پیر، 9 اپریل، 2018

ن لیگ کے 6ارکان قومی اسمبلی،2ارکان صوبائی اسمبلی مستعفی،نیا صوبہ محاذ بنانے کا بھی اعلان

ن لیگ کے 6ارکان قومی اسمبلی،2ارکان صوبائی اسمبلی مستعفی،نیا صوبہ محاذ بنانے کا بھی اعلان

لاہور(تھرتھلی نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 6 ارکان قومی اسمبلی اور 2 ارکان صوبائی اسمبلی نے عام انتخابات سے قبل پارٹی سے انحراف کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے منحرف رکن خسرو بختیار کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران ان تمام ارکان نے اپنی نشستوں سے استعفیٰ دیتے ہوئے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنانے کا بھی اعلان کیا۔جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی قیادت میر بلخ شیر مزاری کریں گے جبکہ ان کے علاوہ دیگر منحرف ارکان اس کا حصہ ہوں گے۔

مستعفی ہونے والے ارکان قومی اسمبلی میں خسرو بختیار، اصغر علی شاہ، طاہر اقبال چوہدری، طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط بخاری جبکہ صوبائی اسمبلی سے سمیرا خان اور نصراللہ دریشک شامل ہیں۔اس موقع پر صحافیوں سے بات چیت میں خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ آنے والے چند دنوں میں مزید ارکان اسمبلی اس کارواں میں شامل ہوں گے اور کئی ارکان پنجاب اسمبلی کے باہر کھڑے ہوکر استعفیٰ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں لوڈشیڈنگ، صاف پانی اور سڑکوں کا مسئلہ ہے لیکن ہم اورنج ٹرین پر نئے ایئر کنڈیشنز لگا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین ہر شخص کو مساوی حقوق دیتا ہے لیکن یہاں عوام بنیادی سہولت تک میسر نہیں ہے۔

جنوبی پنجاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں غربت 27 فیصد جبکہ جنوبی پنجاب میں 51 فیصد ہے جبکہ اسی جگہ سے مختلف وزیر اعظم اور وزرا آتے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور ایران میں صوبوں کی تعداد بڑھ رہی لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہورہا لہذا ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا ایک ہی سیاسی نکتہ ہے اور وہ نئے صوبے کا قیام ہے۔ان کا کہنا تھا یہاں اکٹھے ہونے کا مقصد وفاق کی مضبوطی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جگہ پر ہی تمام دبا ڈال دیا جائے اور ہمارے محاذ میں کوئی لسانی تعصب نہیں ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اقتدار میں رہنے کے باجود مسائل وہی کے وہی ہے اور اگر ہم نے اب بھی توجہ نہیں دی تو ہمارے چھوٹے چھوٹے اضلاع ختم ہوجائیں گے۔انہوں نے کہا جو ہمارے اس ایک نکاتی ایجنڈے پر عمل کرے گا ہم اس سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور اس کے لیے آئندہ عام انتخابات کے بعد پہلے اجلاس میں قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کی جانی چاہیے۔

اس موقع پر دیگر منحرف ارکان نے کہا کہ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے اسے علیحدہ صوبہ بنانا چاہیے تاکہ وہاں ترقی اور خوشحالی کا نیا سفر شروع ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ ایک وقت آئے گا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو وہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے بغیر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی۔پریس کانفرنس کے دوران ضلع مظفر گڑھ سے منتخب ایم این اے باسط بخاری کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور میں نے 4 اسمبلیوں کو دیکھا لیکن ہمارے ساتھ برابری کی بات نہیں ہوتی۔ان کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں ہمارا حق اور اپنا صوبہ دیا جائے، اس کے لیے کوئی بھی جدو جہد کرنا پڑی ہم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وقت آگیا ہے اور آج ہم پاکستان کے استحکام کی بنیاد رکھنے کا آغاز کر رہے ہیں اور امید ہے کہ اس میں ہمیں کامیابی ملے گی۔

