پیر، 29 جنوری، 2018

ڈاکٹر شاہد مسعود اور انکے انکشافات!


 تحریر:شیخ خالد زاہد
پاکستانیوں کیلئے ہر نیا صدمہ پرانے صدمے سے کہیں زیادہ افسردہ کردینے والا ہوتا ہے ۔ سن ۲۰۱۸ پاکستانیوں کیلئے سوگوار فضاء کی چادر تنے چلے جا رہا ہے ۔جس کی وجہ کئی نامور شخصیات ایک کے بعد ایک دارِ فانی سے کوچ کرتی چلی گئیں اور فضاء کی سوگواری میں اضافہ کرتی چلی گئیں۔ تقریبا ً یہ تمام اموات طبعی تھیں ۔ اہل پاکستان انکے لئے دل کی گہرائیوں سے مغفرت کیلئے دعا گو ہیں۔ابھی ان قبروں کی مٹی خشک بھی نہیں ہوئی ہوگی کے ایک انتہائی دل دہلادینے والا سانحہ ہوگیا جس میں تقریباً ۸ سالہ بچی زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا اوربے دردی سے قتل کردیا گیا، ابھی اس واقع پر ساری قوم سوگ کی حالت میں تھی کہ کراچی میں دو جواں سال نو جوانوں کو قانون کے رکھوالوں نے موت کی نیند سلا دیا۔ ہر صدمہ دوسرے صدمے کو بھی ہرا کرتا چلا جا رہا ہے ۔مگرقصور شہر میں زینب نامی بچی کے ساتھ جو ہوا اسنے پوری قوم کو ایک بر پھر اتحاد کی لڑی میں پرونے کا کردار اداکیا اور پوری قوم نے ہر پلیٹ فارم پر نا صرف اس بہیمانہ قتل کی مذمت کی بلکہ قاتل کی گرفتاری اور عبرت ناک سزا کا مطالبہ بھی کیایہاں تک کے اس واقع کے مجرم کو اسلام کی طے کردہ سزا دینے کا بھی مطالبہ سنائی دیا جا رہا ہے۔ 
یوں تو زینب جیسے دلدوز واقعات ملک کے مختلف حصوں میں ہوتے ہی رہے ہیں اور اس واقع کے بعد بھی ایسے واقعات کی خبریں آنا بند نہیں ہوئی ہیں۔ تازر ترین مردان کا واقعہ ہے اور ابھی ایک خبر دیکھی ہے جس کا تعلق کوئٹہ سے ہے ۔ جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ زینب اب ایک تحریک کا نام ہے اور تحریکیں روکی جاتیں ہیں دبائی جاسکتی ہیں اورانہیں ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جاسکتی ہے لیکن جب تحریک میں خون شامل ہوجائے تو وہ بغیر کسی متطقی انجام کے لپیٹی نہیں جاسکتی۔ اس پر مکمل یقین ہے کہ ظلم کی انتہاء ہوتی ہے جبھی تو قدرت نے ہر فرعون کیلئے ایک موسی پیدا کیا ۔ زینب معاملے کی نوعیت اور اس میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اوراس پر عوامی بیداری کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں پاکستان کی اعلی عدلیہ نے اہم کردار کرنے کیلئے کمر کسی ہے بلکل اسی طرح پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی عدلیہ کی معاونت کیلئے اگلے قدموں پر چلنا پڑا، اور ملزم کی گرفتاری بھی عمل میں آگئی ۔ بظاہر تو عمران علی نامی ملزم کی گرفتاری نے تقریباً سارا معاملہ سمیٹ ہی دیا تھا کہ ایسے میں پاکستانی صحافت کی ایک انتہائی معتبر اور نامی گرامی شخصیت جنکی بنیادی وجہ شہرت انکا ایک تاریخ ساز پروگرام دی اینڈ آف ٹائم بھی رہا ہے، آپ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب ،جو ملک کے سرکاری ٹیلی میڈیا سمیت دیگرمیڈیا ہائوسز کے اعلی عہدوں پر اپنے فرائض منصبی نبہاتے رہے ہیںجوپاکستان میں بہت کم شخصیات کو میسر آتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے زینب کے معاملے کی بنیاد پر کچھ ایسے انکشافات عوام اور سرکار کے سامنے رکھ دئیے جو کہ اکیسویں صدی سے تو ہم آہنگ ہیں مگر پاکستانی عوام کیلئے قطعی طور پر ناقابل ہضم دیکھائی دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی بناء پر قابل احترام چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے بھی ملاقات کی ہے اور ان تمام انکشافات کی گہرائی تک جانے کا اندیہ بھی دیا ہے ۔اب جب کے میرا یہ مضمون اپنے اپنی تکمیل کی جانب گامزن ہے تو ڈاکٹر صاحب شدید دبائو کی زد میں ہیں اور یہ دبائو اس لئے ان پر آن پڑا ہے کہ دیگر معتبر صحافتی برادری نے ان پر اعتماد نہیں کیا اور ساتھ بھی نہیں دیا جس پر ڈاکٹر صاحب نے ان تمام نامی گرامی شخصیت کو بھی اس گھمبیر صورتحال کا ذمہ دار ٹھیرا دیا ہے۔ 
