بدھ، 11 اپریل، 2018

کتابوں کے بوجھ تلے دبدتی معصومیت!

کتابوں کے بوجھ تلے دبدتی معصومیت! لفظ بوجھ کے آتے ہی ایک اکتاہٹ سی طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے ، یوں تو بوجھ کی بے تحاشہ اقسام ہیں اور ہماری نئی نسل کیلئے توہر کام ہی بوجھ کی مد میں جاتا ہے ۔ اس دور کے جہاں اور بہت سارے دکھ ہیں ان میں سے یہ بھی ایک بہت تکلیف دہ عمل ہے کہ نئی نسل کی زندگی میں بیزاریت کا عنصر بہت واضح دیکھائی دے رہا ہے۔ بوجھ تو احسانوں کا بھی ہوتا ہے جسے ساری زندگی ہی لادے لادے پھرنا پڑتا ہے ، دوسرا ہر وہ وزن جسے آپ اپنی خوشی سے نا اٹھانا چاہتے ہوں وہ بوجھ بن جاتا ہے ۔ آج اس ترقی یافتہ دور میں والدین کی ترجیحات میں اوالین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ انکی اولاد اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کرے اور دنیا میں اپنے ساتھ ساتھ ہمارا نام بھی روشن کرے۔والدین اپنی اس ذمہ داری کو نبہانے کیلئے محنت مشقت کرتے ہیں تاکہ انکی اگلی نسل ان سے اچھی زندگی گزارے جسکے لئے بنیادی ضرورت اعلی تعلیم کی ہے ۔ اب اعلی تعلیم کا میعار بھی سمجھ لیجئے جس میں دو بنیادی چیزیںہیں پہلی زیادہ سے زیادہ فیس اوردوسری بہت ساری کتابیں۔ بچے بھی روتے دھوتے اسکول جانا شروع کر دیتے ہیں ۔
اپریل کی ابتداء ہوئی ہے تو نئی کلاسوں میں جانے والے بچے بہت شوق و ذوق سے اپنی نئی کتابیں اور بستے لئے اسکولوں کی طرف جاتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ بچوں نے اپنے اوپرکسی مسلسل کئے جانے والے ظلم کی طرح ان بستوں کو تو لاد لیا ہے ۔ دراصل انہیں یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اپنی خواہشات منوانے کیلئے یہ سب کرنا پڑے گا اور اس کے بغیر زندگی کی گاڑی آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔ 
پانی قدرت کی ایک ایسی نعمت کا ہے کہ جس کا کوئی نعملبدل نہیں ہے اب یہ جو پانی ہمیں پینے کو دستیاب ہے کیا اس قابل ہے کہ اسے پی کر انسان زندہ رہ سکے اور اگر زندہ رہ بھی گیا ہے تو بغیر کسی معذوری کے رہ سکے ، کون سی ایسی چیز ہے جو خالص ہے اب جب ہمارے بچے ایسی چیزیں کھائینگے اور ایسا پانی پیئنگے تو کیا خاک ان میں توانائی یا طاقت آئے گی اور وہ کیا مستقبل کا بوجھ اٹھائنگے۔ایسے حالات میں ان بچوں پر بھاری بھرکم بستوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے ۔ وہ اس بات پر کسی قسم کا احتجاج کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے کیونکہ ان کی نافرمانیوں پر انہیں پہلے ہی اتنا کچھ سننے کو ملتا ہے اور کبھی کبھی تو بات اس سے آگے بھی نکل جاتی ہے ۔کیا بچوں کو اپنی کتابوں کے وزن نما بوجھ کو کم کرنے کیلئے کسی قسم کا دھرنا دیناپڑیگا یا کوئی احتجاج کرنا پڑے گا، مگر ان کے پاس ہمارے معاشرے میں اتنے اختیارات و وسائل کہاں ہیں۔ 
