنرل سیکرٹری پنجاب رضوان الحسن قریشی،ضلعی چیرمین رحیم یا خان سید صدر شاہ،ڈویژنل رہنماء فیصل آباد ظفر پیزادہ،سرپرست اعلیٰ قصور حاجی محمد ارشد گولڈن،ڈویژنل صدر ساہیوال میاں وسیم ریاض،جنرل سیکرٹری بہاولپور امجد علی خان،فناس سیکرٹری پنجاب رائو عابد علی ،سیکرٹری اطلاعات پنجاب تنویر اسلم خان(قصور) کے علاوہ ڈی پی او اوکاڑہ حسن اسد علوی،وفاقی پارلیمانی سیکرٹری صحت ایم این اے رائو محمد اجمل خان،صوبائی مشیر میاں محمد منیر،سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ کیپٹن (ر) رائے غلام مجتبیٰ کھرل،ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ریلیشن خورشید جیلانی،پروفیسر ریاض احمد خان،پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ظفر علی ٹیپو،چیر مین ضلع کونسل ملک علی قادر عباس،صدر مسلم لیگ (ن )و چیر مین عشر زکواۃ کمیٹی ضلع اوکاڑہ سید زاہد گیلانی ،صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اوکاڑہ رائو عدیل عباس،جنرل سیکرٹری شکیل چوہدری،سابق صدر ڈسٹرکٹ بار سید زاہد بخاری،پی ٹی آئی رہنماء مرزا ذوالفقار ایڈووکیٹ،صدر مرکزی انجمن تاجران سلیم صادق،ڈسٹرکٹ سوشل ویلفئیر اوکاڑ رائے محمد عارف کھرل،صدر غلہ منڈی حبیب الحق،صدر سبزی منڈی چوہدری محمد اشرف،جاوید شیر لودھی ، ۔،سٹیج کو موٹر وے پولیس سے تعلق رکھنے والی ادبی شخصیت انسپکٹر خیام چوہان اور ممتاز شاعر،کالم نگار اور سٹی پریس کلب اوکاڑہ کے صدر احتشام شامی نے سنبھالے رکھا،۔تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ،نعت رسول عربیﷺ کا اعزاز پروفیسر محمد امین نے حاصل کیا ،سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری رائے غلام مجتبیٰ کھرل نے سٹی پریس کانفرنس کے نو منتخب عہدیداران،آر یو جے پنجاب کے صدرڈاکٹر محمد زکریا،صوبائی پارلیمانی سیکرٹری میاں محمد منیر اور رائے سجاد حسین کھرل نے اوکاڑہ،دیپالپور اور رینالہ خورد سے تعلق رکھنے والیRUJکی تحصیل تنظیموں سے حلف لیا جبکہ نے ریجنل یونین آف جرنلسٹس اور ڈسٹرکٹ یونین آف جرنلسٹس سے آر یو جے کے مرکزی صدر سید شفقت حسین گیلانی اور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری صحت رائو محمد اجمل خان نے حلف لیا، DUJکے نو منتخب صدر مظہر رشید چوہدری نے خطاب کے دوران اس محفل کو چار چاند لگانے والے تمام مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا،عابد مغل نے اپنے خطاب میں کہا ان کی تنظیم اس وقت پاکستان کی ایک منظم ترین تنظیم کی صورت اختیار کر چکی ہے اور یہ پاکستان کی دوسری تنظیم ہے جسے انٹرنیشنل یونین آف جرنلسٹس نے ووٹ کا حق دیا ہے ہمارا یہ قافلہ صحافیوں کی فلاح وبہبود کے لئے ہر وقت کوشاں رہے گا،،ممبر قومی اسمبلی رائو محمد اجمل خان نے کہا صحافی وہ افراد ہیں جو ملک بھر میں ہونے والے ہر عوامی مسئلے کی