شائد آج سے پہلے کسی کی آبروریزی ہوجاناور قتل کر دیا جانا جیسی باتیں بہت تکلیف دہ اور دل دہلانے والی تو ہوا کرتی تھیں مگر زینب کے واقع کے بعد سے جو واقعات و انکشافات کا ایک پنڈورا بکس کھلنا شروع ہوا ہے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے اب شائد آنکھوں میں نیند نہیں آئے گی۔ ہماری ویب رائٹرز کلب کے سینئر نائب صدر جناب مسرت صاحب نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ڈیپ ویب اور ڈارک ویب پاکستانیوں کیلئے تو نئی ہوسکتی ہے مگر دنیا تو اس پر ۱۹۹۰ کی دہائی میں کام کرچکی ہے بلکہ قانون سازی بھی کرچکی ہے۔ پاکستان میں بہت سارے ایسے کام جو محاورتً کہتے ہیں کہ انیس سو ڈیڑ میں دنیا نے کر لئے تھے ہمارے یہاں اب ہو رہے ہیں۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ ہماری سراسر قومی بدقسمتی نہیں ہے کہ ہمیں دنیا کے ساتھ چلنے ہی نہیں دیا جاتا بلکل ایسے ہی جیسے گائوں دیہاتوں میں کسی کسان کا بچہ اعلی تعلیم نہیں حاصل کرسکتا اگر اس نے اعلی تعلیم حاصل کرلی تو زمینداروں وڈیروں کے ظلم و ستم کون سہے گا۔ ایک تو ہمیں مشکلات میں الجھا کر رکھا جاتاہے اور ان سے نکلنے کے سدباب کرنے کا اہل ہونے سے بھی روکا جاتا ہے۔ 
تمام باتوں سے قطعہ نظر تمام صحافی برادری کو ڈاکٹر صاحب کی معاونت کرنی چاہئے تھی جب کہ انہیں انتہائی سخت مخالفت نما چیز کا نا صرف سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ پڑ رہاہے۔ ہمارا مقصد یہ قطعی نہیں ہے کہ جیسا وہ کہہ رہے ہیں اسے من و عن یقین کرلینا چاہئے تھا ہونا یہ چاہئے کہ انکے ساتھ مل کر معاملے کی طے تک جانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ ان لوگوں کے اس طرح سے شور کرنے سے وہ تمام لوگ جو اس جرم کا کسی بھی طرح سے حصہ ہیں چکنے ہوگئے ہونگے اور قوی امکان ہے کہ ملک سے فرار بھی ہوگئے ہونگے۔ 
گزشتہ ایک دوروز میں ہماری خفیہ انجسیوں نے اس مسلئے کی حقیقت تک رسائی کیلئے اپنی کاروائیاں تیز کردی ہیں اور ابھی ایک ہی دن گزرا ہے تو جھنگ سے ایک ایسے ہی گروہ کا جس کا ذکر محترم ڈاکڑ صاحب نے کیا ہے گرفتاری بمعہ سازو سامان عمل میں آئی ہے۔ ابھی دیکھتے جائیے کہ کیا کچھ منظرِ عام پر آنے والا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ بھی بغیر منظر عام پر لائے ہوئے بڑے پیمانے پر کاروائیاں ہوں جو کہ کسی حد ناممکن دیکھائی دیتا ہے دور حاضر میں تو گھر کے اندر کی باتیں سوشل میڈیا کی زینت بن جاتیں ہیں تو پھر یہ تو ابھی انتہائی تہلکا خیز مواد ہے۔ ان انکشافات سے جہاں پاکستان میں اسطرح کی سرگرمیوں میں ملوث افراد چکنے ہوئے ہونگے وہیں دنیا جہان میں معاملات پر کڑی نگرانی شروع ہوگئی ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں اس حوالے سے کاروائیاں بھی کی گئی ہوں جنہیں منظر عام پر لاکر ملکوں کو بدنامی سے بچانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے ۔ ایک ہمارا ملک ہے جہاں غلط کو غلط کہنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا ۔ یہاں شخصی منافرت کی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ ڈاکٹر صاحب اپنے آپ کو واضح کر سکیں یا نا کرسکیں مگر انہوں نے ایک بیج بودیا ہے کہ ایسا بھی کچھ دنیا میں چل رہا ہے اور ہم بھی اس کا شکار ہورہے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم پاکستانی تحریک زینب کو آپریشن زینب کے نام سے کب یاد کرینگے۔ عدالت اعظمی کب خفیہ اداروں کو بھرپور کاروائی کرنے کی اجازت دیگی۔ 