گو کہ بھاری بھرکم بستوں کا مسلئہ واقعتا بہت دیر سے باقاعدہ طور سے اٹھایا کیا گیا ہے ۔ اب جبکہ میڈیکل سے وابسطہ لوگوں نے اس بات کی بہت اچھی طرح سے وضاحت کردی ہے کہ یہ بھاری بھرکم بستے طبعی طور پر بچوں کی جسمانی ساخت پر اور افزائش پر کس بری طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ تو ہمارے محکمہ تعلیم یا ماہر تعلیم یا تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے تھا جو ابھی تک ممکن نہیں ہوسکتا ہے ۔ صبح اسکول جاتے ہوئے آدھے سوئے آدھے جاگے ہوئے بچے اور واپسی میں کڑی دھوپ میں بری طرح سے تھکے ماندے معصوم بچے ان بھاری بستوں کو اٹھائے کتنے مظلوم سے لگتے ہیں۔ 
بستے کو رکھا تونہیں جا سکتا مگر اس بات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ بستے کا وزن کس طرح سے کم کیا جائے۔ اس مضمون کے توسط سے تعلیم کے ماہرین کی نظرکچھ تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں اس یقین کے ساتھ کہ اس پر کوئی عملی اقدامات کرینگے۔ اس سلسلے میں ہماری کسی بھی قسم کی معاونت درکار ہوگی ہم فراہم کرینگے (انشاء اللہ)
تجویز نمبر ایک ۔ کتابوں کی چھپائی میں استعمال ہونے والے کاغذ اور گتا کم وزن والا ہو، جس سے کتابوں کا وزن کم سے کم کیا جاسکتا ہے ۔
تجویز نمبر دو۔ نصابی کتابیں دو حصوں میں تقسیم کردی جائیں ایک حصہ جو معروضی ہو جو اسکول لانے کیلئے ہو جبکہ دوسرا حصہ تفصیلی یا بیانیہ ہو جسے گھر پر رکھا جائے۔ اس طرح سے کلاس کا دورانیہ اور بستے کا وزن بھی کم کیا جاسکتا ہے ۔
تجویز نمبر ۳۔ ایسے اقدام سے اساتذہ کی اہمیت اور بڑھ جائے گی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ بیانیہ دینا پڑیگا۔ اس عمل سے نقل کے رجحان میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی کیونکہ اس طرح سے ذہنی مشقیں زیادہ سے زیادہ ہونگی۔ 
تجویز نمبر ۴۔ جتنے بھی بڑے اسکلول سسٹمز کام کررہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اپنے نظاموں میں رائج کورس کوسالانہ طور پر مرتب دینے کیلئے ایک تحقیقی بورڈ تشکیل دیں جو ہر سال اس چیز پر کام کرے کہ کس طرح سے بچوں کو کم کتابوں سے زیادہ سے زیادہ علم فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ 
تجویز نمبر پانچ۔ آج ملٹی ٹاسکنگ (ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام جاننا)کا دور ہے اساتذہ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ بطور موٹیویشنل اسپیکر(حوصلہ افزائی کرنے والا)اور کائونسلر (مشارت فراہم کرنیوالا) کی بھی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ جس سے استاد شاگرد کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ کم ہونا شروع ہوجائے گا اور ذہنی ہم آہنگی بھی بڑھے گی۔ 
تجویز نمبر چھ۔ہر اسکول انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ والدین کی تنظیم بنائیں، اس تنظیم کے ساتھ ششماہی یا سہ ماہی ملاقات رکھی جائے جسمیں نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں سمیت نصابی عمل پر بھی مشاہدات کی بنیاد پر گفتگو کی جائے۔ ایک متوازن معاشرے کیلئے یہ عمل بہت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے ۔ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ نئی نسل کی پرورش و نشونما معاشرتی مسلئہ بن چکا ہے ، جس کے لئے سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا پڑیگا۔
