اتوار، 8 اپریل، 2018

طے شدہ معاملات کو ہدف نگاہ بنایاجائے

طے شدہ معاملات کو ہدف نگاہ بنایاجائے  ایک بستی کشمیر کی بستی ہے جس کے ہر ایک فر د کا تعلق حسینی قافلہ سے ہے ، اس قافلہ سے حق کا فیض قیامت تک جاری رہے گا ، آزادی حق کاسورج طلوع ہو کے رہے گا مگرابھی کچھ ذمہ داریوں کا بوجھ باقی ہے ،احساس کی شدت کا بیدار ہونا بھی کہیں راستے ہی میں رہ گیا ہے ،منیر نیازی یاد آئے 
اس نگر میں اک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی 
افغانوں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے اہل کشمیر نے پنڈت بیر بل کو کسی نجات دہندہ کی تلاش میں والی پنجاب رنجیت سنگھ کے پاس بھیجا ۔ بیربل کے تحریک پر رنجیت سنگھ کشمیر پرحملہ آور ہونے کے لیے آمادہ ہوگیا ، اسے پہلے دوحملوں میں کشمیر پر قبضہ کر نے کا موقع نہ مل سکا مگر 1819؁ء میں رنجیت سنگھ کشمیر پر قابض ہو نے میں کامیاب ہو گیا ، اس کی وفات کے بعد سکھ سرداروں نے اس کی بیوہ رانی جنداں کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ، رانی نے اپنے سات سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کے سر پر بادشاہت کا تاج سجایااور حکومت کا نظام خو دسنبھال لیا تا ہم خانہ جنگی عروج پر رہی ، سکھ فوج کے وفادار رانی اور وزیرکے خلاف بغاوت کے منصوبے ترتیب دینے میں مصروف ہوگئے جب رانی کو علم ہو ا تو اس نے اپنی فوج کے جرنیلوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اب سکھ فوجیں ستلج کے پار انگریز ی علاقوں پر چڑھائی کر نے میں مصروف تھی کہ 24دسمبر 1845؁ء جنگ چھڑگئی ۔ اس ناز ک صورت حال میں رانی نے والئی جموں گلاب سنگھ کو مدد کے لیے لاہور بلا لیا، گلاب سنگھ نے جرنیلوں کو فوری طورپر جنگ بندی کا حکم دیا مگر خون ریز معرکہ ہو کے رہا ۔ جس میں سکھ افواج کو شکست ہوئی ۔
16مارچ 1846؁ء کوایسٹ انڈیا کمپنی ( انگریزوں ) اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین دس دفعات پر مشتمل ایک معاہدہ طے پایا ، جس کی رو سے دریائے روای سے لے کر دریائے سند ھ کے مابین چمبہ اور ہزارہ کا علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا گیا جس کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کو 75لاکھ نانک شاہی سکے تاوان جنگ کے طور پر ادا کرنے تھے ۔ گلاب سنگھ جانتا تھا کہ رانی اور اس کی سکھ برادری تاوان کی یہ رقم ادا کر نے سے قاصر ہے چنانچہ اس نے انگریزوں کو یہ رقم اپنی طر ف سے ادا کر نے کی آفر کی جس کو انگریزوں نے شرف قبولیت بخشا اور کشمیر کی حکمرانی گلاب سنگھ کے سپرد کر دی ، کشمیر اس کے حوالے تھا مگر ضرورت پڑنے پر وہ انگریزوں سے مدد طلب کر سکتا تھا ، یہی لمحات کشمیر کے لیے بد قسمت ٹھہرے جنہیں ’’معاہدہ امرت سر‘‘کے نام سے یاد کیا جا تا ہے ۔ 
کشمیری آزادی کشمیر کی تاریخ اپنے لہو سے رقم کر رہے ہیں ، برھان وانی کی شہادت کے بعد اب تحریک نوجوان طبقہ کے ہاتھ میں ہے ، آئے روز تحریک آزادی زور پکڑتی جا رہی ہے ۔ پچھلے ایک ہفتہ سے بھارتی فوج کی طرف سے ضلع شوپیاں کے علاقوں درا گد اور کچدورا کو محاصرے میں لیکر گھر گھر جعلی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ، اس موقع پر اہل علاقہ کی طر ف سے شدید قسم کی مزاحمت کا مظاہر ہ کیا گیا ۔ قابض بھارتی افواج نے اندھادھند فائرنگ شروع کر دی جس سے دونوں اضلاع میں ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے اور آزادی کی اس تازہ لہر میں بیس نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا ، مزید ستم یہ کہ بھارتی افواج نے زخمیوں کو ہسپتالوں تک لے جانے والی ایمبولینس گاڑیوں کی نقل وحرکت پر بھی پابندی لگا رکھی ہے اس کے علاوہ شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کو بھی حالات کا درست رخ قلم بند کر نے سے منع کیا جا تا ہے ،ظلم وجبر کی یہ لہر دنیا کے کسی بھی خطہ میں شاذ ہی نظر آئے گی ۔