اتوار، 28 جنوری، 2018

دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے

پشاور کے محلہ خداداد میں 11دسمبر 1922کو پیدا ہونے والے دلیپ کمار کی حالت تشویشناک ہو گئی،کسی بھی وقت موت کی وادی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹروں اور گھریلو ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ لیجنڈری اداکار دلیپ کمار آخری سانسیں لے رہے ہیں مگر کچھ نہیں کہا جا سکتا وہ کب تک زندہ رہیں گے۔دلیپ کمار کا نام اداکاری سے پہلے یوسف خان تھا اور وہ پھلوں کے سواگر تھے وہ اپنے اہلخانہ کیساتھ 1933میں کاروبار کے سلسلے میں ممبئی منتقل ہوئے ۔1966ء میں انہوں نے اداکارہ سائرہ بانو سے شادی کی
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
دلیپ کمار نے 6دہائیوں کے فلمی کریئر میں صرف 63 فلمیں کیں لیکن انہوں نے ہندی سنیما میں اداکاری کے فن کو نئی معنویت نئی تعریف دی۔دلیپ کمار بھارت کے بہترین فٹ بال کھلاڑی بننے کا خواب دیکھتے تھے۔فلم والوں کے بارے میں ان کے والد کی رائے بہت اچھی نہیں تھی اور وہ ان کا نوٹنكي والا کہہ کر مذاق اڑاتے تھے۔اپنی آپ بیتی میں دلیپ کمار نے یہ تسلیم کیا کہ وہ مدھوبالا سے متاثر تھے ایک اداکارہ کے طور پر بھی اور ایک عورت کے طور پر بھی۔دلیپ کہتے ہیں کہ مدھوبالا بہت ہی زندہ دل اور پھرتيلي خاتون تھیں، جن میں مجھ جیسے شرميلے اور سوچ کر بولنے والے شخص سے بات چیت کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔لیکن مدھوبالا کے والد کی وجہ سے یہ محبت کی کہانی بہت دنوں تک نہیں چل پائی۔مدھوبالا کی چھوٹی بہن مدھر بھوشن کہتی ہیں: ’ابا کو یہ لگتا تھا کہ دلیپ ان سے عمر میں بڑے ہیں۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
 اگرچہ وہ میڈ فار ايچ ادر تھے۔ بہت خوبصورت جوڑی تھی۔ لیکن ابا کہتے تھے اسے رہنے ہی دو۔ یہ صحیح راستہ نہیں ہے لیکن وہ ان کی سنتی نہیں تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ وہ ان سے محبت کرتی ہیں لیکن جب بی آر چوپڑا کے ساتھ نیا دور فلم پرکورٹ کیس ہو گیا، تو میرے والد اور دلیپ صاحب کے درمیان تنازع پیدا کرنا ہو گیا۔مدھر بھوشن کہتی ہیں: ’عدالت میں ان کے درمیان معاہدہ بھی ہو گیا۔ دلیپ صاحب نے کہا کہ چلو ہم لوگ شادی کر لیں۔ اس پر مدھوبالا نے کہا کہ شادی میں ضرور کروں گی لیکن پہلے آپ میرے والد کو 'ساری کہیں۔ لیکن دلیپ کمار نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ گھر میں ہی ان کے گلے لگ جائیں لیکن دلیپ کمار اس پر بھی راضی نہ ہوئے۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
مغل اعظم‘ بننے کے درمیان نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ دونوں کے درمیان بات تک بند ہو گئی۔مغل اعظم، کا وہ کلاسک پنکھوں والا رومانٹک منظر تب فلمایا گیا تھا، جب مدھوبالا اور دلیپ کمار نے ایک دوسرے کو عوامی طور پر پہچاننا تک بند کر دیا تھا۔سائرہ بانو سے دلیپ کمار کی شادی کے بعد جب مدھوبالا بہت بیمار تھیں، تو انھوں نے دلیپ کمار کو پیغام بھجوایا کہ وہ ان سے ملنا چاہتی ہیں۔ دلیپ کمار اور مدھو بالا کی محبت فلم ترانہ کے دوران پروان چڑھی تھی
جب وہ ان سے ملنے گئے تب تک وہ بہت کمزور ہو چکی تھیں۔ دلیپ کمار کو یہ
