جمعہ، 26 جنوری، 2018

نقیب اللہ کے پاس اسلحہ نہیں تھا،رائو انوار نے جعلی پولیس مقابلے میں مارا،رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

کراچی(حرمت قلم ڈیسک) سندھ پولیس نے کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹائون میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے نقیب اللہ محسود کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی . جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقتول کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ 15 صفحات پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے ساتھ دستاویزات بھی منسلک کی گئی ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد کے خلاف سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں. سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کا ازخودنوٹس لیا گیا تھا اور پولیس کی جانب
نقیب اللہ کے پاس اسلحہ نہیں تھا،رائو انوار نے جعلی پولیس مقابلے میں مارا،رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع
سے ابتدائی رپورٹ پہلے ہی عدالت عظمیٰ میں جمع کروا دی گئی تھی۔
 تاہم اب 15 صفحات پر مشتمل حتمی رپورٹ بھی جمع کروا دی گئی ہے۔ راؤ انوار پر الزامات کے حوالے سے مختلف دستاویزات بھی رپورٹ کے ساتھ منسلک کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں نقیب اللہ محسود کے ساتھ گرفتار ہونے والے دو افراد کے بیانات بھی شامل کئے گئے ہیں جن کو بعد میں رشوت لے کر چھوڑ دیا گیا تھا۔راؤ انوار نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم قاری احسان کا ساتھی ہے مگر جب قاری احسان کا انٹرویو کیا گیا تو قاری احسان نے اسے شناخت نہیں کیا جبکہ قاری احسان نے پولیس کو بتایا کہ جس وقت اسے قید کیا گیا تھا 47 کے قریب دیگر ملزمان بھی اس کے ساتھ تھے اور ان میں سے نکال نکال کر پولیس ان کو مقابلوں میں مار دیتی تھی جبکہ جائے وقوعہ کے دورہ کے حوالے سے حاصل شواہد کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جائے وقوعہ پر پولیس مقابلے کے کوئی شواہد نہیں ملے بلکہ ان کو قتل کرنے کے شواہد ملے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پولیس حراست کے دوران جس نجی عقوبت خانے میں 47 افراد کورکھا گیا .کال کوٹھڑی نما کمرے سے پولیس چار، پانچ افراد کو لے جا کر مقابلے میں مار دیتی تھی۔ پولیس مقابلے کے مقام پر مارے گئے افراد کی جانب سے فائرنگ کرنے کے شواہد نہیں ملے۔ چاروں افراد پر یکطرفہ طور پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ جائے وقوعہ سے سب مشین گن کے 26 خول ملے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس مقابلے کی سرکاری ایف آئی آر کے پہلے تفتیشی افسر نے انکشاف کئے۔ تفتیشی افسر کو ایس پی انوسٹی گیشن نے خاموش رہنے کی ہدایت
کی۔
تحقیقاتی کمیٹی کے دورہ کے بعد سابقہ تفتیشی افسر کو مقابلے میں مارنے کی دھمکی دی۔ رپورٹ کے مطابق راؤ انوار کو بیان کے لئے طلب کیا گیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے۔ راؤ انوار کے گھر کے باہر نوٹس بھی چسپاں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پولیس مقابلے میں ملوث کوئی پولیس افسر بیان دینے کے لئے نہیں آیا۔ راؤ انوار کی طرح تمام پولیس افسر اور اہلکار روپوش ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ اس معاملہ کی سماعت آج (ہفتہ) کے روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کرے گی۔

اعلی عدلیہ کے فیصلہ جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی کتاب قانون کی حاکمیت شائع ہوگئی