 1948؁ء میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان (UNCIP)نے مسئلہ کشمیر کے متحارب فریقین سے بات چیت کے بعد کشمیر میں برپاء جنگ بند کر نے کی تجویز پیش کی تھی جس میں طے پایا تھا کہ فی الفور جنگ بند کی جا ئے گی اور جنگ بند ی کی نگرانی کے لیے لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کی طر ف سے فوجی مبصر تعینات کیے جا ئیں گے اس کے بعد کشمیریوں سے ان کی خواہشات کے مطابق مستقبل کے فیصلے کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔سترسال گزرنے کے باوجود بھارتی افواج کا ظلم وستم تھم نہیں سکا ، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ہونے کا انتظار شدت سے کیا جا رہا ہے ،کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کا یہ بیان کہ کشمیر کا حل سیاسی ہے یافوجی، ہم ابھی تک طے نہیں کر سکے ۔ یہ بیان ایک درد ناک حقیقت کی طر ف اشارہ کر تا ہے ، کشمیر کمیٹی اور باقی متعلقہ لوگو ں کے لیے سوچنے سمجھنے کا وقت ہے ، پچھلے دنوں پاکستانی سفارت خانے کے عملہ کو ہراساں کیا جا نا اور مبصرمشن کے اراکین کے سامنے لائن آف کنٹرول کے ارد گرد کے علاقوں میں بھارتی افواج کی بلااشتعال فائرنگ کو جس شدت سے عالمی دنیا اور اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانا چاہیے تھا ایسا نہیں ہوسکا ،مقبوضہ علاقے میں مبصر مشن کو حالات کا جائز ہ لینے کی اجازت نہیں، اس کو بھی عالمی دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے ۔ کچھ نیا کرنا اگر ممکن نہیں تو پرانے طے شدہ معاملات یعنی اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر فی الفور عمل درآمد پر تو زور دیا جاسکتا ہے ،متعلقہ لوگوں کی اب تک کی کارکردگی تو دل لہو لہو کر رہی ہے ۔ 

سرکاری تعلیمی ادارے میں خوبصورتی،خوشبو اور علم کی آمیزش

 سرکاری تعلیمی ادارے میں خوبصورتی،خوشبو اور علم کی آمیزشاس وقت ملک بھر میں سرکاری تعلیمی اداروں کی مجموعی طور پر جو حالت ہے ان پر شرم آنے کے ساتھ ساتھ بہت دکھ ،تکلیف اور مایوسی ہوتی ہے ایک جانب ہماری کوئی بھی سرکار شعبہ تعلیم بارے کوئی انمٹ،شاندار،یادگار اور جاندار پالیسی دینے سے قاصر رہی جن سے ہماری نسل میں نکھار اور اندھیرے روشنیوں میں بدل جاتے، ان کا دھیان اس جانب نہیں جو اندھیرے دور کرتے ہیں بلکہ اس جانب ہے جہاں سے دولت کے ساتھ وہ مصنوعی اور نمائشی کاموں کی بھرمار جنہیں روشن کرنے یا رکھنے کے لئے قوی سرمایہ کے ساتھ ساتھ ایسے دماغوں کی ضرورت رہتی ہیں جنہیں ہم کسی بہتر پالیسی کی بدولت خود تخلیق کر سکتے ہیں،اس شعبہ کے لئے قومی خزانے سے انتہائی قلیل بلکہ شرمناک بجٹ اور اس میں بھی Divertionہو تو ترقی کا خواب کسی کلر اور سیم زدہ زمین کی مانند ہو گا،اوپر سے ہماری سرکار نے اس شعبہ کو تجربات کی بھٹی بنا رکھا ہے،ہر سال نصاب کی تبدیلی،کبھی امتحان نظام میں تبدیلی،کبھی چیک اینڈ بیلنس میں تبدیلی غرضیکہ نظام کے چیتھڑے ادھیڑ دئے جاتے ہیں ،اساتذہ کی عزت نفس تک کا