 دیکھ کر دکھ ہوا۔ ہمیشہ ہنسنے والی مدھوبالا کے ہونٹوں پر اس دن بہت کوشش کے بعد ایک پھیکی سی مسکراہٹ آ پائی۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
مدھوبالا نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا: ہمارے شہزادے کو ان کی شہزادی مل گئی، میں بہت خوش ہوں۔23 فروری سنہ 1969 کو صرف 35 سال کی عمر میں مدھوبالا کا انتقال ہو گیا۔
سال فلم کردار ایوارڈ
 1944ء Jwar Bhata زگدیش 1945ء مائما 1947ء میلان رمیش جوگنو سورج 1948ء شہید رام Nadiya کے آرپار میلے موہن گھر کی عزت چندا منفرد پیار اشوک 1949ء شبنم منوج انداز دلیپ 1950ء جوگن وجے باب اشوک آرجو بادل 1951ء ترانا موتیلال Hulchul کشور دیدار Shamu 1952ء Sangdil شنکر داغ شنکر، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ آن جی تلک 1953ء Shikast ڈاکٹر رام سنگھ فٹ پاتھ کی Noshu 1954ء امر امرناتھ 1955ء اڑن ھٹولا Insaniyat دیوداس دیوداس، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ آزاد، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1957ء نیا دور شنکر، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ مسافر 1958ء Yahudi پرنس مارکس بمتی آنند / Deven نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1959ء پیغام رتن لال نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1960ء کوہنور فاتح، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ مغل-E اعظم شہزادہ سلیم 1961ء Gunga جمنا Gunga نامزدگی، فلمفیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1964ء کے رہنما وجے کھننا فاتح، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1966ء دل دیا درد لیا شنکر / Rajasaheb نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1967ء رام اور شیام رام / شیام، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1968ء Sunghursh نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ ہے! اور Shatan آدمی راجیش / راجہ صاحب نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1970ء Sagina مہتو گوپی گوپی نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1972ء داستان انیل / سنیل منفرد میلان 1974ء Sagina نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ پھر کیب Milogi 1976ء Bairaag نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1981ء انقلاب Sanga / انقلاب 1982ء Vidhaata شمشیر سنگھ شکتی Ashvini کمار، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1983ء مزدور دیناناتھ سکسینا 1984ء دنیا موہن کمار Mashaal ونود کمار نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1986ء درم Adhikari کرما وشوناتھ پرتاپ سنگھ عرف رانا 1989ء قانون اپنا اپنا کلیکٹر دنیا پرتاپ سنگھ 1990ء Izzatdaar برہما دت آگ کا Dariya 1991ء سودہر ٹھاکر سنگھ نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ ویر 1998ء قلعہ Jaganath / امرناتھ سنگھ = فلم = اس زمانے کی معروف اداکارہ اور فلمساز دیوکا رانی کی جوہر شناس نگاہوں نے بیس سالہ یوسف خان میں چھپی اداکاری کی صلاحیت کو بھانپ لیا اور فلم ’جوار بھاٹا‘ میں دلیپ کمار کے نام سے ہیرو کے رول میں کاسٹ کیا۔اس کے بعد سے اس شخص نے بھارتی فلمی صعنت پر ایک طویل عرصے تک راج کیا۔اور آن ۔ انداز ۔ دیوداس ۔ کرما ۔ سوداگر جسی 
مشہور فلموں میں کام کیا۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے

loading...