اتوار، 8 اپریل، 2018

طے شدہ معاملات کو ہدف نگاہ بنایاجائے

طے شدہ معاملات کو ہدف نگاہ بنایاجائے  ایک بستی کشمیر کی بستی ہے جس کے ہر ایک فر د کا تعلق حسینی قافلہ سے ہے ، اس قافلہ سے حق کا فیض قیامت تک جاری رہے گا ، آزادی حق کاسورج طلوع ہو کے رہے گا مگرابھی کچھ ذمہ داریوں کا بوجھ باقی ہے ،احساس کی شدت کا بیدار ہونا بھی کہیں راستے ہی میں رہ گیا ہے ،منیر نیازی یاد آئے 
اس نگر میں اک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی 
افغانوں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے اہل کشمیر نے پنڈت بیر بل کو کسی نجات دہندہ کی تلاش میں والی پنجاب رنجیت سنگھ کے پاس بھیجا ۔ بیربل کے تحریک پر رنجیت سنگھ کشمیر پرحملہ آور ہونے کے لیے آمادہ ہوگیا ، اسے پہلے دوحملوں میں کشمیر پر قبضہ کر نے کا موقع نہ مل سکا مگر 1819؁ء میں رنجیت سنگھ کشمیر پر قابض ہو نے میں کامیاب ہو گیا ، اس کی وفات کے بعد سکھ سرداروں نے اس کی بیوہ رانی جنداں کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ، رانی نے اپنے سات سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کے سر پر بادشاہت کا تاج سجایااور حکومت کا نظام خو دسنبھال لیا تا ہم خانہ جنگی عروج پر رہی ، سکھ فوج کے وفادار رانی اور وزیرکے خلاف بغاوت کے منصوبے ترتیب دینے میں مصروف ہوگئے جب رانی کو علم ہو ا تو اس نے اپنی فوج کے جرنیلوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اب سکھ فوجیں ستلج کے پار انگریز ی علاقوں پر چڑھائی کر نے میں مصروف تھی کہ 24دسمبر 1845؁ء جنگ چھڑگئی ۔ اس ناز ک صورت حال میں رانی نے والئی جموں گلاب سنگھ کو مدد کے لیے لاہور بلا لیا، گلاب سنگھ نے جرنیلوں کو فوری طورپر جنگ بندی کا حکم دیا مگر خون ریز معرکہ ہو کے رہا ۔ جس میں سکھ افواج کو شکست ہوئی ۔
16مارچ 1846؁ء کوایسٹ انڈیا کمپنی ( انگریزوں ) اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین دس دفعات پر مشتمل ایک معاہدہ طے پایا ، جس کی رو سے دریائے روای سے لے کر دریائے سند ھ کے مابین چمبہ اور ہزارہ کا علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا گیا جس کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کو 75لاکھ نانک شاہی سکے تاوان جنگ کے طور پر ادا کرنے تھے ۔ گلاب سنگھ جانتا تھا کہ رانی اور اس کی سکھ برادری تاوان کی یہ رقم ادا کر نے سے قاصر ہے چنانچہ اس نے انگریزوں کو یہ رقم اپنی طر ف سے ادا کر نے کی آفر کی جس کو انگریزوں نے شرف قبولیت بخشا اور کشمیر کی حکمرانی گلاب سنگھ کے سپرد کر دی ، کشمیر اس کے حوالے تھا مگر ضرورت پڑنے پر وہ انگریزوں سے مدد طلب کر سکتا تھا ، یہی لمحات کشمیر کے لیے بد قسمت ٹھہرے جنہیں ’’معاہدہ امرت سر‘‘کے نام سے یاد کیا جا تا ہے ۔ 
کشمیری آزادی کشمیر کی تاریخ اپنے لہو سے رقم کر رہے ہیں ، برھان وانی کی شہادت کے بعد اب تحریک نوجوان طبقہ کے ہاتھ میں ہے ، آئے روز تحریک آزادی زور پکڑتی جا رہی ہے ۔ پچھلے ایک ہفتہ سے بھارتی فوج کی طرف سے ضلع شوپیاں کے علاقوں درا گد اور کچدورا کو محاصرے میں لیکر گھر گھر جعلی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ، اس موقع پر اہل علاقہ کی طر ف سے شدید قسم کی مزاحمت کا مظاہر ہ کیا گیا ۔ قابض بھارتی افواج نے اندھادھند فائرنگ شروع کر دی جس سے دونوں اضلاع میں ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے اور آزادی کی اس تازہ لہر میں بیس نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا ، مزید ستم یہ کہ بھارتی افواج نے زخمیوں کو ہسپتالوں تک لے جانے والی ایمبولینس گاڑیوں کی نقل وحرکت پر بھی پابندی لگا رکھی ہے اس کے علاوہ شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کو بھی حالات کا درست رخ قلم بند کر نے سے منع کیا جا تا ہے ،ظلم وجبر کی یہ لہر دنیا کے کسی بھی خطہ میں شاذ ہی نظر آئے گی ۔
 1948؁ء میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان (UNCIP)نے مسئلہ کشمیر کے متحارب فریقین سے بات چیت کے بعد کشمیر میں برپاء جنگ بند کر نے کی تجویز پیش کی تھی جس میں طے پایا تھا کہ فی الفور جنگ بند کی جا ئے گی اور جنگ بند ی کی نگرانی کے لیے لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کی طر ف سے فوجی مبصر تعینات کیے جا ئیں گے اس کے بعد کشمیریوں سے ان کی خواہشات کے مطابق مستقبل کے فیصلے کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔سترسال گزرنے کے باوجود بھارتی افواج کا ظلم وستم تھم نہیں سکا ، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ہونے کا انتظار شدت سے کیا جا رہا ہے ،کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کا یہ بیان کہ کشمیر کا حل سیاسی ہے یافوجی، ہم ابھی تک طے نہیں کر سکے ۔ یہ بیان ایک درد ناک حقیقت کی طر ف اشارہ کر تا ہے ، کشمیر کمیٹی اور باقی متعلقہ لوگو ں کے لیے سوچنے سمجھنے کا وقت ہے ، پچھلے دنوں پاکستانی سفارت خانے کے عملہ کو ہراساں کیا جا نا اور مبصرمشن کے اراکین کے سامنے لائن آف کنٹرول کے ارد گرد کے علاقوں میں بھارتی افواج کی بلااشتعال فائرنگ کو جس شدت سے عالمی دنیا اور اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانا چاہیے تھا ایسا نہیں ہوسکا ،مقبوضہ علاقے میں مبصر مشن کو حالات کا جائز ہ لینے کی اجازت نہیں، اس کو بھی عالمی دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے ۔ کچھ نیا کرنا اگر ممکن نہیں تو پرانے طے شدہ معاملات یعنی اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر فی الفور عمل درآمد پر تو زور دیا جاسکتا ہے ،متعلقہ لوگوں کی اب تک کی کارکردگی تو دل لہو لہو کر رہی ہے ۔ 

loading...