کوئی خیال نہیں ،اب اگر دوسرے زاویہ سے دیکھا جائے تو حکومتی نا اہلیوں کی طرح تعلیمی اداروں میں تعینات سربراہان،ساتذہ کی کثیر تعداد بھی ایسے کرداروں پر مشتمل ہے جنہیں سوائے تنخواہ یا دستیاب فنڈز کو ہڑپ کرنے کے کچھ اور کام نہیں ،ان حالات میں معاشرتی و قومی ترقی ناممکن ہے مگر کچھ ایسے کردار ضرور زندہ ہیں جو ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے جن کا جذبہ،سوچ،فکر،پالیسی،درد مندی،ہمدردی ،محبت ،خلوص اور نیک نیتی سے انہی وسائل کے ساتھ جو دیگر اداروں کو بھی دستیاب ہیں کی نسبت ان کے ادارے ہر لحاظ سے کہیں زیادہ بہتر،خوبصورت ،خوشبواور علم کی آمیزش سے یوں لبریز ہوتے ہیں جن سے کئی نسلیں سدھر جاتی ہیں ایسے کرداروں بلکہ لاجواب کرداروں کو سراہنا،ان کی انسان دوست سوچ اور اپنے وطن سے محبت میں سرشاری کو اجاگر کرنا ہم جیسوں کا بنیادی فرض ہے ہم لوگ جہاں معاشرتی برائیوں کو اجاگر کرتے ہیں وہیں ہمیں ایسے عظیم کرداروں کو بھی نمایاں ترین کرنا چاہئے کس کو نہیں پتا کہ ملک بھر میں تعلیمی گراف کس قدر گراوٹ زدہ ہے،ایسے میں کوئی بھی ادارہ عظیم ترین شکل اختیار کر جائے تو وہ اس علاقے کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں،پرنسپل گونمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اوکاڑہ ظفر علی ٹیپو کی دعوت پر الراقم اور برادرم عابد مغل ڈسٹرکٹ یونین آف جرنلسٹس اور سٹی پریس کلب اوکاڑہ کے عہدیداران و ممبران کے ہمراہ کالج پہنچے جہاں جشن بہاراں کے سلسلہ میں تین روزہ پھولوں کی نمائش جس کا ایک روز قبل ہی ڈی سی اوکاڑہ ڈاکٹر ارشاد احمد نے افتتاح کیا تھا جبکہ تیسرے روز میاں محمدمنیر صوبائی پارلیمانی سیکرٹری نے اس نمائش کاوزٹ کیا،صحافیوں کے وفد میںمرکزی سیکرٹری جنرل RUJُ پاکستان عابد مغل ،ََُDUJ اوکاڑ ہ اور سٹی پریس کلب اوکاڑہ کے صدور مظہر رشید چوہدری اور احتشام جمیل شامی(دونوں بھائی ہی کالم نگار اور شاعر ہیں)،رائے امداد حسین کھرل،ڈاکٹر مہر محمد سلیم،خادم حسین کمیانہ،سجاد احمد بھٹی،میاں مزمل حسین جوئیہ،نثار احمد جوئیہ ،شکیل عاصم، عاشق مغل،تسکین کمبوہ،منشاء نوید ،عرفان اعجاز چوہدری شامل تھے ،اس موقع پر ڈائریکٹر کالجز ساہیوال ڈویژن رانا عبدالشکور،ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز اوکاڑہ محمد اقبال ڈھلوں،پروفیسر کاشف مجید (شاعر) پروفیسر حامد خان اور سینئر صحافی شہباز ساجد بھی موجود تھے،پرنسپل ظفر علی ٹیپو نے ہمیں پھولوں کی نمائش جس میں درجنوں اقسام کے خوبصورت ترین پھول تھے ایک پلاٹ جس میں صرف دیسی گلاب اپنی خوشبوئیں بکھیر رہا تھا کے علاوہ مختلف بلاک کا وزٹ کرایا،یقین نہیں آ رہا تھا کہ نظم و ضبط سے بھرپور یہ وہی تعلیمی ادارہ ہے جو کبھی ہماری بھی درس گاہ تھا اس وقت شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب وہاں لڑائی جھگڑا نہ ہوتا ہو،آئے روز پولیس کی نفری کا وہاں موجود ہونا ،پڑھائی اور طلباء کی تعداد برائے نام ،لوگ بچوں کو یہاں کی بجائے گورنمنٹ کالج ساہیوال میں داخل کرانے کو ترجیح دیتے، آج وہ وہی اپنی مثال میں یکتا لگ رہا تھا،اصل میں ظاہری خوبصورتی تو ہر کوئی آرٹیفیشل طریقے سے بنا لیتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ خوبصورتی بدبودار نہ ہو بلکہ اس کا انگ انگ خوشبو بکھیر رہا ہو،کئی خوبصورت چہرے غلاظت سے لتھڑے ہوتے ہیں کئی عالی شان عمارتیں اندر سے دنیا جہان کی کمینگی سمیٹے ہوتی ہیں ،در حقیقت اندر