تجویز نمبر سات۔ اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں کچھ سبق ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھایا نہیں جاتا یعنی ان اسباق کو کسی بھی وجہ سے نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتااگر یہ معاملہ کتاب کی چھپائی سے پہلے طے کر لیا جائے تو اور انہیں کتابوں سے نکلوا دیا جائے۔
تجویز نمبر آٹھ۔ عددی (ڈیجیٹل ) دور میں کتابیں کتنا کردار ادا کر رہی ہیں اور کیا ہم اس دور کے تکازے پورے کر رہے ہیں۔
تجویز نمبر نو۔تعلیمی اداروں سے وابستہ ایک اور دیرینہ مسلئہ بھی ہے اور وہ ہے بچوں کے ذرائعے آمد و رفت ، ہم سب روزانہ کی بنیاد پر اسکولوں کی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی دیکھتے ہیں ان گاڑیوں کی حالت زار پر ماتھوں پر شکن اور زبان پر شکوے کے علاوہ اور کچھ اپنے بس میں ہوتا ہی نہیں تو یہی کر کر آگے بڑھ جاتے ہیں سونے پر سوہاگا ان اسکول کی گاڑیوں کے ڈرائیور جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول و گھر پہنچانا ہوتا ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ اسکول خود کیوں ان گاڑیوں کی ذمہ داری لیتے ، سوائے چند اسکولوں کے اسکولوں کی اکثریت اس ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے اور آپ کو ٹرانسپوڑٹر کے حوالے کر دیتی ہے۔ آپ کو اگر اس سہولت سے فائدہ اٹھانا ہے تو آپ ان تمام موجود خطرات پر آنکھیں بند کر لیجئے اور اپنے بچے کو انکے حوالے کر دیجئے ۔ سب سے پہلا خطرہ تو یہ کہ شہر کی جتنی خستہ حال گاڑیاں ہیں وہ اسکولوں میں اپنی ذمہ داریا ں نبھا رہی ہیں۔ دوسرے ہمارے ڈرائیور بھائی جو ان گاڑیوں کو اس طرح چلاتے ہیں جیسے مشہور زمانہ پبلک وین چلا رہے ہوںاور رہی سہی کسر ان میں چلنے والے گانے ۔ اسکول انتظامیہ کو اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ اسکول میں چلنے والی گاڑیوں کی حالت قابل استعمال ہو۔ گرمیاں شروع ہو چکی ہیں یہ گاڑیاں اپنی اسی حالت کے ساتھ بچوں کو بری طرح سے ٹھونس ٹھونس کر بھر لیتے ہیں ۔ 
 وقت کا تکازہ ہے کہ معاشرے کی بگڑتی ہوئی چھوٹی چھوٹی باتوں پر شدت سے دھیان دیں ، ہمیں حکومت اور ارباب اختیار کی جانب دیکھنا چھوڑ نا پڑیگا ، ہمیں اپنے آنے والے کل کیلئے خود ذمہ داری اٹھانی پڑے گی اور عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ تعلیم کی ترسیل آج ایک کاربار کی صورت اختیار کرچکا ہے لیکن اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اچھی تعلیم اور اچھا معاشرہ تشکیل دیناہے ،نئی نسل کو نئے تکازوں سے ہم آہنگ رکھنا ہے تو یہ سب برداشت کرنا پڑے گا، لیکن ان باتوں کو یقینی بنانا بھی ان تعلیمی اداروں پر لازم ہے جو اپنی مرضی کی فیس وصول کر رہے ہیں۔ 