اُردو زبان میں پاکستان کے مروجہ قوانین کی تحقیق کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ اِس حوالے سے انتہائی تحقیق پر مبنی اعلی عدلیہ کے فیصلہ جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ کتابی صورت میں صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے تحریر کیا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں اِس کے باسیوں کے مابین رہنے سہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے بُرے برتائو کے کچھ اصول و ضوبط ہوا کرتے ہیں۔یہ اصول و ضوابط ہر معاشرے کے لیے علیحیدہ علحیدہ ہوتے ہیں۔ گویا ہر معاشرے یا گروہ ایک دوسرے سے الگ الگ زندگی کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہوتا ہے۔اِسی رہن سہن کے نفاذ کے سبب ہی اِس معاشرے کی پہچان ہو پاتی ہے۔جو لوگ اپنے اپنے معاشرے کی پیروی کرتے ہیں وہی لوگ اِس معاشرے کے پُرامن شہری کہلاتے ہیں۔ پُر امن شہری سے مُراد پُر اُمن ماحول، پُرامن ملک۔ اِس لیے عالمی سطع پر اقوام کے مابین طے پاجانے والے معاہدے عالمی اصول و ضوابظ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔جنہیں اقوام عالم کے مابین تعلقات کو پُرامن بنانے کے لیے زیر مطالعہ لایا جاتا ہے۔
گویا آج کا انسانی ذہن اِس بلند ترین سطع تک رسائی حاصل کر چُکا ہے جہاں سے آسانی سے ہر کوئی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ قوانین سے عدم آگہی و عدم شناسی ناقابل قبول بہانہ ہے۔ یہ بات نہ صرف انسانی نقطہ نظر کی ترقی بلکہ معاشری ترقی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ مگر وہ معاشرے جہاں لوگوں میںناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہو ۔ علم کی کمی ہو۔ سکولوں میںتعلیم ادھورہ چھوڑنے کا رحجان بہت زیادہ ہو۔ بنیادی انسانی حقوق سے محرومی بلکہ ناواقفیت بھی عام ہو۔ وہاں کون قانون طلب و رسد کی بات کرے اگر کوئی کرے بھی تو کس حد تک کرسکتا ہے۔جبکہ تیسری دُنیا کے ممالک نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔اِس لیے اِن ممالک میں ایک بڑا مسئلہ قومی زبان کا بھی ہے۔ ایسے ممالک میں عام طور پر حکمران ممالک کی زبان میں کاروبار ِ حکومت چلایا رہا ہوتا ہے۔جس کے سبب اِن ممالک کے عوام علوم وفنون اور خصوصاً قانونی معاملات اور اپنے بنیادی حقوق سے نابلد رہتے ہیں یا انہیں بزور نابلد رکھا جاتا ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کوگزشتہ تین دہائیوں کی پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے ہاں بھی کچھ ایسا ہی
ماحول نظر آیا ہے۔
ہماری % 70 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔کروڑوں افراد صحت و صفائی اور پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔ ناخواندگی کی سطع خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں سب سے بلند ہے۔ سکول و کالج کی بنیادی تعلیم سے لاکھوں افراد دور رہنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔تو کون کس طرح اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے۔ جبکہ اِسے ا پنے حقوق سے آگہی اور ملکی قوانین کی سوجھ بوجھ ہی نہ ہو۔ تمام قانون کی کتب غیر ملکی زبان میں ہونے کے سبب کوئی پھر کیوں نہ کہے گا کہ مجھے قانونی کُتب تک رسائی نہیں ہوئی یا مجھے ملکی قانونی کا علم نہ تھا۔  
جی ہاں جب تک ریاست اپنے شہریوں کو ترقی کے یکساں ذرائع و مواقع فراہم نہیں کرتی تو کو ئی کس طرح ایسے امتیازی سلوک والے معاشرہ کو پُرامن معاشرہ یا پُرامن ملک کہ سکتا ہے۔کچھ ایسے ہی خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے زیرِ نظر کتاب" قانون کی حاکمیت " خصوصاً قومی زبان اُردو میں تحریر کی گئی ہے۔جس میں خصوصیت کے ساتھ ایسے قانونی موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے جو کہ عوام النا س کی زندگی کے قریب ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے کتاب میں انتہائی ریسرچ کے حامل مضامین لکھے ہیں ۔ یہ کتاب نہ صرف قانون کے طالب علموں، صحافت سے وابستہ افراد اور عام قارئین کے لیے انتہائی سود مند ہے بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ یہ کتاب سول جج، ایڈیشنل سیشن جج، پبلک پراسیکیوٹرز کے امتحانات میں بھی ممدو معاون ثابت ہو گی۔ کتاب کوعرفان لاء بکس پبلشرز ٹرنر روڈ نزد ر ہائی کورٹ لاہور نے شائع کیا ہے اور اِس کو دیدہ زیب صفحات پہ چھاپا گیا ہے۔صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا آبائی شہر لاہورہے۔ اِن کے والد محترم صاحبزادہ میاں عمردراز ؒمرحوم اُستاد تھے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنا بچپن اپنے ماموں جان حضرت حکیم عنائت قادری نوشاہیؒ کے زیر سایہ گزارہ۔گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودہا سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج آف کامرس سرگودہا سے بی کام کیا۔ معاشیات ، بزنس ایڈمنسٹریشن، ایجوکیشن میں ماسٹرزکیے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیااور ایل ایل ایم کریمنالوجی کی ڈگری کے بھی حامل ہیں۔ اسلاملک لاء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی کیا ہے۔ دو دہائیوںسے قانون کی درس و تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔عشق رسول ﷺ کی سرخیل تنظیم انجمن طلبہء اسلام سے تعلق رہا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے عظیم صوفی بزرگ حضرت حافظ میاں محمد اسماعیل ؒ المعروف حضرت میاں وڈا صاحبؒ لاہوری کے خانوادے سے تعلق ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کے دادا حافظ میاں محمد اسماعیلؒ اور پرداد حضرت حافظ میاں محمد ابراہیمؒ متحدہ ہندوستان میں پولیس کے محکمہ میں بطور افسر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ان کا خاندان صدیوں سے لاہور میں رہائش پذیر ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازے کے بائیں جانب مسجد ابراہیمؒ اِن کے پرداد اکے نام سے منسوب ہے جو اُنھوں نے تعمیر کروائی تھی۔
صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ مختلف قومی و بین الا قوامی اخبارات و جرائدمیں سماجی اور قانونی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔کالم نگاروں کی عالمگیر تنظیم ورلڈکالمسٹ کلب کے سنئیر نائب صدر ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے انتہائی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیٹی پنجاب لاہور ہائی کورٹ بار کے چیئرمین ہیں اور تحفظ ناموس رسالتﷺ کمیٹی لاہور بار ایسوسی ایشن کے بانی چیئرمین ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ سلسلہ قادریہ نوشاہیہ میں حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہی ؒ آف زاویہ نوشاہی سرگودہاکے خلیفہ مجاز ہیں۔

loading...