کی خوبصورتی ہی اصل خوبصورتی ہے جس کا عملی مظاہرہ اس کالج میں نظر آ رہا تھا،پرنسپل ظفر علی ٹیپو سے پرانی گپ شپ ہے جب سے انہوں نے اس ادارے کی چیر حاصل کی تب سے یہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کی طرف گامزن ہو گیا،جہاں کبھی بچوں کی تعداد2000تک نہیں پہنچتی تھی اب وہ انرولمنٹ6ہزار کو کراس کر چکی ہے،کالج کے اندر تمام راستے صاف ستھرے اور پختہ،ہر لان میں سبزہ ہی سبزہ،بیٹھنے کے لئے بینچز،پوسٹ گریجویشن طلبا و طالبات کے لئے نئی بلڈنگ کی تعمیر جاری،ہر سال طلبا ء طالبات کی تعداد میں اضافہ،مستحق سٹوڈنٹس کے واجبات ڈونرز کے ذریعے تا کہ کوئی تعلیم جیسی عظیم نعمت سے محروم نہ رہ جائے،کالج میں باقاعہ اسمبلی کا انعقاد،بغیر یونیفارم سٹوڈنٹس کالج نہیں داخل ہونا نا ممکن،کالج کی مسجد عام پبلک کے لئے بھی کھلی جہاں نماز جمعہ اور ماہ رمضان میں تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے،پھولوں کی اس نمائش کو دیکھنے کے لئے شام کے بعد جوق در جوق فیملیاں آتی ہیں،در اصل پھولوں کی یہ خوبصورتی ظاہری نہیں بلکہ ان میں وہ خوشبو ہے جو نہ صرف سانسوں کو بلکہ دلوں کو،ذہنوں کو ،سوچ کوزیور تعلیم سے یوں آراستہ کرتی ہے جو معاشرے کے نکھار تک پہنچتی ہے،ظفر علی ٹیپو کی انتھک کوششوں سے تعلیمی اس ادارہ کا تعلیمی معیار دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کوئی سرکاری ادارہ نہیںبلکہ مہنگا ترین کوئی پرائیویٹ کالج ہے، کالج میں ہر پیریڈ کو باقاعدہ چیک کیا جاتا ہے جبکہ خود پرنسپل روزانہ دو پیریڈ چیک کرتے ہیں کہ تدریسی عمل کیا چل رہا ہے اس کے علاوہ ہر ہفتے ہر کلاس کے ہر سیکشن میں طلبا کا تحریری ٹیسٹ لیا جاتا ہے جس کی مارکنگ کے بعد وہی ٹیسٹ پیپرز پرنسپل آفس پہنچانے ہوتے ہیں جہاں شام کو یا کسی فری وقت ظفر علی ٹیپو متعلقہ پروفیسر یا لیکچرار کا مارکنگ لیول خود چیک کرتے ہیں ،اصل بات نیت کی ہے ان کے حق میں یوں لکھنا در حقیقت ان کی انتھک کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے ،وہ ہیں ہی اس قابل ،ان کی تدریسی ٹیم،معاون ٹیم و دیگر شعبوں میں تعینات چھوٹے ملازمین سب قابل تعریف ہیں جو راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے ان کے شانہ بشانہ چل کر اس ادارے کی نیک نامی میں نہ صرف اضافہ کر رہے ہیں بلکہ ضلع اوکاڑہ کی نئی نسل کو بہتر انداز میں تعلیم و تربیت فراہم کر رہے ہیں جو کہ سرکاری اداروں میں مجموعی طور پر نہ ہونے کے برابر ہے ،ظفر علی ٹیپو نے صرف پھول ہی نہیں سجا رکھے وہ تو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے اندر کی خوشبو سے سب کچھ معطر کر رہے ہیں یہاں وہ ظاہری خوبصورتی نہیں تھی جس کے اندر گند ہوتا ہے،نو خیز نسل کو قوت احساس ،فکری بالیدگی ،اخلاقی پاکیزگی ،آداب زندگی اورآداب معاشرت سے متعلق وسعت آشنائی کی جانب لے جانے والے بہتر ی کی جانب ڈھالنے والے یہ کردار جانتے اور سمجھتے ہیں کہ دین اسلام میں علم اور تعلیم حیات اسلامی کے لئے اسی طرح ناگزیر ہے جس طرح طبعی زندگی کے لئے ہوا اور پانی ہے،معلم کا کردار نہایت بلند اور قابل رشک ہے والد کے بعد اس روحانی باپ سے بڑھ کر کوئی زیادہ اہم اور واجب التعظیم نہیں جو ان کو قلب و روح کی غذا فراہم کرتا اور ان کے فکرو شعور کو جلا بخشتا ہے،کاش تمام سربراہان ادارہ جات ظفر علی ٹیپو اور ان کی ٹیم کی تقلید کریںپھر ہمہ وقت پائیدار خوشبو ان کے انگ انگ سے بھی ٹپکے گی۔

loading...