نشاندہی اور برائی کو بے نقاب کرتے ہیں کالی بھیڑوں کے برعکس ایسے باشعور لوگ محبت کے قابل ہوتے ہیں،میاں محمد منیر نے کہا ،کسی بھی معاشرے کی صحافی کا کردار ناقابل فراموش ہوتاہے وہ دن رات ایک کر کے ہمیں تمام حالات سے آگاہ رکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں،ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اوکاڑہ حسن اسد علوی نے کہا پولیس اور صحافی برادری کے درمیان بہت مضبوط رشتہ ہے ان کے باہمی تعاون سے جرائم کا قلع قمع کرنے سے میں بہت مدد ملتی ہے اوکاڑہ میں جاری باہمی تعاون کا سلسلہ مزید مضبوط ہو گا،چوہدری محمد اشفاق نے بھی شرکاء محفل کا شکریہ ادا کیا،دیپالپور سے تعلق رکھنے والی معروف سیاسی و سماجی شخصیت سید زاہد گیلانی نے صحافی برادری کے درمیان یکجہتی اور معاشرتی برائیوں کے خلاف کامیابی کے لئے دعا کرائی،اسی یاد گار تقریب میں ایک عرصہ بعد بہت ست سے لوگوںسے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ،مایہ ناز اینکر،کمپئیر اور سپیکر پروفیسر ریاض احمد خان اوررائے سجاد حسین کھرل کے ساتھ بہت گپ شپ ہوئی،سجاد کھرل تنظیمی لحاظ سے ایک انتہائی متحرک اور انتہائی ملنسار شخصیت ہیں، ،صحائی بھائی میاں مزمل جوئیہ اور رائے خالد سرور کھرل ایڈووکیٹ کے ساتھ دیرینہ دوست سابق پارلیمانی سیکرٹری رائے غلام مجتبیٰ کھرل کے ساتھ پرانی یادیں تازہ کیں ،اس محفل میں پہلی بار اوکاڑہ شہر سے تعلق رکھنے والے بہترین قلم کار (کالم نویس) سلمان قریشی سے بھی ملاقات ہوئی ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ان کی سوچ ان کی تحریروں کی طرح صاف شفاف ہے۔
جمعرات، 5 اپریل، 2018
ہم ویسے نہیں ہوتے جیسے ہو جاتے ہیں!
شیخ ابراہیم ذوق کے شعر کا ایک مصرعہ ہے کہ اپنی خوشی نا آئے نا اپنی خوشی چلے، معلوم نہیں کتنے یہ بات دل میں ہی لیکر چلے گئے ۔ تقریباً انسانیت اپنی پیدائش سے موت تک سفر کسی اور کے بتائے ہوئے راستے پر کرتا ہے ، نا تو وہ کوئی راستہ بنانے کا اہل ٹہرتا ہے اور نا ہی کسی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے انکار کرسکتاہے۔ اگر ہم معاشرتی تقسیم کریں تو جن معاشروں میں ابھی تک توازن برقرار ہے ان میں لوگ فرمانبردار اورمروجہ معاشرتی پابندیوں اور اقدار کے پابند ہیں۔ ہمارے منہ میں جو زبان ہے وہ محتاج ہے اس زبان کی جو ہمارے آس پاس بولی جائے گی، ذہن محتاج ہے ان سوچوں کا جنہیں اسے سوچنے کیلئے دی جائینگی، نظریں محتاج ہیں وہ سب دیکھنے کی جو انہیں دیکھایا جائے گا۔ اس توازن کو بگاڑ نے کیلئے ان معاشروں نے جو کبھی توازن کی حالت میں آہی نہیں سکے ہیں ، بگاڑنے کیلئے سر توڑ کوششیں کیں ہیں اور اب ان کی یہ کوششیں کامیاب ہوتی دیکھائی دے رہی ہیں۔
ایک تو یہ کہ ہم اور آپ جہاں پیدا ہوئے ہیں وہاں کیا چلتا ہے کیسے زندگی گزاری جاتی ہے یا کسیے گزاری جاتی رہی ہے ہمیں بھی انہیں سب باتوں کی پابندی کرنے کا عادی بنایا جاتا ہے ۔
