بدھ، 28 فروری، 2018

سیرت رسول کی روشنی میں امن کی اہمیت

 تحریر:محمدصدیق پرہار
 کتاب سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صفحہ ۳۹پرہے کہ قریش کعبہ از سرنوتعمیرکررہے تھے کہ جب عمارت حجراسودکے مقام تک پہنچی توقبائل میںسخت جھگڑاپیداہوا۔ہرقبیلہ چاہتاتھا کہ ہم ہی حجراسودکواٹھاکرنصب کریں گے۔اس کشمکش میں چاردن گزرگئے اورتلواروںتک نوبت پہنچ گئی۔بنوعبدالداراوربنوعدی بن کعب نے تواس پرجان دینے کی قسم کھائی اورحسب دستوراس حلف کی تاکیدکے لیے ایک پیالہ خون بھرکراپنی انگلیاںاس میںڈبوکرچاٹ لیں۔پانچویںدن سب مسجدحرام میں جمع ہوئے ابوامیہ بن مغیرہ مخزومی نے جوحضرت ام الموء منین کاوالداورقریش میںسب سے معمرتھا نے رائے دی کہ کل صبح جوشخص اس مسجدکے باب بنی شیبہ سے حرم میںداخل ہووہ ثالث قراردیاجائے ۔سب نے اس سے اتفاق کیا۔دوسرے روزسب سے پہلے داخل ہونے والے ہمارے آقائے نامدارصلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے۔دیکھتے ہی سب پکاراٹھے یہ امین ہیں ہم ان پرراضی ہیں۔جب انہوںنے آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم سے یہ معاملہ ذکرکیاتوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک چادربچھاکراس میں حجراسودکورکھاپھرفرمایاہرطرف والے ایک ایک سردارکاانتخاب کرلیں اوروہ چاروں سرداردادرکے چاروںکونے تھام لیں اوراوپرکواٹھائیں اس طرح جب وہ چادرمقام نصب کے قریب پہنچ گئی توآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضراسودکواپنے مبارک ہاتھ سے اٹھاکردیوارمیںنصب کردیا۔اوروہ سب خوش ہوگئے۔ اسی کتاب سیرت رسول کے صفحہ ۷۹ پر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں اوریہودمدینہ کے درمیان ایک معاہدہ تحریرفرمایا۔اس معاہدہ میںجوشرائط لکھی گئیں تھیں ان کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ خون بہااورفدیہ کاطریقہ سابقہ زمانہ کاقائم رہے گا۔ہردوفریق کومذہب کی آزادی ہوگی۔ایک دوسرے کے دین سے تعرض نہ کریں گے۔ہردوفریق ایک دوسرے کے خیرخواہ رہیں گے۔اگرایک فریق کوکسی سے لڑائی پیش آئے تودوسراس کی مددکرے گا۔اگرفریقین میںایسااختلاف پیداہوجائے جس سے فسادکااندیشہ ہوتواس کافیصلہ خدااوراس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پرچھوڑدیاجائے گا۔کوئی فریق قریش اوراس کے معاونین کوامان نہ دے گا۔اگرکوئی دشمن یثرب پرحملہ آورہوتوہردوفریق مل کراس کامقابلہ کریں گے۔اگرایک فریق کسی سے صلح کرے گاتودوسرابھی اس میں شامل ہوگا۔مگرمذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ ہوگی۔کتاب شان محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے درخشاںپہلوکے صفحہ ۱۶۸پرہے کہ سرورعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کفارکی ہرطرح کی حرکت سے بخوبی واقف تھے پھربھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی جانب کوئی جارحانہ قدم نہ اٹھایا۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم توامن وسلامتی کے علمبردارہیں اورآپ صلی اللہ علیہ ولہ وسلم پہلے کوئی کارروائی کرنابھی نہیںچاہتے تھے۔رجب میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کوطلب فرمایااورفرمایا کہ آپ رضی اللہ عنہ ایک مسلح سالاروںکی ٹولی لیں اورمقام نخلہ میںجاکرچھپ جائیں اوردشمن کی اطلاعات حاصل کریں۔اورسرورکونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوان اطلاعات سے بروقت آگاہ فرمائیں۔سروردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سالارٹولی حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کوایک خط بھی دیااورفرمایااس کودودن کے سفرکے بعدکھولیں۔چنانچہ ہدایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے خط کوکھولاتولکھاتھا کہ وادی نخلہ میںجائواورقریش کے گھات میں بیٹھو۔