ہم نے ان بنیادی جزیات پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے ۔ہمارے سیاستدانوں نے نا تو کبھی خود اس ملک اور اسمیں رہنی والی رعایا کیلئے کچھ کیا ہے اور نا کسی کرنے والے کو کرنے دیا ہے ۔ اس ملک کے ہر ادارے میں سیاست نے گند گھول رکھا ہے ، خدارا تعلیم اور تعلیمی اداروں کو سیاست سے پاک رہنے دیں ہم روتے گاتے ہیں کہ ہماری نسلیں کہاں جا رہی ہیں مگر ہم آنکھیں کھول کر یہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ ہم نے انہیں معاشرتی طور پر دیا کیا ہے انکے لئے کن راستوں کا تعین کیا ہے ۔آج درسگاہوں سے کہیں زیادہ ٹیوشن سینٹر ز اور سماجی میڈیا طالب علموں کی ذہن سازی کر رہے ہیں ، معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ مغرب کے بچھائے ہوئے جال کے چنگل میں پھنستے ہوئے اسکول و کالج کے بچے اور بچیاںجس ڈگر پر چلنا شروع ہوگئے ہیں ہم سب بہت اچھی جانتے ہیں ، اس سارے بگاڑ کے پیچھے اگر کوئی ہاتھ ہے تو دوسرا ہاتھ ہمارا بھی برابر کا شریک ہے ۔ ہمارا دھیان بانٹ دیا گیا ہے ۔سرے عام اسکول یونیفارم میں بچے سگریٹ نوشی کر رہے ہیں اور بچے بچیاں پارکوں میں ٹہلتے نظر آرہے ہیں۔ اسکولوں کی انتظامیہ ، اساتذہ اور والدین اپنی اپنی حدود سے باہر نکل کر ایک جامع حکمت عملی بنائیں اور اس پر عمل پیرا ہوں ۔ تب کہیں جا کر ان معاملات میں سدھار لایا جاسکتا ہے ، ورنہ خاتمہ بل خیر ہوتا سجھائی نہیں دے رہا۔ یہ سب پریشانیاں ختم تو نہیں مگر بہت حد تک کم ہوسکتی ہیں۔ اگر مذکورہ بالا تجاویز کا بغور جائزہ لیتے ہوئے عملی طور پر کام کیا جائے۔ کم از کم معصومیت کو کتابوں کے بوجھ سے تو آزادی مل جائے گی۔

جامعہ نعمانیہ رضویہ میں علامہ خادم حسین خورشیدالازہری کاخطاب

تحریر:محمدصدیق پرہار
 گزشتہ چھ دہائیوں سے لیہ شہرکے گنجان آبادمحلہ شیخانوالہ کی خوش نصیب گلی میں واقع مدرسہ جامع نعمانیہ رضویہ میں قوم کے نونہالوں کوحفظ قرآن پاک اور درس نظامی کی تعلیم سے مزیّن کیاجارہا ہے۔ صوفی باصفا صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ یہاں علم کی شمع کوروشن کیاجومسلسل علم کے متلاشیوںکومسلسل روشنی دے رہی ہے۔صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ کے شجرعلم سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادہزاروں میں ہے۔اس مدرسہ سے فیض یاب حفاظ کرام اورعلماء کرام ملک بھرمیں دین اسلام اورفروغ عشق رسول میں اپنانمایاںکرداراداکررہے ہیں۔ تمام طلباء کی خوراک ورہائش کاانتظام مدرسہ کی طرف سے ہی کیاجاتاہے۔اس مدرسہ کے معلمین ومدرسین بڑی محنت، انتہائی توجہ، مشفقانہ رویہ کے ساتھ طلباء کوقرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔جامعہ نعمانیہ رضویہ کے تمام معلمین میں یوں تو کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔علامہ قاری ممتازاحمدباروی حافظ قرآن بھی ہیں اورقرآن پاک کے بہترین قاری بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوب صورت اخلاق کے ساتھ ساتھ سحرانگیزاورپرسوزآوازسے بھی نوازاہے۔ قاری ممتازاحمدباروی صاحب جب قرآن پاک کی تلاوت کی سعادت حاصل کرتے ہیں توسننے والے چاہتے ہیں کہ قاری صاحب قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہیں اورہم سنتے رہیں۔ قاری ممتازاحمدباروی عالم دین بھی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کوجوہرخطابت بھی خوب عطاء کیاہے۔جب بھی خطاب کرتے ہیں علمی اورمدلل خطاب کرتے ہیں۔نقابت کرنے میں بھی قاری صاحب اپنی مثال آپ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قاری صاحب کوفن شاعری کااسلوب بھی دے رکھا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح بھی لکھ رہے ہیں۔ دیگرمدرسین علامہ شبیرالحسن باروی، علامہ محمداشرف مظہری، مولانامظفرحسین باروی اپنی مثال آپ ہیں۔ اس درس گاہ میں طلباء کی کردارسازی پربھی توجہ دی جاتی ہے۔ ہفتہ میں ایک دن بزم حامدیہ منعقدکی جاتی ہے۔اسی مدرسہ میں ہرسال رجب المرجب کی سترہ تاریخ کوصوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ محمداقبال باروی رحمۃ اللہ علیہ کاایک روزہ عرس مبارک بھی منعقد کیا جاتاہے۔ جس میں حفظ قرآن اوردرس نظامی مکمل کرنے والے طلباء کی دستاربندی بھی کی جاتی ہے۔ عرس مبارک میں جیّد علماء کرام خطاب کرتے ہیں۔ اس سال بھی سترہ رجب المرجب کو جامعہ نعمانیہ رضویہ لیہ میں صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ محمداقبال احمدباروی رحمۃ اللہ علیہ کاسالانہ ایک روزہ عرس مبارک منایا گیا ۔ عرس مبارک کی آخری نشست بعدنمازعشاء منعقدہوئی۔عرس مبارک کی اخری نشست سے چیئرمین وحدت اسلامی انٹرنیشنل علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے خطاب کیا۔علامہ خادم حسین خورشیدنے عرس مبارک کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جودعائیہ کلمات کہے اس سے ان کے اندازخطابت کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے۔ان کے دعائیہ کلمات ہی بتارہے تھے کہ وہ امت مسلمہ کے بارے میںکتنے فکرمندہیں۔ وہ مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول موجزن بھی دیکھناچاہتے ہیں اوران کے کردارکوبھی سنوارناچاہتے ہیں۔علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام پاکیزہ دین ہے۔ کعبہ تعمیر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعامانگی ’’ اے ہمارے رب ان میں سے اپنارسول مبعوث فرما جوتیری آیات کی تلاوت کرے، انہیں علم وحکمت کی تعلیم دے اورانہیں پاک وصاف کرے ‘‘ پاکیزگی جسم کی بھی ہوتی ہے اورروح کی بھی۔ یہ پاکیزگی ایمان ،عقیدے اورعمل کی بھی ہوتی ہے۔ اسلام میں ان تمام پاکیزگیوں کی طرف توجہ دی گئی ہے۔نمازکی شرائط میںجسم، جگہ اورلباس کی پاکیزگی شامل ہیں۔عبادات سے پہلے، طہارت، وضواورغسل اس بات کاثبوت ہیں کہ اسلام میں پاکیزگی پرکتنی توجہ دی گئی ہے۔ ان کاکہناتھا کہ دین اسلام سے وابستگی ہی عزت کاباعث ہے۔ہم عزت ووقاراقتدار، کرسی، جائیداد، مال ومتاع، سرمایہ، جاہ ومنصب میں تلاش کرتے ہیں۔یہ سب چیزیں تواللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت بھی ہیں اورآزمائش بھی۔ حقیقی عزت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں ہے۔ دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہوجائیں تواس دنیامیں بھی حقیقی عزت ملتی ہے اورمحشرکے دن بھی عزت ملے گی۔ اسلام میں نہ صرف زندہ لوگوںکوعزت دی گئی ہے بلکہ اس دارفانی کوچھوڑ کرجانے والوںکوبھی عزت واحترام کے ساتھ سپرخاک کیاجاتاہے۔ جب بھی کوئی مسلمان فوت ہو جاتاہے تواس کوغسل دیا جاتاہے،اس کوپاک وصاف کفن پہنایا جاتاہے، اس کانمازجنازہ اداکیاجاتاہے، اس کے لیے دعائے مغفرت کی جاتی ہے، ا س کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی، قل خوانی، دسواں، بیسواں، تیسواں، چالیسواں اورجمعرات کے نام سے ایصال ثواب کی تقاریب منعقدکی جاتی ہیں۔ اس کو قبرستان میں دفن کرنے کے لیے بارات کی صورت میں لے جایاجاتاہے۔اسے عزت کے ساتھ سپردخاک کیاجاتاہے۔کسی اورمذہب اورطبقہ کے لوگ اپنے مرُدوں کواتنی عزت نہیں دیتے۔علامہ خادم حسین خورشیدکہتے ہیں کہ اسلام کی یہ کوالٹی ہے کہ اس کوجتنادبایاجائے یہ اتناہی بڑھتااورپھیلتاہے۔اسلام دنیامیں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نائن الیون کے بعدجس منصوبہ بندی کے تحت اسلام کوٹارگٹ کیاگیا ہے۔ اسلام کودہشت گردمذہب اورمسلمانوںکودہشت گرد ثابت کرنے کاکوئی حربہ نہیں چھوڑاگیا۔ دنیابھرکی عوام میں اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیاگیا۔ عالمی طاقتوں اورمیڈیاکی اسلام مخالف مہم کاہی یہ اثرہواکہ غیرمسلم عوام کواسلام میں دل چسپی پیداہوئی ، انہوںنے اسلام کامطالعہ کرناشروع کردیا ، اسلام کامطالعہ کرنے کے بعد وہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگے ہیں۔عالم اسلام کی بے حسی پرتبصرہ کرتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ طیب اردوان کے سواکسی بھی اسلامی ملک کے سربراہ کاکردارقابل تعریف نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت زار، اسلامی ممالک کے سربراہوں کی بے حسی کودیکھاجائے توعالم اسلام کی بے بسی پرافسوس ہوتاہے۔مسلمان ممالک مل کرمشترکہ دشمن کامقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے برسرپیکارہیں۔مسلمان ملکوں سے دشمنیاں اوراسلام کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں کی جا رہی ہیں۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ کفرکاسب سے بڑاٹارگٹ مدارس ہیں ۔ مدارس کے خلاف اب تک جوپروپیگنڈہ کیاجارہا ہے وہ سب کواچھی طرح معلوم ہے ۔ مدارس کی کردارکشی کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیاجاتا۔کفرکے اس پروپیگنڈہ کاہمارے اپنوںنے بھی بھرپورساتھ دیا۔کفرکی مدارس کے خلاف مہم کے بعد مدارس میں طلباء کی تعدادمیں اضافہ ہی ہواہے۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ کفراسلام پرڈائریکٹ نہیں ان ڈائریکٹ حملہ کرتاہے۔ کفراسلام پرحملہ کرنے کے لیے مسلمانوں کے غداروںکوخریدکرتاہے، ان کے ذریعے مسلمانوں کے جذبہ عشق رسول اورعقیدے پرحملے کراتاہے۔کبھی وہ ملعون قادیانی کوسامنے لے آتا ہے توکبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کردیتاہے۔ کبھی وہ مدارس کوٹارگٹ کرتاہے توکبھی مسلمان ممالک کی حکومتوں کونشانے پرلے لیتاہے۔