معاشرے کے ہی لوگ تھے جنہوں نے میڈیا کو ذریعہ بنایا شائد اس کی ابتداء صرف اس سوچ پر مبنی ہو کہ عوام الناس کو سستی اور گھر بیٹھے تفریح فراہم کی جائے مگر جیسے جیسے یہ بات سمجھ آنے لگی کہ لوگ تو میڈیا پر بہت دھیان دیتے ہیں تو پھر انکی ذہن سازی پر کام کرنا شروع کیا گیا اور جیسے جیسے معاشرے میں بدلائو محسوس ہونے لگا ویسے ویسے کام کو تیز کیا جاتا رہا ، پھر دنیا کی ان طاقتوں نے جو انسانوں کی سوچوں اور انکے اعمال پر قبضہ کرنے کے خواب صدیوں سے دیکھ رہے تھے میڈیا انکے لئے ایک آسان اور سہل راستہ بنتا چلا گیا۔ وقت نے ایک بھرپور انگڑائی لی اور سماجی میڈیا کا وجود دنیا میں ہلچل مچانے کیلئے آدھمکا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر معاشرے کا لازمی ترین جز بن گیا۔
ہم داخلی اور خارجی مزاج میں بہت کم ہم آہنگی رکھتے ہیں، دنیا کو دیکھانے کیلئے کچھ اور ہوتے ہیں اور اپنے آپ کیلئے کچھ اور ہوتے ہیں۔ اس تضاد کیساتھ ساری زندگی گزار دیتے ہیں، جی ہاں یہ قابل اختلاف تو ہے مگر غور کرنے سے یہ شائداپنے آپ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے مگر یہ بھی اچھا ہے کہ یہ شرمندگی اپنے آپ تک ہی محدود رہے گی۔
کسی کو اپنا آپ نہیں پسند کسی کو اپنے ساتھ وابستہ لوگ نہیں پسند ، یہاں تک بھی ہوسکتا ہے کہ آپکی ناپسندیدگی اپنی ساخت سے بھی ہو۔ ہر انسان عمر کے ایک حصے میں کسی نا کسی احساس محرومی کا شکار ہوتا ہے اس محرومی کا تعلق امیری غریبی بھی ہوسکتا ہے ، رنگت اور جسمانی ساخت بھی ہوسکتا ہے، بے جا روک ٹوک بھی ہوسکتا ہے ، تعلقداروں سے بھی ہوسکتا ہے ، تعلیم کے میعار پر بھی ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب مثبت اور منفی سوچیں آپ پر قبضہ کرنے کیلئے برسرپیکار ہوتی ہیں۔
یہ جو والدین اپناآپ اپنی اولاد پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات اپنی اولاد سے پورا کروانے کے خواہشمند ہوتے ہیں جبکہ اولاد کی اپنی معاشرتی خواہشات ہوتی ہیں۔ یوں تو ہر فرد اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ وہ دنیا کو اپنی مرضی سے چلنے پر آمادہ کرے مگر اس کوشش کو وہ اپنے اوپر بھی پوری طرح سے لاگو کرنے میں ناکام ہی رہتا ہے ۔ دنیا میں قدرت کی جانب سے بھیجے جانے والے پیغمبروں کو ہٹا کر ایسے بہت کم لوگ گزرے ہیں جنہوں نے معاشرے کی اصلاح کیلئے ، کچھ مختلف کرنے کیلئے یا پھر غلط کو صحیح کرنے کیلئے اپنا کردار بھرپور طریقے سے نبھایا ہو۔ اگر اس بات کو سمجھنے کیلئے تھوڑا سا پھیلایا جائے تو ہمیں دنیا کو آسائشیں دینے والے لوگ قابل ذکر ہونگے، ایسے ہی وہ لو گ جنہوں نے انسانیت کی فلاح کے لئے اپنی خدمات انجام دیں ، جنہوں نے اس بات کی پروا نہیں کی دنیا میرے اس کام کو لے کر کیا کہے گی ، مفکرین ، فلاسفر اور ادب کی ہر صنف سے تعلق رکھنے والے لوگ جنہوں نے کائنات کے مختلف رازوں اور رنگوں پر خوب طبع آزمائی کی جن کی وجہ سے انسانیت کو انسانیت کی سمجھ آئی جنہوں نے مختلف مذاہب کا ایک نقطہ مفاہمت پر اپنی اور دنیا کی توجہ مرکوز کروائی ۔ ایسے بے تحاشہ لوگ آج بھی ہیں ۔ انسانوں کی تعداد ایک سے شروع ہوکر اربوں کی گنتی میں پہنچ چکی ہے لیکن ایسے لوگوں کی تعداد ہمیشہ بہت قلیل رہی ہے لیکن اس بات کی سمجھ تو سب کو ہے کہ آٹے میں اگر نمک نا ہوتو روٹی کا ذائقہ ختم ہوجاتا ہے ۔اب بات یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں۔ معاشرے میں ہر فرد اپنا اپنا حصہ ڈالتا ہے ، اصلاحات راتوں رات نہیں ہوجاتیں اور معاشرے میں بدلائو یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ جو اس کوشش کا آغاز کرے وہ اس بدلائو کو دیکھ بھی سکے ۔ دنیا مادی اعتبار سے تو ترقی آسمان کو چھو رہی ہے مگر اقدار پامال ہوگئے ہیں ایک دوسرے کا خیال نہیں رہا یوں سمجھ لیجئے کہ معاشرہ ایک بدبودار لاش کی مانند ہوکر رہ گیا ہے اور ایک ایسی لاش جسے دفنایا بھی نہیں جاسکتا۔
اپنی مرضی کی زندگی کیا ہوسکتی ہے یہ ایک الگ بحث طلب معاملہ ہے ، ہر منظم معاشرہ منظم سوچ کی مرہون منت تشکیل پاتا ہے اور منظم سوچ کے پیچھے ایک ضابطہ حیات ہوتا ہے اور اسکے لئے یہ ضروری نہیں کہ آپ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں معاشرے کو بہترین بنانے کیلئے آپ ان اصلاحات کو نافذ کرنے سے گریز نہیں کرتے جو کسی اور مذہب سے ہو۔کیا اس بات سے انکار کیاجاسکتا ہے کہ انسان کو معاشرتی امور مذاہب کی بدولت ہی میسر آئے ہیں ، کیونکہ تخلیق کی ابتداء بھی تو مذہب کی محتاج رہی ہوگی۔ دنیا کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ قدرت کے بتائے ہوئے ضابطہ حیات پر من و عن مانتے ہوئے اس پر چلنا شروع کردے جیسا کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنی عمر کے آخری عیام میں کرتے ہیں۔ ہم سوچیں تو ہم پر واضح ہوجاتا ہے کہ ساری زندگی سوائے تھکنے کے اور ہم نے کیا حاصل کیا ہے سوائے ان چیزوں کے جو نا تو ہمارے ساتھ جائینگی اور نا ہی دنیا میں رہتے ہوئے ہم سے بچھڑکر ماتم کرینگی، یہ تو کسی اور کی ہوجائینگی۔ ایک دوسرے پر اپنا آپ نا تھوپا جائے تو بہتر ہے ورنہ فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اسی دنیا نے نسلی فاصلہ(جنریشن گیپ) قرار دیا ہے۔ ہم ویسے ہو ہی نہیں سکتے جیسے ہم چاہتے ہیں کیونکہ آخیر میں ہم جیسے ہوتے ہیں ویسے ہی ہونا چاہتے ہیں۔
آسان لفظوں میں اس مضمون کو ختم کرتے ہوئے یہ لکھدیتا ہوں کہ تسلیم خم کیجئے اپنی پیشانی کے رب کو میرے اپنی عبادتوں میں سجدہ سب سے محبوب سجدہ تھا ، ہے اور اس کائنات کے رہنے تک رہیگا۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...