ابن اسحاق لکھتے ہیں کہ مکہ اورطائف کے درمیان نخلہ کی وادی جائواورقریش کی جاسوسی کرکے ان کے منصوبے وپلاننگ سے اسلامی دارالحکومت کوآگاہ کرو۔جس وقت حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ قریش کی نقل وحرکت کاجائزہ لے رہے تھے ۔اسی وقت قریش کاایک چھوٹاساقافلہ جوکہ شام سے تجارتی معاملات حل کرکے آرہا تھا وہ قافلہ حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ اوران کے دستہ کے قریب سے گزراتوغلطی سے انہوںنے اس پرحملہ کردیاجس کے نتیجے میں ایک معمولی سی جھڑپ ہوئی اورعمروحضرمی نامی آدمی جوکہ قریشی تھاماراگیانیزاس کے دوساتھیوںکومسلمانوںنے قیدی بنالیامسلمانوںکے ہاتھ کافی مال غنیمت لگا۔جس کولے کروہ مدینہ منورہ واپس آگئے اورواپسی پرحضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے سرورکونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ساراماجراعرض کردیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سارے ماجرے کوسن کرناپسندیدگی کااظہارکیااورناراض ہوکرفرمایامیںنے تمہیںایساکرنے کی ہرگزاجازت نہیںدی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ مال غنیمت لینے سے انکارکردیا۔اسی کتاب کے صفحہ دوسوچونتیس پرہے کہ اللہ نے اپناوعدہ سچاکردیااورسرداردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کواس کاقبلہ واپس کردیااسلامی فوجیں جب مکہ کی دہلیزپرآئیں توسالارلشکرجرارحضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فتح کاسات نکاتی دستورمرتب فرماکراپنی فوجوںکے حوالے فرمایا اورحکم دیاکہ اس دستورپرسختی سے عمل کیاجائے وہ عالمی دستوراس طرح ہے ۔
 ۱۔ جوکوئی شخص ہتھیارپھینک دے اس قتل نہ کیاجائے 
 ۲۔ جوکوئی شخص خانہ کعبہ کے اندرچلاجائے اس پرتلوارنہ اٹھائی جائے۔
 ۳۔جوکوئی شخص اپنے گھرکے اندربیٹھ جائے اس کی جان بخش دی جائے۔
 ۴۔جوکوئی آدمی ابوسفیان کے گھرمیں چلاجائے اس کوبھی امان ہے ۔
 ۵۔ جوکوئی آدمی حکیم بن حزام کے گھرمیں داخل ہوجائے اس کوبھی تلوارکے وارسے بری قراردیاجائے ۔
 ۶۔ بھاگ جانے والے کاتعاقب نہ کیاجائے۔
 ۷۔زخمی پراپنی تلوارکے جوہرنہ دکھائے جائیں۔
 وہ دستورجوسرداردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ترتیب دیاتھا دراصل وہ امن وامان کادستورتھا۔اس دستورمیںانسانی خون کی حرمت کادرس ملتاہے۔جوکوئی اس دستورکی پابندی کرے گاوہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم انسان ہوگا۔شرط صرف اسلام ہے یہ سرداردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان ہی تھی کہ فوراًایک دستورمرتب کیااورعمل کرکے فاتحین کے لیے ایک روشن مثال قائم کردی۔اسی کتاب میں ہے کہ جب اہل کفرنے معاہدہ توڑتے ہوئے مسلمانوںکے حلیف قبیلے کے خلاف دوسرے گروہ کی حمایت کی ۔اورمسلمانوںکے گروہ کے کئی آدمی شہیدکرڈالے بجائے اس کے کہ اہل کفرشرمندہ ہوتے انہوںنے خودہی معاہدہ کے ٹوٹنے کااعلان کردیا۔ جس کوسن کرآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے باقاعدہ مکہ پرچڑھائی کی تیاریاں شروع کردیں اوراپنے حضلیف قبائل کوبھی تیاری کاحکم دیااورجنگی تیاریوںکوآپصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خفیہ رکھا۔جب تیاریاںمکمل ہوگئیںتودس رمضان المبارک آٹھ ہجری کوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دس ہزارکالشکرلے کرمکہ کی طرف روانہ ہوئے۔اس وقت اسلامی لشکرکے راہبرحضرت غالب بن عبداللہ رضی اللہ عنی مقررہوئے ۔آپ رضی اللہ عنہ اسلامی لشکرکومدینہ سے مکہ لے آئے ۔آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمان لشکرکومکہ کی طرف مختصرترین راستہ بتایااورکامیاب راہبری فرمائی ۔اسلامی لشکرنے مکہ سے ایک منزل کی مسافت پرمرالظہران کے مقام پرقیام کیا۔قریش کومسلمانوںکی اچانک آمدکاپتہ چلاتوان کے اوسان خطاہوگئے۔