صوفی حامد علی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ مولانامحمداقبال احمدباروی کے عرس مبارک کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے کہا کہ مسلمانوں میں رسول اکرم، نورمجسم، شفیع معظم، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ختم کرنے کے لیے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔کفراسلام اورمسلمانوںکوبدنام کرنے پرتلاہواہے۔کفراسلام کوبدنام کرنے کے لیے کیاکیانہیں کررہا عالمی حالات وواقعات سے آگاہی رکھنے والے اس کواچھی طرح جانتے اورسمجھتے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ حکمرانوںکے درکے چکرلگانے والاعالم دین نہیں ہوسکتا۔قصورسمیت ملک کے مختلف شہروںمیں کم سن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پراظہارخیال کرتے ہوئے علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ باکردارعوامی نمائندوںکوہی منتخب کرناچاہیے۔ جب ووٹ بدکردارکودیاجائے گاتوقوم کی بچیوںکی عزت کیسے محفوظ رہے گی۔انہوںنے کہا کہ ہوٹلوں، چوراہوں، بسوں، ٹرینوں میں لکھاہواہے کہ مذہبی گفتگوکرنامنع ہے۔ علامہ صاحب نے سوال کیا کہ کیایہ امریکہ، اسرائیل یاانڈیا ہے جویہاںمذہبی گفتگوکرنامنع ہے۔ملک میں مذہبی گفتگوپرپابندی افسوس کامقام ہے۔مذہبی گفتگوپرپابندی کے ذریعے عوام کواسلام سے دورکرنے کی کوشش ہورہی ہے۔اس کوشش کاآغازمساجدمیں فائرنگ اورخون ریزی کے واقعات سے کیاگیاتھا۔انہوںنے کہا کہ ایم این اے کوتیسراکلمہ نہیں آتا اوروزیرکوسورۃ اخلاص نہیں آتی تواس میں اسلام کاکیاقصورہے۔انہوں نے بلدیاتی امیدواروں کے انٹرویوکااحوال سناتے ہوئے کہا کہ ایک امیدوارسے پوچھاگیا تجھے دعائے قنوت یادہے، امیدوارنے جواب دیا جی یادہے، سے کہا گیاسنائو، امیدوارنے سورۃ اخلاص سنادی،انٹرویولینے والے نے کہا کہ یہ پہلاامیدوارہے جسے دعائے قنوت یادہے۔یہ سب اسلامی تعلیمات کی ترویج واشاعت پرتوجہ نہ دینے کانتیجہ ہے۔یہ مسلمانوںکواسلام سے دور کرنے کارزلٹ ہے۔ ہم اسلام کوکتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اس کااندازہ اس سے لگائیں کہ سکول کی ٹیوشن پڑھانے والے کوتومنہ مانگی فیس ایڈوانس دی جاتی ہے، جب کہ قرآن پاک پڑھانے والوں کوپانچ سوروپے ماہانہ دیتے ہوئے بھی بوجھ محسوس ہوتاہے۔سکولوں میں دنیاوی کتب پڑھانے والے توہزاروں روپے تنخواہ لے رہے ہیں اورسکول کے بچوںکوقرآن پاک پڑھانے والے معلم کوماہانہ پانچ سوروپے بھی حکومت کی طرف سے نہیں دیے جاتے۔انہوںنے کہا کہ ختم نبوت قانون پرڈاکہ ڈالا گیا۔ تمام ممبران اسمبلی اس پرخاموش رہے،ختم نبوت حلف نامہ میں ترمیم کرتے وقت کسی ممبراسمبلی نے احتجاج نہیں کیا۔انہوںنے واضح اعلان کیا ہمیں ایسے ممبران اسمبلی قبول ہیںجوایوانوں میںناموس رسالت کاتحفظ کریں۔علامہ صاحب نے کہا کہ الیکٹرانک اورسوشل میڈیا اسلام کے خلاف استعمال ہورہا ہے، انہوںنے سوشل میڈیاپروائرل ایک ویڈیوکااحوال سناتے ہوئے کہا کہ مسلمان سمیت دیگرمذاہب کے افرادآپس میں گفتگوکرتے ہیں اور مسلمان کولاجواب کردیتے ہیں۔اس کاجواب دیتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ قوم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانی مانگا اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی پانی مانگا۔ فرق یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں چل نہیں گئے، کسی پتھرپرعصا نہیں مارا، ایک پیالے میں دست مبارک ڈالاتوانگلیوں سے پانی کے فوارے جاری ہوگئے سیکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خوب سیرہوکرپیا۔انہوں نے کہا کہ مدارس کے طلباء کوحقارت سے نہ دیکھاکرو۔ چٹائیوں پربیٹھ کرقرآن پاک پڑھنے والوںکی وجہ سے ہی ملک قائم ہے۔علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ حکمرانوں کی بیٹی ملالہ ہے۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی اوربیٹاممتازقادری ہے۔ملالہ نے پاکستان اوراسلام کے بارے میںجوکچھ بھی کہا ہے اس سے یہ اندازلگانامشکل نہیں کہ وہ کس ایجنڈے پرکام کررہی ہے۔ایک گولی کالگ جاناکوئی بہادری نہیں ہے۔اس نے کون ساایساکارنامہ انجام دیا ہے جومغربی میڈیاکی آنکھوںکاتارابن گئی۔مغرب والے کسی کوایسے ہی آنکھوں پرنہیںبٹھاتے۔قوم کی بیٹی توعافیہ صدیقی ہے جوگوانتاموبے جیل میں سزاکاٹ رہی ہے۔قوم کابیٹا توممتازقادری ہے جس نے ناموس رسالت پراپنی جان بھی قربان کردی۔قوم کابیٹاتوطالب علم اسفندیارہے۔ جس نے جان پرکھیل کردہشت گردکوقابوکرتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے سکول ، اساتذہ اورطلباء کودہشت گردی سے بچالیا، قوم کی بیٹیاں توآرمی پبلک سکول کی وہ ٹیچرز ہیں جنہوںنے طلباء وطالبات کودہشت گردوں سے بچاتے ہوئے شہادت پائی۔قوم کی بیٹی تووہ سکول ٹیچرہے جوخود توسلنڈرپھٹنے کی وجہ سے سکول وین کولگنے والی آگ میں خودتوجھلس کرشہیدہوگئی لیکن طلباء کوآگ سے بچالیا۔ان کاکہناتھا کہ افغانستان میںمدرسہ پربمباری سے سوسے زیادہ بچے شہیدہوئے اورشام میں چارسوبچوںنے جام شہادت نوش کیا۔ملالہ کوایک گولی لگنے پر شور مچانے والامیڈیا ان بچوں کے اجتماعی قتل عام پرکیوںخاموش ہے۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ محراب ومنبرسے عوام کارابطہ توڑنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ مساجد سے لائوڈ سپیکروںکااتاراجانا اورصرف ایک سپیکرکی اجازت دینا اسی کاتسلسل ہے۔علامہ خادم حسین خورشیدالازہری کہتے ہیں کہ اسلام میں طے شدہ امورکی من پسندتشریح کرنے والے دانشوراس وقت میڈیاکے ہیروہیں۔ اسلام کے طے شدہ اصول وضوابط میں سے ایسے دانشوربعض اصول وضوابط کواس وقت کی ضرورت قراردے کرموجودہ دورمیں ان امورسے انکاری ہیں۔انہوںنے مغرب میں مدرڈے ، فادرڈے منانے پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی معاشرہ میں لوگ بوڑھے والدین کوبوجھ سمجھ کرانہیںاولڈہومزمیں چھوڑ آتے ہیں۔ سال میں ایک باران کوملنے جاتے ہیں ، انہیں تحفے وغیرہ دیتے ہیں۔ اس دن کوانہوںنے مدر ڈے اورفادرڈے کانام دے رکھا ہے۔ علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ جس معاشرے میں والدین کوسال میں ایک دن ملے ایسے معاشرے پرلعنت ہے۔ یہ مذہب اسلام کاہی امتیازہے کہ مسلمان کاہردن مدرڈے اورفادرڈے ہے۔ مسلمان معاشروںمیں والدین کوبوجھ نہیں سمجھاجاتا بلکہ ان کی خدمت کرنے کو سعادت مندی سمجھاجاتاہے۔ 

loading...