ابوسفیان رات کے وقت تحقیق حال کے لیے نکلالشکراسلام کے چندسپاہیوںنے اسے گرفتارکرلیا۔اورحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میںپیش کردیامسلمان اس کوقتل کرناچاہتے تھے۔مگرآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے چچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کی سفارش پراسے معاف کردیااس حسن سلوک کایہ اثرہواکہ ابوسفیان فوراً مسلمان ہوگیا۔اگلے روزاسلامی فوج مکہ کی طرف روانہ ہوئی۔لشکراسلام کے سفراورجوش وولولہ کامنظردیدنی تھا۔مسلمانوںکے ہرقبیلہ کی فوج اپناجھنڈاتھامے بڑی شان سے آگے بڑھ رہی تھی سب سے آخرمیںانصارمدینہ کے دستہ کے ساتھ آپصلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے جارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس شان سے مکہ میں داخل ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ دس ہزارجاںنثارموجودتھے۔مکہ میںداخل ہوتے وقت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اعلان کرادیا کہ جوشخص ہتھیارڈال دے گا،یاحرم پاک میںپناہ لے گا، یاابوسفیان اورحکیم بن حزام کے گھرپناہ لے گایااپنے گھرکے دروازے بندرکھے گااسے امان دی جائے گی۔دنیاکی فاتح قوموںکاہمشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ جب مفتوح علاقے میں داخل ہوتی ہیں۔تووہاںکی رعایا کی جان ومال ان کے رحم وکرم پرہوتی ہے اوروہ اسے جس طرح چاہیں تباہ وبربادکرسکتے ہیں۔لیکن جب اسلامی افوج فاتحانہ اندازمیںمکہ میںداخل ہوئیںتوکسی شہری کوہاتھ تک نہیںلگایا۔کسی کافرکامال نہ لوٹاگیا۔آج تک اس حیرت انگیزحسن سلوک اوررواداری پردنیاانگشت بدندان ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ ۲۳۹ پرہے کہ (فتح مکہ کے بعد) سب کواپنے جرائم کی سنگینی ستارہی ہے۔سرورکونین اوردوعالم کے قاضی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کعبہ سے باہرآتے ہیںسب دل دھڑکنابندکردیتے ہیں۔اب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاحکم ہوگااوریہ سب مجرم اپناعدل حاصل کرلیں گے۔مگرادھرتومعاملہ اصل عدل وانصاف کاہے۔میرے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم پھرمجرمین سے مخاطب ہوتے ہیںاورفرماتے ہیں 
 اے مکہ والو!تم آج اپنے ساتھ کس سلوک کی امیدرکھتے ہو؟انہوںنے کہاآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک شریف بھائی ہیںاورکریم النفس بھتیجے ہیں۔
 مخزن رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم جوش میں آئے اورفرمایا۔
 میں تم سے وہی کہتاہوںجوحضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوںسے فرمایاتھا 
 آج تم پرکوئی الزام نہیںجائوتم سب آزادہو۔
 اسی کتاب کے صفحہ ۴۶۴پرہے کہ اللہ جل شانہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان مبارک میں بڑی مٹھاس ڈال دی تھی اسی موضوع پرراقم الحروف کے نعتیہ کلام عشق شناس کا مقطع کچھ یوں ہے کہ 
 صدیقؔ زبان مصطفی کے میٹھے میٹھے پھولوںجیسی 
 شہدمصری میں بھی پائی جاتی مٹھاس نہیں 
 اسی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کالہجہ بڑانرم تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخلا ق بڑے اعلیٰ تھے۔ کسی کادل نہیں دکھاتے تھے۔ہرایک سے بڑی محبت اورپیارسے گفتگوفرماتے تھے۔چہرے مبارک پرہروقت دلنشین مسکراہٹ رہتی تھی۔جس کااثردیرپاتھا۔جوبھی آپصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مسکراہٹ دیکھ لیتاتھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاشیدائی ہوجاتاتھا۔لوگ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوساحراورجادوگرکہتے تھے۔واقعی اللہ جل شانہ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شخصیت پرکشش بنائی تھی۔جوبھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں آتاتھاوہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاہوکررہ جاتاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مسکراہٹ کمال کی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہرکسی کی خطاسے درگزرفرمایاکرتے تھے۔قریش مکہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوبیس سال تک ستایا۔انہوںنے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پرپتھرپھینکے کوڑاکرکٹ پھینکا،اونٹ کے اوجھ ڈالے،گالیاں دیں راستے میںکانٹے بچھائے،آوارہ لڑکوںکوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے لگادیاتاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوتکلیف دیں ۔گلاگھونٹا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹی کوزخمی کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قتل کے درپے ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وطن چھین لیا،کعبہ کاطواف نہ کرنے دیا۔مگرجب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے جانیدشمنوںپرقابوپالیاتویک جنبش قلم سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی خطائوںسے درگزرفرمایابلکہ ان کواعلیٰ مقام کاحامل ٹھہرایا۔ان کے گھروںکودارالامان قراردیا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑھ کردرگزرکرنے والاکوئی نہیں تھا(اورنہ ہے )
 رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے دشمنوںسے کبھی بدلہ نہیںلیا۔کبھی کسی کوبدعانہیں دی۔جب بدلہ لینے کاوقت آیاتوسب کومعاف کردیا۔کفارمکہ کے مظالم خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ سرکاردوجہاںصلی اللہ علیہ والہ وسلم کاشعب ابی طالب میں اپنے خاندان کے ہمراہ پناہ گزیںہونے اورطائف کاسفرکرنے کی دردناک داستانیں سن کرچودہ سوسال گزرجانے کے بعدبھی دل بھرآتا ہے آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں۔ چودہ صدیاںگزرجانے کے بعد غلاموںکی یہ کیفیت ہے جس رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ یہ قیامتیںگزریں ان کاعالم کیاہوگاتاہم کسی کوبددعانہیں دی۔ کسی سے شکایت نہیں کی۔جواپنے دشمنوںکوبھی معاف کردے اس رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑاامن پسنداورکون ہوسکتا ہے۔اس میںکوئی دورائے نہیں یہ بات حقیقت سے بڑھ کرحقیقت ہے کہ نبی اکرم نورمجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب سے بڑے امن پسندہیں۔ ہم بھی سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس درخشاںپہلوپرعمل کرتے ہوئے دوسروںکومعاف کرنا، کسی سے بدلہ نہ لینا،دوسروںکی غلطیوںسے درگزرکرناشروع کردیںتومعاشرہ آج بھی امن کاگہوارہ بن سکتا ہے۔ آئیے یہ تہیہ کرلیں کہ آج کے بعدکسی کوتنگ نہیںکریں گے ،کسی کی دل آزاری نہیںکریںگے،کسی کامذاق نہیں اڑائیں گے،انتقام کی آگ سلگنے بھی نہیںدیں گے۔کسی کاحق غصب نہیںکریںگے۔آج کے دورمیں ہم نے ازخودیہ طے کررکھا ہے کہ ہم نے اپنی بے عزتی اوردوسروں کی بے مروتی کابدلہ نہ لیاتولوگ ہمیں بزدل کہیں گے، ہمیں ڈرپوک کہاجائے گا۔ہم نے بدلہ نہ لیا توفریق مخالف اوربھی شیربن جائے گا۔اصل بہادری بدلہ لینے میںنہیں بلکہ معاف کردینے میں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس درگزرکی خوبی پرکچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تومعاف کردیاکرتے تھے۔ ایسے لوگوںکااشارہ گستاخ رسول کے بارے میںہوتاہے کہ اسے بھی معاف کردیاجائے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کایہ روشن پہلویہ درس دیتاہے کہ ہم اپنے ذاتی دشمنوں کومعاف کردیاکریں۔ان سے انتقام یابدلہ نہ لیں۔جہاں تک گستاخ رسول کامعاملہ ہے۔ اس کوتوصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے معاف نہیںکیا۔کسی اورکے پاس ایسااختیارکیسے ہوسکتاہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

loading...